از افاضاتِ خلفائے احمدیت

جلسہ سے واپس جانے والوں کو نصائح

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۹؍دسمبر ۱۹۲۲ء)

یہاں سے بہترین تحفہ جو آپ لوگ لے جا سکتے ہیں یہی مفید باتیں ہیں جو تمہارے لیے اور تمہارے قریبیوں کے لیے مفید ہیں۔ ان سے تمہارے اور دوسروں کے علوم میں اضافہ اور روحانیت میں ترقی ہو گی۔ جب دوسروں کو سناؤ گے توتمہیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ محض سننے کی نسبت دوسروں کو سنانے سے بات اچھی طرح یاد ہوجاتی ہے

حضورؓ نے تشہدو تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ بہت سے احباب نماز جمعہ کے بعد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں میں عصر کی نماز بھی جمعہ کے ساتھ پڑھاؤں گا کہ رستہ میں دقّت نہ ہو۔

میں نصیحت کرتا ہوں کہ

وہ احباب جو جلسہ سے واپس جانے والے ہیں انہوں نے جو مفید باتیں یہاں سنی ہیں اُن کو قیمتی خزانہ کی طرح باندھ لیں۔

گھر جائیں تو اپنے عزیز و اقارب، دوستوں اور محلہ والوں اور شہر والوں کو سنائیں۔ کیونکہ بہترین تحفہ حق کی باتیں ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ أَخذَہَا حَیْثُ وَجَدَہَا۔(ترمذی کتاب العلم باب مَا جَاء فِی فَضْلِ الْفِقْہِ میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ) حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے اس کو جہاں پائے لے لے۔ پس

یہاں سے بہترین تحفہ جو آپ لوگ لے جا سکتے ہیں یہی مفید باتیں ہیں جو تمہارے لیے اور تمہارے قریبیوں کے لیے مفید ہیں۔

ان سے تمہارے اور دوسروں کے علوم میں اضافہ اور روحانیت میں ترقی ہو گی۔ جب دوسروں کو سناؤ گے توتمہیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ محض سننے کی نسبت دوسروں کو سنانے سے بات اچھی طرح یاد ہوجاتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ واپس جاتے ہوئے سفر میں بہت دعائیں کریں۔ خاص طور پر سلسلہ کے لیے دعائیں کرتے جائیں۔

اس کے بعد مختصر الفاظ میں ایک مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف آج رات ہی مجھے رؤیا میں توجہ دلائی گئی ہے۔ آج رات میں نے عجیب خواب دیکھی۔ چند ماہ ہوئے میں نے اس مضمون پر ایک خطبہ پڑھا تھا۔ لیکن اب ذہن میں بالکل نہ تھا۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر رؤیا کا ہونا خدائی تحریک ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کروں۔ جب میں نے یہ خواب دیکھی تو میں نے اِس کی اِسی خطبہ کے مطابق تعبیر کی ہے۔ چونکہ اس امر کا جماعت سے تعلق ہے اس لیے میں سنا دیتا ہوں۔

میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان سترہ اٹھارہ برس کا ہے۔ نہایت خوبصورت ایسا جیسا کہ مشہور ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بے نظیر خوبصورت تھے۔

وہ نوجوان باہر سے آیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس سے میری ذاتی دوستی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ احمدی ہے بلکہ دوست معلوم ہوتا ہے۔

اس سے احمدیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اُس کی حالت یہ ہے کہ جواُس سے ملتا ہے خوش ہو جاتا ہے۔ وہ میرے ساتھ لگ کر بیٹھا ہوا ہے۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ ہمارے خاں صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب آئے ہیں۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی ہے اور وہ حیران ہیں۔ میں اُن کو اس کے متعلق سناتا ہوں کہ یہ میرے دوست ہیں اور مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور مجھ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ یکدم اُن میں بھی ایک تغیر آیا۔ اور

وہ سترہ اٹھارہ برس کی عمر کے نوجوان ہو گئے ہیں۔ وہ اس سے ملے ہیں اور اُن کی یہ حالت ہوئی ہے کہ گویا وہ خوشی سے اُچھلنے لگ گئے ہیں۔

