حضرت مسیح موعودؑ کا اِکرامِ ضیف
پیارے بچو! جلسہ سالانہ قادیان آجکل جاری ہے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر مہمانوں کی کثرت ہے اور اس کے لیے لنگر کا ایک نظام حضرت مسیح موعودؑ نے از خود قائم فرمایا۔ آیئے آپ کو چند روایات سناتے ہیں جن سے حضرت مسیح موعودؑ کا اکرامِ ضیف یعنی مہمان نوازی کا خلق عیاں ہوتا ہے۔
شروع میں تمام مہمانان کا کھانا حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں ہی پکا کرتا تھا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ لنگر کا انتظام حضور ؑ کے ابتدائی ایام میں گھر میں ہی تھا۔ گھر میں دال سالن پکتااور لوہے کے ایک بڑے توے پرجسے ’’لوہ‘’ کہتے ہیں روٹی پکائی جاتی۔ پھر باہر مہمانوں کو بھیج دی جاتی۔ اس لوہ پر ایک وقت میں دو، تین نوکرانیاں بیٹھ کر روٹیاں یکدم پکا لیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد جب باہر انتظام ہوا تو پہلے اس مکان میں لنگر خانہ منتقل ہواجہاں اب نواب صاحب کا شہر والا مکان کھڑا ہے۔ پھر باہر مہما ن خانہ میں چلا گیا۔ (سیرت المہدی روایت نمبر 928)
حضرت ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب (مہر سنگھ) بی اے کی اہلیہ تحریر کرتی ہیں کہ جب میں پہلے پہل اپنے والد خلیفہ نور الدین صاحب کے ساتھ قادیان آئی تو جس طرف اب سردارالنساء رہتی ہے حضرت صاحب ؑ کا کچھ مکان ہوتا تھا اور میاں بشیر احمدؐ صاحب والے مکان میں لنگر خانہ ہوتا تھا جس میں میاں غلام حسین روٹیاں پکایا کرتا تھا۔ سالن گھر میں پکا کرتا تھا اور آٹا بھی گھر میں گندھتا تھا۔ جب روٹی پک کر آتی تو سالن برتنوں میں ڈال کر باہر بھیجا جاتا۔ برتن ٹین کے کٹورے اور لوہے کے خوانچے ہوتے تھے۔ کھانا مسجد مبارک میں بھیجا جاتا اور حضور علیہ السلام سب مہمانوں کے ساتھ مل کرکھاتے۔ (سیرت المہدی روایت نمبر 1283)
حضر ت مسیح موعودؑ مہمان بچوں کو بھی اپنے بچوں سے پہلے کھانا کھلاتے تھے۔ تا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ بارش سخت ہورہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے۔ انہوں نے کھانا حضورؑ اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں، باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں ؟‘‘ جواب ملا کہ نہیں۔ ان دنوں دادی مرحومہ ؓ وہاں رہا کرتی تھیں۔ حضورؑ نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ ’’پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھالیں گے۔‘‘ (سیرت المہدی روایت نمبر 1505)
پھر حضرت مسیح موعودؑ مہمانوں کی کثرت سے بالکل پریشان نہ ہوتے تھے۔ بلکہ اگر کوئی پریشانی کا اظہار کرتا تو ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ کی اہلیہ تحریر کرتی ہیں کہ میں ایک دفعہ 1903ء میں قادیان سالانہ جلسہ پر آئی۔ شام کا وقت تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور میرے بھائی اقبال علی صاحب میرے ساتھ تھے۔ حضور علیہ السلام اس وقت اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ مجھ سے پوچھا: ’’راستہ میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تھی؟‘‘ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا: ’’کتنے دن کی چھٹی ملی ہے؟‘‘ میں نے کہا:دس دن کی۔ پھر فرمایا: ’’راستہ میں سردی لگتی ہوگی؟‘‘ میری گود میں عزیزہ رضیہ بیگم چند ماہ کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنابڑی ہمت کاکام ہے۔‘‘ حضورؑ مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب (اس وقت وہ لنگر خانہ کے افسر اعلیٰ تھے)آئے اور فرمایا۔ حضرت! مہمان توکثرت سے آگئے ہیں، معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا۔ حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’میرصاحب! آپ نے یہ کیا کہا؟آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے، جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا؟ پھر ایسی بات نہ کریں‘‘۔ میر صاحب سبحان اللہ، سبحان اللہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے۔ (سیرت المہدی روایت نمبر 1288)
تو یہ تھا حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان نوازی کا طریق۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین