احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
اس شہر پرآشوب وہنگامہ جاں کوب میں میرے مال کی ایک کثیر مقدار حالتِ ضیاع میں ہے۔جس کا اندازہ چارلاکھ کے قریب ہے یک نیم بابت دہات اور دونیم بابت مکانات،یہ تو اندیشہ مال کا ہے،رہا خوفِ جان سو وہ علیحدہ سوہانِ روح ہو رہا ہے۔ عِرض(عزت)تو مدت سے دست بردِاہل غرض ہوچکی
نواب صدیق حسن خان پر ابتلا اورمقدمات
۱۸۸۳ء کے لگ بھگ یااس سے کچھ پہلے نواب صدیق حسن خان نے براہین احمدیہ چاک کرکے اورلاپروائی سے پیک کرکے واپس بھیجی تھی۔اور ابھی دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ نواب صاحب جو کہ تکبر وخودپسندی کے گھوڑے پر سوار کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے اوردنیاوی عالم میں بزعم ود ریاست بھوپال کے سیاہ وسفید کے مالک اور روحانی دنیا میں ’’مجدد وقت‘‘ اور امیرالمومنین جیسے القابات میں بھی پورے نہ آتے تھے۔مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب تو ان کی مجددیت کاڈھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے تھے اوراگر کوئی اعتراض کرتاتو اس کی بھی خوب خبر لیتے۔اور نواب صاحب کو جب یہ لوگ مجددکہتے تھے تو بڑے ’’بھولپن‘‘ سے فرماتے: ’’مجھے مجتہد ہونے کا دعویٰ ہے نہ مجددہونے کا اگرچہ یاروں نے مجتہد مجدد سب کچھ بنادیاہے۔وہ واقعی بڑی سنجیدگی سے اس کااظہار کرتے ہیں …‘‘ (ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۱۵۹)
ایک صاحب مؤلف ’’تحفة الہند‘‘ نے نواب صاحب کو ایک خط لکھا۔جس میں وہ نواب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حضرتِ مَن! کچھ اپنی بھی قدرپہچانو!تم لختِ جگرِ زہراء ؓہو،تم نورِ چشمِ مرتضیٰ ہو،تم وارث سیدالانبیاء ہو،تم جگرگوشہ رسول ِمصطفیٰ ہوﷺ،تم مجددِ دین ہو،تم محیِ سنت ہو،تم قامع ِبدعت ہو،وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء،اگر خطابِ نوابی نہ رہا تو کیا پرواہ ہے،خطاب وارث الانبیاء کافی ہے۔ اگر امیرالملک والاجاہ نہیں رہے،تو امیرالمومنین تو ضرور ہو…‘‘ (ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۲۴۱)
اب مولوی صاحب اس خط کو اپنی خودنوشت سوانح میں درج کرتے ہیں اوریہ خود نوشت ان دنوں کی لکھی ہوئی ہے جب یہ سخت ابتلاکا شکارتھے اورسب خطابات نوابی وغیرہ کے جاتے رہے تھے۔ ا س میں یہ خط درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’میں اللہ سے یہی چاہتاہوں کہ مجھے خطِ مذکور کے مضامین کا مصداق بنادے۔‘‘ (ابقاء المنن بالقاء و المحن صفحہ ۲۴۳)
انجیل کا یہ مقولہ کیا خوب ان بھولے نواب صاحب پر صادق آتاہے میں تو نہیں کہتا، ’’تُو خود کہتاہے‘‘ (متی باب ۲۷آیت ۱۱) ویسے نواب صاحب کا اپنا مزاج گرامی دیکھیے کہ پورے ہندوستان میں انہیں کوئی متقی اور صالح بزرگ بھی نظرنہیں آتاتھا۔ جیسے وہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے کسی کے ہاتھ پر بیعت ِ ارادت نہیں کی اس لیے کہ مجھے قرآن وحدیث اور سلف صالح کی شروط کے موافق کوئی شیخ میسر نہیں آیا۔‘‘ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ۹۹)
اور اپنے علم ومتعددکتب کے مصنف ہونے پر نازوفخر ایساکہ اپنی خودنوشت سوانح میں لکھتے ہیں: ’’تحدیث بالنعمۃ کے طور پر یہ کہوں کہ جس کے پاس میری تمام کتب ہوں وہ مہمات مسائل اور امہات احکام میں کسی اور کتاب کا محتاج نہیں ہوگا تو یہ بات غلط نہیں۔ یا اگر یہ کہہ دیا جائے کہ جسے میری سب تالیفات کے مندرجات کا علم ہے وہ عالم کامل ہے تو اس میں بھی کچھ مبالغہ نہیں ہوگا۔ پھر میری یہ کتابیں دو سہ علم مثلاً علمِ اصول دین،علم فقہ ِسنت،علم تفسیر،علم اصول فقہ اور بعض علوم حدیث میں تو دیگر کتب سے بالکل مستغنی کردیتی ہیں۔ الحمدللہ کہ میں اپنے اقران سے عدد و عُددِ مؤلفات،کثرتِ اطلاعِ علومِ سلف اور کثرت اموال وسعادتِ اولاد بہت سے امور میں ممتازہوں۔‘‘ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ۱۷۹)
لیکن نواب صدیق حسن صاحب کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے جوکہ خودانہوں نے اپنی معزولی کے زمانے میں لکھی تھی یہ احساس ہوتاہے کہ امتحان و آزمائش کے اس وقت میں نواب صاحب صابروشاکرتوکیاثابت ہوتے بہت حد تک اپنے محسنوں کونہ صرف یہ کہ بھول رہے ہیں بلکہ ان کی مذمت کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔اور اس خطرناک مقدمات کے وقت میں کہ جس کے نتیجے میں سزائے موت یاجلاوطنی کاسایہ سرپرمنڈلارہاتھا نواب صاحب اپنی ساری چوکڑیاں بھولنے سے لگے ہیں۔
نواب صاحب کی سوانح کامطالعہ کرنے والاکبھی اس حقیقت کونظراندازنہیں کرسکتاکہ نواب کی زندگی کا ستارہ چمکانے والا اس کاپہلامحسن بھوپال کا مدارالمہام محمدجمال جیسابزرگ انسان تھا۔لیکن جس طورسے اپنے اس محسن کے کندھوں پرچڑھ کر شاہجہاں بیگم تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اپنے اس محسن کوبے اختیار وبے وقرکیا یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن محسن کُشی کاخون جواب لگ چکاتھا تو نواب شاہجہان بیگم جوکہ اس کی زوجیت میں آکراپناسب کچھ اس کے سپردکرچکی تھی۔نواب صاحب نے اس کوبھی معاف نہ کیا۔نواب صاحب پرجب مقدمات شروع ہوئے تو ان مقدمات کی تفصیل وتاریخ پرکئی کتب لکھی جاچکی ہیں۔ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رئیسہ بھوپال نے نواب صدیق حسن کی بحالئ عزت والقاب کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے اور کون کون سے پاپڑنہیں بیلے۔اس رئیسہ نے زخمی شیرنی کی طرح بیک وقت کئی صاحب اختیار انگریزوں کوللکارااور ہنکارا اور دوسری طرف حکمران انگریزوں کے سامنے اپنے سر کو جھکاتے ہوئے پیش ہوئی۔ اس نے حکومت کویہاں تک پیشکش کردی کہ میں بھوپال کاتاج اور سلطنت چھوڑکر جلاوطنی اختیارکرنے کوبھی تیارہوں۔کئی لاکھ روپے بطورحرجانہ دینے کوبھی تیارہوگئی۔کہ میری اور نواب کی جان بخشی کردی جائے۔ نواب کی خاطر یہ رئیسہ جوکہ پردے کی چاردیواری میں مقیدہوکررہ گئی تھی اب اسی نواب کی خاطر وہ بھوپال سے کلکتہ تک صرف یہ جتن کرتے ہوئے گئی کہ نواب کوکم ازکم میرے محل تک آنے کی اجازت تودی جائے۔
