پیارے حضور (ایّدہ اللہ) کی پیاری باتیں

یوں لگ رہا تھا کہ پورا مہینہ ہی جلسے کا سا سماں ہے

دورۂ قادیان 2005ء کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’وہاں قیام کے دوران جلسے کے تین دن ہی نہیں جو تقریروں کے تین دن تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ پورا مہینہ ہی جلسے کا سا سماں ہے۔ اور ہر وقت رونق۔ کسی نے جو یورپ سے خود جلسے قادیان پر گئے ہوئے تھے مجھے خط لکھاکہ گلیوں اور سڑکوں پہ جتنا رش تھا اور جو نظارے تھے ایم ٹی اے کے کیمرے اس طرح وہ دکھا نہیں سکے۔ ان کی بات ٹھیک ہے۔ رش کا تو یہ حال تھا کہ گو سڑکیں چھوٹی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ آبادی اتنی نہیں لگتی تھی جتنا وہاں سڑکوں میں پھنسی ہوئی نظر آتی تھی۔ بعض دفعہ ٹریفک یا لوگوں کا چلنا رک جاتا تھا۔ گلیوں میں Jam-Pack تھا۔ بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ بعض دفعہ اتنا رش تھا کہ سڑکوں پر چلتے چلتے ایک دم اگر کوئی روک آجاتی تھی تو ہلنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ تو بہرحال بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں، قادیان کے مقامی یا ہندوستان کے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے یا باہر کے ملکوں سے آئے ہوئے مہمان جو بھی احمدی تھے اور احمدیت جن کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے ہر ایک کے چہرے سے لگتا تھا کہ ان دنوں میں کسی اور دنیا کی مخلوق بنے ہوئے ہیں۔ کسی اور دنیا کے رہنے والوں کے چہرے ہیں۔ جلسے پر بعض دوسرے جزیروں سے، ساتھ کے چھوٹے جزیروں سے لمبا سفر کرتے ہوئے غریب لوگ پہنچے تھے۔ بعضوں کا چھ سات دن کا سفرتھا۔ ایک دن سمندر میں سفر کیا پھر انتظار کیا پھر کئی دن ٹرین پہ سفرکیا اور پھر قادیان پہنچے۔قادیان میں سردی بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ گرم علاقوں کے لوگ تھے۔ ان کو سردی کی عادت نہیں تھی۔ لیکن ایمان کی گرمی کی شدت نے اس کا شاید اُن کو احساس نہیں ہونے دیا۔ انتہائی صبر سے انہوں نے یہ دن گزارے ہیں۔ یہ نظارے صرف وہیں نظر آسکتے ہیں جہاں خدا کی خاطر یہ سب کچھ ہو۔ دنیا دار تو اس قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعض دُور دراز سے آئے ہوئے غریب لوگوں سے آنے کے بارے میں جو پوچھو تو یہی جواب دیتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں کیونکہ جلسہ ہو رہا تھا اس لئے ہم آ گئے ہیں۔ مختلف قومیّتوں کے، علاقوں کے لوگ، قبیلوں کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ مالی لحاظ سے اکثریت غریب ہے۔ ہندوستان بہت بڑا وسیع ملک ہے اور موسموں کا بھی بڑا فرق ہے، کہیں گرم علاقے ہیں کہیں بہت ٹھنڈے علاقے ہیں۔ جو گرم علاقے والے ہیں ان کو گرم کپڑوں کا تصور بھی نہیں ہے نہ ان کے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن مسیحؑ محمدی کے یہ متوالے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھرنے کے لئے کھنچے چلے آئے۔ ایم ٹی اے پر بھی آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا، رپورٹس بھی پڑھی ہوں گی۔ آنے والوں سے سنا بھی ہو گا۔ لیکن وہاں جو کیفیت تھی وہ دیکھنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ بلکہ ملاقات کے وقت بعضوں کا جو حال ہوتا تھا وہ صرف مَیں ہی محسوس کر سکتا ہوں۔ پس اخلاص و وفا اور نیکی میں بڑھنے کی یہ کیفیت اگرجماعت کے افراد اپنے اندر قائم رکھے رہے اور رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت بھی ترقی کرتی جائے گی اور جماعت کے لوگ بھی کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2006ء )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button