حضور انور کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی ملاقات
لجنہ کو اپنی پریس ریلیز پڑھنی چاہیے اور پریس میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات یا حوالہ جات دیتی رہا کریں۔ اسی طرح شعبہ تعلیم کو بھی چاہیے کہ وہ ان اقتباسات کو لے کر اپنی ویب سائٹ پرلگایا کریں اور نومبائعات کو بھی ان سے روشناس کرائیں
مورخہ۱۵؍دسمبر۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماءاللہ برطانیہ کی نیشنل مجلسِ عاملہ کو ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔
جب حضورِانور ملاقات کے لیے تشریف لائے آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا نیز صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ برطانیہ سے شرکا کی بابت دریافت فرمایا۔ صدر صاحبہ نے عاملہ کا تعارف پیش کیا، جس کے بعد حضورِانور نے اجتماعی دعا کروائی اور یوں اس ملاقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
بعد ازاں حضورِانور نے مجلس عاملہ کے ہرممبر سے انفرادی گفتگو فرمائی، ان کے شعبہ جات، مفوّضہ ذمہ داریوں اور مساعی کی پیش رفت کی بابت استفسار فرمایا اور نہایت قیمتی راہنمائی اور نصائح سے نوازا۔
سیکرٹری تعلیم سے گفتگو فرماتے ہوئے حضورِانور نے سالانہ تعلیمی پروگرام کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جس پر سیکرٹری صاحبہ نےعرض کیا کہ ایک عمومی تعلیمی نصاب تیار کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان ممبرات کے لیے ایک خصوصی نصاب بھی مرتّب کیا گیا ہے جو اپنے دینی علم میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چھ علاقوں میں خصوصی تعلیمی و تربیتی کلاسز منعقد کی جا رہی ہیں، جن کا آغاز جنوری میں سکاٹ لینڈ سے ہو رہا ہے۔
سیکرٹری تجنید سے بات کرتے ہوئے حضورِ انورنے موجودہ تجنید کے اعداد و شمار کے بارے میں دریافت فرمایا اور یہ بھی پوچھا کہ کیا یہ اعداد و شمار معیّن ہیں اور مکمل جانچ پڑتال کے ساتھ جمع کیے گئے ہیں یعنی مجالس کی سطح سے کام کر کے ان کی تصدیق کی گئی ہے؟ سیکرٹری صاحبہ نے اس کی تصدیق کی کہ یہ تمام ڈیٹا مکمل اور مستند ہے۔
سیکرٹری تحریکِ جدید و وَقفِ جدید سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِ انورنے وصولی کےاعداد و شمار کے بارے میں دریافت فرمایا اور معلوم کیا کہ کیا شعبہ اپنےٹارگٹ کو پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہے؟ سیکرٹری صاحبہ نےعرض کیا کہ وہ اس حوالے سے پُر امید ہیں نیز انہوں نے اس کی بابت حضورِانور کی خدمت میں دعا کی عاجزانہ درخواست کی۔
سیکرٹری صحت ِجسمانی سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی ورزشی کلب قائم کیا گیا ہے؟ جس پرسیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ اگرچہ کوئی باقاعدہ کلب نہیں بنایا گیا، مگریہ شعبہ دیگر طریقوں سے ممبرات کی ورزش کے معیار کی نگرانی کرتا ہے۔
سیکرٹری صنعت و دستکاری سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِانور نے گھر یلو خواتین کو عملی مواقع فراہم کرنے کے لیے ایک کاٹیج انڈسٹری کے آغاز کی تجویز دی۔ سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ شعبہ نے ’’From Lajna, With Love‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ممبرات ہسپتالوں اور دیگر فلاحی کاموں کے لیے اشیا تیار کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف پروگرامز اور ورکشاپس بھی منعقد کروائی جاتی ہیں جن سےبہت سی ممبرات نے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کے نتیجے میں کئی ممبرات نے کامیابی کے ساتھ اپنے ذاتی کاروبار بھی شروع کیے ہیں۔
قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ کاٹیج انڈسٹری ایک چھوٹی سی صنعت ہوتی ہے جو عام طور پر گھروں یا چھوٹے پیمانے پر چلائی جاتی ہے۔ اس میں کم سرمایہ کاری اور دستی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صنعت میں بننے والی مصنوعات میں دستکاری، کھانے پینے کی اشیا، کپڑے، جوتے، گھی، مٹھائیاں اور ایسی دوسری چھوٹی چیزیں شامل ہیں جو گھر کے ماحول میں مقامی سطح پر تیار کی جاتی ہیں۔
