تاریخ احمدیت

۲۰؍دسمبر ۱۹۲۴ء: قادیان میں پہلی بار میجک لینٹرن سے لیکچر

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

قادیان کے لوگ جو ایک دہائی سے الفضل اور الحکم میں یورپ، امریکہ اور افریقہ میں احمدیت کی تبلیغ و ترویج کی خبریں پڑھ رہے تھے۔ آ ج اس تاریخی ثبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے

آج سے ایک سو سال قبل ۲۰؍دسمبر ۱۹۲۴ء کی رات کو قادیان میں ایک مجلس بپا ہونی تھی۔ اس تاریخی مجلس کا اشتہار اسی روز صبح کو کیا گیا۔ دسمبر کی ٹھٹھرتی اور یخ بستہ رات میں ۸ بجے سے قبل ہی مدرسہ احمدیہ کے صحن میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بنچ، کرسی، چٹائی جہاں جگہ ملی لوگ بیٹھ گئے۔ برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے اورجنریشن Xیعنی جس نے ۸۰ء اور ۹۰کی دہائی کی ایجادات سے اب تک کی ترقی کا ملاحظہ کیا اور استعمال کیا، خوب جانتے ہوں گے کہ محلہ میں آنے والے پہلے ٹی وی کے گرد اور گاؤں میں رات کو پورے گاؤں کا ٹی وی دیکھنے کے لیے اکٹھا ہوجانا معمول کی بات تھی۔ اس نئی ایجاد نے بھی لوگوں میں اتفاق پیدا کر دیا تھا۔ لیکن یہ مجلس اپنی نوعیت کی پہلی مجلس تھی۔

اس مجلس میں دو عظیم مبلغ اسلام احمدیت تشریف فرما تھے۔ ایک جناب حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ (مبلغ یورپ و امریکہ) اور دوسرے جماعت احمدیہ افریقہ کے بانی کہلائے جانے والے عظیم مبلغ اسلام احمدیت حضرت مولانا ماسٹر عبدالرحیم نیر صاحبؓ۔ یہ مجلس حضرتِ نیر صاحبؓ کے اعزاز میں ہی سجائی گئی تھی جو اپنے سفرِ تبلیغ یورپ و افریقہ کا میجک لینٹرن کے ذریعہ تصویری خاکہ پیش کرنے والے تھے۔

میجک لینٹرن یا جادوئی شمع کیا ہے؟

پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میجک لینٹرن یعنی جادوئی شمع یا جادوئی فانوس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

میجک لینٹرن ایک سادہ لیکن دلچسپ سائنسی آلہ ہے جو بنیادی طور پر ایک قدیم قسم کا سلائیڈ پروجیکٹر ہے جسے سترہویں صدی میں ایک ڈچ سائنسدان کرسٹیان ہیوگنس نے ایجاد کیا تھا۔ تصاویر کو شیشے کی سلائیڈز پر ہاتھ سے پینٹ کیا جاتا تھا، پھر انہیں لکڑی کے ایک کیریئر میں لگایا جاتا اور ایک سفید دیوار پر پروجیکٹ کیا جاتا تھا۔ یہ ایک کیمرہ obscura کے طور پر کام کرتا تھا جس میں تصویر یا عکس کو ایک خاص سطح پر پروجیکٹ کیا جاتا تھا۔ آج کل، میجک لینٹرن کو ایک متروک آلہ سمجھا جاتا ہے، لیکن ماضی میں یہ سائنسی تجربات، تفریح اور تعلیم کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ یہ آلہ خاص طور پر یورپ میں مقبول ہوا اور اسے ایک نوعیت کے پروجیکٹر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کا ڈیزائن کافی سادہ تھا، لیکن یہ اپنے وقت کی ٹیکنالوجی سے بہت آگے تھا۔ ابتدائی طور پر، اس آلے کو تصاویر کو روشن اور بڑا کر کے دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے ذریعے مختلف تفریحی اور سائنسی شو پیش کیے جاتے تھے۔ اسی نے ترقی کرتے کرتےتھیٹر کو سینما میں تبدیل کیا۔

میجک لینٹرن کا کام کرنے کا طریقہ

میجک لینٹرن کا کام کرنے کا طریقہ کافی سادہ تھا:

لائٹ سورس: میجک لینٹرن میں ایک طاقتور چراغ یا لائٹ سورس ہوتا تھا، جو اصل تصویر کو پروجیکٹ کرنے میں مدد دیتا تھا۔

شفاف تصاویر: اس آلے میں مختلف قسم کی شفاف شیشوں کی تصویر ہوتی تھی، جنہیں سلائیڈز کہا جاتا تھا۔ یہ سلائیڈز کسی خاص موضوع یا منظر کی تصاویر پر مبنی ہوتی تھیں۔

عدسہ یا لینز: تصاویر کو بڑا اور واضح بنانے کے لیے ایک لینز یا عدسہ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ عدسہ تصاویر کو اس طریقے سے پروجیکٹ کرتا تھا کہ وہ ایک دیوار یا اسکرین پر بڑی اور واضح نظر آتی تھیں۔

پروجیکشن: جب لائٹ سورس چمکتا تھا، تو یہ سلائیڈز کی تصاویر کو لینز کے ذریعے پروجیکٹ کرتا تھا، جس سے وہ دیوار یا سکرین پر ظاہر ہوتی تھیں۔

آج کے دور میں، میجک لینٹرن کو جدید پروجیکٹروں اور ڈیجیٹل سکرینوں نے تبدیل کر دیا ہے، لیکن پھر بھی اس کی تاریخی اور سائنسی لحاظ سے اہمیت ہے۔ یہ ایک اہم آلہ تھا جس نے روشنی، رنگ اور تصویری تکنیک کے بارے میں انسانی فہم کو بڑھایا۔

مختصر یہ کہ یہ ایک ابتدائی قسم کا پروجیکٹر تھا جسے کارٹونز اور کلاسک فلموں میں سینما کے منظر میں دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ محفل پروجیکٹر کی مدد سے دی گئی پریزنٹیشن کی پہلی قسم تھی۔

قادیان میں پہلی تقریب میجک لینٹرن

تلاوت قرآن کریم سے اس مجلس کا آغازہوا۔ میجک لینٹرن کے جادو بکھیرنے سے قبل حضرتِ نیر صاحبؓ نے مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اس نے مجھ جیسے نالائق اور ایک ادنیٰ ٹیچر کو جو اسی سکول(مدرسہ احمدیہ) میں پڑھایا کرتا تھا۔ خدمت دین کا ایک اہم موقع عطا فرمایا اور جو تصاویر اس وقت دکھائی جاویں گی وہ میرے سفر تبلیغ یورپ و مغربی افریقہ کے بعض اہم مواقع اور مقامات کی ہوں گی۔ جن کے دیکھنے سے آپ لوگوں کو معلوم ہو جائیگا کہ خدا تعالیٰ نے کس قدر فتح و نصرت ہمارے سلسلہ کو اپنے فضل سے غیر ممالک میں عطا فرمائی ہے۔

قادیان کے لوگ جو ایک دہائی سے الفضل اور الحکم میں یورپ، امریکہ اور افریقہ میں احمدیت کی تبلیغ و ترویج کی خبریں پڑھ رہے تھے۔ آ ج اس تاریخی ثبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ، حضرت خلیفة المسیح الاولؓ اور حضرت مصلح موعودؑ کی تصاویر یکے بعد دیگرے آئیں۔ مولانا صاحب نے اطاعت و محبت خلافت کی تلقین کی۔ اس کے بعد ڈوئی کی زبوں حالی اور لیکھرام کی کفن لپٹی لاش کی تصاویر دکھائی گئیں۔ دونوں تصاویر بتا رہی تھیں کہ خدا کے پاک بندوں کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ یہ تصاویر خوب واضح کر کے زبان حال سے اپنے ہمنواؤں کو کہہ رہی تھیں کہ ؎

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

(غالب)

اس کے بعد مغربی افریقہ کا نقشہ سامنے آیا۔ جس میں وہ مقامات اور حصص زیادہ روشن کر کے دکھائے گئے تھے جن میں حضرت نیر صاحب نے ابتداءً تبلیغ کی اور جہاں خاصی جماعتیں اور انجمنیں قائم ہو چکی ہیں۔ پھر مغربی افریقن احباب کی احمدیت سے قبل اور بعد کی تصاویر دکھائی گئیں۔ کیسے وہ اسلام احمدیت کے بعد شریفانہ اور پردہ دار لباس سے انقلابِ عظیم ظاہر ہوتا تھا۔

