حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جماعت کے عہدے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودیکم جون۲۰۱۲ء)

مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ غیروں کو، غیرمسلموں کو جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو مَیں اُن کے سامنے اسلام کی یہ خوبی رکھتا ہوں کہ تمہارا جو دنیاوی نظام ہے، بعض حقوق کا تعین کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے حقوق ہیں اور یہ ہمیں دو ورنہ طاقت کا استعمال ہو گا۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن حقوق کو بیان فرما دیا جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ادا کرنے چاہئیں۔ پس یہ فرق ہے دنیاوی نظاموں میں اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں۔ دنیاوی نظام اکثر اوقات حقوق حاصل کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ اس کے لئے بعض اوقات ناجائز طریق بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ مومنوں کو کہتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو، اگر میری رضا کے طلبگار ہو تو نہ صرف یہ کہ کسی مطالبے پر حقوق ادا کرو بلکہ حقوق کی ادائیگی پر نظر رکھ کر حقوق ادا کرو۔ اور انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق ادا کرو۔ انسانی ہمدردی کے جذبے سے یہ حقوق اداکرو۔

اب دیکھیں اگریہ جذبہ ہمدردی ہر احمدی میں پیدا ہو جائے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جماعت میں جھگڑوں اور مسائل کا سامنا ہو۔ نظامِ جماعت کے سامنے مسائل پیدا کئے جائیں۔ خلیفۂ وقت کا بہت سا وقت جو ایسے مسائل کو نپٹانے، یا مہینہ میں کم از کم سینکڑوں خطوط اس نوعیت کے پڑھنے اور اُن کا جواب دینے یا اُنہیں متعلقہ شعبے کو مارک کرنے میں خرچ ہوتا ہے وہ کسی اور تعمیری کام میں خرچ ہو جائے جو جماعت کے لئے مفید بھی ہو۔ خلیفہ وقت کے پاس جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اُس نے تو ایسے معاملات کو بہر حال دیکھنا ہی ہے۔ انتظامی بہتری کے لئے بھی دیکھنا ہے۔ اصلاح کے لئے بھی اور ہمدردی کے جذبے کے تحت بھی کہ کہیں کوئی احمدی خود غرضی میں پڑ کر اپنے حقوق کی فکر کرکے اور دوسرے کے حقوق مار کر ابتلاء میں نہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بن جائے یا کسی ظلم اور زیادتی کا نشانہ کوئی مظلوم نہ بن جائے۔