کاٹیج انڈسٹری کا بنیادی مقصد چھوٹے کاروباری افراد یا خاندانوں کو روزگار فراہم کرنا اور مقامی معیشت کو بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ صنعتیں عام طور پر بڑی فیکٹریوں کے مقابلے میں کم مشینری اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں اور زیادہ تر کام ہاتھ سے یا نیم خودکار طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ مقامی سطح پر خود کفالت اور معیشت کی ترقی بھی ممکن ہوتی ہے۔
جنرل سیکرٹری سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نےمجالس کی تعداد، ان کی رپورٹس کی باقاعدگی اور رپورٹس پر تبصرہ جات کے نظام کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیکرٹری صاحبہ نےعرض کیا کہ تمام مجالس رپورٹس بھیجتی ہیں، جن پر صدر صاحبہ اور متعلقہ شعبہ جات ایک مارکنگ اور گریڈنگ سسٹم کے تحت تبصرے تیار کر کے بھجواتے ہیں۔
قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ ’’مارکنگ اور گریڈنگ سسٹم‘‘ کی اصطلاح رپورٹس یا کارکردگی کی جانچ اور ان کے معیار کے مطابق درجہ بندی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیکرٹری خدمتِ خلق سے گفتگو کے دوران حضورِانور نے جاری منصوبوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ ان کاشعبہ بے گھر افراد کی مدد کر رہا ہے اور پچھلے سال اس ضمن میں تئیس ہزار کی تعداد میں کھانے تیار کیے گئے۔ حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ کیا خیراتی اداروں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تعاون اور شراکت داری موجودہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایسی شراکت داریاں محض کچھ مقامی علاقوں کی سطح پر ہی ہیں۔
سیکرٹری تربیت نَومبائعات سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِانور نے نَومبائعات کی اس سال کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیکرٹری صاحبہ نےعرض کیا کہ نئی شامل ہونے والی نَومبائعات کی تعداد ۶۴؍ ہے جن میں سے زیادہ تر اپنی مقامی کلاسز کے علاوہ جماعت کے شعبہ تربیت نَومبائعین کے زیرِ انتظام منعقدہ آن لائن کلاسز میں بھی شرکت کر رہی ہیں۔ حضورِانور نے شرکا سے باقاعدہ فیڈبیک لینے کی اہمیت پر زور دیا نیز یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ان کلاسز کو پڑھانے والے اساتذہ کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کی جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ قابلِ اعتماد ہیں اور ان پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔
سیکرٹری تربیت سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نے شعبہ نَومبائعات کے ساتھ تعاون کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جس پرسیکرٹری صاحبہ نے اس حوالے سے آئندہ تعاون بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار کیا نیز اس سال کے تربیتی موضوعات کا خاکہ بھی پیش کیا، جن میں سچائی، پہلی پانچ شرائطِ بیعت اور تقویٰ شامل ہیں جو حضورِانور کے ارشاد فرمودہ اختتامی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ گھانا سے اخذ کر کے منتخب کیے گئے تھے۔ اسی طرح انہوں نے بتایا کہ وہ تربیت سے متعلق مجلس شوریٰ کی سفارشارت پر بھی کام کر رہی ہیں، جو اعلیٰ اخلاقی معیار حاصل کرنے پر مرکوز ہے، خاص طور پر سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےمبارک نمونہ کی روشنی میں غصّے پر قابو پانا ہے۔ انہوں نے مزید عرض کیا کہ وہ اپنے شعبہ کے اگلے تربیتی کیمپ کے لیے دعا کی درخواست کرنا چاہتی ہیں جو مسجد بیت الفتوح میں منعقد ہوگا، جہاں عائشہ اکیڈمی کی طالبات سیشنز کی قیادت کریں گی۔
