خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍دسمبر 2024ء
’’یارسول اللہؐ! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اور آپؐ کے دین سے اور آپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی، لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اور آپؐ کادین اور آپؐ کاشہر سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (ثمامہ بن اثال)
سَرِیَّہ قُرْطَاء کے حالات و واقعات کا مفصّل بیان
مکرم عبداللطیف خان صاحب آف یوکے ،مکرم طیّب احمد صاحب شہیدآف راجن پور حال راولپنڈی، عزیزم مھند مؤیّد ابو عواد صاحب آف غزہ، مولوی محمد ایوب بٹ صاحب درویش قادیان، مکرم ڈاکٹر مسعود احمد ملک صاحب آف امریکہ اور مکرم شبیر احمد لودھی صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ حاضر و غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍ دسمبر2024ء بمطابق13؍ فتح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے آج ایک سریہ کا ذکر کروں گا جو
سَرِیَّہ قُرْطَاء
کہلاتا ہے۔ یہ سریہ دس محرم چھ ہجری کو ہوا اور
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مَسْلَمَہ ؓ کو تیس سواروں کے ہمراہ قُرْطَاءکی جانب بھیجا۔
قرطاء بنو بَکر بن کِلَاب کی ایک شاخ تھی جو ضَرِیَّہ کے نواح میں بَکْرَات نامی جگہ پر رہتے تھے۔ بکرات مدینہ سے سات راتوں کی مسافت پر تھا۔ اور ضریّہ بنو کلاب کی ایک قدیم بستی تھی۔ یہ بھی پرانی تاریخوں میں جو روایات ملتی ہیں ان کے مطابق مدینہ سے سات راتوں کی مسافت پر تھی۔ آجکل تو فاصلے کم ہو گئے ہوں گے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ضریہ مدینہ سے ایک یا دو راتوں کی مسافت پر تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ 60 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 663-664)
(فرہنگ سیرت صفحہ60، 233۔ زوار اکیڈمی کراچی)
(سبل الھدٰی والرشاد جلد6صفحہ 71دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ان تیس صحابہؓ میں حضرت عَبَّاد بن بِشر ؓ، حضرت سَلَمَہ بن سَلَامہؓ اور حضرت حارث بن خزمہؓ شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماعت کو رات کو چلنے اور دن کو چھپنے اور ان پر اچانک حملہ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ جب وہ شَرَبَّہ نامی جگہ پر تھے۔ (شَرَبَّہ نجد میں ایک جگہ تھی) تو انہیں کچھ سواریاں ملیں۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اپنے ایک ساتھی کو بھیجا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ وہ کون لوگ ہیں۔ وہ گئے اور واپس آکر بتایا کہ وہ قبیلہ مُحَارِب کے لوگ ہیں۔ انہوں نے قریب ہی پڑاؤ ڈالا ہوا ہے اور اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑا ہے یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان کو اتنی مہلت دی کہ ان کے جانور پانی کے گرد بیٹھ گئے تو مسلمانوں نے ان لوگوں پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے کچھ کو قتل کر دیا اور باقی سب بھاگ گئے۔ جو بھاگ گئے ان کا تعاقب نہ کیا گیا۔ صحابہؓ نے اونٹوں اور بکریوں کو ہانکا اور عورتوں کو کچھ نہ کہا۔ پھر وہاں سے چل پڑے اور جب ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں سے وہ بنو بکر کو دیکھ سکتے تھے تو حضرت محمد بن مسلمہؓ نے حضرت عَائِذ بن بُسرؓ کو بنو بکر کی طرف حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت عائذؓ نے واپس آ کر حضرت محمد بن مسلمہؓ کو حالات سے آگاہ کیا۔ پھر حضرت محمد بن مسلمہؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلے اور بنو بکر پر حملہ کیا۔ ان میں سے دس آدمیوں کو قتل کر دیا اور اونٹ اور بکریوں کو ہانک لائے اور مدینہ کی طرف تیزی سے چلے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اپنے چند ساتھیوں کو بکریوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ دیا اور اونٹوں کو ہانک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے۔ اس کے بعد بکریاں بھی پہنچ گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے خُمْس نکالا اور باقی حضرت محمد بن مسلمہؓ کے ساتھیوں میں تقسیم فرما دیا۔ ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا گیا۔
(ماخوذاز سبل الھدٰی والرشاد جلد6صفحہ 71 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 217۔ زوار اکیڈمی کراچی)
یہ پوری روایت تاریخ کی ایک کتاب میں ہے کیونکہ تفصیل نہیں ہے اس لیے لگتا ہے اتنا بڑا ظلم ہوا۔ آگے اس کی وضاحت بھی آ جائے گی۔ کل ڈیڑھ سو اونٹ اور تین ہزار بکریاں تھیں۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2 صفحہ 60 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس مہم کے لیے حضرت محمد بن مسلمہؓ انیس راتیں مدینہ سے باہر رہے اور انتیس محرم چھ ہجری کو مدینہ واپس آئے۔
(سبل الھدٰی والرشاد جلد6صفحہ 71 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اس کی تفصیل میں مختلف کتابوں سے تواریخ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’ابھی چھ ہجری شروع ہی ہوا تھا اور قمری سال کے پہلے مہینہ یعنی محرم کی ابتدائی تاریخیں تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواہلِ نجد کی طرف سے خطرہ کی اطلاعات پہنچیں۔ یہ اندیشہ قبیلہ قُرْطَاءکی طرف سے تھا جوقبیلہ بنوبکر کی ایک شاخ تھا اور نجد کے علاقہ میں بمقام ضَرِِیَّہ آباد تھا جومدینہ سے سات یوم کی مسافت پرواقع تھا۔ یہ خبرپاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تیس سواروں کا ایک ہلکا سادستہ اپنے ایک صحابی محمد بن مَسْلَمہ انصاری کی کمان میں نجد کی طرف روانہ فرما دیا مگر اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں کچھ ایسا رعب پیدا کر دیا کہ وہ معمولی سے مقابلہ کے بعد ہی بھاگ نکلے اور گو اس زمانہ کے طریق جنگ کے مطابق مسلمانوں کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ دشمن کی عورتوں اور بچوں کوقید کر لیتے کیونکہ دشمن انہیں چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا مگر محمد بن مسلمہ نے عورتوں اور بچوں سے کوئی تعرض نہیں کیا اور عام سامانِ غنیمت لے کر جو اونٹوں اور بکریوں پرمشتمل تھا مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 662-663)
یہ وضاحت ہو گئی کہ جو دشمن قوم تھی وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی planningکر رہے تھے، اس کے سدّ باب کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہاں بھی یہ نرمی دکھائی کہ عورتوں اور بچوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔
اس موقع پر
ثُمَامہ بن اُثال کا قیدی بننا اور اسلام قبول کرنے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ سَرِیَّہ قُرْطَاءسے واپسی پرثُمَامہ بن اُثال کے قید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’اس مہم‘‘ یعنی سَرِیَّہ قُرْطَاء ’’کی واپسی پرثُمَامہ بن اُثال کے قید کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ یہ شخص یمامہ کا رہنے والا تھا اور قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک بہت بااثر رئیس تھا اور اسلام کی عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ہمیشہ بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے درپے رہتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایلچی اس کے علاقہ میں گیا تو اس نے تمام قوانین جنگ کو بالائے طاق رکھ کر اس کے قتل کی سازش کی بلکہ ایک دفعہ اس نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا بھی ارادہ کیا تھا۔ جب محمد بن مسلمہ کی پارٹی ثُمَامہ کوقید کر کے لائی تو انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کون شخص ہے بلکہ انہوں نے اسے محض شبہ کی بنا پر قید کرلیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ ثُمَامہ نے بھی کمال ہوشیاری کے ساتھ ان پر اپنی حقیقت ظاہر نہیں ہونے دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اسلام کے خلاف خطرناک جرائم کا مرتکب ہو چکا ہوں اور اگر اسلام کے ان غیرت مند سپاہیوں کویہ پتہ چل گیا کہ میں کون ہوں تو وہ شاید مجھ پر سختی کریں یا قتل ہی کر دیں۔‘‘ کیونکہ خود یہ بہت سارے ایسے کام کر چکا تھا جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا تھا ’’مگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بہتر سلوک کی توقع رکھتا تھا۔‘‘ اس کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاؤں تو وہاں مجھ سے بہتر سلوک ہو گا۔ ’’چنانچہ مدینہ کی واپسی تک محمد بن مسلمہ کی پارٹی پرثُمَامہ کی شخصیت مخفی رہی۔
مدینہ پہنچ کر جب ثُمَامہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا توآپؐ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور محمد بن مسلمہ اوران کے ساتھیوں سے فرمایا: جانتے ہو یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے لاعلمی کااظہار کیا جس پر آپؐ نے ان پر حقیقت حال ظاہر کی۔ اس کے بعد آپؐ نے حسبِ عادت ثُمَامہ کے ساتھ نیک سلوک کیے جانے کا حکم دیا اور پھر اندرونِ خانہ تشریف لے جا کر گھر میں ارشاد فرمایا کہ جو کچھ کھانے کے لیے تیار ہو ثُمَامہ کے لیے باہر بھیجوا دو۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے صحابہ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ثُمَامہ کوکسی دوسرے مکان میں رکھنے کی بجائے مسجد نبوی کے صحن میں ہی کسی ستون کے ساتھ باندھ کر قید رکھا جائے جس سے آپؐ کی غرض یہ تھی کہ تا آپؐ کی مجالس اور مسلمانوں کی نمازیں ثُمَامہ کی آنکھوں کے سامنے منعقد ہوں اور اس کا دل ان روحانی نظاروں سے متاثر ہوکر اسلام کی طرف مائل ہو جائے۔‘‘
تو اُسے اس طرح باندھا گیا تھا۔ یہ نہیں کہ اس طرح باندھا جاتا کہ وہ متاثر نہ ہوتا اور غصہ میں رہتا بلکہ نرمی سے آرام سے ہی باندھا گیا ہو گا جس طرح ایک قیدی کو باندھا جاتا ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں بھی ہلا سکے۔
’’ان ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز صبح کے وقت ثُمَامہ کے قریب تشریف لے جاتے اور حال پوچھ کر دریافت فرماتے کہ ثُمَامہ! بتاؤ اب کیا ارادہ ہے؟ ثُمَامہ جواب دیتا۔ ’’اے محمدؐ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگرآپ مجھے قتل کردیں تو آپ کو اس کا حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کا الزام ہے لیکن اگر آپ احسان کریں تو آپ مجھے شکر گزار پائیں گے اور اگر آپ فدیہ لینا چاہیں تو میں فدیہ دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘‘ تین دن تک یہی سوال وجواب ہوتا رہا۔ آخر تیسرے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ ’’ثُمامہ کو کھول کر آزاد کر دو۔‘‘ صحابہؓ نے فوراً آزاد کر دیا اور ثُمامہ جلدی جلدی مسجد سے نکل کر باہر چلا گیا۔ غالباً صحابہؓ یہ سمجھے ہوں گے کہ اب وہ اپنے وطن کی طرف واپس لوٹ جائے گا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ چکے تھے کہ ثُمَامہ کادل مفتوح ہو چکا ہے۔‘‘ اب اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کا اثر ہو چکا ہے۔ اور نتیجہ بھی یہی نکلا۔ آگے لکھا ہے کہ ’’چنانچہ وہ ایک قریب کے باغ میں گیا اور وہاں سے نہا دھو کر واپس آیا اور آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔
’’یارسول اللہؐ! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اور آپؐ کے دین سے اور آپؐ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اور آپؐ کادین اور آپؐ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
اس دن شام کوجب حسبِ دستور ثُمامہ کے لیے کھانا آیا تو اس نے تھوڑا سا کھانا کھا کر چھوڑ دیا۔ جس پرصحابہؓ نے تعجب کیا کہ صبح تک تو ثُمامہ بہت زیادہ کھاتا رہا ہے۔‘‘ قید کیا ہوا تھا، باندھا ہوا تھا اس سے بھی یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح قید تھا کہ وہ کھا پی سکتا تھا اور باندھا اس طرح ہوا تھا کہ کھاپی سکتا تھا اور اس کے کھانے میں خوب خاطر مدارت کی جاتی تھی۔ بہرحال اس نے تھوڑا کھایا اور پہلے بہت زیادہ کھایا کرتا تھا ’’اور گویا پیٹو تھا لیکن اب اس نے بہت تھوڑا کھانا کھایا ہے۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’صبح تک ثُمامہ کافروں کی طرح کھانا کھاتا تھا اوراب اس نے ایک مسلمان کی طرح کھایا ہے۔‘‘ اور آپؐ نے اس کی تشریح یوں فرمائی کہ ’’کافر سات آنتوں میں کھانا کھاتا ہے مگر مسلمان صرف ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے۔‘‘ اس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ جہاں ایک کافر کو دنیوی لذات میں انہماک ہوتا ہے اور گویا وہ اسی میں غرق رہتا ہے وہاں ایک سچا مسلمان اپنی جسمانی ضروریات کو صرف اس حد تک محدود رکھتا ہے جو زندگی کے قیام کے لیے ضروری ہے کیونکہ اسے حقیقی لذت صرف دین میں حاصل ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ سات کے عدد سے حسابی عدد مراد نہیں ہے بلکہ عربی محاورہ کی رو سے سات کا عدد کثرت اور تکمیل کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا مراد یہ ہے کہ ایک کافر دنیوی لذات میں غرق رہتا ہے اور اس کی ساری توجہ دنیا میں صرف ہوتی ہے مگر ایک مومن اپنے آپ کو دنیوی لذات سے روک کر رکھتا ہے اور ضرورت حقہ کی حد سے آگے نہیں گزرتا کیونکہ اس کی حقیقی لذات کا میدان اَور ہے۔ یہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فطری میلان اور آپؐ کے ذاتی خلق کا ایک نہایت سچاآئینہ ہے۔
مسلمان ہونے کے بعد ثُمَامہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! جب آپؐ کے آدمیوں نے مجھے قید کیا تھا تو اس وقت میں خانہ کعبہ کے عمرہ کے لیے جا رہا تھا۔ اب مجھے کیا ارشاد ہے؟‘‘ آپؐ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور دعا کی اور ثُمامہ مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر ثُمامہ نے جوشِ ایمان میں۔‘‘ اب اس کا جوش ایمان بالکل اَور شکل اختیار کر گیا تھا۔ کہاں مخالفت تھی کہاں ایمان کا جوش تھا۔مکہ پہنچ کے وہاں اس نے ’’قریش کے اندر برملا تبلیغ شروع کر دی۔ قریش نے یہ نظارہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور انہوں نے ثُمَامہ کو پکڑ کر ارادہ کیا کہ اسے قتل کر دیں مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ یمامہ کے علاقے کا رئیس ہے اور یمامہ کے ساتھ مکہ کے گہرے تجارتی تعلقات ہیں وہ اس ارادہ سے باز آگئے اور ثُمَامہ کو برا بھلا کہہ کر چھوڑ دیا مگر ثُمَامہ کی طبیعت میں سخت جوش تھا اور قریش کے وہ مظالم جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ پر کرتے رہے تھے وہ سب ثُمَامہ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ اس نے مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے قریش سے کہا
’’خدا کی قسم!آئندہ یمامہ کے علاقہ سے تمہیں غلہ کاایک دانہ نہیں آئے گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہ دیں گے۔‘‘
اپنے وطن میں پہنچ کر ثُمَامہ نے واقعی مکہ کی طرف یمامہ کے قافلوں کی آمد ورفت روک دی اور چونکہ مکہ کی خوراک کابڑا حصہ یمامہ کی طرف سے آتا تھا اس لیے اس تجارت کے بند ہوجانے سے قریش مکہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئے اور ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ انہوں نے گھبرا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ ہمیشہ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں اور ہم آپ کے بھائی بند ہیں۔ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ اس وقت قریش مکہ اس قدرگھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے صرف اس خط پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے رئیس ابوسفیان بن حرب کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زبانی بھی بہت آہ وپکار کی‘‘ بہت شور مچایا ’’اور اپنی مصیبت کااظہار کرکے رحم کاطالب ہوا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثُمامہ بن اُثال کوہدایت بھجوادی کہ قریش کے ان قافلوں کی جن میں اہلِ مکہ کی خوراک کا سامان ہوروک تھام نہ کی جاوے۔ چنانچہ اس تجارت کاسلسلہ پھرجاری ہو گیا اور مکہ والوں کو اس مصیبت سے نجات ملی۔ یہ واقعہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر شفقت اور رحم اور عفو کاایک بین ثبوت ہے وہاں اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ شروع شروع میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے قافلوں کی روک تھام کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کی اصل غرض وغایت یہ نہیں تھی کہ قریش کو قحط میں مبتلا کرکے تباہ کیا جائے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ مدینہ کے قرب وجوار کوقریش کے خطرہ سے محفوظ کر لیا جائے۔ اس واقعہ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے حربی دشمن کے متعلق بھی یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ عام حالات میں اس کے سلسلہ رسل ورسائل کو اس حد تک بند کردیا جائے کہ وہ نانِ جویں تک سے محروم ہو جائے۔‘‘ روٹی پانی سے محروم ہو جائے۔ خوراک سے محروم ہو جائے۔ ’’ہاں سامانِ حرب کی آمدورفت یاضروری سامان خورو نوش کے علاوہ دوسری اشیا کی برآمد ودرآمد کا سلسلہ جنگی ضروریات کے ماتحت روکا جاسکتا ہے۔‘‘
لیکن آج کی دنیا نے عجیب تماشا بنایا ہوا ہے کہ جنگ میں غریب عوام تک، محروم عوام تک خوراک بھی نہیں پہنچنے دیتے اور پھر بہانہ بنا دیتے ہیں کہ وہاں دہشت گرد تھے یا فلاں تھا یا فلاں تھا۔ بہرحال یہ تو ان لوگوں کا کام ہے جو دنیادار ہیں لیکن اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے۔ ’’اور اگر یہ صورت ہوکہ دشمن مسلمانوں کی خوراک کے سلسلہ کو روکے‘‘ اگر یہ صورت آتی ہےکہ دشمن مسلمانوں کے خوراک کے سلسلہ کو روکے ’’توپھر قرآن کی اصولی تعلیم جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا۔ کے ماتحت اس کے اس سلسلہ کو بھی روکنا جائز ہوگا۔‘‘ کہ ادلے کا بدلہ ہو گا۔
’’جیسا کہ اُوپر ذکر کیا گیا ہے ثُمَامہ بن اُثال اپنے علاقہ کاایک ذی اثر رئیس تھا۔ اس کی پرجوش تبلیغ کے ذریعہ یمامہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب اور حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے شروع میں مسیلمہ کذاب جھوٹے مدعی نبوت کے پیچھے لگ کر یمامہ سے بہت سے بادیہ نشین اسلام سے مرتد ہو گئے تو ثُمامہ نہ صرف خود نہایت پختگی کے ساتھ اسلام پر قائم رہا بلکہ اس نے اپنی والہانہ جدوجہد سے بہت سے لوگوں کو مسیلمہ کے شر سے محفوظ کر کے اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع رکھا اور مسیلمہ کے فتنہ کے مٹانے میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 663 تا 666)
یہ اس سریہ کا کُل ذکر ہے۔
آج کچھ میں نے
جنازے
بھی پڑھانے ہیں۔
ایک حاضر جنازہ
ہے۔ [اس موقع پر حضور نے استفسار فرمایا کہ جنازہ آ گیا ؟ اور پھر مثبت جواب ملنے پر ارشاد فرمایا کہ]
حاضر جنازہ مکرم عبداللطیف خان صاحب کا ہے جو مڈل سیکس کے ریجنل امیر بھی رہے ہیں۔
11؍ دسمبر کو پچاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت محمد ظہور خان صاحب پٹیالویؓ کے بیٹے اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ معالج حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے تھے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے ڈاکٹر تھے۔ عبداللطیف خان صاحب یوکے جماعت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ پچپن سال تک ان کو مقامی اور مرکزی سطح پر خدمت کی توفیق ملی۔ ہنسلو جماعت کے پہلے صدر رہے۔ اس کے علاوہ نیشنل سطح پر سیکرٹری وصایا، سیکرٹری تبلیغ، سیکرٹری رشتہ ناطہ اور ریجنل امیر کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔
مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند تھے۔ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ ہمدرد،ملنسار،خوش گفتار، بڑے محنتی، اطاعت گزار، نیک اور مخلص انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ بھی بڑا گہرا پختہ تعلق تھا، عقیدت کا تعلق تھا۔ جماعتی خدمت کے لیے ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ اپنے ریجن میں بننے والی تمام مساجد کےلیے عطیات اکٹھا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا۔ ہنسلو میں ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور ہمیشہ جماعتی پروگراموں میں کثیر تعداد میں ان کو لے کر آیا کرتے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ ان کے بیٹے بھی جماعت کے کام کر رہے ہیں۔ اور کئی پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہیں۔ اچھا خاندان ہے ان کا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور بچوں کو بھی اور ان کی نسل کو بھی وفا کے ساتھ خلافت اور جماعت سے وابستہ رکھے۔
دوسرا
جنازہ غائب
ہے جو
طیب احمد صاحب شہید ابن منظور احمد صاحب راجن پور حال راولپنڈی
کا ہے۔ طیب احمد صاحب کو راولپنڈی میں ایک معاند احمدیت نے پانچ دسمبر کو کلہاڑی کے وار کر کے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
تفصیلات کے مطابق طیب احمد شہید چند روز قبل راجن پور سے راولپنڈی اپنے بھائی طاہر احمد قمر کی کاروباری معاونت کے سلسلہ میں پہنچے تھے۔ شہید مرحوم بھائی کی دکان پہ بیٹھے تھے کہ ایک شخص وہاں آیا اور شہید مرحوم سے بحث شروع کر دی۔ شہید مرحوم نے مذکورہ شخص کو بتایا کہ آپ میرے ساتھ کیوں الجھ رہے ہیں۔ میں تو یہاں مہمان ہوں اس کے باوجود حملہ آور نے پروا نہیں کی اور سر،گردن اور پشت پر کلہاڑی سے وار کیے جس سے طیب احمد صاحب موقع پر شہید ہو گئے۔
طاہر احمد قمر صاحب جو ذرا دور تھے وہ اپنے بھائی کی مدد کو وہاں پہنچے،تو حملہ آور ان کی طرف بھی کلہاڑی لے کر بڑھا۔ انہوں نے بہرحال بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور اس واقعہ کے دوران قاتل جماعت مخالفانہ نعرے بازی کرتا رہا۔ یہ بھی کہا کہ قادیانیو !تم لوگوں کو کئی بار کہا ہے کہ یہ علاقہ چھوڑ دو اور بہرحال یہ وار کر کے وقوعہ کے بعد فرار ہو گیا۔ تاہم بعد میں پولیس نے قاتل کو حراست میں لے لیا ہے۔ اب دیکھیں مقدمہ کہاں تک پہنچتا ہے۔
شہید مرحوم کے بھائی طاہراحمد اور خاندان کے دیگر افراد کاروبار کے سلسلہ میں راولپنڈی مقیم ہیں اور گذشتہ ایک سال کے دوران کہتے ہیں کہ مخالفانہ حالات اور دھمکیوں کی بناپر اس خاندان کو چار مرتبہ کاروبار کی جگہ تبدیل کرنی پڑی۔ تین ماہ قبل ان سے مکان بھی خالی کروا لیا گیا۔ متعدد مرتبہ مخالفین کی طرف سے پتھراؤ اور کاروباری نقصان کا سامنا رہا۔ بے بنیاد الزامات عائد کر کے ان کے خلاف درخواستوں پر پولیس کی طرف سے بھی انہیں بلایا جاتا رہا۔ ان سب حالات کا انہوں نے بلند حوصلے سے مقابلہ کیا۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا عمر دین صاحب آف قادیان کے ذریعہ سے ہوا۔ شہید مرحوم کے دادا احمد دین صاحب کو بطور مستری منارة المسیح کی تعمیر میں حصہ لینے کی سعادت ملی۔ فرقان بٹالین میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے موقع پر خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قافلے میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے پاکستان آ کر بستی قندھارا سنگھ ضلع رحیم یار خان میں جماعت قائم کی اور صدر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی اور احمدیہ بیت الذکر کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔
شہید بوجہ بیماری تعلیم حاصل نہ کر سکے تاہم لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کھیتی باڑی اور محنت مزدوری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ شہید پنجگانہ نماز اور تہجد کے پابند تھے۔ گھر کے سب افراد کو نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے۔ خلافت سے بے پناہ عشق اور والدین کی خدمت بہت زیادہ کرتے تھے۔ رشتہ داروں کی ہمدردی کا جذبہ نمایاں تھا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کا خاص اہتمام کرتے۔ اول وقت میں مسجد پہنچ جاتے۔ شہید مرحوم کے والد منظور احمد صاحب نے بتایا کہ ابتدائی عمر میں ایک مرتبہ شہید عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بغیر سو گئے۔ خواب میں شہید نے دیکھا کہ ان کو کسی نے سختی سے اٹھایا اور کہا کہ نماز کیوں نہیں ادا کی؟ کہتے ہیں اس کے بعد شہید نے شاید ہی کبھی کوئی نماز چھوڑی ہو بلکہ تہجد کی ادائیگی کے پابند تھے۔
ان کی اہلیہ غزالہ صاحبہ کہتی ہیں کہ پانچ چھ سال پہلے شادی ہوئی اور مجھے ہمیشہ جس بات کی وہ خاص طور پر تلقین کرتے تھے یہ تھی کہ نماز کی ادائیگی باقاعدہ کرو۔
محمود احمد رند صاحب مربی ضلع کہتے ہیں کہ شہید مرحوم سے پہلی ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ مَیں جماعتی خدمت کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ اگر میری ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتائیں۔ شہید مرحوم واقفینِ زندگی سے بہت محبت کرنے والے سادہ اور کم گو انسان تھے۔ جب مسجد میں آتے تو سنتوں کی ادائیگی کے بعد ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ مرحوم کے پسماندگان میں والد، والدہ مقصودہ بی بی صاحبہ، اہلیہ غزالہ صاحبہ اور دو بھائی ہیں۔ ان کے ایک بھائی معلم وقف جدید ہیں۔ مرحوم کی اولاد کوئی نہیں تھی۔ اسی طرح مرحوم کی دو ہمشیرگان بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ غائب
جو ہے وہ
عزیزم مُھَنَّدْ مُؤَیَّدْ اَبُو عَوَاد غزہ فلسطین
کا ہے۔ یہ بھی ایک ڈرون حملے میں بیس سال کی عمر میں شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
شریف عودہ صاحب امیر کبابیر لکھتے ہیں کہ مُھَنَّدْ مُؤَیَّدْ اَبُو عَوَاد بیس سالہ شرمیلا، کم گو اور جنگی حالات کے باوجود ہمیشہ خوش پوشاک رہنے والا نوجوان تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ غزہ کے جنوب میں خان یونس کے قریب ہیومینٹی فرسٹ کے کیمپ میں ایک خیمے میں رہتا تھااور ہیومینٹی فرسٹ میں یہ کام بھی کرتے تھے۔ وہاں لوگوں کی خدمت بھی کرتے تھے، صرف خود کیمپ میں نہیں رہتے تھے بلکہ ہیومینٹی فرسٹ والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارابہت اچھاکارکن تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد مؤید صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے غالباً 2009ء یا 2010ء میں اپنے خاندان سمیت بیعت کی تھی۔ مُھَنَّد مرحوم کو جیسا کہ پہلے میں نے بتایا ہے ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم میں بطور رضا کار خدمت کی توفیق ملی۔ بہت سرگرم رکن تھے۔ مُھَنَّد اپنے خاندان میں تکالیف اور ضروریات کو محسوس کرتا اور ان کے ازالے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ کھانے کے لیے اس علاقے میں کچھ نہیں تھا۔ اس لیے وہاں کہیں سے غذا کا کوئی لقمہ مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا تھا۔ آجکل وہاں بہت برا حال ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے غذا جانے کی پابندی لگائی ہوئی ہے۔ مدد کے ٹرک جو جاتے ہیں ان کو روکا جاتا ہے۔ شہادت کے وقت سے کچھ دن پہلے مھند غزہ کے جنوب میں رفح کے علاقے میں کھانے کی تلاش میں گیا۔ اس علاقے سے کھانے کی امدادی سامان سےبھری گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن اکثر ان پر حملہ کر کے سب کو تباہ کر دیا جاتا ہے یا لوٹ لیا جاتا ہے۔ اس لیے بعض نوجوان اس علاقے میں جاتے ہیں کہ شاید انہیں تباہ حال ملبہ میں کہیں کچھ کھانے کا سامان مل جائے۔ بعض اوقات یہاں مٹی کے ساتھ ملا ہوا آٹا مل جاتا ہے۔ ملتا بھی ہے تو مٹی میں ملا ہوا لیکن یہ بھی ان کے لیے ایک غیر معمولی نعمت بن جاتا ہے۔ مھند ایک دفعہ جب وہاں گیا تو خوش قسمتی سے اُسے وہاں اپنے خاندان اور پڑوسیوں کے لیے کچھ آٹا مل گیا، وہ گھر لے آیا۔ والدہ بھی خوش تھیں کہ کئی لوگوں کو اس سے زندہ رہنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے والد نے ڈانٹا کہ دوبارہ نہیں جانا کیونکہ وہاں سے واپس لوٹنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی میں آگے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس لیے کوئی معقول فیصلہ نہیں ہے کہ تم وہاں چند کلو گرام آٹے کے لیے چلے جایا کرو اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالو۔ بہرحال وہ تین دسمبر کو پھر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ غذا کی تلاش میں وہاں چلا گیا۔ جب اس علاقے میں گیا تو وہاں ایک فلسطینی بھائی کی لاش دیکھی۔ آس پاس کچھ آوارہ کتے تھے جو لاش کو نوچ رہے تھے توان لوگوں کو بڑا دکھ ہوا۔ اصل مقصد بھول گئے اور انہوں نے لاش اٹھائی اور اسے ایک ایمبولینس تک پہنچایا تا کہ یہاں سے محفوظ جگہ پہنچ جائے، دفنائی جائے۔ اس دوران انہیں ایک زخمی عورت اور اس کی بیٹی کی چیخیں سنائی دیں جو مدد کے لیے پکار رہی تھیں، وہ بھی زخمی تھیں۔ یہ تینوں لاش کو ایمبولینس تک پہنچا کر سٹریچر لے کر زخمی ماں بیٹی کو لینے واپس گئے۔ ابھی ایک زخمی کو اٹھا کر لے جا رہے تھے کہ اسرائیلی طیارے نے اچانک ان پر میزائل چلا دیا۔ مھند اور اس کا ایک ساتھی اور دونوں زخمی عورتیں موقع پر شہید ہو گئے جبکہ تیسرا ساتھی بچ گیا۔ اس نے یہ ساری دردناک کہانی بیان کی۔ اور کہتے ہیں کہ اس کا بھی بڑا افسوس ہے کہ جو بھی مھند اور اس کے ساتھیوں کی لاش اٹھانے گیا تھا وہ بھی وہیں مارا گیا۔ آخر کار ان کی لاش ایک دن پہلے، کل ایک ہسپتال سے ملی ہے۔
شہید کے والد مؤید صاحب جماعت کے بہت ہی مخلص اور عاجز ممبر ہیں۔ وہ ہمیشہ جماعت کی خدمت کے لیے کام تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ہیومینٹی فرسٹ کے کیمپ میں وہ کسی کو نماز کےلیے مختص جگہ کی صفائی وغیرہ نہیں کرنے دیتے بلکہ خود صفائی کرتے ہیں۔ ہمیشہ اخلاص اور دیانتداری سے کام کرتے ہیں۔
ان کے والد کو بھی احمدیت قبول کرنے کے بعد بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اور کیونکہ وہ بڑے جرأت والے تھے اس لیے بڑی بلند آواز سے مختلف مساجد میں جا کے اعلان کرتے تھے کہ مسیح آ گیا ہے۔ اکثر اس وجہ سے ان کو مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کی پاداش میں مقامی حکومت نے انہیں ارتداد کا الزام لگا کر کئی کئی ہفتوں تک جیل میں رکھا لیکن وہ ان تمام مصائب میں مضبوط رہے۔ ان کا ایمان ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوا۔
گرفتاری کے دوران ایک تفتیشی نے ان کے کان پر مکا مارا جس کے بعد وہ اس کان سے بالکل کچھ نہیں سن سکتے تھے۔ بہرحال شہید مرحوم کے والد نے بھی بڑی قربانی دی ہے۔ اس خاندان نے جماعت کی خاطر، اپنے ایمان کی خاطر بڑی قربانی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور شہید مرحوم کے بھی درجات بلند کرے۔
اگلا جنازہ
مولوی محمد ایوب بٹ صاحب درویش قادیان
کا ہے جو گذشتہ دنوں قادیان میں سو سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ایوب بٹ صاحب نے اپنے ایک بیان میں لکھوایا تھا کہ ان کی والدہ مکرمہ کریم بی بی صاحبہ کے ذریعہ ان کے خاندان میں احمدیت آئی تھی۔ وہ میر پور کشمیر کی رہنے والی تھیں اور ان کے ایک بھائی سید ارشد علی صاحب قادیان سے تعلیم حاصل کر کے گئے تھے۔ ان کی تبلیغ سے والدہ نے احمدیت قبول کر لی۔ بعد میں والد نے بھی بیعت کر لی۔ ایوب بٹ صاحب درویش کی تحریر کے مطابق مرحوم نے عین جوانی میں خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔ اس خواب کی تعبیر آپ کی والدہ صاحبہ نے یہ بتائی کہ ان کو اللہ تعالیٰ دین کا کام کرنے کی توفیق دے گا۔ 1939ء میں مولوی صاحب نے اپنی زندگی وقف کر دی اور انتظامیہ کی طرف سے آپ کو ایران جانے کا حکم ہوا۔ وہاں پانچ سال تک خدمت دین بجا لاتے رہے۔ اس کے بعد کابل افغانستان جانے کا حکم ہوا۔ کابل جانے کے لیے آپ کوئٹہ میں تھے تو امیر صاحب جماعت احمدیہ کوئٹہ نے کہا کہ آپ کو قادیان بلایا گیا ہے۔ تقسیم ملک کا زمانہ تھا۔ انڈیا پاکستان کی تقسیم ہو رہی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت فرما کر لاہور میں مقیم تھے۔ جب مولوی صاحب لاہور پہنچے تو ان کو بتایا گیا کہ قادیان جانے کے لیے یہ آخری ٹرک جا رہا ہے اور اس کے بعد شاید اور کوئی ٹرک نہ جاسکے اس لیے آپ قادیان چلے جائیں۔ جہاں پہنچ کے مولوی صاحب کو قادیان میں مختلف مقامات پر حفاظتی ڈیوٹیاں دینے کا موقع ملا۔ پھر حضرت مصلح موعود ؓکی ہدایت پر جب ہندوستان میں تبلیغی جگہوں پر معلمین کو بھجوایا گیا تھا تو ان کو بھی بھجوایا گیا۔ جھانسی صوبہ یوپی میں بھجوا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے بڑے احسن رنگ میں تبلیغ کی اور ہندوؤں سے بھی اچھے مراسم تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک ہندو گُرو جی بیمار ہو گئے۔ ان کے مرید نے مولوی صاحب کو کہا کہ کوئی دوائی دیں۔ انہوں نے کہا اچھا صبح آنا۔کہتے ہیں میں نے دعا کی تو رات کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے اپنا دوائیوں کا بکس کھولا اور بتایا کہ یہ دوائی دے دو۔ مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ جب میں صبح بیدار ہوا تو وہ شیشی میرے ہاتھ میں تھی۔ پھر میں نے اس میں سے تین خوراکیں گُرو جی کو دے دیں اور وہ ٹھیک بھی ہو گئے۔
ہندوستان میں مختلف مقامات پر ان کو خدمت کی توفیق ملی اور اس دوران میدان عمل میں ہی انہوں نے ہومیو پیتھی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ بہت سے سعید الفطرت احباب کو ان کے ذریعہ سے قبول احمدیت کی توفیق بھی ملی۔ ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر محمود احمد بٹ صاحب اور ان کی اہلیہ یعنی بٹ صاحب کی بہو، درویش صاحب کی بہو ڈاکٹر منجو بٹ یہ واقفِ زندگی ہیں۔ انہوں نے ایک لمبا عرصہ گھانا میں خدمت کی ہے اور آجکل نور ہسپتال قادیان میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے ایک دوسرے بیٹے بھی امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد اور نسل کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر
مکرم ڈاکٹر مسعود احمد ملک صاحب
کا ہے جو نائب امیر جماعت یوایس اے تھے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں میں چھیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
آپ حضرت الحاج مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے اور ملک عبدالرحمٰن صاحب کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سنہ دو ہزار میں، 2000ء میں ان کو فریضہ حج ادا کرنے کی بھی توفیق ملی۔ انہوں نے پاکستان سے تعلیم مکمل کی۔ پھر امریکہ چلے گئے وہاں سے University of Nebraskaسے Animal Nutrition میں پی ایچ ڈی کی۔ پھر مختلف جگہوں پر ملازمت کرتے رہے۔ جماعتی خدمات میں مرحوم کو 2013ء سے وفات تک بطور نائب امیر جماعت امریکہ اور 1988ء سے 2013ء تک بطور جنرل سیکرٹری جماعت امریکہ خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ مختلف جماعتوں میں جہاں یہ رہے صدر جماعت بھی رہے۔ واشنگٹن میں بھی صدر جماعت رہے۔
حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب Revelation Rationality Knowledge and Truth کے لیے مختلف سائنسی جرائد سے حوالہ جات ڈھونڈنے کے کام میں انہیں اپنی ٹیم کے ساتھ خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے اس میں ان سے بھی کام لیا تھا اور یہ کام کچھ سالوں کے عرصہ پر محیط تھا۔
امیر صاحب جماعت امریکہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے کئی دہائیوں تک جماعت امریکہ کی پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ خدمت کی۔ خلافت کے مطیع اور فرمانبردار اور خلیفہ وقت کے ارشادات پر ہمیشہ لبیک کہنے والے اور نظام جماعت کا علم رکھنے والے اور اس کی اہمیت کو سمجھنے والے تھے اور ہمیشہ ان کو نظام جماعت کی پابندی کرتے ہوئے پایا۔
ان کی اہلیہ فریدہ صاحبہ کہتی ہیں۔ ملک صاحب اپنا زیادہ سے زیادہ وقت خدمت دین میں گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہفتے میں چار دن دس گھنٹے جاب کرتے تھے تا کہ جمعہ ہفتہ اتوار کو باقاعدگی سے تمام دن دفتر جنرل سیکرٹری میں کام کر سکیں اور اپنی جاب پہ بھی دس گھنٹے کام کرنے کے بعد بعض دفعہ سیدھے مسجد چلے جاتے تھے۔ رات دیر تک کام میں مصروف رہتے۔ ناشتہ بھی کہتی ہیں اس خیال سے دفتر جاتے ہوئے گاڑی میں لے جاتے کہ وقت بچے گا اور جماعتی کام کر سکوں گا۔
جماعتی اموال کی حفاظت اور ان کا خرچ کرنے میں بھی بہت احتیاط سے کام لیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے ایک دوست کو، وہاں کارکن کو کہا کہ کشائش تو جماعت میں پیدا ہو گئی ہے لیکن جو درد سے خرچ کرنا چاہیے وہ بعض لوگ اس طرح خرچ نہیں کرتے۔ غیر ضروری خرچ کر جاتے ہیں۔ جو پرانے لوگ ہیں ان کو اس بات کا بھی بڑا درد رہتا ہے کہ جس طرح جماعتی اموال کا استعمال ہونا چاہیے اس طرح بعض دفعہ استعمال نہیں ہوتا۔ اس بارے میں بھی سب عہدیداروں کو خیال رکھنا چاہیے۔
ان کی بیٹی سارہ کہتی ہیں کہ مرحوم کو ہمہ وقت جماعتی خدمت میں مصروف دیکھا۔ آپ نے گھر میں اپنی میز کے سامنے ایک بڑا سائن لگایا ہوا تھا جس پر یہ تحریر تھا کہ
What have I done today in the service of my Jama’at?
اور مرحوم نے حقیقی رنگ میں ہر دن جماعت کی خدمت میں مصروف گزارا۔
ان کے بھائی ملک مبارک صاحب کہتے ہیں کہ بیت الرحمٰن کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد روزانہ کام سے سیدھے مسجد آتے اور رات دیر تک جماعت کے کاموں میں مصروف رہتے اور خاص طور پر مجلس شوریٰ کے دنوں میں ان کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہو جاتا تھا۔ کئی ہفتے بہت دیر تک جماعت کے کاموں میں گزارتے۔
آپ کے جاننے والے لکھتے ہیں اور یہ بہت سارے لوگوں نے لکھا ہے کہ نظام جماعت کے لیے آپ کے دل میں بےحد عزت و احترام تھا اور اپنے بچوں میں بھی آپ نے جماعت کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خود بھی تقویٰ کی راہوں پر چلتے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ قریبی اور دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی آپ کا اعلیٰ وصف تھا۔ ضرورتمندوں کی ہمیشہ مدد کرتے اور مریضوں کی سب سے پہلے عیادت کے لیے جاتے۔ بہت محنتی،عاجز،مہمان نواز،علمی صلاحیت رکھنے والے ایک مخلص اور باوفا انسان تھے۔ ہر کام کو بڑی تفصیل اور باریکی سے کرنے والے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر پورا کرنے والے تھے۔ مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرتے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں اور نسلوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
اگلا ذکر
مکرم شبیر احمد لودھی صاحب
کا ہے جو میاں محمد شفیع صاحب مرحوم کے بیٹے تھے اور ہمارے ایک مربی سلسلہ فرخ شبیر لودھی کے والد ہیں۔ ان کی گذشتہ دنوں میں باسٹھ سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی ننگل کے ذریعہ ہوا۔ ان کو اوائل زمانہ خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ مرحوم موصی تھے۔ سب سے بڑے بیٹے فرخ شبیر لودھی مبلغ سلسلہ لائبیریا ہیں اور گذشتہ کئی سال سے وہ وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔
فرخ شبیر لودھی مبلغ سلسلہ اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تہجد گزار، پنجوقتہ نمازوں کے پابند، حتی الوسع نماز باجماعت کا اہتمام کرنے والے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، تلاوت قرآن کریم اور جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے، خلافت سے بےپناہ محبت کرنے والے، باقاعدگی سے خطبات سننے والے، تحریکات پر لبیک کہنے والے، نفلی روزہ کا بحالتِ صحت باقاعدگی سے اہتمام کرنے والے، ہر وقت جماعتی خدمت کے لیے تیار رہنے والے، واقفینِ زندگی سے خاص محبت کرنے والے، عہدیداران کا احترام کرنے والے، نظام جماعت کے لیے غیرت رکھنے والے، پیار سے تربیت کرنے والے، درگزر کرنے والے مشکلات میں صبر اور حوصلہ دکھانے والے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھنے والے، اپنی مشکلات اللہ تعالیٰ کے حضور خشوع و خضوع سے بیان کرنے والے، دوسروں کی مشکلات میں ہر ممکن مدد کرنے والے، کسی کے لیے بھی دل میں ناراضگی کے جذبات نہ رکھنے والے، کسی بھی کامیابی کو محض اللہ کا خاص فضل قرار دینے والے، انصاف کرنے والے، صائب الرائے،مہمان نواز اور دل کھول کر مالی معاونت کرنے والے تھے۔ اپنے عملہ کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ یہ صرف بیٹے کی باتیں نہیں ہیں اَور لوگوں نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔ اچھے نیک آدمی تھے۔
گوجرانوالہ میں ایک زمانہ میں جب کلمہ مٹانے کی تحریک شروع ہوئی ہے تو مسجد سے ہمارا کلمہ مٹایا جاتا تھا اور ان کو مقرر کیا گیا تھا کہ ہر دفعہ جب کلمہ مٹایا جاتا ہےتو آپ نے لکھنا ہے۔ چنانچہ جب مٹایا جاتا یہ فوراً جا کےدوبارہ کلمہ لکھ دیتے۔ بڑی ہمت سے انہوں نے اس وقت کام کیا۔ پھریہ لکھتے ہیں کہ ایک خوبی بڑی نمایاں تھی کہ ان کو اگر کسی سے کوئی تکلیف بھی پہنچتی تو کبھی پلٹ کے جواب نہیں دیتے تھے بلکہ صبر اور حوصلہ دکھاتے تھے اور اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے تھے۔ اپنی دعاؤں سے اپنی تکلیف کا مقابلہ کرتے تھے۔
سکول میں جہاں یہ پڑھاتے تھے ساتھیوں نے بہت زیادہ مخالفت کی بلکہ ایک سٹوڈنٹ کو بعض ساتھیوں نے کہا کہ ان کو گولی مار دو تو ہم تمہیں انعام دیں گے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ حفاظت میں رکھتا رہا اور بڑی جرأت سے وہاں کام کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔
نماز کے بعد میں جنازہ پڑھاؤں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل۳؍جنوری۲۰۲۵ء، صفحہ ۲تا۶)