حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلامی سزاؤں کا اصل مقصد اصلاح اور اخلاقی بہتری ہے

وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (الشوریٰ: ۴۱) اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا۔

اسلام میں کسی غلط حرکت کرنے والے، نقصان پہنچانے والے سے چاہے وہ چھوٹی سطح پر نقصان پہنچانے والا ہو یا بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے والا ہو یا دشمن ہو ہر ایک سے ایسا سلوک کرنے کی تعلیم ہے جو اس کی اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہو۔ اسلام میں سزا کا تصور ضرور ہے لیکن ساتھ معافی اور درگزر کا بھی حکم ہے۔

اس آیت میں بھی جیسا کہ آپ نے سنا یہی حکم ہے کہ بدی اور برائی کرنے والے کو سزا دو لیکن اس سزا کے پیچھے بھی یہ محرّک ہونا چاہئے کہ اس سزا سے بدی کرنے والے یا نقصان پہنچانے والے اور جرم کرنے والے کی اصلاح ہو۔ پس جب اصلاح مقصد ہے تو پھر سزا دینے سے پہلے یہ سوچو کہ کیا سزا سے یہ مقصد حل ہو جاتا ہے۔ اگر سوچنے کے بعد بھی، مجرم کی حالت دیکھنے کے بعد بھی اس طرف توجہ پھرتی ہے کہ اس مجرم کی اصلاح تو معاف کرنے سے ہو سکتی ہے تو پھر معاف کر دو یا اگر سزا دینے سے ہو سکتی ہے تو سزا دو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ معاف کرنا بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین اجر کا وارث بنائے گا۔ آخر پر اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سزا میں حد سے بڑھنے کی کوشش کرو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ بہرحال یہ بنیادی قانون اور اصول سزا اور اصلاح کا قرآن شریف میں پیش ہوا ہے جو ہماری انفرادی زندگی کے معاملات پر بھی حاوی ہے اور حکومتی معاملات میں بھی بلکہ بین الاقوامی معاملات میں، معاشرے کی اصلاح کے لئے بھی یہ بنیاد ہے۔ جیساکہ مَیں نے بتایا کسی مجرم کو سزا دینے کا اصل مقصد اصلاح ہے اور اخلاقی بہتری ہے۔ پس اسلام کہتا ہے کہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف سزا پر زور نہ دو بلکہ اصلاح پر زور دو۔ اگر تو سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اصلاح ہو گی تو معاف کر دو۔ اگر حالات و واقعات یہ کہتے ہیں کہ سزا دینے سے اصلاح ہو گی تو سزا دو۔ لیکن سزا میں اس بات کا بہرحال خاص طور پر خیال رکھنا ہو گا کہ سزا جرم کی مناسبت سے ہو وگرنہ اگر جرم سے زیادہ سزا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی ہے اور ظلم اور زیادتی کو خدا تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔

پس اسلام میں پہلے مذاہب کی طرح افراط اور تفریط نہیں ہے۔ اس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مجرم کی اصلاح ہو گئی ہے تو اپنے انتہائی ظالم دشمن کو بھی معاف فرما دیا۔ آپؐ پر، آپؐ کی اولاد پر، آپؐ کے صحابہؓ پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے لیکن جب دشمن معافی کا طالب ہوا اور خدا اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ بھول کر معاف فرما دیا۔

(خطبہ جمعہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍فروری ۲۰۱۶ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button