سیکرٹری تبلیغ سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نےشعبہ کے منصوبہ جات کی بابت دریافت فرمایا۔ سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ حضورِانور کی ایک راہنمائی کے تحت وہ احمدی خواتین اساتذہ کے ذریعے سکولوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور ایک ویب سائٹ “Understanding Islam” بھی لانچ کی ہے جس کے ذریعے سکولوں کے لیے وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امسال لجنہ کی کوششوں سے پچیس نومبائعات جماعت میں شامل ہوئی ہیں۔ اسی طرح بتایا کہ امسال بیعت کا ہدف ایک بیعت فی ممبر ہے۔ حضورِانور نے اس ہدف کی غیر معمولی نوعیت پر تبصرہ کرتے ہوئے استفسار فرمایاکہ کتنی خواتین نے اس ہدف کو حاصل کیا ہے؟ سیکرٹری صاحبہ نے اس پر عرض کیا کہ لجنہ ممبرات اس مقصد کے حصول کے لیے سرگرمی سے کوشاں ہیں۔
سیکرٹری ناصرات سے گفتگو کے دوران حضورِانور نے ناصرات کی حاضری کے بارے میں دریافت فرمایا کہ کتنی ناصرات رابطے میں ہیں؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ کم از کم بہتّرفیصد ناصرات ایسی ہیں جو ماہانہ ایک کلاس میں باقاعدگی سے شامل ہوتی ہیں۔ حضورِانور نے یہ بھی استفسار فرمایا کہ کم فعّال ناصرات کو شرکت کی ترغیب دینے کے لیے شعبہ کیا اقدامات کرتا ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحبہ نے مختلف اقدامات کا تذکرہ کیا، جن میں کھیلوں کے ٹورنامنٹس وغیرہ کا اہتمام بھی شامل تھا۔
اجتماع میں ناصرات کی حاضری کے حوالے سے استفسار پر سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ اجتماع میں حاضری تقریباً پچاس سے پچپن فیصد رہتی ہے۔ اس پر حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ ایسی بچیاں جو نہیں آتیں ان کا عذر کیا ہے؟ جواباً سیکرٹری صاحبہ نے عرض کیا کہ ناصرات کی حاضری عمومی طور پر لجنہ کی حاضری سے مطابقت رکھتی ہے اور زیادہ تر ناصرات اپنی ماؤں یا والدین پر انحصار کرتی ہیں۔
یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ اگر مائیں سست ہوں تو ناصرات بھی نہیں آتیں۔ سیکرٹری صاحبہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے عرض کیا کہ ناصرات کے لیے واقعی یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مزید برآں حضورِانور نے سیکرٹری تربیت کو ہدایت دی کہ وہ ناصرات کے شعبے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ اس مسئلے کو مؤثر انداز میں حل کیا جا سکے۔
سیکرٹری مال سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ لجنہ بہت قربانیاں کر رہی ہیں۔
حضورِانور نے معاونہ صدر برائے وصایا کو تاکید فرمائی کہ وہ مَردوں کے شعبہ جات کی فراہم کردہ معلومات پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے خود سے ڈیٹا جمع کرنے کی اہمیت کو سمجھیں۔ حضورِانور نے یہ بھی ترغیب دی کہ کم از کم کمانے والی لجنہ ممبرات کے نصف کو نظامِ وصیت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔
معاونہ صدر برائے پریس و میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حضورِ انورنے نصیحت فرمائی کہ تیار کیا جانے والا مواد بیرونی ناظرین کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر احبابِ جماعت کے لیے بھی فائدہ مند ہونا چاہیے۔
معاونہ صدر برائے واقفاتِ نو سے حضورِانور نے آخر پر گفتگو فرماتے ہوئے واقفاتِ نو کی دینی تربیت اور روحانی ترقی پر زور دیا نیز ان کے منصوبہ جات کی بابت دریافت فرمایا۔ معاونہ صدر نے اس ضمن میں چار اہم نکات پیش کیے کہ پندرہ سال سے زائد عمر کی واقفات کی حاضری بڑھانا، ہفتہ وار اُردو کلاسز کا انعقاد، دستورِ اساسی کی تربیت اور سوال و جواب کی ایک کتاب کی تیاری۔
یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے یہ یقینی بنائیں کہ واقفاتِ نو پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنے والی ہوں، قرآنِ شریف پڑھنے والی ہوں اور پھر اس کا ترجمہ سیکھنے والی ہوں۔ اس کے بعد ان کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے کوئی کتاب تجویز کی جائے تاکہ ان کی علمی استعداد میں اضافہ ہو۔
اس پر معاونہ صدر نے دریافت کیا کہ کیاحضورکوئی خاص کتاب تجویز فرمائیں گے!
