بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۸۸)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… کیا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کر نا درست ہے؟

سوال: یوکے سے ایک دوست نے کینیڈا میں ہونے والی ایک مجلس سوال و جواب میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں محترم مفتیٔ سلسلہ صاحب کی طرف سے دیے جانے والے جواب کی نقل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر حضور انور سے راہنمائی چاہی کہ اس جواب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسئلے کے بارے ایک تفصیلی نوٹ تیار کرواکر۵؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو کینیڈا کے احمدیہ گزٹ میں اشاعت کے لیے بھجوایا۔ اس تفصیلی نوٹ میں حضور انور نے فرمایا:

جواب: کینیڈا میں ہونے والی ایک مجلس سوال و جواب میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں محترم مفتی صاحب نے ایک مختصر جواب دیا تھا، جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست ہے۔ کیونکہ آج کل غیر احمدیوں کی ایک بھاری تعداد خاص طور پر حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک میں اس کا کوئی خاص رواج نہیں ہے۔تاہم اس بارے میں درست تعلیم احباب جماعت تک پہنچانے کے لیے ذیل میں کچھ حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں۔

آنحضرتﷺ نماز کے آغاز اور اختتام کے بارے میں فرماتے ہیں :وَتَحْرِیمُہَا التَّکْبِیرُ، وَتَحْلِیلُہَا التَّسْلِیمُ۔ (سنن ترمذی کتاب الطھارۃ بَابُ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلَاۃِ الطُّہُورُ)یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے اور سلام کہنے پر نماز ختم ہوجاتی ہے۔

آنحضرتﷺفرض نمازوں کے بعد عموماً سنتیں اور نوافل گھر جاکر ادا فرمایا کرتے تھے لیکن گھر جانے سے پہلے فرضوں کی ادائیگی کے بعد آپ استغفار اور بعض دیگر مسنون دعائیں پڑھتے تھے۔نیز صحابہ ؓکو بھی آپ نے نماز کے بعد بعض دعائیں پڑھنے کی نصیحت فرمائی۔لیکن ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں مل سکی جس میں یہ ذکر ہو کہ حضور ﷺہر نماز کے بعد لازمی طور پر تمام مقتدیوں کے ساتھ مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگا کرتے تھے۔البتہ بعض خاص مواقع پر آنحضور ﷺ نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہے۔

اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اسلام کی خدمت اور اس کی تجدید کے لیے مبعوث ہونے والے آپ ﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مواقع پر اس بابت ارشاد فرمایا ہے کہ ہمیں جو بھی دعا کرنی ہو وہ نماز کے اندر کرنی چاہیے۔ نیز یہ کہ نماز کے بعد بالالتزام ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا حدیث سے ثابت نہیں۔ چنانچہ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ کے فرزند حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانویؓ بیان کرتے ہیں:خدا کی مہربانی سے مجھے وہ وقت یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ ہم خدام بیٹھے ہوئے تھے۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔جبکہ حضور نے نماز کے اندر دعا کرنے کے متعلق تقریر فرمائی۔جس کا مطلب میری عبارت میں یہ ہے کہ یہ رسم پڑ گئی ہے کہ نماز کے اندر دعا نہیں کرتے۔نماز کو بطور رسم و عادت جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ اور جب سلام پھیر چکتے ہیں تو لمبی لمبی دعائیں بڑی تضرع سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ نماز کے اندر دعا چاہیے۔نماز خود دعا ہے۔نماز اس لیے ہے کہ بندہ اس میں اپنے رب سے دین ودنیا کے حسنات طلب کرے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اپنی کوئی حاجت پیش نہ کی اور جب دربار سے رخصت ہو کر باہر آئے تو درخواست کرنی شروع کردی۔یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت ﷺ نماز پنجگانہ کی جماعت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تقریر سے پہلے برابر پانچ وقت کی جماعت کے بعد بالالتزام ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی تھی۔امام نماز حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ۔حضرت اقدس۔سب مقتدی نماز فرض کاسلام پھیر کر ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے۔مجھے اس طریق پر سب کا مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا یاد ہے۔کیونکہ میں بھی سب کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتا تھا۔اس تمام تقریر میں حضرت اقدس نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ  کو اس بات کا اشارہ تک بھی نہیں کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔یا آئندہ ایسا نہ کیا کریں۔لیکن حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے جس وقت حضور ؑکی یہ تقریر سنی اس کے بعد نماز کے سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی چھوڑ دی۔ اور اس وقت سے یہی طریق جاری ہے۔(افتخار الحق یا انعامات خداوندکریم صفحہ۴۹۵،۴۹۴، مطبوعہ نقوش پریس لاہور)

حضرت مولوی سید محمود شاہ صاحبؓ نے جو سہارنپور سے آئے تھے، حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ ہم لوگ عموماً نماز کے بعد دعا مانگتے ہیں لیکن یہاں قادیان میں ایسا نہیں ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مفصل تقریر فرمائی۔جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے۔ آپؑ نے فرمایا: اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے۔بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہےکہ ہندو ستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہےاس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہےجس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق۔ اُنس اور سرور بڑھتا ہے۔مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے…مومن کو بیشک اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔مگر نماز کے بعد جو دعاؤں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہےبعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے۔میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوارو یہ بھی دعا ہے۔

…جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے۔ بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں۔یہ بدعت نہیں….ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایااور رسول اللہ ﷺ سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے،آپ سے التزام ثابت نہیں ہے۔اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی۔تقاضاء وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کرلی۔اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعاؤں میں گزرتا تھالیکن نماز خاص خزینہ دعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہےاس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کر ے اور طرف توجہ نہ کرےکیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نما زپڑھتا ہے تو پھرخارج نماز بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتےہم تقدیم نما زکی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے۔(الحکم نمبر ۳۸، جلد۶، مورخہ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ءصفحہ۱۲،۱۱)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ تقریر ختم کر چکے تو حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہیؓ نے سائل کو مخاطب کر کے کہا کہ صاحب سفر السعادۃ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نماز کے بعد دعا کی حدیث ثابت نہیں۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: میرا مذہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنحضرت سے منسوب ہے جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے مگر نماز کے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے جو قرآن شریف سے مخالف نہ ہو۔(الحکم نمبر ۳۹، جلد۶، مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ءصفحہ ۱)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی کتاب سیرۃالمہدی میں تحریر کرتے ہیں:میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ(حضرت مسیح موعودؑ نے۔ ناقل) ایک دفعہ فرمایا کہ دعا نماز میں کرنی چاہیے رکوع میں،سجدہ میں،بعد تسبیحات مسنونہ اپنی زبان میں دعا مانگے۔ بعض لوگ نماز تو جلد ی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور بعد نماز ہاتھ اٹھا کر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جب سامنے کھڑا ہو اس وقت مانگتا نہیں۔جب باہر آجائے تو پھر دروازہ جا کھڑکانے لگے۔ نمازی نماز کے وقت خد اتعالیٰ کے حضور سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت تو جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا ہے اور کوئی حاجت یا ضرورت خد اتعالیٰ کے حضور پیش نہیں کرتا لیکن جب نماز سے فارغ ہو کر حضوری سے باہر آجاتا ہے پھر مانگنا شروع کرے( یہ ایک قسم کی سوء ادبی ہوگی) اس کے یہ معنے نہیں کہ بغیر نماز دعا جائز نہیں صرف یہ مطلب ہے کہ نماز کے وقت خاص حضوری ہوتی ہے اس وقت ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ نماز کے اندر دعا کرے وہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔(سیرۃالمہدی جلد دوم، حصہ پنجم روایت نمبر ۱۴۷۱صفحہ ۲۶۱۔ مطبوعہ مئی ۲۰۰۸ء)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنی کتاب ذکرحبیب میں ’’اپنی زبان میں دعا‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل ارشاد درج کیا ہے:نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے۔ سورہ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہیے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے۔ وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہیے اور اس کے بعد مقررہ دُعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہیے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دُعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں۔ آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھو نگیدار پڑھ لیتے ہیں، جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتے ہیں، جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے۔ پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں۔ یہ بدعت ہے۔ حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دُعا کی جائے۔ نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ نماز خود دعا ہے۔ دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دُعائیں مانگنی چاہئیں۔ نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے۔ رکوع میں بعد تسبیح،سجدہ میں بعد تسبیح، التحیات کے بعد کھڑے ہو کر، رکوع کے بعد بہت دُعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ۔ (ذکرِ حبیب صفحہ ۱۵۹،۱۵۸۔ ایڈیشن ۲۰۰۸ء)

فرمایا: جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور تخت کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوا لی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کرکے چلا آیا اور دربار سے باہر آکر شاہی محل کے باہر کھڑے ہوکر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے۔ اُسے چاہیے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا۔

فرمایا:ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دعا نہیں کرتے اور نماز کے خاتمہ کے بعد لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اُس شخص کی طرح ہے جس نے اِکّے کی چوٹی کو اُلٹا کر زمین پر رکھا اور پہیے اُوپر کی طرف ہوگئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اُس اِکّے کو کھینچے۔ (ذکرِ حبیب صفحہ۱۵۵۔ ایڈیشن۲۰۰۸ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا حال عرض کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے،اس سے کیا فائدہ۔ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں۔ سورہ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے۔ (الحکم نمبر ۲۳، جلد۶، مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۲ءصفحہ ۲)

پس مذکورہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ جلدی جلدی نماز ادا کر کے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر لمبی لمبی دعائیں کرنے کا جو طریق جاری ہو گیا ہے، وہ بدعت کا ایک رنگ رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ناپسند فرمایا ہے۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک ایسے موقع کا ذکر ملتا ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اس سلسلہ میں مفتیٔ سلسلہ محترم مولانا مبشر احمد کا ہلوں صاحب کی روایت ہے کہ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت کے خلاف فسادات اور ہنگامے ہو رہے تھے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ نماز فجر اور مغرب کے بعد روزانہ مسجد میں ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کی جایا کرے۔چنانچہ کئی ماہ تک روزانہ نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک میں اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی رہی۔

اس سلسلہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے درج ذیل اعلان بھی الفضل ربوہ میں شائع ہو اتھا:

کل کے الفضل میں دوست میر اپیغام پڑھ چکے ہوں گے اور دعاؤں میں مصروف ہوں گے۔ انفرادی دعاؤں کے علاوہ اُن مقامات پر جہاں نماز با جماعت کا اہتمام ہے احباب کثرت کے ساتھ روزانہ نماز فجر اور نماز مغرب کے بعد رب کریم، اَلبَرُّ الرَّحِیْم کے حضور الحاح کے ساتھ عاجزانہ اور پُرسوز اجتماعی دعائیں بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین (روز نامہ الفضل ربوہ نمبر ۱۲۹،جلد ۲۸/۶۳، مورخہ ۶جون ۱۹۷۴، صفحہ ۱)

اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا یہ ارشاد در اصل وقت اور حالات کی ضرورت کے پیش نظر ایک وقتی فیصلہ ہی تھا، اس لیے کچھ وقت کے بعد آپ ہی کے عہد خلافت میں اس پر عمل بند ہو گیا۔ اور جس طرح بئر معونہ ورجیع کے مواقع پر صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے کی تکلیف دہ گھڑی میں دشمنان اسلام کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے حصول کے لیے آنحضورﷺنے ایک ماہ تک نماز فجر میں قنوت فرمایا تھا اور بعد میں اس طریق کو ختم کر دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی بَاب غَزْوَةِ الرَّجِيعِ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبِئْرِ مَعُونَةَ وَحَدِيثِ عَضَلٍ وَالْقَارَةِ) اسی طرح ۱۹۷۴ء کے پُر آشوب حالات میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقتی طور پر اس اجتماعی دعا کا ارشاد فرمایا تھا۔ اس لیے آپ کے اس ارشاد سے عمومی اجازت کا استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

علاوہ ازیں اگر کوئی نماز کے بعد یہ کہے کہ میں سفر پر جارہا ہوں۔ اس لیے آئیں ہاتھ اٹھا کر دعا کر لیں تو یہ سب وقتی باتیں ہیں۔ اور ایسے مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کر لینا گناہ نہیں۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر باقاعدگی کے ساتھ دعا کرنا نہ آپؑ کا تعامل تھا اور نہ ہی التزام۔ اس لیے آپ نے اسے جاری نہیں رکھا بلکہ استفسار فرمایا کہ دعا کرنی ہے تو نماز میں کرو۔ اس لیے ہم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کرتے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخر میں اس کی مناہی فرما دی۔ اس لیے اس طریق پر اگر کوئی دعا کرے گا تو وہ ناپسندیدہ فعل ہو گا اور منع ہے۔ لہٰذا احباب جماعت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

٭…٭…٭

گزشتہ قسط: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۸۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button