جلسہ سالانہ کی چند خوشگوار یادیں
ازافاضات حضرت مصلح موعودؓ و حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
’’یہ خیال ان میں پیدا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم نے پانچ یا سات گھنٹے ڈیوٹی دینی ہے اور اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے ان کی اس رنگ میں تربیت ہونی چاہئے یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ صبح سے لے کر رات دس بجے تک کام کریں گے اور جب ڈیوٹی ختم ہو اور پھر کوئی اَور کام پڑ جائے تو ہم ساری رات کام کریں گے اور پھر اگلے دن بھی کام کریں گے آرام نہیں کریں گے‘‘(حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ)
جلسہ سالانہ کی اہمیت،افادیت،ضرورت، مقاصداور برکات پر لاتعداد تحریریں اور مضامین لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔اسی مقصد کے پیش نظر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے بیان فرمودہ واقعات میں سے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
خدا عاملوں کے عمل کا اجر کم نہیں کرتا
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں تجویز ہوئی کہ چونکہ قحط ہے اس لئے سالانہ جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کر دیئے جائیں۔ ا ُس وقت مَیں لنگرخانہ کا منتظم تھا۔دِنوں میں کمی کرنا میرا کام نہ تھا یہ مجلس نے فیصلہ کیا تھا۔ مگر حضرت خلیفہ اولؓ کا جس طرح طریق تھاکہ جس کاقصور ہوتا اُسے مخاطب نہ کرتے دوسرے کو مخاطب کر کے وہ بات کہہ دیتے۔
آپؓ نے مجھے خط لکھا۔اُس میں عربی کا ایک مصرعہ لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ خداسے یہ خوف مت کرو کہ وہ عاملوں کے عمل کا اجر کم دے گا۔ پس اگر خداتعالیٰ پر یقین ہو اور جو کچھ پاس ہو اُسے قربان کر دیا جائے تو پھر جس قدر زائد کی ضرورت ہو وہ خود پوری کر دے گا۔ہمیں دون ہمتی سے نہیں بلکہ علو ہمتی سے ان مسائل پر غور کرنا چاہیے جو ہمارے سامنے پیش ہوں۔ (خطابات شوریٰ جلد۱ صفحہ۲۷۲-۲۷۳)
صحبت صالحین
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے قادیان آؤ۔اور بار بار آؤ تاکہ تمہارے ا یمان تازہ رہیں۔اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے تھے میں زمانہ طالب علمی میں ایک شخص کے پاس ملنے کے لئے جایا کرتا تھا۔کچھ عرصہ نہ گیا پھر جو گیا تو کہنے لگے کیا تم کبھی قصائی کی دکان پر نہیں گئے میں نے کہا قصائی کی دکان تو میرے راستہ میں پڑتی ہے ہر ر وز میں اس کے سامنے سے گذرتا ہوں۔انہوں نے کہا کیا تم نے کبھی قصائی کو نہیں دیکھا کہ وہ کچھ دیر گوشت کاٹ کر ایک چھری کو دوسری چھر ی پر پھیر لیتا ہے وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کہ تا دونوں چھریاں تیز ہو جائیں۔ اسی طر ح جب ایک نیک آدمی دوسرے نیک آدمی سے ملتا ہے تو ان پر جو کوئی بد اثر ہوتا ہے وہ دُور ہو جاتا ہے۔
پس تم لوگ بھی کثرت سے یہاں آؤ تاکہ نیک انسانوں سے ملو۔اور صاف وشفاف ہو جاؤ۔خدا تعا لیٰ نے قادیان کو مرکز بنایا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے جو برکات اور فیوض یہاں نازل ہوتے ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں۔پھر جس کثرت سے حضر ت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ یہاں موجود ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں۔اس لئے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے انسان کا دل جس طرح صیقل ہوتا ہے ا ور جس طرح اسے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے۔اس طرح کسی جگہ کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے۔اب ہی دیکھ لو ان لوگوں کو چھوڑ کر جو یہاں متکبرانہ آتے اور اسی نشہ میں چلے جاتے تھے باہر کے ایسے ہی لوگ غیر مبائعین ہیں جو یہاں نہیں آتے تھے۔پس اسی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوتے گئے۔جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ مردہ دل ہو گئے۔انہوں نے اپنے دل میں ایمان کا پودا تو لگایا تھا مگر اسے پانی نہ دیا۔اس لئے وہ سوکھ گیا۔انہوں نے اپنے دل میں خشیت ا للہ کا بیج توبویا تھا مگر اس کی آبپاشی نہ کی۔اس لئے وہ خشک ہو گیا۔تم ان لوگوں کے نمونہ سے عبرت پکڑو اور بار بار یہاں آؤ۔