تبلیغ و اشاعتِ اسلام۔ وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے
’’رسول کریمﷺ کی نسبت آتا ہے کہ آپؐ ایک دفعہ طائف میں تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور آپ واپس آگئے۔ آتے ہوئے رستہ میں ایک جگہ سستانے لگے۔ باغ والے نے اپنے غلام کے ہاتھ کچھ میوہ آپ کے لئے بھیجا۔ آپ نے میوہ کی طرف تو کم ہی توجہ کی اس غلام ہی کو تبلیغ کرنے لگ گئے اور آپ کا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپ وہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)
رات کے اندھیرے میں آسمان سے ٹوٹ کر زمین کی طرف تیز روشنی اور برق رفتاری کے ساتھ بڑھتے ہوئے شہاب ثاقب ہمیشہ ہی ایک عجیب اور دلچسپ منظر پیش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ انہیں ستاروں کا ٹوٹنا بھی کہتے ہیں لیکن عام طور پر یہ وہ اجرام فلکی ہوتے ہیں جو زمین کے مدار میں داخل ہو نے پر کشش ثقل کی وجہ سے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ زمین کی طرف بڑھتے ہوئے ہوا سے رگڑ کی وجہ سے جل جاتے ہیں اور اس آگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی روشنی سرعت کے ساتھ زمین کی طرف بڑھتی ہے تو ایک دلفریب منظر پیدا کر دیتی ہے جسے زمانہ قدیم سے ہی ہر دور کے انسان نے مختلف حوالوں سے غیر معمولی سمجھا اور اہم قرار دیا ہے۔ عام طور پر مختلف تہذیبوں میں بسنے والے، مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے نزدیک کبھی کبھار ستاروں کا یوں ٹوٹتے ہوئے نظر آنا بھی کچھ نہ کچھ معانی اپنے اندر رکھتا ہے لیکن اگر یہ واقعات بہت کثرت کے ساتھ ہوتے ہوئے نظر آئیں تو پھر تو یقین کر لینا چاہیے کہ دنیا میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آنے والی ہےاور علم فلکیات کے ماہرین گو کچھ بھی کہیں لیکن تاریخی طور پر انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ یہ امر معمول کی بات نہیں ہوا کرتی بلکہ کسی غیرمعمولی واقعے کا اشارہ اور پیش خیمہ ہوتی ہے اور مذہبی کتب بھی اسی طرح کی خبر دیتی ہیں مثلاً حضرت مسیح ؑکی آمد ثانی کے حوالے سے انجیل میں یہ ذکر ہے کہ ’’سورج تاریک ہو جائیگا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو قو تیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی۔ اور اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔‘‘ (مرقس باب ۱۳ آیات ۲۴ تا ۲۷)
اب اس تمام تر تناظر میں ذرا تصور کریں ایک ایسی رات کا جس میں ایک ستارہ نہیں بلکہ لاتعداد ستارے مسلسل ٹوٹ رہے ہوں اور یوں محسوس ہو رہا ہو جیسے آسمان پر پوری کہکشاں بکھرتی چلی جا رہی ہے اور ہر جانب نظر آتے ہوئے شہب ثاقبہ خوبصورت آتش بازی کا سا منظر پیش کر رہے ہوں تو اس نظارے کو دیکھنے والی آنکھ کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اور یہ رات واقعی ایک غیر معمولی رات تھی کیونکہ یہ نظارہ کوئی عام نظارہ نہیں تھا بلکہ یہ غیر معمولی منظر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی بعثت کے موقعہ پر پیش آیا تھا اوراس حیرت انگیز نظارے نے اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں ایک ہلچل سی پیدا کردی تھی۔وہ رات جس نے ہر ایک نظر کو خوف، حیرت اور تجسس میں مبتلا کردیا کہ دنیا میں کون سا عظیم الشان تغیر اور تبدیلی واقع ہونے والی ہے۔ وہ ایک غیر معمولی لمحہ جس نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا یقیناً بہت خاص تھا کیونکہ دنیا میں واقعی ایک عظیم الشان تغیرپیدا ہونے والا تھا۔ دنیا کی تاریخ بدلنے والی تھی اور آسمان پوری شان کے ساتھ اس امر کا اعلان کر رہا تھا کہ عرب کی سرزمین پر ایک عظیم الشان نبی کی آمد ہوچکی ہے۔