میں نے اُس کو کہا کہ میرے پاس بیٹھ کر سناؤ کہ تم کہاں کہاں گئے۔ پھر میں خان صاحب سے کہتا ہوں کہ یہ عجیب شخص ہے۔ جہاں یہ ہو لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ میں ان کو یہ حال سناتا ہوں اور خوش ہوں۔ آخر وہ ہمارے گھر سے نکلا اور دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ جس کی نظر اُس پر پڑتی ہے وہ اُس کے پاس آجاتا ہے۔ قادیان کے مرد اور بچے سب لوگ اُس پر لٹّو ہوئے جاتے ہیں اور اُس سے اِس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح میں کرتا ہوں۔

اُس وقت میں نے کہا اس کا نام ’’مؤانست‘‘ ہے اور لوگوں سے ملنا اور ان سے محبت کرنا ہے۔

اس نظارے کا مجھ پر ایسا اثر تھا کہ میں نے اُسی وقت اپنے گھر والوں کو جگایا اور ان کو سنایا تا کہ میں بھول نہ جاؤں۔ اُس وقت میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ

لوگوں سے ملنا جلنا اور محبت کرنا مجھے مجسم کر کے دکھایا گیا ہے۔ لڑکے سے مُراد وہ ملنے جلنے کی صفت تھی جو خوبصورت نوجوان کی صورت میں دکھائی گئی۔

جو لوگوں سے محبت کرتا ہے اور ہنس مکھ چہرے سے ملتا ہے۔ اس کے گرد لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ جو چڑچڑا ہو اُس سے لوگ بھاگتے ہیں۔اس کے ساتھ خان صاحب کے نوجوان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ صفت جس شخص کے اندر رہتی ہے وہ بوڑھا ہو کر بھی جوان ہی ہوتا ہے۔ کامیاب ہونے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ملیں جُلیں۔ اِس کے بغیر انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے: لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ۔(آل عمران:۱۶۰)اگر تُو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ مگر یہ تیرے اخلاق اور حُسنِ سلوک اور محبت کی وجہ ہے کہ منافق بھی جو ایمان میں تیرے ساتھ متفق نہیں تیرے پاس آتے ہیں اور باوجود اِس قدر علیحدگی کے وہ لوگ تجھ کو نہیں چھوڑ سکتے۔

یہ اعلیٰ صفت ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کے ظلموں کو دیکھ کر اِس صفت کو چھوڑ رہے ہیں۔

ہماری جماعت میں ملنساری کا مادہ کم ہوتا جاتا ہے۔ ہمارا دائرہ تبلیغ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ پس جو لوگ اپنے اندر ملنساری کا مادہ پیدا کریں گے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ نوجوان صفت جس میں ہوتی ہے وہ شخص خوش خُلق اور ملنسار ہو جاتا ہے۔ اس سے ملنے کی لوگوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔

خوش طبعی اور ہنستے ہوئے چہرے سے ملنا اور اچھے اخلاق اور محبت آمیز طریق سے ملاقات کرنا ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کے دلوں پر اثر کرتی ہیں اور لوگ ان سے ملنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔

یہ رؤیا مجھے رات اس لیے دکھائی گئی ہے کہ احباب جارہے ہیں میں ان کو نصیحت کر دوں کہ اِس صفت سے کام لیں۔

جب تمہاری یہ حالت لوگ دیکھیں گے تو دوڑ دوڑ کر تمہارے پاس آئیں گے، تمہاری باتیں سنیں گے اور تمہیں اپنا ہمدرد سمجھ کر اپنی سنائیں گے۔

یہ چیز دین کے لیے بڑی مُمِد اور مددگار ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ ہم پر فضل کرے، ہمارے عیب دُور کرے۔ ہم نے خدا کے مامور کے حکم کے مطابق یہاں جمع ہو کر ایمان کی تازگی کے سامان کیے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے ایمان میں زیادتی کرے اور اس کی رضا ہمارے مدّنظر ہو۔

(الفضل۸؍جنوری ۱۹۲۳ء)

مزید پڑھیں: سالِ رواں میں ہمارا نصب العین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button