ایک طرف بھوپال کی شاہی خاتون فرمانرواکااپنے شوہرکے لیے یہ جذبۂ وفا تھا جبکہ دوسری طرف نواب صاحب کی صرف ان کی اپنی تحریرکردہ سوانح عمری کامطالعہ کریں تو احسان ناسپاسی اور ناشکرے پن کی ایک مثال بن کرسامنے آتی ہے۔ نواب صاحب اسی رئیسہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’میں پانچ برس سے ایک ہی مکان میں سکونت رکھنے کے باوجود اپنے ہم مسکن [شاہجہان بیگم] سے جدا رہتاہوں۔ میری اور ان کی ہم نشینی آٹھ پہر میں ایک دو ساعت سے زیادہ نہیں ہوتی۔اور وہ بھی کھانے پینے وغیرہ کی ضرورت کے موقعہ پر اور میں داخلی وخارجی کسی امر کے متعلق ان سے استفسار نہیں کیا کرتا اورنہ اپنی قدیم عادت کے مطابق انہیں کسی باب میں مشورہ یا رائے ہی دیتا ہوں،نہ وہ مجھ سے کچھ کہتی ہیں،اور نہ ہی انہیں کبھی میری رائے یا صوابدید پسند آئی ہے۔وہ خود عقل تام اور تجربہ کی مالک ہیں…دوسرا فریق اس امر کو بخوبی جانتا ہےکہ فی الواقع وہ میری مطیع اور پابندِ رائے نہیں ہیں۔بلکہ میں ان کے ساتھ ہرامر میں مماشاۃ کرنے پر مجبور ہوں اور مجھے ان کی مخالفت کی بھی قدرت نہیں ہے۔اور ان کا وہی حال ہے کہ بسلامے برنجندوبدشنامے خلعت دہند اس جگہ بالک ہٹ، تریاہٹ اور راج ہٹ سب جمع ہیں…شرک وکبائر تو نہیں البتہ بہت سے دنیاوی مکروہات او رصغیرہ گناہوں میں اس قرابت کی وجہ سے کراہت طبیعت کے ساتھ شریک ہونا پڑا کیونکہ مستورات کے لیے اپنی رسوم کی پابندی جملہ امور سے مقدم ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص ان کے کھیل تماشے میں شریک نہ ہو تو ان پر بہت گراں گزرتا ہے۔اور ان کے نزدیک بڑا مخلص وہی ہے جو ان کے ہر مکروہ فعل کو ممدوح قرار دے۔ میں اگر محض ملازم یا ہم رتبہ زوج ہوتا تو ان اثقال کو کبھی بھی نہ اٹھاتا۔لیکن ناگہاں ایسے جال میں پھنس گیا کہ اس سے رہائی میرے اختیار میں نہ رہی۔
کیونکر اس کی نگہ ناز سے جینا ہوگا
زہر دے اس پہ یہ تاکید کہ پینا ہوگا
چین دیتے نہیں وہ داغ کس طرح مجھے
میں جو مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
یہ رئیسہ وہی شہزادی ہے کہ جس کےساتھ شادی کرنے کے لیے نواب صاحب کو کتاب الحیل کے کس کس باب سے استفادہ کرناپڑا جوبھی ان تفصیلات میں جائے گا وہ بخوبی جان سکتاہے۔اسی شہزادی نے بھوپال کے خزانے اور اپنے تمام تراختیاراسی نواب کے ہاتھ میں دے کرخودنواب کاہاتھ پکڑلیا۔ یہاں تک کہ خود نواب صاحب نے اپنی اسی خودنوشت میں تسلیم کیا کہ ’’رئیسہ سے کچھ اولاد نہیں ہوئی،البتہ اولاد معنوی یعنی تالیف واشاع ِکتب،جو کہ سعادت کے اعتبار سے اولاد ذریت ِظاہری سے بالا تر ہے۔یہ توفیق حصول ِجاہ و فرصت کے سبب نصیب ہوئی۔اگر رئیسہ عالیہ سے نکاح نہ ہوتا تو بظاہر ان کتب ِدینی کی اشاعت کی کوئی صورت نہ تھی‘‘۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ۱۶۲-۱۶۳)
اورحیرت ہے کہ ایک طرف یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ریاست کے کاروبارمیں قطعاً کوئی دخل وتعلق تھا ہی نہیں اور اسی کتاب کے صفحات۲۸۲-۲۸۴پر ’ریاست کی خدمت‘ کے عنوان کے تحت ان کارناموں کاذکر کیا ہے جو ریاست اور رعایا کے افادہ کے لیے کیے ہیں۔