جب طائف کے لوگوں نے آسمان پر ٹوٹتے ہوئے ستاروں کا یہ تماشا دیکھا تو ان کے دلوں میں بھی خوف اور بےچینی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور یہ خیال کرنے لگےکہ کہیں یہ عذاب الٰہی تو نہیں ہے؟ انہوں نے فوراً اپنے دیوتاؤں کو منانے کے لیے اور اپنے گناہوں کی توبہ کرنے کے واسطے جانوروں کی قربانیاں شروع کردیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مصیبت ان پر کسی بڑی غلطی کی وجہ سے آئی ہے۔یہ سب واقعہ جب طائف کے ایک سردار عبد یالیل نے دیکھا تو اپنے لوگوں کو تسلی دی اور کہا کہ یہ کسی خدائی غضب کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سب کچھ تو ابن ابی کبشہ کا کیا دھرا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان نہیں ہے بلکہ محمد (ﷺ)کا بنایا ہوا ایک جادو ہے۔(مخالفین اسلام آنحضرتﷺ کو مذاق اور استہزاء کے طور پر ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے) (ماخوذ ازتفسیر ابن کثیر الجزء ۸بیروت طبعہ اولیٰ ۱۹۹۸ء صفحہ ۲۵۴)
لیکن وقت نے بتادیا کہ یہ نشان کوئی جادو یا سحر نہیں تھا،بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام تھا کہ وہ عظیم الشان نبی جس کا انتظار کرتے کرتے کروڑوں روحیں اس دنیا سے کُوچ کرگئیں دنیا کی ہدایت وراہنمائی کی خاطر مبعوث ہوچکا ہے۔ یہ اعلان کردیا گیا کہ اب اس زمین میں آپﷺ کے ذریعہ سے ایک غیر معمولی روحانی انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔ اور آسمان پر اس کثرت سے روشنی بکھیر کر یہ اطلاع عام کردی گئی کہ اب وہ وقت آچکا ہے جب یہ مقدس تعلیم اپنا جلوہ پوری دنیا میں ظاہر کردے گی جوبالآخر سعید اور خوش قسمت آنکھوں کو منور کردے گا۔ اس وقت کے بڑے بڑے کاہن اور نجومی بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ایسا واقعہ رونما ہونے کا مطلب یہی ہے کہ کسی نبی کی بعثت کا وقت آچکا ہے۔ایسا زمانہ شیطان کے رد کا اور ایک روحانی تبدیلی کا زمانہ ہوا کرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں: ’’عرب کے کاہنوں کے دلوں میں بھی بسا ہوا تھا کہ شہب جب کثرت سے ٹوٹتے ہیں تو کوئی نبی پیدا ہوتا ہے اور اُن کا یہ ذاتی تجربہ تھا کہ شہب کی کثرت تساقط کے بعد اُن کو شیطانی خبریں کم ملتی ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۰۷)
مکہ کی زمین تنگ کردی گئی
کثرت سے شہب ثاقبہ کے گرنے کا یہ نظارہ آنحضرتﷺ کی صداقت کے بےشمار نشانوں میں سے ایک تھا جسے اس وقت لوگوں نے ملاحظہ بھی کیا لیکن ان متعدد علامات کو دیکھنے کے باوجود بھی آپﷺ کی قوم مخالفت میں پیش پیش رہی۔ انہوں نے اس سلسلہ کو مٹانے کے لیے سخت سے سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ظلم و ستم کا ایک سلسلہ آپﷺ اورمسلمانوں کے خلاف جاری کردیا گیا۔یہاں تک کہ اسلام کی قوت کو توڑنے کے لیے کئی سال تک انہوں نے مسلمانوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ بھی کرکےدیکھا لیکن ان سب کوششوں کے باوجود دشمنان اسلام اپنے مقصد میں ناکام رہے۔
مسلمانوں پر زبردستی مسلط کیا جانے والا یہ بائیکاٹ تین سال تک جاری رہا لیکن اس قید سے رہائی کے بعد بھی دشمنوں کی طرف سے برابر ظلم اور زیادتی کا معاملہ جاری رکھا گیا۔چنانچہ اس محاصرہ کے بعد ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز ادا کررہے تھے۔ اس وقت شہر کے بعض سرکردہ افراد بھی وہاں موجود تھے اور آپس میں اکٹھے بیٹھے گفتگو کررہے تھے۔اور یہ مشورہ کر رہے تھے کہ اب کس طرح محمد(ﷺ) کو مزید تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے؟وہ کون سا حیلہ ہے جس کے ذریعہ سے آپ کے اس مشن کو ناکام بنایا جاسکتا ہے؟آخر ان میں سے کسی ایک نے کہاکہ کیا تم میں سے کسی میں ہمت ہےکہ جو اونٹنی بھی ابھی ذبح ہوئی ہو، اس کی اوجھڑی اٹھا لائے اور اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اوپر جب آپ سجدہ ریز ہوں پھینک دے۔عقبہ بن ابی معیط، جو نبیﷺ کے شدید دشمنوں میں سے ایک تھا اور ہمیشہ آپ کو تکلیف اور اذیت دینے کی کوشش میں لگا رہتا تھا، اس نے جب یہ سنا تو فوراً بھاگتا ہوا گیا اور ایک اونٹنی کی اوجھڑی اٹھا لایا جو بھاری بھی تھی اور خون سے لت پت، بدبودار اور گندگی سے بھری ہوئی بھی۔
جونہی نبی کریمﷺ سجدے میں گئےاس شریر دشمن نے اس اوجھڑی کو آپؐ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ بوجھ اتنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں ہی رہےاور اپنا سر نہ اٹھا سکے۔قریش کے سردار جو اس ظلم کا تماشا دیکھ رہے تھے،آپ پر زور زور سے ہنسنے لگے۔اس واقعہ میں جہاں ہمیں حضور اکرمﷺ کا عظیم الشان صبر اور استقامت نظر آتی ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کے بعد اور اس کے حضور جھکنے کے بعد آپ کی محویت کا عالم کیا ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ ایسی سخت مصیبت آجانے پر بھی آپ نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی اور سجدے سے سر نہیں اٹھایا بلکہ خدا کی بارگاہ میں ہی سجدہ ریزرہے۔یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بے چین حالت میں دوڑتی ہوئی آئیں اور آنکھوں میں آنسو اورد ل میں درد لیے اپنے معصوم ہاتھوں سے وہ بوجھ آپؐ کے کندھوں سے اتارنےکی کوشش کرنے لگیں۔اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی۔رسول کریمﷺ نے جب بیٹی کی یہ محبت اور معصومیت دیکھی تو آپﷺ کا دل بھی بھر آیا اور آپؐ نے اس موقعہ پر قریش کے خلاف خدا کے حضور دعا کی اور تین مرتبہ فرمایا۔اللّٰھم علیک بقریش یعنی اے اللہ ! میں ان قریش کا معاملہ تیرے سپرد کرتا ہوں۔ تو خود ان سے حساب لے۔ یہاں تک کہ آپ نے اس شرارت میں شامل سب شریروں کے نام لے لےکر دعا کی۔ روایات میں آتا ہے وہ سات آدمی تھے جن کا آپﷺ نے نام لیا اور یہ تمام شریر لوگ بالآخر خداتعالیٰ کے سخت غضب کا نشانہ بنے اورغزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خاک میں ملا کر عبرت کا نشان بنادیا۔(تلخیص از صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الْمَرْأَةِ تَطْرَحُ عَنِ الْمُصَلِّي، شَيْئًا مِنَ الأَذَى حدیث نمبر ۵۲۰)
مکہ کے یہ دن نبی کریمﷺ کے لیے سخت ترین دن تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو طالب آپ کے دوسچے مددگار وفات پاچکے تھے۔ظلم کا طوفان پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرتا چلا جارہا تھا۔مکہ کی زمین آپ کے لیے ہر لحاظ سے تنگ کی جارہی تھی۔لیکن باوجود ایسی حالت کےآپ کا دل اشاعت اسلام اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے کے عزم سے لبریز تھا۔ایک تڑپ اور بے قراری تھی کہ لوگ اپنے پروردگار کو پہچاننے والے بنیں۔ قرآن کریم نبی اکرمﷺ کی اس بےتابی کا یوں ذکر کرتا ہے:لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔(الشعراء:۴)کیا تُو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر لے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
چنانچہ مکہ میں تقریباً دس سال مخالفت برداشت کرنے کے بعد بالآخر آپﷺ نے یہ خیال کیا کہ اب اس تبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کیا جائے اور شہر سے باہر اسلام کی تعلیم کو پھیلایا جائے۔ آپﷺ نے اشاعت اسلام کی غرض سے طائف جانے کا ارادہ فرمایا۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید وہاں کے لوگ اس پیغام کو سنیں گے اور قبول کرلیں گے۔ لیکن طائف میں جو ہوا، وہ مکہ کے مظالم سے بھی زیادہ دردناک تھا۔جس کے بارے میں رسول کریمﷺ نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے سخت ترین دنوں میں سے ایک تھا۔
سفر طائف
نبی کریمﷺ نے۱۰؍نبوی بمطابق ۶۱۹؍عیسوی طائف کا سفر کیا اور بعض روایات کے مطابق حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی ساتھ لیا۔ طائف کا شہر مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور اس زمانے میں وہاں قبیلہ بنوثقیف آباد تھاجو عرب کا ایک مضبوط اور مالدار قبیلہ تھا۔ اس شہر کو مکہ کے بعد ایک نمایاں اثر و رسوخ اور اہمیت حاصل تھی جس کا اظہار سردارانِ قریش کے ایک بیان سے بھی ہوتا ہے جسے قرآن کریم نےمحفوظ کردیا ہے:وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْآنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ۔ (الزخرف:۳۲) اور انہوں نے کہا کیوں نہ یہ قرآن دو معروف بستیوں کے کسی بڑے شخص پر اتارا گیا؟یعنی نبوت کا مقام اس یتیم لڑکے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیوں عطا کیا گیا ہے؟ اگر ہمیں منوانا ہی مقصود تھا تو طائف اور مکہ کی دو معروف بستیوں کے کسی بڑے اور مالداررئیس پر یہ کلام نازل ہونا چاہئے تھا۔یہ اعتراض ایسا ہے جو ہر زمانے کے مامورین پر ہی کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔
غرض آنحضرتﷺ حضرت زیدؓ کو ساتھ لے کر طائف تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں چند دن قیام فرمایا اور کئی لوگوں کو جن میں کچھ سردار بھی تھے تبلیغ فرمائی۔لیکن کسی نے بھی اس پیغام میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ بلکہ تکذیب اور استہزا سے کام لیا۔آپﷺ وہاں پر تین بڑے اشخاص عبدیالیل، مسعود اور حبیب سے بھی ملے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔یہ آپﷺ کے دعویٰ کے بارے میں پہلے ہی واقف تھے۔آپﷺ نے جب انہیں تبلیغ کی تو وہ بھی قریش مکہ کی طرح طعن و تشنیع پر اتر آئے اور کھلے طور پر آپ کے پیغام کا انکار کردیا اور آپﷺ کو فوراً شہر چھوڑ جانے کا حکم بھی دے دیا۔ وہاں کے سرداروں نے نہ صرف اس پیغام کا انکار کیا بلکہ آپﷺ کے پیچھے شہر کے اوباش اور شرارتی لڑکے لگا دیے جنہوں نے آپﷺ کو پتھر مار مار کرلہو لہان کردیا۔ لیکن اس موقعہ پربھی وہ اولوالعزم رسولؐ،اللہ تعالیٰ کے حضورجو دعا کرتے ہیں وہ ہم سب کے لیےاسوہ حسنہ ہے۔دشمن کی طرف سے اس شدید تکلیف کے پہنچنے پر بھی کوئی شکوہ کرنے کے بجائے آپﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ہی کمزوری اور ضعف کی فریاد کرتےہوئے نظر آتے ہیں۔(تلخیص از البدایہ والنھایہ جزء ۳ صفحہ ۳۸۱ )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’چنانچہ آپ زید بن حارث کو اپنے ساتھ لے کر طائف کو چلے۔تقدیر کی بات ہے وہاں کے لوگ آپ کی وعظ سے ایسے برافروختہ ہوئے کہ انہوں نے آپ کو وہاں ٹھہرنے تک کی اجازت نہ دی اور پتھر روڑے اور اینٹیں مار مارکر اور لڑکے پیچھے لگاکر اسی وقت شہر سے نکال دیا۔آپ کے پاؤں ٹخنے پنڈلیاں پتھروں سے زخمی ہوگئیں۔پنڈلیوں کا خون پونچھتے جاتے تھے اور آبدیدہ ہوکر اپنے خدا کی درگاہ میں نہایت عاجزی سے دعا کرنے لگے۔کہ اے خداوند ! میں اپنے ضعف و ناتوانی اور مصیبت اور پریشانی کاحال تیرے سوا کس سے کہوں مجھ میں صبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔میں سب لوگوں میں ذلیل اور رُسوا ہوگیا ہوں تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما‘‘۔ (چشمہٴ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۶۲)
خدائے عزّوجلّ نے آپ کی اس درد بھری فریاد کواس طرح شرف قبولیت بخشا کہ فوراً پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس بھیجا کہ اگر نبی کریمﷺ اجازت دیں تو اس ظالم بستی کے لوگوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ملیا میٹ کر دیا جائے۔لیکن ایسے نازک لمحہ میں بھی رحمۃ للعالمینؐ کے دل میں اس قوم کے لیے ایک غیر معمولی محبت اور پیار کا جذبہ پیدا ہوتا ہےاور ان کے حق میں یوں دعا کرتے ہیں کہ نہیں…نہیں!ان لوگوں کو تباہ نہیں کرنا۔مجھے یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والے ہوں گے۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر ۳۲۳۱)اور نہایت درد کے ساتھ آپﷺ نے دعا کی۔اللّٰہُمَّ اھْدِقَوْمِیْ فَانَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ۔اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت نصیب کر کہ یہ نادان ہیں۔(نورالیقین فی سیرۃ سید المرسلین از ڈاکٹر خضری واقعہ سفر طائف مطبوعہ دمشق صفحہ ۶۱)
اور ہم سب جانتے ہیں کہ پھر بالآخر ایسا ہی ہوا،مکہ فتح ہوا تو جہاں قریش مکہ آپ کی سچائی کے قائل ہوگئے، وہیں طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی اُسی پاک نبی کی غلامی میں آگئے جس پر کل تک وہ پتھر برسا رہے تھے۔
غلام کو تبلیغِ اسلام
طائف سے نکلنے کے بعد کچھ فاصلہ پر مکہ کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں رسول کریمﷺ نے پناہ لی۔عتبہ اور شیبہ دونوں بھائی اس وقت وہاں موجود تھے۔انہوں نے جب آپﷺ کو اس زخمی حالت میں دیکھا تو مخالفت کے باوجود ان کےدل میں بھی آپﷺ کے لیے رحم پیدا ہوا اور فوراً اپنے ایک غلام عداس کو انگور دے کر آپﷺ کی طرف بھجوایا۔ عداس نے آپﷺ کی خدمت میں انگور پیش کیےاور اپنا تعارف کروایا کہ وہ نینوا کے رہنے والے ہیں اور مذہباً عیسائی ہیں۔اس پر رسول کریمﷺ نے پوچھاکیا وہی نینوا جہاں ایک صالح بھائی یونس بن متی رہا کرتے تھے؟عداس نے جب حضرت یونسؑ کا نام سنا تو بولے :آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟ آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ تو میرے بھائی تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔اس کے بعد آپﷺ نے انہیں اسلام کی تبلیغ کی۔ان مبارک باتوں کا اس غلام پر ایسا اثر ہوا کہ محبت سے آگے بڑھے اور آپﷺ کے ہاتھ چوم لیے۔ عتبہ اور شیبہ دُور بیٹھے یہ سب نظارہ دیکھ رہے تھے۔جب عداس واپس آئے تو انہوں نے ان سے کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہےتم اس کے ہاتھ کیوں چوم رہے تھے؟ یہ تو تمہارے دین میں بگاڑپیدا کردے گا لیکن عداس نے ان باتوں کی کوئی بھی پرواہ نہیں کی۔ ان واقعات کو پڑھ کر رسول کریمﷺ کے عظیم اسوہ پر روشنی پڑتی ہے۔وہ نبی ایسی حالت میں بھی کہ زخموں سے چور تھے، تبلیغ اسلام کے مشن سے رکے نہیں بلکہ جہاں بھی موقع ملا اس الٰہی پیغام کو پھیلانے کی کاوش کو جاری رکھا۔(مختص از المواھب الدنیا جزء اول طبع مصرصفحہ ۱۵۹)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول کریمﷺ کی نسبت آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ طائف میں تشریف لے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور آپ واپس آگئے۔ آتے ہوئے رستہ میں ایک جگہ سستانے لگے۔ باغ والے نے اپنے غلام کے ہاتھ کچھ میوہ آپ کے لیے بھیجا۔ آپ نے میوہ کی طرف تو کم ہی توجہ کی اس غلام ہی کو تبلیغ کرنے لگ گئے اور آپ کا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپ وہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے۔ حج کے لیے جو لوگ آتے ان کے خیموں میں تشریف لے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے اور اس طرح نہیں کہ کوئی مل گیا تو اسے تبلیغ کر دی بلکہ آپ تلاش کرتے پھرتے اور ڈھونڈ کر انہیں حق پہنچاتے جس طرح ماں باپ بچے کو تلاش کر کر کے کھلاتے پلاتے ہیں کہ بھوکا نہ رہ جائے‘‘۔ (سیرۃ النبیؐ از حضرت مصلح موعودؓ جلد ۲ صفحات ۱۳۶۔۱۳۷)
نبی کریمﷺ کی اس عظیم ہمت اور دلیری کا توغیر مسلم بھی اعتراف کرتے ہیں۔چنانچہ مشہور مستشرق سر ولیم میور اس واقعہ کے حوالہ سے یوں لکھتے ہیں:
‘There is something lofty and heroic in this journey of Mohammad to At-Ta’if; a solitary man, despised and rejected by his own people, going boldly forth in the name of God, like Jonah to Nineveh’.
محمدﷺ کے سفرِطائف میں ہمیں عالی حوصلہ اور بہادری کی مثال ملتی ہے۔وہ تنہا شخص،جسےاس کے اپنے لوگوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر بڑی دلیری کے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے جس طرح یونسؑ نینوا کی طرف گئے تھے۔
(Life of Muhammad by William Muir Page no. 112)
رسول کریمﷺ طائف سے واپس مکہ تشریف لا رہے تھے۔چونکہ آپ ایک مرتبہ مکہ سے باہر تشریف لے گئے تھے اوراس وقت رائج مکہ کے قانون کے مطابق آپ اسی وقت شہر میں داخل ہو سکتے تھے جب وہاں کا کوئی رئیس آپ کو پناہ دے۔اس پر رسول کریمﷺ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں مکہ والوں میں سے مطعم بن عدی کو جانتا ہوں کہ وہ شریف النفس انسان ہے،پس تم اس کے پاس جاؤ اور مکہ میں پناہ کے بارہ میں پوچھو۔ مطعم بن عدی وہی شخص تھے جومسلمانوں کو بائیکاٹ سے رہائی دلوانے کے لیے بڑی کوششیں کرتے رہے تھے۔چنانچہ حضرت زیدؓ نے جب انہیں یہ پیغام دیا تو مطعم بن عدی اُسی وقت اپنے بیٹوں کو لے کر نکلے اور مکہ میں عام اعلان کیا کہ محمد ؐکومیں پناہ دیتا ہوں۔ رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے۔مطعم بن عدی نے آپﷺ سے کہا آئیے اور ہمارے آگے آگے چلیے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اگر کسی نے آپ کو ذرا بھی تنگ کیا تو ہم ضرور اُس کی خبر لیں گے۔ چنانچہ وہ رسول کریمﷺ کو اپنے بیٹوں کی حفاظت میں آپ کے گھر چھوڑکر آئے۔(طبقات ابن سعدالعلمیہ جلد۱ صفحہ۱۶۵ مطبوعہ بیروت۱۹۹۰ء)
جنات کا وفد
سفرِطائف سے واپسی پر جنات کی آمد کا ایک عجیب واقعہ بھی رونما ہوا جنہوں نے رسول کریمﷺ سے قرآن کریم کی تلاوت سنی۔اس واقعہ کے حوالے سے روایات میں کافی اختلاف پایا جاتا ہےاور اس مخفی مخلوق کے بارے میں تو یوں بھی عموماً دنیا میں عجیب و غریب عقائد اور قصے سننے کو ملتے ہیں۔عام طور پر یہ خیال مشہور ہے کہ جن ایسے وجود ہوتے ہیں جو انسانوں سے چمٹ کر انہیں مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر اثر ڈالتے ہیں، ان سے مختلف کام کرواتے ہیں اور انسان کو اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک انہیں جسم سے باہر نہ نکال دیا جائے۔ عوام الناس میں پائے جانے والے یہ عقائد ان الفاظ کے ظاہری معنی لینے کی وجہ سے راہ پا گئے ہیں اور اس لفظ کے استعمال اوراستعارے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسی عجیب و غریب کہانیاں لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر گئی ہیں جو محض توہمات پر مشتمل ہیں۔یہ خیال کہ کوئی ایسی چیزموجود ہے جو انسان کے پیچھے لگ کر اس کی قسمت کو خراب کرسکتی ہے قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔قرآن کریم تو کہتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ان کو بھی عام لوگوں کی طرح خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم ہے۔جیسا کہ فرمایا:وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(الذاریات:۵۷)اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔پس جبکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ انسانوں پر اپنا قبضہ کر کے ان کی قسمت کو خراب کرسکیں۔پس ضروری ہے کہ جنات کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اورنام نہاد پیروں فقیروں کی طرف سے بنائے گئے من گھڑت قصوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان نہ لایا جائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اگر ایسے کوئی جنّ ہوتے تو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ وہ وجود باجود تھے جن کی ان جنّات کو لازماً مدد اور آپ کے دشمنوں کے سروں پر چڑھ کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی سعی کرنی چاہیے تھی، خصوصاً جبکہ قرآن و حدیث میں آپﷺ پر ایک قسم کے جنوّں کے ایمان لانے کا ذکربھی موجود ہے۔ پس عملاً ایسا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان تصوراتی جنّوں کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں‘‘۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍جون ۲۰۲۱ءصفحہ ۱۱تا۱۳)
عربی زبان میں جن کا لفظ(ج ن ن ) سے نکلا ہے اور لغت میں اس کے معانی کسی چیز کے پوشیدہ ہونے، چھپنےیا پردہ میں رہنے کے ہیں اور جو بھی لفظ اس مصدر سے نکلے اس کے اندر یہی مفہوم پایا جائے گا۔چنانچہ ہم سب جنت کے لفظ سے واقف ہیں،وہ بھی اسی بنیاد سے نکلا ہے جس کے معانی ہیں ایسی جگہ جہاں درخت زمین کو اپنے سایہ میں چھپالے، یا ایسی جگہ جو ہماری نظروں سے مکمل پوشیدہ ہو۔ اسی مادے سے بننے والا ایک لفظ جنون ہے یعنی جب عقل پر پردہ پڑ جائے اور انسان دیوانہ ہو جائے۔ پھر اسی طرح جَنَان عربی میں دل کو کہتے ہیں جو سینے کےاندرمخفی ہوتا ہے۔جن کا لفظ عام انسانوں کے مقابل پر قوم کے امراء کے لیے بھی مستعمل ہے جو عموماً لوگوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور اپنی زندگی الگ گزارتے ہیں۔پھر لفظ جنین اس بچے کے لیے بولا جاتا ہے جو ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔ اس کی جمع أَجِنَّةٌ ہے،یہ لفظ قرآن کریم میں سورۃ النجم میں یوں آیا ہے:وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِيْ بُطُوْنِ أُمَّهَاتِكُمْ۔(النجم:۳۳)جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پوشیدہ تھے۔
اور جن ہونے کی اس کیفیت سے تو ہر انسان ہی گزرتا ہے۔پس اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جن کی کوئی ایسی علیحدہ حیثیت نہیں ہے جو بھوت پریت کی صورت میں انسانوں پراپنا تسلط قائم کرسکتی ہو اور اس طرح کے تمام عقائد وہم سے تعلق رکھتے ہیں۔
جن کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہ سوال بھی باآسانی حل ہوجاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی خدمت اقدس میں جنات کا جو وفد آیا تھااس سے کیا مراد ہوسکتی ہے۔چنانچہ طائف سے واپسی پر رسول کریمﷺ جب نخلہ کے مقام پرپہنچے تو وہاں ایک رات قیام فرمایا۔ رات کے نصف حصہ میں آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایسے میں وہاں سے سات جنوں ( یعنی پوشیدہ اور اجنبی لوگوں) کا گزر ہوا۔یہ نصیبین کے رہنے والے تھے جوملک شام میں واقع ہے۔انہوں نے آپﷺ کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے سنا اور جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ اپنی قوم کی طرف روانہ ہوگئے۔ نبی کریمﷺ سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی آپﷺ کو بعد میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ یہ جنات ( اجنبی لوگ ) نماز کے دوران آپ کی تلاوت سنتے رہے ہیں۔تلاوت سننے کے بعد یہ سب آپ پرایمان لے آئے ہیں اور اپنی قوم کو بھی اسلام کی دعوت دےچکے ہیں۔ قرآن کریم اس واقعہ کو سورۃ الجن کی ابتدائی آیات میں یوں بیان کرتا ہے: قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَلَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا۔ تُو کہہ دے میری طرف وحی کیا گیا ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن کو) توجہ سے سُنا تو اُنہوں نے کہا یقیناً ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو بھلائی کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ پس ہم اُس پر ایمان لے آئے۔ اور ہم ہرگز کسی کو اپنے ربّ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
چونکہ وہ رسول کریمﷺ سے ملے نہیں تھے،غیر قوم سے ان کا تعلق تھااور مخفی طور پر آپﷺ کی تلاوت سن کر چلے گئے اس لحاظ سے ان لوگوں کو جنات کہا گیا ہےتاہم وہ کوئی غیر معمولی مخلوق نہیں تھے بلکہ پوشیدہ اور اجنبی ہونے کے لحاظ سے انہیں یہ خطاب دیا گیا ہے۔
اس واقعہ کے علاوہ اور بھی کئی واقعات جنات کے حوالے سے ہمیں رسول کریمﷺ کی زندگی میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔قرآن کریم بھی مختلف مقامات پر ان وفود کا ذکر کرتا ہے۔ایک جنات کا وفد جو رسول کریمﷺ سے ملے بھی تھے اور آپ پر ایمان بھی لائے تھے ا ن کا بیان سورۃ الاحقاف میں موجود ہےاور انہیں بھی غیر قوم ہونے کے لحاظ سے جنات کہا گیاہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں رسول کریمﷺ کے آنے کی خبردنیا پر ظاہر کرنے کے لیےاللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی قسم کے نشانات زمین و آسمان پر ظاہرہورہے تھےاوران نشانات کا کھوج لگاتے ہوئے مختلف اجنبی اقوام کے لوگ مکہ آتے اور رسول کریمﷺ اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم پر ایمان بھی لے آتے تھے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ان عظیم الشان آسمانی نشانات میں سے معجزہ شق قمراور شہب ثاقبہ کا نشان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہےکیونکہ ہر مذہب کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات جمی ہوئی تھی کہ جب اس کثرت سے آسمان پر ستارے ٹوٹتے ہیں تو ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کا وقت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اقدس مسیح موعود ؑکو مبعوث فرمایا توہزار وں زمینی گواہیوں کے ساتھ ساتھ سورج چاند گرہن اور کثرت کے ساتھ شہاب ثاقب گرنے کے نشانات بھی آسمان پر ظاہر ہوئے تاکہ لوگوں کی ہدایت کا موجب بن سکیں۔
چنانچہ ۲۸؍نومبر ۱۸۸۵ء کی رات آسمان پر کثرت کے ساتھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے نظر آئے۔یہ ایک غیر معمولی منظر تھا جس کا اُس وقت کے لوگوں نے مشاہدہ کیا۔حضرت مسیح موعودؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں: ’’یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو ۲۸؍نومبر۱۸۸۵ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا۔لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اُس سے حظّ اور لذت اٹھانے والا مَیں ہی تھا۔میری آنکھیں بہت دیر تک اِس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔جس کو مَیں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہامًا ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لیے نشان ظاہر ہوا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحات ۱۱۰۔۱۱۱ حاشیہ)
مزید پڑھیں: دعوت الی اللہ اور تبلیغ بھی نیکی ہے