تاکہ حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت یافتہ جماعت کے پاس بیٹھو۔ حضرت مسیح موعودؑ کے نشانات کو دیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو۔میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لو گوں نے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھا کچھ نہیں حاصل کیا آپ نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو قائم اور تازہ رکھنے کے لئے یہاں آؤاور بار بار آؤ۔ بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ پر آتے ہیں اور پھر نہیں آتے۔میں کہتا ہوں انہیں اس طرح آنے سے کیا فائدہ ہؤا۔ (انوارالعلوم جلد۳ صفحہ۱۷۱ ،۱۷۲)
ا حمدیت کا نور
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آرہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے۔حافظ صاحب کہتے۔ میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے ملے اور رونے لگ گئے۔میں نے پوچھا تم کیوں ر و تے ہو ؟ وہ کہنے لگے ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا اور اس وجہ سے دوسرے حصہ کی طرف سے اسے اس قدر دُکھ دیا گیا اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے۔کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ا حمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے تھے خود احمدی ہو گئے۔ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف آنکلے۔جب ہم نے ان کوآتے دیکھا تو ہما ر ے دل اس درد کے جذبہ سے پُر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھےیہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا آج خدا نے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا۔اس واقعہ کی یاد سے ہم چشم پُر آب ہو گئے۔ (اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف۔فرمودہ ۳۰؍دسمبر ۱۹۳۲ء برموقع جلسہ انصار اللہ۔بمقام مسجد نور قادیان۔انوارالعلوم جلد ۱۳صفحہ۸۶-۸۷)
ہمارے لیے فرشتے اترتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک دفعہ جب میں افسر جلسہ سالانہ تھا۔ ہمارا ایک ٹھیکیدار جو جلسہ سالانہ کے موقع پر نانبائیوں کا ٹھیکہ لیا کرتا تھا۔ میرے پاس آیا ہم غالباً اُجرت پر متفق نہیں ہو رہے تھے وہ زیادہ اُجرت مانگ رہا تھا اور میں اتنی اُجرت دینا نہیں چاہتا تھا۔ یا شاید وہ سارے لنگروں کا ٹھیکہ مانگ رہا تھا اور میں ٹھیکہ مختلف آدمیوں کو دینا چاہتا تھا بہرحال کوئی اس قسم کی بات تھی۔ وہ کہنے لگا میاں صاحب! پھر تسیں چاولوں کا انتظام کر چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایسا فتنہ پیدا کروں گا کہ کوئی نانبائی جلسہ سالانہ ربوہ میں نہیں آئے گا مجھے غصہ بھی آیا لیکن میری توجہ اپنے ربّ کی طرف مبذول ہوئی اور میں نے اسے کہا ٹھیک ہے، تم سے جو ہو سکتا ہے کرو اگر جلسہ سالانہ پر کوئی نانبائی نہ آیا تو ہم یہ نظارہ دیکھیں گے کہ آسمان سے فرشتے اُتریں گے اور وہ روٹیاں پکائیں گے اس لئے مجھے کوئی فکر نہیں تم یہاں سے چلے جاؤ اور جلسہ سالانہ کے دنوں میں بھی تم ربوہ نہ آنا بلکہ باہر کے نانبائیوں کو روکنے کے لئے جو تدبیر تم کر سکتے ہو کرنا۔
غرض فرشتے تو بہرحال ہمارے لئے آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ تدبیر کی دنیا ہے اس لئے وہ ہمارے لئے تدبیر کرتے ہیں اس ٹھیکہ دار نے غصہ کا اظہار بھی کیا ہو گا اور ممکن ہے اس نے نانبائیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی ہو یا ممکن ہے فرشتوں نے آکر اس کے دل کو پکڑ لیا ہو اور اسے کہا ہو کہ اس قسم کی بیہودہ بات تمہارے منہ سے نکلی ہے تم توبہ و استغفار کرو ورنہ ہم تمہیں پکڑتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے کبھی ہمارے راستہ میں اس قسم کی روک نہیں پیدا کی کہ ہمارا کام ناکام ہو جائے۔(خطبات ناصر جلد ۱صفحہ۵۲۸)
جلسہ کے دوران ہم ایک روٹی کھائیں گے
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جن دنوں نانبائی تنوروں میں روٹی پکایا کرتے تھے اس زمانہ میں ایک دفعہ وہ آپس میں لڑپڑے اور ان کے دودھڑے بن گئے اور لڑائی کی وجہ سے انہوں نے سٹرائیک کردی اور کچھ عرصہ کے لئے روٹی نہیں پکائی۔صبح کی نماز سے پہلے افسر جلسہ سالانہ نے مجھے اس کی اطلاع کردی۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ خلیفۂ وقت اور جماعت ایک ہی وجود کے دونام ہیں۔ چنانچہ میں نے فجر کی نماز پر دوستوں سے کہا کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے اور آج جلسہ ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک کی بجائے دوروٹیاں کھانے کی خاطر جلسہ کے اوقات بدل دیں یا آج کا جلسہ ملتوی کردیں بلکہ ہم سب ایک ایک روٹی کھائیں گے۔ جن کے گھروں میں روٹی پکتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور جن کو لنگر سے ملتی ہے وہ بھی ایک روٹی کھائیں گے اور میں نے کہا کہ گھروں میں جو روٹیاں بچیں وہ لنگر کو بھیج دو۔ خدا کی عجیب شان اس جماعت میں نظر آتی ہے سب نے ایک ایک روٹی کھائی۔ وہ وقت گزرگیا لیکن مجھے پتا لگا کہ ہزاروں آدمیوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہو کہ کھانے کی کمی کے نتیجہ میں جلسہ میں کوئی بدنظمی پیدا ہوگی تو یہ تو نہیں ہوسکتا مگر اب ہم پریکٹس کرتے ہیں اور سارے جلسہ کے دوران ہی ہم ایک ایک روٹی کھائیں گے۔ چنانچہ پھر روٹی پکنی شروع ہوگئی لیکن بہتوں نے کہا کہ ہم ایک ہی روٹی کھائیں گے اور بہت سے گھروالوں نے کہا کہ گو اب ضرورت تو نہیں ہے مگر ہم ثواب سے کیوں محروم رہیںہم اب بھی روٹیاں پکا کر انتظامِ جلسہ کو بھیجیں گے۔ (خطبات ناصر جلد ۷صفحہ۳۰۳-۳۰۴)
احباب جماعت کا اخلاص
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک دفعہ میں جب افسر جلسہ سالانہ تھا ایک کام کے لئے پھر رہا تھا کہ میری نظر ایک احمدی امیر دوست پر پڑی جو بہت لیٹ آئے تھے غالباً اس صبح جلسہ کا افتتاح ہو چکا تھا اور جب میں جلسہ گاہ سے کسی کام کی غرض سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے سوٹ کیس اُٹھایا ہواہے اور مجھے شبہ ہوا کہ یہ ابھی یہاں پہنچے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس ٹھہرنے کا انتظام ہے آپ نے جگہ کے لئے پہلے لکھا ہوا ہے یا نہیں آپ کی رہائش کا کیا انتظام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں ابھی یہاں پہنچا ہوں اور ابھی میں نے ٹھہرنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا۔ میں نے کہا پھر آپ نے بڑی غلطی کی ہے آپ نے پہلے لکھا نہیں اس لئے کوئی انتظام نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی دولت دی ہے کہ وہ بعض دفعہ ہنگامی چندوں میں بیس بیس ہزار روپیہ بھی دے دیتے ہیں خداتعالیٰ نے انہیں بڑی فراخی عطا کی ہے لیکن مزید فراخی کے لئے تو ایسے لوگ جو مخلص ہیں یہاں آتے ہیں بہرحال میں نے ان سے کہا میرے ساتھ چلیں تا میں آپ کے لئے کوئی انتظام کر دوں چنانچہ میں نے انہیں ساتھ لیا اس وقت تو ان کے گھر والی ان کے ساتھ نہیں تھی وہ بھی جلسہ سالانہ پر آئی ہوئی تھیں اور اس وقت کسی اور جگہ ان کا انتظام کر رہی تھیں۔ میں ان کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ جو شاید اس گھر کا سٹور تھا یا غسل خانہ خالی کرا سکا اور میں نے وہاں پرالی بھجوا دی یا کہہ دیا کہ یہاں پرالی بھجوا دی جائے اور میں نے دیکھا کہ وہ دوست بہت خوش تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ پتہ نہیں انہیں کتنی بڑی نعمت مل گئی ہے۔(خطبات ناصر جلد۲ صفحہ۹۹۲-۹۹۳)
ایک اورموقع پر فرمایا :جلسہ پرآنے والے اس جذبہ کے ساتھ آتے ہیں اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتوں کے بغیر وہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ا یک دفعہ کا واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے۔ شروع شروع میں جب جامعہ نصرت کے میدان میں جلسہ ہوا کرتا تھا غالباً حضرت صاحب کی افتتاحی تقریر کے بعد میں باہر نکلا کیونکہ میں افسر جلسہ سالانہ تھا اور مجھے دوسری ڈیوٹیوں پر جانا تھا۔ ایک صاحب جن کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا کہ وہ لکھ پتی تھے یا اس سے بھی زیادہ امیر تھے انہوں نے ہاتھ میں ایک بکس پکڑا ہوا تھا اور ساتھ ان کی بیوی تھی۔ وہ اڈے کی طرف سے چلے آ رہے تھے میںسمجھ گیا کہ یہ تو ابھی پہنچے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کے لئے رہائش کی کوئی جگہ مقرر ہے۔ کہنے لگے نہیں اب جا کر تلاش کروں گا۔ میں نے سوچا کہ یہ اب کہاں سے تلاش کریںگے جتنے دوستوں نے ہم سے رہائش گاہیں مانگی تھیں اس سے کم اہل ربوہ نے ہمیںدی ہیں۔ بہت سے دوستوں کو انکار کرنا پڑا ہے اس لئے اس وقت جبکہ جلسہ شروع ہو چکا ہے ان کو کون رہائش گاہ دے گا۔ افسر مکانات تو ان کو کوئی رہائش گاہ نہیں دے سکیں گے۔ میں نے ان سے کہا آئیے میں آپ کے لئے کوشش کرتا ہوں۔ میں اپنے گھروں میں ایک جگہ گیا۔ گھر والوں سے پوچھا کوئی کمرہ یا کوئی ڈریسنگ روم خالی ہو مگر پتہ لگا کوئی بھی خالی نہیں۔ پھر ہم دوسرے گھر میں گئے حتیٰ کہ تیسرے گھر میں تلاش کرتے کرتے ایک جگہ ایک چھوٹا سا غسل خانہ ٹائپ کمرہ تھا جس میں گھر والوں کی کچھ چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کیا یہ کمرہ آپ کے لئے ٹھیک ہے؟ کہنے لگے بڑا اچھا ہے۔ الحمد للہ ہم اس میں بڑے آرام سے رہیں گے۔ میں نے وہ کمرہ خالی کروایا۔ دَبّ کی ایک پنڈ منگوائی (ان دنوں بُوجوں والی گھاس ہوا کرتی تھی یعنی دَبّ جو بڑی چبھتی تھی) اور وہاں ڈلوا دی۔ اب دیکھو وہ دوست جو لاکھوں روپے کے مالک تھے اور ہر سال لاکھوں کماتے تھے وہ اس چھوٹے سے کمرے میں بڑے آرام سے رہنے لگے اور بڑے ممنون ہوئے۔ مہمانوں کی ممنونیت کا یہ اظہار یہاں کام کرنے والوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم نے ان کی کیا خدمت کی ہے جو اتنے ممنون ہو رہے ہیں۔(خطبات ناصر جلد۶صفحہ۲۰۰-۲۰۱)
بے مثال مہمان نوازی
حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں جذبہ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھے ہیں ایک دو نظارے میں نے دوستوں کے سامنے ایک دفعہ بیان بھی کئے تھے نظارے اتنے حسین ہیں کہ انہیں بار بار بیان کرنا چاہئے تا ہماری جو چھوٹی پود ہے نئی نسل ہے ان کو بھی پتہ لگے کہ مہمان کی خدمت کیسے کی جاتی ہے؟
ایک دفعہ میں بہت چھوٹی عمر کا تھا مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخل ہوا تھا یا شاید پانچویں جماعت میں ہوں گا یعنی یہ قرآن کریم حفظ کرنے کے معاً بعد کی بات ہے ہمارے چھوٹے ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) افسر جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے آپ ہماری تربیت کی خاطر ہمیں اس عمر میں اپنے ساتھ لگا لیتے تھے آپ ہر لحاظ سے ہمارا خیال بھی رکھتے تھے اور پورا وقت ہم سے کام بھی لیتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ رات کے گیارہ گیارہ بجے تک آپ ہم سے کام لیتے تھے چاہے وہ دفتر میں بٹھائے رکھنے کا ہو یا خطوط وغیرہ فائل کرنے کا ہو ان کے علاوہ دوسرے تمام کام جو اس عمر کے مطابق ہوں ہم سے لیتے تھے۔
ایک دن آپ نے مجھے کہا (رات کے کوئی نو دس بجے کا وقت ہو گا) کہ مدرسہ احمدیہ میں جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر آؤ کہ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں آپ میں سے بہتوں کے ذہن میں مدرسہ احمدیہ کا نقشہ نہیں ہو گا مدرسہ احمدیہ میں دو صحن تھے ایک بڑا صحن تھا اس کے ارد گرد رہائشی کمرے تھے چند ایک کلاس روم بھی تھے لیکن زیادہ تر رہائشی کمرے تھے ایک چھوٹا صحن تھا جس کے ارد گرد چھوٹے کمرے تھے اور وہاں کلاسیں ہوا کرتی تھیں جلسہ کے دنوں میں ان کمروں میں بھی مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔
حضرت میر صاحبؓ نے کہا کہ ان چھوٹے کمروں کا چکر لگا کر آؤ اور دیکھو کہ کسی مہمان کو تکلیف تو نہیں کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں۔ اس دن حضرت میر صاحبؓ نے معاونین میں چائے تقسیم کروائی تھی جلسہ کے دنوں میں ایک یا دو دفعہ رات کے دس بجے کے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی۔ اس چائے میں دودھ اور میٹھا سب کچھ ملا ہوا ہوتا تھا اور نیم کشمیری اور نیم پنجابی قسم کی چائے ہوتی تھی۔ بہرحال اس دن وہ چائے تقسیم ہوئی تھی میں وہاں جا کر کمروں میں پھر رہا تھا دوستوں سے مل رہا تھا اور ان سے ان کے حالات دریافت کر رہا تھا ایک کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا میں اس میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ ہمارا ایک رضا کار جو چھوٹی عمر کا تھا وہ آبخورے میں چائے لے کر باہر سے آیا۔ کمرے میں ایک مہمان کو بخار چڑھ گیا تھا اس نے یہ سمجھا کہ یہ رضا کار میرے لئے گرم چائے اور دوائی وغیرہ لے کر آیا ہے مجھ سے چند سیکنڈ ہی قبل وہ دروازہ میں داخل ہوا تھا۔ اس مہمان نے غلط فہمی میں (کیونکہ ہمارے احمدی مہمان بھی بڑی عزت والے ہوتے ہیں اس مہمان کو اسی شام کو بخار چڑھ گیا تھا اور بڑا تیز بخار تھا اس کو غلط فہمی ہو گئی تھی) اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا تم میرے لئے گرم چائے لائے ہو تم بڑے اچھے اور ’’بیبے‘‘ بچے ہو (اسی قسم کا کوئی فقرہ اس نے کہا)۔
