خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ دسمبر۲۰۲۴ء

٭… پانچ بدیاں ایسی ہیں جن کے متعلق مَیں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ کبھی میری اُمّت میں پیدا ہوں کیونکہ وہ جس قوم میں رونما ہوتی ہیں اُسے تباہ کر کے چھوڑتی ہیں

٭…آنحضرتؐ کی یہ زرّیں تقریر قوموں کی ترقی و تنزل کے اسباب پر بہترین تبصرہ ہے اور اگر مسلمان چاہیں تو اِن کے لیے موجودہ زمانے میں بھی یہ ایک بہترین سبق ہے
کاش! کہ مسلمان اِس پر غور کریں

٭… قادیان میں رہنے والی نئی نسل اپنے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے وفا اور اخلاص سے اپنی زندگیاں گزاریں

٭… مکرم طیّب علی صاحب بنگالی درویش قادیان، مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان اورمکرم اکمورات خاکیئف صاحب نیشنل صدر جماعت ترکمانستان کا ذکر خیر اور نمازہ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍ دسمبر۲۰۲۴ء بمطابق ۲۷؍فتح۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۷؍ دسمبر۲۰۲۴ء مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ

آج بھی بعض سرایا کا ذکر کروں گا۔

تاریخ میں ایک سریّہ کا ذکر ملتا ہے، جو سریّہ زیدبن حارثہ ؓکہلاتا ہے، یہ سریّہ جمادی الآخرة ۶؍ہجری کو بنو جذام کی جانب حسمیٰ میں ہوا۔حسمیٰ بنو جذام کا ایک شہر تھا اور مدینہ سے آٹھ راتوں کی مسافت پر واقع تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اِس سریہّ کی تاریخ کے متعلق ایک اشکال ہے، جس کا ذکر ضروری ہے۔ ابنِ سعد اور اِس کی اتّباع میں دیگر اہلِ سیر نے اِس سریّہ کی تاریخ جمادی الآخرۃ ۶؍ہجری لکھی ہے اور اِسی کو صحیح قرار دیا ہے مگر علامہ ابنِ قیّم نے زاد المعاد میں تصریح کی ہے کہ یہ سریہ ۷؍ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد ہوا تھا۔ اور غالبا ًابنِ قیّم کے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اِس سریّہ کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دِحْیَہ کلبی قیصر سے مل کر مدینہ کو واپس آرہے تھے کہ اُنہیں راستہ میں بنو جذام نے لوٹ لیا اور یہ مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو قیصر کی طرف خط دے کر صلح حدیبیہ کے بعد بھجوایا تھا اِس لیے یہ واقعہ کسی صورت میں حدیبیہ سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ یہ دلیل اپنی ذات میں بالکل صاف اور واضح ہے اور اِس کی روشنی میں ابنِ سعد کی روایت یقیناً قابلِ ردّ قرار پاتی ہے مگر خاکسار کی رائے میں ایک توجیہ ایسی ہے جسے علامہ ابنِ قیّم نے نظر انداز کر دیا ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے کہ قیصر کی ملاقات کے لیے دِحْیَہ شام میں دو دفعہ گئے ہوں۔یعنی پہلی دفعہ وہ صلح حدیبیہ سے قبل از خود تجارتی غرض کےلیے گئے ہوں اور قیصر سے بھی ملے ہوں اور دوسری دفعہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر گئے ہوں۔ اِس توجیہ کی تائید اِس طرح بھی ہوتی ہے کہ ابنِ اسحٰق نے لکھا ہے کہ اِس سفر میں دِحْیَہ کے پاس تجارتی سامان تھا اور صلح حدیبیہ کے بعد والے سفر میں بظاہر تجارتی سامان کا تعلق نظر نہیں آتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دحیہ کا یہ سفر محض تجارتی غرض سے ہو اور ابنِ سعد کے راوی نے اِس کے دوسرے سفر کے ساتھ اِس سفر کو خلط کر کے قیصر کی ملاقات اور خلعت کے ذکر کو قیاساً شامل کر لیا ہو۔ واللہ اعلم!

پھر سریّہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ذکر ملتا ہے،

یہ سریّہ شعبان ۶؍ہجری کو دومۃ الجندل کی جانب ہوا۔اِس کی تفصیل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ اِس سریّہ کی تیاری اور روانگی کے متعلق ابن اسحٰق نے عبداللہ ابنِ عمرؓسے یہ دلچسپ روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ جب ہم چند لوگ جن میں حضرت ابوبکرؓاور عمرؓاور عثمانؓ اور علیؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی شامل تھے۔ آنحضرتؐ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ایک انصاری نوجوان نے حاضر ہو کر آپؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہؐ ! مومنوں میں سے سب سے افضل کون ہے؟

آپؐ نے فرمایا: وہ جو اخلاق میں سب سے افضل ہے۔ اُس نے کہا اور یا رسول اللہؐ ! سب سے زیادہ متّقی کون ہے ؟آپؐ نے فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یا د رکھتا اور اِس کے لیے وقت سے پہلے تیاری کرتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ تیاری کیا ہے کہ الله تعالیٰ کا خوف ہو، اُس کاحق ادا کیا جائے اور اُس کے حکموں پر عمل کیا جائے۔ یہ ہے موت کی تیاری۔

اِس پر وہ انصاری نوجوان خاموش ہو گیا اور آپؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا

اَے مہاجرین کے گروہ! پانچ بدیاں ایسی ہیں جن کے متعلق مَیں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ کبھی میری اُمّت میں پیدا ہوں کیونکہ وہ جس قوم میں رونما ہوتی ہیں اُسے تباہ کر کے چھوڑتی ہیں۔

اوّل یہ کہ

کبھی کسی قوم میں فاحشاء اور بدکاری نہیں پھیلی اِس حدّ تک کہ وہ اُسے بر ملا کرنے لگ جائیں کہ اِس کے نتیجے میں ایسی بیماریاں اور وبائیں نہ ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہوں جواِن سے پہلے لوگوں میں نہیں تھیں۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ آجکل دنیا میں تو یہ ہم عام دیکھتے ہیں۔ آنحضرتؐ نے اِس سے پناہ مانگی۔ مسلمانوں کو اِس پر خاص طور پر غور کرنا چاہیے۔دوم

کبھی کسی قوم میں تول اور ناپ میں بد دیانتی کرنے کی بدی نہیں پیدا ہوئی کہ اِس کے نتیجہ میں اِس قوم پر قحط اور محنت اور شدّت اور حاکمِ وقت کے ظلم وستم کی مصیبت نازل نہ ہوئی ہو۔

حضورِ انور نے فرمایا: اِس پر بھی بہت غور کی ضرورت ہے۔یہ تو مسلمانوں میں بھی بہت زیادہ بددیانتی پیدا ہو چکی ہے۔

کاش! کہ وہ اِس کو سمجھیں اور احمدیوں کو بھی خاص طور پر اِس طرف توجہ دینی چاہیے۔

سوم

کبھی کسی قوم نے زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی میں سستی و غفلت نہیں اختیار کی کہ اِس کے نتیجے میں اِن پر بارشوں کی کمی نہ ہو گئی ہو۔ حتّیٰ کہ اگر خدا کو اپنے پیدا کردہ جانوروں اور مویشیوں کا خیال نہ ہو تو ایسی قوم پر بارشوں کا سلسلہ بالکل ہی بند ہو جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا: یہ بھی الله تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے۔ اِس سے بھی پناہ مانگنی چاہیے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: پناہ مانگو، مَیں بھی مانگتا ہوں۔

چہارم

کبھی کسی قوم نے خدا اور اُس کے رسول کے عہد کو نہیں تو ڑا کہ اِن پر کوئی غیرقوم اِن کے دشمنوں میں سے مسلط نہ کر دی گئی ہو جو اِن کے حقوق کو غصب کرنے لگ جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا:یہ آجکل مسلمانوں کی جو حالت ہے اُس سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے عہد کو توڑنے والے ہیں۔ الله تعالیٰ رحم کرے اور اِن کو سمجھ دے۔پنجم

کبھی کسی قوم کے علماء اور ائمہ نے خلافِ شریعت فتوے دے دے کر شریعت کو اپنے مطلب کے مطابق نہیں بگاڑنا چاہا کہ اِن کے درمیان اندرونی لڑائی اور جھگڑوں کا سلسلہ شروع نہ ہو گیا ہو۔

حضورِ انور نے فرمایا:یہ بھی اب مسلمانوں میں فرقہ بندی میں عام نظر آتا ہے۔

جن چیزوں سے آنحضرتؐ نے پناہ مانگی تھی، وہی ہمیں آجکل مسلمانوں میں نظر آرہی ہیں، الله تعالیٰ رحم کرے۔آنحضرتؐ کی یہ زرّیں تقریر قوموں کی ترقی و تنزل کے اسباب پر بہترین تبصرہ ہے اور اگر مسلمان چاہیں تو اِن کے لیے موجودہ زمانے میں بھی یہ ایک بہترین سبق ہے۔ کاش! کہ مسلمان اِس پر غور کریں۔
پھر سریّہ حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ، جو فدک کی طرف گیا، اِس کا ذکر ملتا ہے۔

یہ سریّہ شعبان ۶؍ہجری کو ہوا۔ رسول اللهؐ نے حضرت علیؓ  کو سو آدمیوں کے ساتھ فدک میں بنو سعد بن بکر کی طرف بھیجا۔ سات ہجری میں غزوۂ خیبر کے موقع پر یہ علاقہ جنگ کے بغیرفتح ہوا تھا۔رسول اللهؐ  کو یہ خبر پہنچی کہ دشمنوں نے ایک لشکر جمع کر رکھا ہے اور وہ خیبر کے یہود کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ اِس کی اطلاع کے ملتے ہی

آنحضرتؐ نے حضرت علیؓ  کی کمان میں صحابہؓ  کا ایک دستہ روانہ فرمایا

جو دن کو چھپتے اور رات کو سفر کرتے ہوئے فدک کے پاس پہنچ گئے،جس کے قریب یہ لوگ جمع ہو رہے تھے۔یہاں مسلمانوں کو ایک بدوی شخص ملا جو بنو سعد کا جاسوس تھا، حضرت علیؓ نے اُسے پکڑ کر قید کر لیا اور اِس سے بنو سعد اور اہلِ خیبر کے حالات دریافت کیے۔ پہلے تو اُس نے بالکل لا علمی اور بے تعلقی کا اظہار کیا مگر آخر وعدہ معافی لے کر اُس نے سارا راز کھول دیا اور پھر مسلمان لوگ اِس شخص کو اپنا گائیڈ بنا کر اُس جگہ کی طرف بڑھے جہاں بنو سعد جمع ہورہے تھے اور اچانک حملہ کر دیا۔ اِس اچانک حملےکی وجہ سے بنو سعد گھبرا کر میدان سے بھاگ نکلے اور حضرت علیؓ مالِ غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس لَوٹ آئے اور اِس طرح یہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا۔

پھر سریّہ حضرت ابوبکرؓ  کا ذکر ملتاہے

جو بنو فزارہ کی طرف تھا، یہ سریّہ ۶؍ہجری میں ہوا۔بنو فزارہ نجد میں وادی القریٰ میں آباد تھے۔ الطبقات الکبریٰ اور سیرت ابنِ ہشام میں لکھا ہے کہ یہ سریّہ حضرت زید بن حارثہؓ  کی کمان میں بھیجا گیا تھا۔ لیکن صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکرؓ  کو اِس سریّہ کا امیر مقر ر فرمایا تھا۔ اِس سریّہ میں مسلمانوں کا شعار اَمِتْ اَمِتْ تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اِس دن اپنے ہاتھ سےسات آدمیوں کو قتل کیا۔ایک روایت کے مطابق نو آدمیوں کو قتل کیا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے درج ذیل تین مرحومین کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئےاُن کی بلندیٔ درجات اور مغفرت کے لیے دعا کی نیز اِن کی نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔مکرم طیّب علی صاحب بنگالی درویش قادیان۔مورخہ ۱۱؍دسمبر ۲۰۲۴ء کو ستانوے سال کی عمر میں اِنہوں نے وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔۱۹۴۲ء میں آپ کو ڈھاکہ میں باقاعدہ بیعت فارم پُر کر کے بیعت کی توفیق ملی۔ ۱۹۴۵ء میں پہلی بار جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوئے اور حضرت مصلح موعودؓ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے مطابق تقسیمِ ملک کے وقت تین سو تیرہ درویش قادیان میں مقیم رہے، آپ اِن میں سے آخری تھے، جن کی وفات ہو گئی ہے۔ اب قادیان میں مزید کوئی درویش نہیں رہا اور قادیان کا یہ پہلا جلسہ ہے جو کسی درویش کے بغیر ہو رہا ہے، آج سے شروع ہے۔

