حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۷؍فروری۲۰۲۰ء)

آج جن صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ۔ حضرت محمد کے والد کا نام مسلمہ بن سلمہ تھا۔ ان کے دادا کا نام سلمہ کے علاوہ خالد بھی بیان کیا گیا ہے اور ان کی والدہ اُمّ سہم تھیں جن کا نام خلیدۃ بنت ابو عبیدۃ تھا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا اور قبیلہ عبد اشھل کے حلیف تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کی کنیت ابوعبداللہ یا ابو عبدالرحمٰن اور ابوسعید بھی بیان کی جاتی ہے۔ علامہ ابن حجر کے نزدیک ابوعبداللہ زیادہ صحیح ہے۔ ایک قول کے مطابق آپؓ بعثتِ نبویؐ سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کا نام جاہلیت میں ’’محمد‘‘ رکھا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد۳ صفحہ ۳۳۸ محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء) (الاصابہ جلد۶ صفحہ ۲۸ محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۵ء) (اسدالغابہ جلد ۵ صفحہ ۱۰۶ محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت۲۰۰۳ء)

مدینے کے یہود اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بشارت حضرت موسیٰؑ نے دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مبعوث ہونے والے نبی کا نام’محمد‘ہو گا۔ جب اہلِ عرب نے یہ بات سنی تو انہوں نے اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیے۔ سیرت النبیؐ پر مشتمل کتب میں جن افراد کا نام زمانہ جاہلیت میں بطور تفاؤل کے محمد رکھا گیا ان کی تعداد تین سے لے کر پندرہ تک بیان کی گئی ہے۔ علامہ سُہَیلی جو سیرت ابن ہشام کے شارح ہیں انہوں نے تین افراد کے اسماء لکھے ہیں جن کا نام محمد تھا۔ علامہ ابن اثیر نے چھ افراد کے نام لکھے ہیں جبکہ عبدالوہاب شعرانی نے ان کی تعداد چودہ درج کی ہے۔ معلومات کے لیے یہ پندرہ نام یا چندنام جو ہیں یہ بتا بھی دیتا ہوں۔ ان میں ہیں محمد بن سفیان، محمد بن اُحَیْحَہ، محمد بن حُمْرَان، محمد بن خُزَاعِی، محمد بن عدی، محمد بن اسامہ، محمد بن بَراء، محمد بن حارث، محمد بن حِرمَازْ، محمد بن خَولِی، محمد بن یَحْمَدِی، محمد بن زید، محمد بن اُسیدی اور محمد فُقَیْمِی اور حضرت محمد بن مسلمہ (شامل) ہیں۔ (محمد رسول اللہ والذین معہٗ از عبدالحمید جودہ السحار جلد ۲ صفحہ ۱۱۱-۱۱۲مکتبۃ مصر) (روض الانف شرح ابن ہشام از علامہ سہیلی جلد۱ صفحہ ۲۸۰ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) (اسد الغابۃ لابن اثیر جلد ۵ صفحہ۷۲ محمد بن احیحۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۳ء) (کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ للشعرانی جزء اول صفحہ۲۸۳-۲۸۴ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۸ء) (الاصابہ جلد ۶ صفحہ ۲۸ محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۵ء)

حضرت محمد بن مسلمہؓ قدیم اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ آپؓ حضرت مُصْعَب بن عُمیرؓ کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذؓ سے پہلے اسلام لائے۔ جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آپؓ کے ساتھ مواخات قائم فرمائی۔ آپؓ ان صحابہؓ میں شامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف اور ابورافع سلّام بن ابو حُقَیق کو قتل کیا تھا۔ یہ دونوں وہ فتنہ پرداز تھے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے اور اسی کوشش میں ہوتے تھے بلکہ مسلمانوں پہ حملہ بھی کروانے کی کوشش کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پھر ان کے قتل پر مقرر کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات کے موقعے پر ان کو مدینہ پر نگران بھی مقرر فرمایا۔

حضرت محمد بن مسلمہؓ کے بیٹے جعفر، عبداللہ، سعد، عبدالرحمٰن اور عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور اس کے بعد سوائے غزوۂ تبوک کے تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ غزوۂ تبوک میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینے میں ٹھہرنے کے لیے پیچھے رہ گئے تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد۶صفحہ۲۸، ۲۹محمد بن مسلمہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۵ء) (شرح زرقانی جلد ۲ صفحہ ۵۱۱ حدیث بنی نضیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۶ء)

جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ دو فتنہ پرداز اور اسلام کے مخالفین کے قتل میں حضرت محمد بن مسلمہؓ شامل تھے۔ اس کی کچھ تفصیل تو ڈیڑھ سال پہلے حضرت عبادہ بن بشرؓ کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم کچھ باتیں مختصر بیان کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ اور تفصیل بھی ہے۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کعب بن اشرف کے قتل کے ضمن میں یہ لکھا ہے کہ

بدر کی جنگ نے جس طرح مدینے کے یہودیوں کی دلی عداوت کو ظاہر کردیا تھا اور وہ مخالفت میں بڑھ گئے تھے۔ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے۔ چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ کعب گو مذہباً یہودی تھا لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا بلکہ عرب تھا۔ اس کا باپ اشرف بنونَبْہَان کاایک ہوشیار اور چلتا پرزہ آدمی تھا۔ مدینہ میں آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کیے اور ان کا حلیف بن گیا۔ بالآخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنونضیرکے رئیس اعظم ابورافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اسے رشتہ میں دے دی اور اس کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہوکر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا۔ حتیٰ کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہوگئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے گویا اپنا سردار سمجھنے لگے۔ اخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے بڑا کمال حاصل تھا۔ نیکی تو اس کے پاس بھی نہیں پھٹکی تھی۔ پس کمال تھا اس کا برائیوں میں، بدیوں میں، لڑانے میں، فساد پیدا کرنے میں، فتنہ پیدا کرنے میں۔ بہرحال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں ہجرت کرکے تشریف لائے توکعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن وامان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا مگراندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض وعداوت کی آگ سلگنے لگ گئی اور اس نے خفیہ چالوں اور خفیہ ساز باز سے اسلام اور بانیٔ اسلام ؐکی مخالفت شروع کر دی۔ کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی۔ اپنی مخالفت اور فتنہ پردازیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر جنگِ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے۔

جب بدر کے موقعے پر مسلمانوں کوایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور رؤسائے قریش اکثر مارے گئے تواس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یونہی مٹتا نظر نہیں آتا۔ پہلے تو خیال تھا یہ نیا دین ہے ختم ہو جائے گا۔ خود ہی اپنی موت مر جائے گا لیکن جب اسلام کی ترقی دیکھی، بدر کے جنگ کے نتائج دیکھے تو پھر اس کو خیال پیدا ہوا کہ یہ اس طرح نہیں مٹے گا۔ چنانچہ بدر کے بعد اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ وبرباد کرنے میں صرف کردینے کا تہیہ کر لیا۔

جب کعب کو یہ یقین ہوگیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کووہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم وگمان بھی نہ تھا تووہ غیض وغضب سے بھر گیا اور فوراً سفر کی تیاری کرکے اس نے مکے کی راہ لی اور وہاں جاکر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو اَور شعلہ بارکردیا، بھڑکا دیا اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کردی اور ان کے سینے جذباتِ انتقام وعداوت سے بھر دیے۔ اور جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک اتنہائی درجے کی بجلی پیدا ہوگئی تواس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر اور کعبہ کے پردے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام کو صفحہ دنیا سے ملیا میٹ نہ کردیں گے اس وقت تک چین نہیں لیں گے۔

اس کے بعد اس بدبخت نے دوسرے عرب قبائل کا رخ کیا اور قوم بقوم پھرکر مسلمانوں کے خلاف لوگوں کوبھڑکایا۔ اور پھر مدینے میں واپس آکر مسلمان خواتین پر تشبیب کہی۔ یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کاذکر کیا۔ حتیٰ کہ خاندانِ نبوت کی عورتوں کوبھی اپنے ان اوباشانہ اشعار کانشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا اور ملک میں ان اشعار کاچرچا کروایا۔ بہرحال آخر پھر اس نے یہ کوشش بھی کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپؐ کوکسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چندنوجوان یہودیوں سے آپؐ کو قتل کروانے کا منصوبہ باندھا مگر خدا کے فضل سے وقت پر اطلاع ہوگئی اور اس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button