حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اس جلسے کے نظام نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک وقت تھا کہ قادیان میں صرف جلسہ سالانہ ہوا کرتا تھا۔ پھر پارٹیشن ہوئی تو پاکستان میں بھی جلسہ سالانہ شروع ہو گیا۔ لیکن مخالفین احمدیت اور حکومتوں کو پاکستان میں احمدیوں کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا سخت ناگوار گزراجس کی وجہ سے ایک قانون کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے اور نام لینے سے روک دیا گیا اور اس پر عمل درآمد کے لئے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگا دی گئی اور یوں جماعت احمدیہ کے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افراد کو اپنے زعم میں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر سے محروم کر دیا۔ لیکن مخالفین احمدیت یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ظاہری قانونی پابندیاں جسموں کو تو پابند کر سکتی ہیں لیکن دلوں کو نہیں۔ باوجود جذباتی اذیّت کے، باوجود مالی نقصان کے، باوجود جان کی قربانی لینے کے دشمن احمدیت ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں چھین سکتا۔ ہمارے دلوں سے تمام تر تکلیفیں دینے کے باوجود اور نقصان پہنچانے کے باوجود ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں نکال سکتا۔ ہمارے مخالفین جو بظاہر ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں یہ کلمے سے محبت کا عجیب دعویٰ کرتے ہیں کہ بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کلمے کی محبت میں نہ صرف ہر چیز قربان کرنے کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کر چکا ہے کہ کلمے کی محبت ان کے بچّے بچّے کے دل میں راسخ ہے۔ پھر بھی کلمہ پڑھنے سے روکنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین احمدیت کی احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں کو ہر منصف مزاج احمدیت کی مخالفت نہیں بلکہ اسلام کی ہی مخالفت کہے گا۔ بہر حال جلسے کے حوالے سے پاکستان کے احمدیوں اور پاکستان کے جلسے کا بھی ذکر آ گیا۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے جلسے کے حوالے سے جذبات میں ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے والا بن کے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے یہ جذبات خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح بہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے ہر مخالفت، ہر تنگی، ہر مشکل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں اور پاکستان کے احمدی بھی ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جن سے آج دنیائے احمدیت فیض پا رہی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے یہ جلسہ صرف قادیان میں ہوتا تھا پھر قادیان سے نکل کر ربوہ میں شروع ہوا لیکن ربوہ میں پابندیاں لگ گئیں۔ مخالفین نے تو سمجھا تھا اور حکومتِ وقت نے بلکہ حکومتوں نے جو بھی وقتی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے مخالفین پر ہاتھ رکھ کر یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں پابندیاں لگا کر وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے۔ لیکن ہوا کیا؟ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ آج ان دنوں میں دنیا کے کئی ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں اور دوران سال اپنی اپنی سہولت اور حالات کے مطابق دنیا کے تقریباً تمام ان ممالک میں جلسے ہوتے ہیں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اس جلسے کے نظام نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ گو چند ممالک میں پہلے بھی جلسے ہوتے تھے جب ربوہ میں جلسے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان جلسوں کی بھی وسعت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور مزیدنئے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے دنیاوی لیڈر اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بلکہ بعض شریف الطبع مسلمان بھی جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کو ایک ایسی تقریب قرار دیتے ہیں جو دنیا کو اسلام کی حقیقت بتا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرتی ہے۔ پس یہ نتائج تو نکلنے تھے اور نکل رہے ہیں کہ دنیا کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پتا لگ رہا ہے۔ دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پتا چلنا تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جس کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۲۸۱اشتہار ۷دسمبر ۱۸۹۲ء اشتہار نمبر ۹۱)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ء)
مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ کی چند خوشگوار یادیں