اب یہ اس بچہ کے لئے انتہائی امتحان اور آزمائش کا وقت تھا اگر اس بچے کے چہرہ پر ایسے آثار پیدا ہو جاتے جن سے معلوم ہوتا کہ یہ اس کے لئے چائے نہیں لایا بلکہ اپنے لئے لایا ہے تو اس مہمان نے کبھی چائے نہیں لینی تھی میں باہر کھڑا ہو گیا اور خیال کیا کہ اگر میں اندر گیا تو نظارہ بدل جائے گا میں نے چاہا کہ دیکھو یہ کیا کرتا ہے۔ اس رضا کار نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اصل حقیقت کا ذرہ بھر اظہار کئے بغیر اس کو کہا ہاں تم بیمار ہو میں تمہارے لئے چائے لے کر آیا ہوں اور اگر کوئی دوائی لینا چاہتے ہو تو لے آؤں۔
اب یہ خدمت ایسی تو نہیں کہ ہم کہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی سر کی لیکن کتنا پیار اور حسن تھا اس بچے کے اس فعل میں اس نے اپنے نفس پر اتنا ضبط رکھا اس لئے کہ اس کی یہ خواہش اور جذبہ تھا کہ میں نے مہمان کی خدمت کرنی ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو اس کی ہلکی سی ہچکچاہٹ بھی اس مہمان کو شرمندہ کر دیتی اور اس نے کبھی چائے نہیں پینی تھی لیکن اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کسی اظہار کے کہا ہاں! میں آپ کے لئے ہی لے کر آیا ہوں۔
یہ نظارہ اس قسم کا حسین تھا کہ اس وقت بھی جبکہ میں آپ کو یہ بات سنا رہا ہوں وہ کمرہ، اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا، اس لڑکے کی شکل وہ مہمان، وہ رخ جس طرح بیٹھے ہوئے تھے میرے سامنے ہیں اس نظارہ کو میرے ذہن نے محفوظ رکھا ہے اور میں جب بھی اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں بڑا حظ اُٹھاتا ہوں۔ پس یہ جذبہ ہے خدمت کا جس کا مطالبہ خدا اور اس کا رسول اور اس رسولؐ کے عظیم روحانی فرزند آپ سے کر رہے ہیں۔(خطبات ناصر جلد ۲صفحہ۴۳۷-۴۳۹)
ساری رات کام کریں گے
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم نے بچپن کی عمر میں بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کرو اور باقی وقت تم آزاد ہو۔ ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس گیارہ بجے گھر میں واپس آتے تھے۔ وہ فضا ہی ایسی تھی اور ساروں میں ہی خدمت کا یہ جذبہ تھا کوئی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) کہتے تھے کہ اب تم تھک گئے ہو گے کھانے کا وقت بھی ہو گیا ہے اب تم جاؤ لیکن ہمارا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا بس یہ ہوتا تھا کہ دفتر میں بیٹھے ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے جو کام ملتا ہے وہ کر رہے ہیں۔
خدمت کا یہ جذبہ اس قدر تھا کہ آپ میں سے اکثر (بہتوں کو نہیں) یاد ہو گا کہ ایک دفعہ جلسہ گاہ چھوٹی اور تنگ ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شدید ناراض ہوئے تھے لوگ جلسہ گاہ میں سما نہیں سکے تھے۔ قادیان میں جلسہ گاہ کے چاروں طرف گیلریاں بنی ہوتی تھیں ان پر لوگ بیٹھتے تھے اینٹوں کی سیڑھیاں سی بنا کر ان پر لکڑی کی شہتیریاں رکھی جاتی تھیں۔ بہرحال اس سال جلسہ گاہ چھوٹی ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعودؓ بہت ناراض ہوئے۔ تمام کارکن بڑے شرمندہ پریشان اور تکلیف میں تھے۔
اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ہمت کریں تو اس جلسہ گاہ کو راتوں رات بڑھا سکتے ہیں لیکن میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے میں نے خیال کیا کہ میری اس رائے میں کوئی وزن نہیں ہوگا۔ ہمارے ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ بھی دفتر میں کام کرتے تھے میں نے انہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رات رات میں جلسہ گاہ کو بڑھا دیں گے آپ ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاقؓ افسر جلسہ سالانہ) کے سامنے یہ تجویز پیش کریں۔
وہ کہنے لگے یہ خیال تمہیں آیا ہے اس لئے تم ہی یہ بات پیش کرو مجھے یاد ہے کہ میری طبیعت میں یہ احساس تھا کہ چھوٹی عمر کی وجہ سے میری رائے کا وزن نہیں ہو گا لیکن یہ کام کرنا ضرور چاہئے۔ ماموں جان سید محموداللہ شاہ صاحبؓ کو خیال تھا کہ چونکہ یہ خیال مجھے نہیں آیا اس کو آیا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ میں کیوں لوں لیکن میں نے کہا میں نے یہ بات پیش نہیں کرنی آپ ہی کریں اور ضرور کریں۔ میں نے کچھ لاڈ اور پیار سے ان کو منا لیا چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی حضرت ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) نے دوستوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور بالآخر یہ رائے پاس ہوگئی اور سارا دن کام کرنے کے بعد سینکڑوں رضا کاروں نے ساری رات کام کیا ریتی چھلہ سے شہتیریاں اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے گئے جو ہمارے کالج کی عمارت (جس میں پہلے ہائی سکول ہوتا تھا) کے پاس تھی۔ ایک طرف کی ساری سیڑھیاں جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں توڑی گئیں اور دوسری سیڑھیاں بنائی گئیں رضا کار مزدوروں کا کام کرتے رہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جاچکی تھی بس آخری شہتیری رکھی جا رہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے اللہ اکبر کی آواز آئی (وہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے) صبح کی اذان کے وقت وہ کام ختم ہوا اور جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سارے لوگ اس جلسہ گاہ میں سما گئے اور جتنی ضرورت تھی اس کے مطابق جلسہ گاہ بڑھ گئی۔
میں اس وقت یہ بتاناچاہتا ہوں کہ جو تربیت ہمیں دی گئی تھی وہی تربیت سب احمدی نوجوانوں کو ملنی چاہئے یہ خیال ان میں پیدا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم نے پانچ یا سات گھنٹے ڈیوٹی دینی ہے اور اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے ان کی اس رنگ میں تربیت ہونی چاہئے یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ صبح سے لے کر رات دس بجے تک کام کریں گے اور جب ڈیوٹی ختم ہو اور پھر کوئی اَور کام پڑ جائے تو ہم ساری رات کام کریں گے اور پھر اگلے دن بھی کام کریں گے آرام نہیں کریں گے۔ (خطبات ناصر جلد ۲صفحہ۴۴۰-۴۴۱)
ہر دَور کے مومن اور کافر میں مشابہت
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہر زمانہ میں مومنوں اور کافروں کی پہلے مومنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اِس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دَور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اِس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اِس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے اپنے اور بیگانے،دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اِس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں۔ ہم آپ لوگوں سے اِس کو زیادہ جانتے ہیں، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی، ہم اِس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اِسی میں آپ کا فائدہ ہے۔
یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے۔
مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے۔ دن رات بھنگ گھُٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے۔ میاں! تم کہاں اِس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے۔ ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیرنے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے۔
اب حیرت آتی ہے کہ کون سا ابوجہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوا لیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی۔
لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نو مُسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے۔ اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کادعویٰ بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہئے۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں ابھی انہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا۔ انہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان نو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں۔ اِس پر اُنہوں نے اِن نو مُسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی۔ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے۔ غالباً وہ ۹ آدمی تھے اُن میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ اُن کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اِس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو۔ چنانچہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اِس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے۔
جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حُقّہ پینے کی عادت تھی اِس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے گئے۔ وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا۔ انسان کو کام وہ کرنا چاہئے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو تم جو اِتنی دُور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو (کیونکہ اُن کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اِس لئے پیدل جانا ہوگا) بتاؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا؟
ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُن میں سے ایک نومُسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اِس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا؟ آپ مرزا صاحبؑ کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہوگئے۔ لوگ ہمیں مرزائی، مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا۔ اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں۔
مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے۔ اُنہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے۔ اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید داڑھی تھی سفید رنگ تھا،تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے، تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بُلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر مَیں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالباً وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ اب تو لوگ جلسہ کے دَوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن اُن پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارۃ المسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وسعت اِس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی، نہ کالج تھا نہ سکول تھے۔ اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اِس سے ملو اور اِس سے باتیں پوچھو اُن کا ایمان اِسی سے بڑھ جاتا تھا اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا۔ لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔
وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سَوگز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آ رہے تھے۔ علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بُلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں۔ علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اِس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دُکان کھول لی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائی ہیں۔
چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے۔ اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا۔ گویا اِسے اُن سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے۔ علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے۔ اِس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ۔ اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اِس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور مَیں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لوں گا۔ اس دوست کے باقی ساتھی دَوڑ کر آگئے تو اس نے کہا۔ مَیں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے۔ مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے۔ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا۔ اب دیکھو کس طرح ایک قوم دوسری قوم کے قدم بقدم چلتی ہے۔ (نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں۔تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۵ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان۔انوارالعلوم جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۴تا۲۳۹)