اب قادیان میں رہنے والی نئی نسل کا کام ہے کہ اپنے اِن قربانی کرنے والے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے وفا اور اخلاص سے قادیان میں اپنی زندگیاں گزاریں۔ الله تعالیٰ اِن کو توفیق بھی دے۔

۲۔ مرزا محمد الدین ناز صاحب ابن مرزا احمد دین صاحب (صدر صدر انجمنِ احمدیہ ربوہ پاکستان)گذشتہ دنوں اِن کی وفات ہوئی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔الله تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ خاندان میں احمدیت کا نفوذ والد صاحب کے ذریعہ ہوا جو ایک احمدی پٹواری حشمت الله صاحب کی تبلیغ سے ۱۹۴۲ء میں احمدی ہوئے۔ مرحوم نے بی اے کیا، کچھ عرصہ باہر نوکری بھی کرتے رہے، پھر ۱۹۶۵ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ پاس کرنے کے بعد پہلی تقرری وہیں فیلڈ میں ہوئی۔ پھر اِن کو استاد جامعہ مقرر کیا گیا، صَرف و نحو پڑھاتے تھے۔ جامعہ میں نائب پرنسپل کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ ۳۷؍ سال آپ نے جامعہ میں خدمت کی توفیق پائی۔ پھر اِن کا تقرر بطور ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن و وَقفِ عارضی ہوا۔ ۲۰۱۸ء میں اِن کو مَیں نے صدر صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا اور آخری سانس تک اِسی عہدہ پر یہ قائم رہے۔خدام الاحمدیہ اور انصار الله میں بھی اِن کو مرکزی طور پر کافی خدمات کی توفیق ملی۔انصار الله میں صفِ دوم کے صدر بھی رہے۔ ماہنامہ خالد اور ماہنامہ انصار الله کےایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۹۴ء میں قریباً ایک مہینہ سے زائد اِن کو اسیرِ راہِ مولیٰ ہونے کی بھی سعادت ملی۔ اِن کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ اِن کی ساری زندگی کا نچوڑ یہ تھا(اور مَیں اِس بات پر گواہ ہوں) کہ محبّت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں۔ بہت خوبیوں کے مالک تھے، اپنا وقف نبھانے کا اِنہوں نے حق ادا کیا، خلافت سے بےانتہا اخلاص و وَفا کا تعلق تھا۔

۳۔مکرم اکمورات خاکیئف صاحب( نیشنل صدر جماعت ترکمانستان )۔اِن کی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔مکرم راویل بخاری صاحب اور مکرم ڈاکٹرعبدالعلیم صاحب کی مشترکہ تبلیغ سے وہ دل میں احمدی ہو چکے تھے لیکن بیعت نہیں کی تھی۔ ۲۰۱۰ء میں پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئے اور یہاں مجھے ملے اور اُس کے بعد عالمی بیعت میں حصّہ لیا اور اِس بات پر خوش تھے کہ مَیں خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بیعت کر آیا ہوں۔ چند سال قبل اِنہوں نے ترکمانی زبان میں ترجمۃ القرآن کا کام شروع کیا اور گذشتہ سال مکمل کر لیا تھا۔ مرحوم نہ صرف ترکمانستان سے پہلے احمدی بلکہ اپنی وفات تک بطورِ صدر جماعت ِاحمدیہ ترکمانستان خدمت کی توفیق پانے والے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button