وہی بھوپال کہ جس کے بارے میں اسی کتاب میں صفحہ۳۲۶ پر لکھا کہ ’’الحمدللہ کہ آج بھوپال ملک ہندوستان میں خطۂ اسلام ہے اور اہل ایمان کا مسکن اور اہل توحید کا مامن ہے۔یہاں دین وملت کے اتنے شعائر، مساجد و مدارس کی اتنی عمارتیں، مذاکرہ علوم شرعیہ اور اشاعت ِسنن ِنبویہ ؐکا ایسا سلسلہ،اہل اسلام کی وضع وہیئت کا ایسا نمونہ ہے جو کسی دوسری جگہ موجود نہیں۔‘‘
اور جب شامت اعمال کے بادل گھنے ہونے لگے تو جس شہر،بھوپال میں نواب صاحب ایک لمبا عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور جس شہر نے انہیں ’’مجدد‘‘ اور ’’امیرالمؤمنین‘‘ بنایااس کے بارہ میں ان کی رائے یہ ہوگئی کہ ’’اب میرا موطن وہ شہر ہے جو اس آیت کا مصداق ہے :سأریکم دارالفاسقین عنقریب میں تم کو فاسقین کا گھر دکھاؤں گا۔یہ وہ جگہ ہے جہاں علم مرجاتا ہے۔عالم مردارسے زیادہ خوار رہتا ہے۔اہلِ معرفت وصلاح تو شاید یہاں پہلے ہی سے کبھی پیدا نہیں ہوئے۔اہل حسد کا اس جگہ بازار ہے۔اہل نفا ق کا ہرجگہ دربار ہے۔‘‘ (ابقاء المنن صفحہ ۲۹۷)
دراصل اب آہِ میرزاکا تیرجوقضاء کی طرح پیچھا کررہا تھا اس کاوارہوچکاتھا۔ اور اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی کے مصداق اب واقعی مردارسے زیادہ خواری کاعمل شروع ہوچکاتھا۔دولت بھی ہاتھ سے جارہی تھی اور عزت بھی اور جان کے بھی لالے پڑے ہوئے تھے۔خود لکھتے ہیں کہ ’’اس شہر پرآشوب وہنگامہ جاں کوب میں میرے مال کی ایک کثیر مقدار حالتِ ضیاع میں ہے۔جس کا اندازہ چارلاکھ کے قریب ہے یک نیم بابت دہات اور دونیم بابت مکانات، یہ تو اندیشہ مال کا ہے،رہا خوفِ جان سو وہ علیحدہ سوہانِ روح ہو رہا ہے۔ عِرض(عزت)تو مدت سے دست بردِاہل غرض ہوچکی۔(ابقاء المنن صفحہ ۲۸۵)
بہرحال ۱۸۸۵ء میں ریذیڈنٹ کی طرف سے نواب صاحب پر ایک مقدمہ قائم ہوگیا۔تب بھوپال کے ریذیڈنٹ سرلیپل گریفن تھے۔ (کتاب Punjab Chiefsکے مصنف)۔یہ مقدمہ ایک سیاسی نوعیت کا نہایت خطرناک مقدمہ تھا۔فردجرم میں جو الزامات تھے وہ کچھ اس طرح سے تھے۔ترغیب جہاداورگورنمنٹ کی مخالفت[وہی گورنمنٹ جسے خوش رکھنے کے لیے براہین کی خریداری کے لیے پانچ روپے تک نہ دیےوہی گورنمنٹ] مذہب وہابیت کی ترغیب،رئیسہ عالیہ کو پردہ نشین بناکر مدددہی، رئیسہ کے نام پر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا،سختی بندوبست،جاگیرات کی ضبطی،نواب قدسیہ بیگم کو رئیسہ عالیہ کا مخالف کرنا،رئیسہ عالیہ اورنواب ولی عہد میں ناموافقت پیداکرنا۔اعانت قتل جیسے الزام بھی تھے۔اس مقدمہ کے نتیجہ میں ۲۵؍اگست ۱۸۸۵ء کو نوابی کے تمام القابات اوراعزازات چھین لیے گئے، رئیسہ کے محل سے نکال دیاگیا ،آٹھ ماہ تک نواب صاحب کو محل میں جانے اوررہنے کی اجازت نہ ملی یہاں تک کہ ۱۸۸۶ء اپریل میں رئیسہ نے کلکتہ جاکر بڑی کوششوں سے یہ اجازت حاصل کی کہ وہ رئیسہ کے محل میں رہ سکتے ہیں۔(ماخوذازابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۲۴۹)
اورغالباً پھر بھی صرف رات کو جانے کی اجازت مل سکی۔ان ہولناک دنوں کی بابت نواب صاحب ایک جگہ خود لکھتے ہیں کہ ’’اگر اللہ نے یاس کو کفر نہ فرمایا ہوتا میں بالکل مایوس ہوچکا تھا۔‘‘ (ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۳۰۹)(باقی آئندہ)