دادی جان کا آنگن

دفتر اطفال وقفِ جدید کا غُلّک

ارے محمود یہ منہ کیوں پھلایا ہوا ہے؟ دادی جان نے محمود کو کونے میں بیٹھا دیکھ کر پوچھا۔

احمد: چھٹیاں ختم ہونے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اور ابو جان نے کہا تھا کہ وہ ہمیں کہیں لے کر جائیں گے۔

گڑیا: ا ور ابھی محمود ابوجان سے ضد کرکے ہی بیٹھاہے۔

دادی جان: ہمم تو یہ بات ہے۔ محمود میاں کہاں جانا چاہتے ہو؟

محمود منہ بسورتے ہوئے: کہیں بھی، پارک، بیچ (beach)یا فَن لینڈ۔ دادی جان آپ کہیں ناں۔ ابو جان آپ کی تو ہر بات مانتے ہیں۔

دادی جان: چلیں آج میں آپ کے ابو جان کو کہتی ہوں کہ آپ کو گھمانے لے جائیں۔ اب خوش ہو؟

محمود خوشی سے اچھلتے ہوئے: میری دادی جان تو گریٹ ہیں۔

رات کو واپس آکر محمود تھک چکا تھا لیکن وہ دادی جان کو سارے دن کی کہانی سنانے لگا۔ احمد اور گڑیا بھی خوش تھے۔

گڑیا: دادی جان شکریہ آپ نے ہماری چھٹیاں یادگار بنوا دیں۔

احمد: جی دادی جان۔ لیکن محمود نے ابو جان کا بہت خرچہ بھی کروایا۔ ہر جھولے میں بیٹھنے کی ضد کر رہا تھا۔ اور وہاں بھی ناراض ہوگیا تھا۔ آئس کریم بھی منگوائی لیکن پھر مکمل کھا بھی نہ سکا۔ ہمیں ختم کرنا پڑی۔ اور وہ میری پسند کا فلیور بھی نہیں تھا۔

گڑیا: احمد بھائی آپ نے تو شکایتیں ہی لگادیں۔

دادی جان: اگر احمد چاہتا ہے کہ میں اسے نصیحت کروں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس طرح کسی کی بھی برائی نہیں کرتے۔

احمد: جی ٹھیک ہے دادی جان۔

دادی جان: تو محمود میاں آپ نے تو خوب انجوائے کیا ہوگا۔

محمود: جی ہاں دادی جان میں تو بہت خوش ہوں۔ شکریہ آپ کا بھی!

دادی جان: آپ کے جانے کے بعد آپ کے ناظم اطفال آئے تھے اور وقفِ جدید دفتر اطفال میں مزید ادائیگی کا کہہ رہے تھے۔ اور انہوں نے بتایا تھا کہ جب حضور انور ایدہ اللہ اعلان کریں گے تو پچھلے سال جس بچے کے باکس میں سے سب سے زیادہ چندہ جمع ہوا ہوگا اسے اس سال بھی انعام ملے گا۔

احمد: جی دادی جان۔ میں نے چھٹیوں میں بھی پاکٹ منی جمع کی ہے۔ ہم نے30؍دسمبر کو اپنے غلّک جمع کرانے ہیں۔

محمود: لیکن میں نے تو اپنے جیب خرچ میں سے بھی آج جھولے لے لیے۔ اور میرے پیسے تو ختم ہوگئے۔

احمد: اسی لیے تو کہہ رہا تھا کہ ایک بار جھولا کافی تھا۔ اور میں نے سارا سال بھی اپنا کافی جیب خرچ اپنے غلک (Money Box)میں ڈالا تھا۔ اس بار امید ہے میری پوزیشن آئے گی۔ دادی جان آپ دعا کیجئے گا۔

دادی جان: جی ضرور۔ میرے ذہن میں کچھ اور واقعات آ رہے ہیں۔ کیا سناؤں؟

گڑیا: جی دادی جان ضرور۔

دادی جان: حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ لائبیریا کی کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی کی ایک جماعت میں مغرب و عشاء کے بعد احبابِ جماعت کو وقف جدید کے چندے کے حوالے سے تحریک کی۔ اسی دوران دو چھوٹے لڑکے مسجد سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ دیر کے بعد دونوں واپس آئے اور بیس بیس لائبیرین ڈالر چندہ ادا کردیا۔ عموما ًوہاں والدین بچوں کا چندہ دیتے ہیں اس لیے مبلغ صاحب نے بچوں سے پوچھا کہ انہوں نے اپنا چندہ خود کیوں دیا ہے؟ اس پر دونوں بچے کہنے لگے کہ ہمیں یہ پتا چلا تھا کہ خلیفۂ وقت کا یہ ارشاد ہے کہ بچے بھی وقفِ جدید میں شامل ہوں۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ اب ہم خلیفة المسیح کے ارشاد کے مطابق پیسے جمع کرکے خود اپنا چندہ ادا کریں گے۔ (خطبہ جمعہ 3؍جنوری 2020ء)

پھر کیرالہ، بھارت کی ایک جماعت ’’کوچین‘‘ میں احباب جماعت کو مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کی گئی۔ جلسے کے ختم ہونے کے بعد صدر صاحب کی بیٹی جس کی عمر آٹھ سال ہے وہ اپنا منی باکس لے کرآگئی کہ مولوی صاحب اس میں جتنی بھی رقم ہے وہ چندہ میں جمع کرلیں۔ اس وقت اس کے باکس میں تقریباً آٹھ سو چونسٹھ روپے تھے جو بچی نے پیش کیے۔ اس کے والدنے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک عرصے سے یہ رقم چندہ میں دینے کی نیت سے ہی جمع کر رہی تھی۔ باپ نے کہا جب میں اپنی دکان سے واپس آتا تو میری جیب میں جو بھی سکّے ہوتے وہ مجھ سے لے کر جمع کر لیتی۔ کہتی وہ سکّے مجھے دے دیں۔ اور اپنے بُوگی میں ڈال لیتی۔ اس طرح اس بچی نے کئی مہینوں سے جمع کی ہوئی رقم چندے میں ادا کر دی۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ6؍نومبر2020ء)

کینیڈا میں یونیورسٹی کی ایک بچی کہتی ہے کہ ایک دفعہ میری لوکل سیکرٹری وقف جدیدنے مجھے کہا کہ تم چندہ وقف جدید ضرور دو۔ خدا تعالیٰ اس طرح تمہاری مشکلات دُور فرمائے گا۔ میرے پاس اس وقت صرف پچاس ڈالر تھے جو کہ ایک سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے میرے لیے بہت بڑی رقم تھی لیکن میں نے چندہ وقف جدید میں ادا کر دیے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں یہ رقم دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے یونیورسٹی سے آٹھ سو ڈالر سکالر شپ مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے میری قربانی سے بہت بڑھ کے نوازا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ جنوری 2018ء)

محمود: دادی جان میں بھی اگلے سال کوشش کروں گا کہ میں وقفِ جدید کے منی باکس میں زیادہ سے زیادہ جیب خرچ جمع کر سکوں۔ اور اگلے سال میں احمد بھائی کو بھی پیچھے چھوڑ دوں گا۔

دادی جان: ان شاء اللہ۔ اب آرام کریں۔ آج تو آپ بچے باہر گئے تھے ناں۔ آپ کے ابو جان نے کل کی چھٹی لی ہے اور کل ہم سب پکنک پر جا رہے ہیں۔

تینوں بچے خوش خوش کل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کمرے کی طرف چلے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button