اس کے جواب میں حضورِانور نے فرمایا کہ چونکہ لوگوں کے ذاتی رجحانات مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایک مخصوص کتاب کی بجائے The Essence of Islamسے استفادہ کیا جائے۔ اس کتاب میں موجود مختلف موضوعات میں سے منتخب مضامین کا مطالعہ کروایا جائے اور ان کے حوالہ جات فراہم کیے جائیں۔ آخر میں حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ منتخب مواد کو نکال کر خود پرنٹ کرکے واقفاتِ نو کے لیے فراہم کیا جائے تاکہ اس سے ان کی تربیت میں مزید سہولت پیدا ہو۔
تعارف اور انفرادی گفتگو کے بعد صدر صاحبہ نے حضورِانور سے ممبرات عاملہ کی طرف سے سوالات پیش کرنے کی اجازت طلب کی جسے حضورِانور نے ازراہِ شفقت قبول فرمایا اور اس کی روشنی میں لجنہ کو قیمتی راہنمائی حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوا۔
حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں اس مجلس کا پہلا پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ دنیا کے موجودہ حالات اور مخالف صورتحال کے پیشِ نظر کیا شعبہ خدمتِ خلق کو کسی خاص چیز کی طرف توجہ دینی چاہیے؟
اس پر حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ شعبہ فنڈ ریزنگ میں حصّہ لے اور احتیاطی تدبیر کے طور پر ضروری کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ رکھنے پر غور کرے۔ حضورِانور نے شام اور فلسطین جیسے مقامات پر سنگین حالات کا ذکر کیا اور ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعے ان علاقوں کے ساتھ ساتھ افریقہ میں بھی امداد بھیجنے کی ترغیب دی۔
حضورِانور کے استفسار فرمانے پر کہ کیا شعبہ مقامی باورچی خانے چلاتا ہے سیکرٹری صاحبہ نے وضاحت کی کہ وہ براہِ راست کوئی باورچی خانہ تونہیں چلاتے، البتہ لجنہ کی ممبرات مقامی فلاحی اداروں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں، یا تو کھانے تیار کر کے دیتی ہیں یا کھانے کی اشیاء عطیہ کرتی ہیں۔ حضورِانور نے اس پر ہدایت فرمائی کہ اگر ہیومینٹی فرسٹ یا انصاراللہ کے تحت ایسے جاری منصوبے ہوں تو ان کے ساتھ کام کرنے کے امکانات بھی تلاش کیے جائیں۔
جب حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ شعبہ غزہ کی عوام کے لیے امداد فراہم کر رہا ہےتو آپ نے ان کوششوں کو سراہا اور فرمایا کہ اپنے دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے یہ کام جاری رکھیں۔
اگلا سوال یہ تھا کہ ۲۰۲۱ءمیں مجلسِ عاملہ کے ساتھ ملاقات کے دوران حضور ِانور نے ناصرات کو اَلْحَيَاءُ مِنَ الْاِيْمَانِ کا ماٹوعطا فرمایا تھا، یہ ماٹو اس وقت سے استعمال ہو رہا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ آیا ہمیں ہر سال ایک نیا ماٹو اپنانے کی ضرورت ہے یا اس کو جاری رکھیں؟
اس پر حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے اس ماٹو کو سَو فیصد حاصل کر لیا ہے؟
جب ممبر نے اعتراف کیا کہ یہ ہدف ابھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہوا تو حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ تو جب تک آپ اس ہدف کو حاصل نہیں کرتیں آپ کو اس کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اَلْحَيَاءُ مِنَ الْاِيْمَانِ یعنی حیا ایمان کا حصّہ ہے۔ کیونکہ جس جس طرح دین اور اس میں بھی exposure اَور زیادہ ہو رہا ہے،نئے پروگرام آرہے ہیں ، نئی نئی innovations آرہی ہیں، تو پھر آپ کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ایک عاملہ ممبر نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض ممبرات جو وقفِ جدید اور تحریکِ جدید جیسی بابرکت تحریکات میں فعّال طور پر حصّہ لیتی ہیں، مگرسال کے آغاز میں باضابطہ مالی وعدہ جات نہیں لکھواتیں، نیز اس بابت راہنمائی کی خواستگار ہوئیں کہ ہم کس طرح انہیں اس کی ترغیب دلا سکتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کے بارے میں فرمایا کہ لجنہ کی ممبرات پہلے سے ہی جماعت کے چندہ جات میں سے ایک تہائی حصّہ ادا کر رہی ہیں۔ اتنا کافی ہے۔ آپ ان کو مجبور نہیں کرسکتیں۔ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ مَیں اس سے خوش ہوں۔ مزید برآں حضورِانور نے اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ سب کو اس بابرکت تحریک میں شامل ہونا چاہیے لیکن وہ جو پہلے ہی حصّہ لے رہی ہیں انہیں مزید دینے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ آپ صرف ان کی صلاحیت، قابلیت اور ذرائع دیکھ کر ہی ان سے پوچھ سکتی ہیں۔