بعض مرتبہ ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں کہ لوگ فیصلہ کو مانتے نہیں۔ جماعتی فیصلہ یا خلیفہ وقت کے فیصلہ کو مانتے نہیں ہیں۔ مشورے کو مانتے نہیں ہیں۔ سمجھانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ہٹ دھرمی اور ضد دکھاتے ہیں۔ اُن کو پھر سختی سے جواب دینا پڑتا ہے۔ اور میں بعض اوقات ایسے لوگوں کو جواب دیتا ہوں کہ پھر ٹھیک ہے، اگر تم یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں تو پھر جماعت بھی تمہارے معاملات سے کوئی تعلق نہیں رکھے گی یا بعض دفعہ سختی بھی کی جاتی ہے اور سزا بھی دی جاتی ہے لیکن جذبہ ہمدردی ایسے لوگوں کے لئے دعا پر بھی مجبور کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور یہ دنیاوی معاملات کی وجہ سے دین کو پس پشت ڈال کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جویہ فرمایا ہے کہ ’’ناجائز تکلیف نہیں دے گا‘‘ اس سے یہی مراد ہے کہ بعض اوقات معاملات میں دوسرے کوتکلیف تو پہنچ سکتی ہے اور وہ جائز ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا ایک تو مطلب یہی ہے کہ جان بوجھ کر اور ارادۃً کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ کبھی ارادۃً کسی کی تکلیف کا باعث نہ بنے اور کبھی بننابھی نہیں چاہئے۔ دوسرے یہ کہ بعض اوقات بامر مجبوری بعض ایسے اقدام جو نظامِ جماعت کو یا خلیفۂ وقت کو کرنے پڑتے ہیں جو دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں لیکن یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے۔ یہ تکلیف اصلاح کی غرض سے دی جاتی ہے اور یہ ناجائز نہیں ہوتی۔ لیکن اس صورت میں بھی ہمدردی کے جذبہ کے تحت جس کو کسی سزا یا تکلیف سے گزرنا پڑ رہا ہو اُس کے لئے دعا ضرور کرنی چاہئے۔ اور خلیفہ وقت کو تو سب سے زیادہ ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہیں مجھ سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی، کہیں میں جان بوجھ کر جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے صلاحیت دی ہے اُس کے مطابق کسی سے بے انصافی کا باعث تو نہیں بن رہا۔ میرے کسی عمل سے کسی کے گھر کا ناجائز طور پر سکون تو بربادنہیں ہورہا؟ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے کہ اُس سے ہمدردی کا اظہار ہو، اُس کی بہتری کے سامان کئے جائیں، اس کی اصلاح کی صورت ہو۔ یہ انصاف اور ہمدردی کے تقاضے ہیں جو خلیفہ وقت نے پورے کرنے ہوتے ہیں اور ظاہری اسباب کو سامنے رکھتے ہوئے خلیفہ وقت کا کام ہے کہ یہ تقاضے پورے کرے۔ اور پھر جو نظامِ جماعت ہے، جو عہدیدار ہیں، جو خلیفہ ٔوقت کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں، اُن کا کام ہے کہ اس انصاف اور ہمدردی کے جذبے سے اپنے کام سرانجام دیں۔ جو ایسا نہیں کرتے، جان بوجھ کر اپنی ذمہ داری کا حق ادا نہیں کرتے، وہ امانت میں خیانت کرنے والے ہیں اور یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے۔

پس عہدیداران کے لئے بھی بڑے خوف کا مقام ہے۔ جماعت کے عہدے دنیاوی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ اس جذبے کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہم نے ایک پوزیشن میں آ کر پہلے سے بڑھ کر افرادِ جماعت کی خدمت کرنی ہے اور اُن سے ہمدردی کرنی ہے اور اُن کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی ہیں اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تا کہ جماعت کے مضبوط بندھن قائم ہوں اور جماعت کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو۔ پس یہ ہمدردی کا جذبہ ہر عہدیدار میں پیدا ہونا چاہئے۔ ہر جماعتی کارکن میں پیدا ہونا چاہئے۔ جب عہدیداران کے اپنے نمونے قائم ہوں گے تو پھر ہی عہدیدار بھی اپنی خدمات کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۳۶۲ اشتہار’’التوائے جلسہ ۲۷؍دسمبر۱۸۹۳ء‘‘ اشتہار نمبر۱۱۷)

یعنی قوم کے خادم بنیں گے توپھر بزرگی اور سرداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ سَیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ۔ (کنزالعمال فی سنن الاقوال وا لافعال الجزء السادس صفحہ ۳۰۲ کتاب السفر من قسم الأقوال الفصل الثانی فی آداب السفر، الوداع حدیث: ۱۷۵۱۳مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت۲۰۰۴ء)

کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ حدیثیں پڑھنے، سنانے اور سننے کا فائدہ تبھی ہے جب اُن پر عمل کرنے کی بھی پوری کوشش ہو۔ عہدیداروں کو اپنا کردار بہرحال بہت بلند رکھنا چاہئے۔ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں لیکن ایک عہدیدار کا کام ہے کہ حوصلے سے کام لے اور کبھی ایسے شخص کے لئے بھی اپنے جذبۂ ہمدردی کو نہ مرنے دے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول ۳۶۲ اشتہار ’’التوائے جلسہ ۲۷؍دسمبر۱۸۹۳ء‘‘ اشتہار نمبر۱۱۷)

اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بھی وضاحت ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے غصہ کو قابو میں رکھے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حدیث: ۶۱۱۴)

غصہ قابو میں ہو تبھی انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور تبھی ہمدردی کے ساتھ فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ پس یہ معیار ہے جو ہمارے عہدیداران کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button