پھر کانفرنسز کی تصاویر تھیں جن میں مسیح محمدی ؑکا اکیلا مبلغ ہزاروں کے مجمع میں بے خوف و خطر خدائے واحد کی پرستش، جماعت احمدیہ اور اسلام میں داخل ہونے کی دعوت بڑی دلیری اور جوش سے دے رہے تھے۔ تقاریبِ عید، نمازوں کی ادائیگی کی تصاویر، مدتوں سے گورنمنٹ کے حکم سے بند پڑی مسجد کی تصویر جسے حضرت نیر صاحب نے بڑی کوشش سے کھلوایا۔مدرسہ تعلیم الاسلام اور سینکڑوں احمدی طلبہ کی تصاویر دکھائی گئیں۔

اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے دورہ یورپ کی تصاویر سامنے آئیں جن میں لنڈن میں مختلف مواقع اور جلسوں میںتقریر کے دوران کی تصویریں، دورہ پر جاتے ہوئے مختلف سٹیشنوں کی تصویریں اور دمشق کے مختلف حصص اور منارةالبیضا کی تصویریں دکھائی گئیں۔ اور حضرت نیر صاحب نے ان تمام تصاویر کا مختصر طور پر نہایت مؤثر اور دل آویز پیرایہ میں تعارف کروایا۔

غرضیکہ تبلیغ کا یہ بھی ایک نہایت مؤثر طریقہ ہے جس سے یورپ میں علمی طریق سے کام لیا گیا ہے اور جس کو نیّر صاحب نے سب سے اوّل اس سلسلہ میں متعارف کروایا۔ آخر میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دوبارہ دکھانے پر یہ سلسلۂ تصاویر ختم ہوا اور حضرت مفتی صاحب نے کھڑے ہو کر سب حاضرین کی طرف سے نیّر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آپ کی تعریف میں مرحبا، حبّذا، جزاکم اللہ کے بلند نعروں میں یہ جلسہ قریباً دس بجے ختم ہوا۔ (ماخوذ از الفضل قادیان ۶؍جنوری ۱۹۲۵ء)

قارئین کرام ! آج ہر یک انسان کے ہاتھ میں سکرین ہے لیکن سو سال قبل جب پہلی بار میجک لینٹرن کے ذریعہ ایک لیکچر دیا گیا تھا تب کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ آئندہ تبلیغ اسلام احمدیت کو اتنے جدید وسائل میسر آ جانے تھے۔

جماعت احمدیہ عالمگیر کے سالانہ کیلنڈر کا اختتام جلسہ سالانہ قادیان پر ہوتا ہے۔ اس وقت قادیان کے لوگ باہر کی جماعتیں دیکھنے کے شوق میں جادوئی شمع کے گرد پروانے بنے بیٹھے تھے۔ اور آج پوری دنیا کے ڈیجیٹل پردہ پر قادیان کا عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہ عکس جہاں مسیح الزماں سے عشق و محبت کو پروان چڑھاتا ہے وہیں دور دیسوں میں بیٹھے لوگ ان ابتدائی مبلغین کو دعائیں دیتے ہیں جو انہیں امام الزماں کی بیعت میں لائے۔

سو سال قبل ایک یہ محفل تھی کہ سرد رات میں گنتی کے چند لوگ میجک لینٹرن کے اندر موجود اپنے چاند کو دیکھنے کے لیے نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ اور آج یہ دن ہے کہ یہ جادوئی فانوس موبائل، ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی صورت میں ہر کس وناکس کے پاس ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور پانچوں خلفاء کی بابرکت تصاویر اور چار خلفاء کی آوازاور ویڈیوز کے ذریعہ اپنی شمع سے روشنی پاتے ہیں۔

اے شمع دیکھ پھر ترے پَروانے آگئے
بندھن تمام توڑ کے دیوانے آگئے
دریا و بحر و کوہ و بیاباں کو پھاند کر
گِر پڑ کے تیرے در پہ ہیں مستانے آگئے

مزید پڑھیں: صدصالہ جشن تشکر اور ایک تاریخی یادگار سائیکل سفر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button