اس پر سوال کرنے والی لجنہ نے وضاحت کی کہ وہ تحریکات میں حصّہ تو لیتی ہیں لیکن وعدہ نہیں لکھواتیں۔
یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔بعض اوقات لوگ وعدے نہیں بھی لکھواتے، وعدہ ایک ایسی چیز ہے، جس سے انسان پابند ہو جاتا ہے، اگر وہ نمایاں مالی تعاون کر رہے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ اب تو وقفِ جدید کا سال چل رہا ہے، اس لیے آپ کو ناصرات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، ناصرات کو وقفِ جدید کی تحریک میں شامل ہونا چاہیے۔ آپ کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ سَو فیصد ناصرات اس تحریک میں حصّہ لیں۔
ایک ممبر نے بیان کیا کہ اس وقت امورِ طالبات کا شعبہ عام طور پر جی سی ایس ای (GCSE) کے آغاز، جو کہ عموماً پندرہ سال کی عمر میں ہوتا ہے، سےلے کر انڈر گریجوایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ڈگری کی تکمیل تک کا احاطہ کرتا ہے۔ عمرکا یہ دائرہ بہت وسیع ہے اور اکثر ایسی بڑی عمر کی طالبات ہوتی ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی طرف رجوع کرتی ہیں یا اپنی پیشہ ورانہ ترقی کی خاطر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ نیز عرض کیا کہ مَیں پیارے حضور کی راہنمائی حاصل کرنا چاہتی ہوں کہ آیا امورِ طالبات کے لیے کوئی بڑی عمر کی حدّ ہونی چاہیے؟
اس پر حضورِانور نے فرمایاکہ آپ ان کو دو گروپوں میں تقسیم کر سکتی ہیں۔ ایک پندرہ سے بیس سال کی بچیوں کا اور دوسرا بیس سے پچیس سال کی عمر کی خواتین کا۔ لیکن کچھ ایسی لجنہ بھی ہیں جو تیس سال یا اس سے بڑی عمر کی ہیں اور تعلیم حاصل کر رہی ہیں، یہ کچھ استثنائی کیسز ہیں، آپ ان کےلیے ایک الگ گروپ نہیں بنا سکتے۔ آپ انہیں طالبات یا تحقیقاتی ممبرات سمجھ سکتی ہیں اور وہ آپ کی طالبات کے گروپ کا حصّہ بن سکتی ہیں، ویسے بھی ان کی تعداد کتنی ہوگی، ان کے لیے الگ گروپ نہیں بنایا جا سکتا۔
اسی لجنہ ممبر نے مزید ایک سوال پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور! مَیں آپ سے احمدیہ مسلم طالبات ایسوسی ایشن (AMWSA) کی صدر کے لیے عمر کی حدّکے حوالے سے کچھ راہنمائی لینا چاہتی ہوں۔ ہمارے ہاں کچھ ایسی بڑی عمر کی طالبات ہیں جو شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں، لیکن وہ ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کرنے کی خاطر دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع کرتی ہیں۔
حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ جو باقاعدہ طالبات ہیں، وہ AMWSA میں عہدیدار بن سکتی ہیں اور اس کے لیے عمر کی کوئی حدّ مقرر نہیں ہے۔ اگر وہ باقاعدہ طالبات ہیں اور انہیں طالبات نے ہی منتخب کیا ہے تو اس پر کوئی اعتراض تونہیں ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے آپ کو لگے کہ ان میں سے بعض آپ سے بڑی ہیں لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ اس مجلس میں حضورِانور کی خدمت اقدس میں پیش کیا جانے والا آخری سوال تھا۔
آخر پر حضورِانور نے لجنہ اماء اللہ کے لیے جماعتی کتب کو پڑھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ لجنہ کو اپنی پریس ریلیز پڑھنی چاہیے اور پریس میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات یا حوالہ جات دیتی رہا کریں۔ اسی طرح شعبہ تعلیم کو بھی چاہیے کہ وہ ان اقتباسات کو لے کر اپنی ویب سائٹ پرلگایا کریں اور نومبائعات کو بھی ان سے متعارف کروائیں۔
اس پر حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پریس اینڈ میڈیا کا شعبہ ہمیشہ پریس ریلیز کے اقتباسات کو اُجاگر کرتا ہے۔
یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے توجہ دلائی کہ لیکن ایک بڑی تعداد میں لجنہ کی ممبرات اس سے لاتعلق ہیں، وہ اس تک رسائی حاصل نہیں کرنا چاہتیں یا اسے پڑھنا نہیں چاہتیں۔ بایںہمہ حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ“infuse them in their minds” یعنی ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جائے کہ انہوں نے اسے پڑھنا ہے۔ یہ سیکرٹری تربیت کا کام ہے۔ ملاقات کے اختتام پر صدر صاحبہ نے حضورِانور کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کی کہ وہ جماعت کی بہترین انداز میں خدمت کر سکیں۔ روانگی سے قبل حضورِانور نے ازراہِ شفقت تمام شاملین کو قلم کے تبرّک سے نوازا۔
اس کے بعد حضورِانور نے السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: