ہمارا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا حبِّ پیغمبریؐ کا دعویٰ اپنے ہر عمل سے ثابت کریں (خلاصہ اختتامی خطاب جلسہ سالانہ قادیان۲۴ء)
٭… اے مخالفین احمدیت! جو حضرت محمدﷺ کی امت سے ہو آپﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو۔ غور کرو سوچو کہ تمہاری بلا وجہ کی مخالفت خدا تعالیٰ سے ناراضگی کا باعث نہ بن رہی ہو
٭…قادیان دار الامان میں ۴۲؍ ممالک کے ۱۶ہزار ۹۱؍ احباب جماعت کی شمولیت
٭…افریقہ کے سات ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ سے براہ راست مناظر
(اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۲۹؍دسمبر ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جماعت احمدیہ مسلمہ بھارت کا ایک سو انتیسواں جلسہ سالانہ بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان میں ۲۸،۲۷ و۲۹؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو اپنی تمام ترعظیم الشان اسلامی روایات کے ساتھ بخیروخوبی منعقد ہوا جس میں ۴۲؍ ممالک سے۱۶؍ہزار ۹۱؍ افراد نے شمولیت کی سعادت پائی۔
یاد رہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۱۸۹۱ء میں اذن الٰہی سے جلسہ سالانہ کی بنیاد قادیان دارالامان کی بستی میں رکھی جہاں مسجد اقصیٰ میں پہلا جلسہ منعقد ہوا۔ بعد ازاں خلافتِ احمدیہ کے یہاں سے ہجرت کر جانے تک قادیان کے جلسہ ہائے سالانہ کو خلفائے کرام کی بنفس نفیس موجودگی کے باعث مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ تقسیم ملک کے بعد درویشانِ قادیان نے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کی تعمیل میں مرکزِ احمدیت کی حفاظت کا فریضہ بخوبی نبھایا۔ چنانچہ حال ہی میں آخری درویش کی وفات ہوئی ہے اور اس لحاظ سے امسال تقسیم ملک کے بعد درویشانِ قادیان کے بغیر یہ پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہواہے۔ تاہم الٰہی سلسلوں کی ترقیات نسلاً بعد نسلٍ جاری رہتی ہیں اور جماعت احمدیہ کا مرکز و محور تو خلافت احمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت ہےجس کے سائے تلے ہر دن ترقیات کی نوید لے کرہم پر طلوع ہوتا ہے۔
ایک لمبے عرصے سے یہ روایت بن چکی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح جلسہ سالانہ قادیان سے براہ راست اختتامی خطاب فرماتے ہیں اور گذشتہ چند سالوں سے جدید ایجادات کی بدولت اس موقع پر افریقہ کے بعض ممالک جن میں جلسہ سالانہ انہی ایام میں منعقد ہو رہا ہوتا ہے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ قادیان دارالامان کے علاوہ افریقہ کے سات ممالک سینیگال، نائیجر، گنی بساؤ، گنی کناکری، برکینا فاسو، مالی اور ٹوگو کے جلسہ ہائے سالانہ کے مناظر بھی براہ راست دکھائے گئے۔
تشریف آوری حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ
دس بج کر۳۴ منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ فلک شگاف نعروں کی گونج میں ایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شاملین کو ’السلام علیکم و رحمۃاللہ‘ کا تحفہ مرحمت فرمایا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ مولانا نسیم احمد باجوہ صاحب(مربی سلسلہ بیت الفتوح یوکے) نے سورۃالاحزاب کی آیات ۳۹تا ۴۹ کی تلاوت اور تفسیر صغیر سے ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم ناصرعلی عثمان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے منظوم کلام بعنوان ’شانِ اسلام‘ میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مِرا یہی ہے
دس بج کر ۵۶ منٹ پر حضورِانور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما نے کے بعد ولولہ انگیز اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ دعویٰ کہ مَیں ہی وہ مسیح موعود و مہدی معہود ہوں جس کی پیش گوئی رسول اللہﷺ نے فرمائی تھی، اور اب کوئی مسیح و مہدی نہیں آئے گا۔ آپؑ کے لیے وہ تمام نشانات ظاہر ہوئے اور وہ تمام پیش گوئیاں پوری ہوئیں جو رسول اللہﷺ نے فرمائی تھیں۔ آپؑ نے تمام دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً دعوت دی کہ آنحضورﷺ کی پیش گوئیوں میں غور کرو اور سمجھو کہ اسی میں سعادت ہے۔ اسی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے حکموں کی تعمیل ہے۔ آپؑ نے واضح فرمایا کہ مجھ پر یہ الزام نہ دو کہ مَیں نے نعوذ باللہ آنحضورﷺ کی توہین کی ہے۔ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے۔
مَیں تو آنحضورﷺ کی غلامی میں آپؐ کے دین کی اشاعت کے لیے آیا ہوں۔ میرے دل میں آنحضورﷺ کا عشق کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپؑ کی کتابوں میں یہ مضمون بھرا ہوا ہے، یہ ایسا عشق ہے جو کہیں اور دیکھنے میں نہیں آتا، یہ ایسی محبت ہے جس کی کہیں اَور مثال نہیں ملتی۔
حضورِانور نے فرمایا آج مَیں اس حوالے سے کچھ اقتباسات پیش کروں گا۔ ان تحریرات سے واضح ہوگا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر اور آپؑ کے ماننے والوں پر توہینِ رسالت کا الزام لگانے والے کیسا جھوٹا اور گھناؤنا الزام لگاتے ہیں جس میں قطعاً کوئی سچائی نہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہےﷺ ہزاروں ہزار درود و سلام اس پر یہ کس عالی مرتبے کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اوراس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس! کہ جیسا حق شناخت کا ہے بجزاس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔
پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجے کاجواں مرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجے کا پیارا نبی صرف ایک مردکوجانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کانام محمد مصطفیٰ اوراحمد مجتبیٰﷺ ہے۔
پھر فرمایا:آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے اسی نبی امّی کی پیروی سے پائی ہےاور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا۔ اورایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے جائیں گے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر فرشتےنورکی مشکیں اس عاجز کےمکان میں لے کرآتے ہیں اور ایک نے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد(ﷺ) کی طرف بھیجی تھیں۔
ایک موقع پر قرآن کریم کی عظمت اور آنحضرتﷺ کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں: قرآن شریف کی زبردست طاقت میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
آپؑ نے مخالفینِ اسلام کے سامنے ہر آن آنحضرتﷺ کی برتری ظاہر فرمائی۔ الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑنے گویا ابتدا میں تو آنحضرتﷺ سے عشق کا اظہار کیا لیکن بعد میں دعویٰ کرکے اپنی اس محبت کی نفی کردی۔ نہیں! اور کبھی نہیں!
حضرت مسیح موعودؑ نے کبھی اپنے اس عشق کی نفی نہیں کی چنانچہ آخری زمانے کی کتابوں میں بھی عشقِ رسولﷺ کا یہ مضمون ہمیں جابجا ملتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربے سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعاموں اور برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا جو اعلیٰ درجے کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک وہ رسول اللہﷺ کی اتباع میں کھویا نہ جائے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروزانواع و اقسام کے نشانات دکھلا کر ذلیل کرتا جاتا ہے اورمَیں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰق سے اور پھر اسمٰعیل سےاور یعقوب سے اور پھر یوسف سےاور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور پھر سب کے بعد ہمارے نبیﷺ سے ہم کلام ہوا اور آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی۔ اور ایسا ہی اس نے مجھے بھی مکالمہ و مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے آپؐ کی پیروی سے حاصل ہوا۔
اگر مَیں آپؐ کی امّت سے نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر بھی اگر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں شرفِ مکالمہ ومخاطبہ ہرگز نہ پاتا۔ کیونکہ اب بجز محمدیؐ نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔
آنحضرتﷺ کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؑ فرماتے ہیں: وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً وعملاً صدقاً و ثباتاً دکھلایا اورانسانِ کامل کہلایا۔ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس کے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیین جنابِ محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔ اے پیارےخدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اوردرود بھیج جوابتدائے دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا توپھر جس قدرچھوٹےچھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرّب اور وجیہہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اللّٰھم صلّ و سلّم و بارک علیہ و اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین
پھرآپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرتﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مرجاتا ہے توقسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہیے کہ مُردے کے حق میں دعا کریں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اب بتائیں! کہ یہ جو رسومات کرنے والے ہیں وہ توہین کے مرتکب ہو رہےہیں جو پیروں فقیروں کی عجیب عجیب باتیں بیان کرتے ہیں ان کے مزاروں پر سجدے کرتے ہیں وہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں یا حضرت اقدس مسیح موعودؑ جو ان بدعات سے دُور کرنے آئے تھے۔
مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے نبوت کا دعویٰ کر کے آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا انکار کیا اور توہین کی نعوذ باللہ اور احمدی بھی جو آپؐ پر ایمان لاتے ہیں اس حوالے سے توہین کے مرتکب ہیں اور قابلِ سزا ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اس کا جواب مَیں دے آیا ہوں۔ جو آپؑ نے پایا آپﷺ کے طفیل ہی پایا۔ آپؑ نے اس کا ایک جگہ جواب دیا اور ثابت کیا ہے کہ ہم توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ تم لوگ آنحضرتﷺ کے درجے کو کم کرنے والے ہو۔ ان سب دروازوں کو بند کرتے ہو جو آپؐ کے طفیل دنیا میں کسی انسان کو مل سکتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اس طرح کی باتیں کرکے آنحضرتﷺ کے فیض کو کم کرنے والے اور ہتک رسولؐ کرنے والے بن رہے ہیں۔ جب یہ دروازہ ہی بند ہوگیا تو بعثت کا فائدہ کیا؟ ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کی ہرگز قدر نہیں کی اور شانِ عالی کو بالکل نہ سمجھا۔ ورنہ ایسے بےہودہ اعتراض نہ تراشتے۔ قرآن شریف تو جسمانی اولاد کی نفی کرتا ہے اور یہ لوگ روحانی اولاد کی نفی کرتے ہیں۔ پھر باقی کیا رہا؟
فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے آپﷺ کا عظیم الشان کمال اور قوتِ قدسیہ کا زبردست اثر بیان ہوتا ہے کہ آپﷺ کی روحانی اولاد اور روحانی تاثرات کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ آئندہ کسی کو فیض اور برکت تب مل سکتی ہے جب وہ رسول اللہﷺ کی کامل اتباع کرے۔
اگر اس کے علاوہ جو ادعائے نبوت کرے تو وہ کذاب ہوگا۔ اس لیے نبوتِ مستقلہ کا دروازہ بند ہو گیا۔ اب کوئی مستقل نبی صاحبِ شریعت نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے براہین احمدیہ میں درج ہے کہکُلُّ بَرَکَةٍ مِّنْ مُّحَمِّدٍﷺ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔یعنی جو فیض مجھے ملا وہ رسول اللہﷺ کا کمال ہے۔ یعنی یہ مکالمہ و مخاطبہ، تکمیل اشاعت اس ہدایت کی ہو رہی ہے جو رسول اللہﷺ لے کر آئے۔ یہ تمام انوار آپﷺ کے ہی ہیں۔ فرمایا کہ آپﷺ پر تمام کمالات ختم ہو گئے۔ اب کوئی نہیں آسکتا جس کے پاس مہر نبوت محمدیؐ نہ ہو۔ ہمارے مخالفین نے یہی غلطی کھائی ہے اور مہر نبوت کو توڑا ہےاورایک اسرائیلی نبی کو آسمان سے اتارتے ہیں۔
فرمایا: تمام شرف مجھے صرف اس پاک نبی ہی کی پیروی سے ملا ہے۔ جس کے مدارج و مراتب سے دنیا بےخبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ۔ جاہل لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰؑ آسمان میں زندہ ہیں۔
مَیں تو زندہ ہونے کی علامات رسول اللہ میں پاتا ہوں، وہ نبوت کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہم پر کھلا ہے۔ تعجب ہے کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔
پھر آپؑ اپنے عقیدہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ
ہماری کوئی کتاب بجر قرآن کے نہیں ہے، ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفیٰﷺ کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبیﷺ خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ ہمیں بجز خادم اسلام ہونے کے کوئی دعویٰ نہیں۔ اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث، مردود اور قابلِ مواخذہ ہے۔
حضور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔ ہر سال ہزاروں لاکھوں افراد جماعت میں شامل ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ خود ہدایت دیتا ہے۔ روس میں، امریکہ میں، عرب ممالک میں، افریقہ میں، ایشیا میں لوگ خط لکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت فرمائی۔
آپؑ نے جو کچھ بیان فرمایا یا تحریر فرمایا اس کی تائید میں سینکڑوں واقعات آپ کی زندگی میں پیش آئے۔
جون ۱۸۹۳ء میں مسیحیوں اور مسلمانوں میں عظیم الشان مباحثہ ہوا۔ مباحثے کے بعد ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے چائے کی دعوت دی۔ لیکن آپؑ نے محض اس وجہ سے چائے کی دعوت کو ٹھکرا دیا کہ یہ لوگ (نعوذ باللہ) آنحضرتﷺ کی توہین کرتے ہیں اور ہمیں چائے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری غیرت تقاضا کرتی ہے کہ ان کے ساتھ نہ بیٹھیں سوائے اس کے کہ ہم ان کے غلط عقائد کی تردید کریں۔ ہاں! مناظرے مباحثے اَور چیز ہیں۔ لیکن ہم ان کے ساتھ کھانا پینا نہیں کر سکتے۔ جو دشنام درازی کرتے ہیں۔
کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا جو کہے کہ آپؑ توہین کے مرتکب ہوئے یا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کے دل میں شعشہ بھر کوئی ایسا خیال ہے یا آنحضرتﷺ کا مقام کسی طور پر بھی کم ہے۔
اپنے آقا و مطاع سے عشق و محبت کا ایک واقعہ یوں ہے جس سے آپؑ کی دلی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ باہرتو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوے کا اظہار ہے۔ لیکن علیحدگی میں بیٹھ کر جس طرح آپؑ کے جذبات آنحضرتﷺ کے تعلق میں تھے اس کا بھی ایک واقعہ سن لیں۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ کی روایت ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ مسجد مبارک میں اکیلے گنگناتے ہوئے حسان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ
كُنتَ السَّوَادَ لِناظِرِی فَعَمِیَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ
مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَليَمُت فَعَلَيكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ
کہتےہیں کہ میری آہٹ سن کر حضرت مسیح موعودؑ نے رومال ہٹا لیا تو میں نے دیکھا کہ آپؑ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
یعنی تُو میری آنکھ کی پتلی تھا۔پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پروا نہیں کیونکہ مجھے تو بس تیری ہی موت کا ڈر تھا جو واقع ہو چکی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ اس شعر کہنے والے کی محبت کااندازہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ مگراس شخص کے سمندر عشق کی تہ کو کون پہنچے کہ جو اس واقعہ کے تیرہ سو سال بعد تنہائی میں جب کہ اسے خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہیں۔ یہ شعر پڑھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تاربہ نکلتا ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کی آنکھیں بات بات پر آنسو بہانے لگ جاتی ہیں بلکہ وہ وہ شخص ہے کہ جس پراس کی زندگی میں مصائب کے پہاڑٹوٹے اورغم و الم کی آندھیاں چلیں مگر اس کی آنکھوں نے اس کے جذبات قلب کی کبھی غمازی نہیں کی۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ شعر کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ …۔ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا۔ اور مجھے سُنا کر فرمایا کہ کاش! حسّان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسّان کے ہوتے۔ پھر آپؑ چشم پُرآب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدسؑ نے یہ شعر کئی بار پڑھا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں حسّان بن ثابتؓ کے شعر کے متعلق پیرسراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہو گی۔ ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرتﷺ کے متعلق نظر آتا ہے۔
حضور نے فرمایا کہ کیا ایسا شخص آنحضرتﷺ کی توہین کا مرتکب ہو سکتا ہے؟ کاش کہ عقل کے اندھوں کو عقل آجائے۔ یہ عشق و محبت ہی تھا کہ ایک موقع پر عرب دنیا کے لیے محبت کا اظہار کیا۔ اور عرب دنیا کے لوگوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ خط عربی میں تھا۔ آپؑ نے فرمایا: السلام علیکم! اے خالص عربی لوگو، نیک اور بزرگ لوگو، تم پر سلام، اے نبی کریم اور بیت اللہ کے پڑوس میں رہنے والو! تم اسلام کی بہترین امت ہو اور خدا کا بہترین گروہ ہو۔ تم شرف بزرگی اور منزلت میں بڑھ کر ہو۔ تمہارے لیے یہی فخر کافی ہے کہ اللہ نے حضرت آدمؑ سے جو وحی شروع کی اس کو اس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھے۔ اور تمہاری زمین ان کا وطن اور ان کی پناہ اور جائے پیدائش تھی۔ تمہیں معلوم ہے کہ وہ نبی کون ہے وہ محمدﷺ برگزیدوں کا سردار، انبیاء کا فخر، خاتم الرسل اور سب مخلوق کا امام ہے۔ اے اللہ! تُو ان پر اپنا اتنا درود اور سلام اور برکات نازل فرما جتنے زمین کے قطرے زمین کے ذرے جتنے اس میں زندہ انسان اور جتنے مردہ ہیں۔ اور ان کو ہماری طرف سے اتنا سلام پہنچا کہ آسمان کے کنارے بھرجائیں۔ میری روح میں تمہاری ملاقات کے لیے بڑی تشنگی ہے۔ مَیں تمہارے ملکوں میں تمہاری جمعیت کی برکات دیکھنے کا مشتاق ہوں۔ تا اس زمین کو دیکھوں جس کو مخلوق کے سردار کے قدموں نے چھوا اور اس مٹی کے سُرمے کو آنکھوں میں لگاؤں اور اس زمین کے صلحاء کو ملوں۔
حضور نے فرمایا کہ پس یہ ہے وہ دلی کیفیت جس کا اظہار آپؑ نے فرمایا۔ کاش کہ عرب کے مسلمانوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ اور اپنے عملوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ آنحضرتﷺ کے حقیقی ماننے والوں اور آپؐ کی امت کی حقیقی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔
حضور نے فرمایاکہ دشمنوں کی دشنام دہی کا اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہمارے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے۔ اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر ڈالتے۔ تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور توہین سے دل دکھا۔
کیا یہ الفاظ توہین کرنے والے کے ہیں؟ الزام لگانے سے پہلے کچھ تو سوچیں!
اے مخالفین احمدیت! جو حضرت محمدﷺ کی امت سے ہو آپﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو۔ غور کرو سوچو کہ تمہاری بلا وجہ کی مخالفت خدا تعالیٰ سے ناراضگی کا باعث نہ بن رہی ہو۔ آج کل کے جو حالات ہیں ان میں دیکھو کہ کہیں یہ مخالفت جو تمہاری ہو رہی ہے اس وجہ سے تو نہیں ہورہی۔ اس کے نتائج اس وجہ سے تو پیدا نہیں ہو رہے۔ کچھ تو غور کرو۔
جہاں تک ہمارا مسلمانوں سے ہمدردی کا تعلق ہے، ہم حضرت مسیح موعودؑ کے اس شعر پر عمل کرنے والے ہیں
اے دل تو نیز خاطر اینان نگاہ دار
کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ
اے دل !ان لوگوں کا لحاظ رکھ، کیونکہ آخر میرے پیغمبرؐ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہم تو اس لحاظ سے ہر مسلمان سے محبت کرنے والے ہیں اور ان کی بقا کے لیے دعا گو بھی ہیں اور جو کوشش ہو سکتی ہے وہ بھی کرتے ہیں۔ ان کے لیے نیک جذبات رکھتے ہیں لیکن یہ خود بھی تو کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے حضرت محمدﷺ کےغلامِ صادق کی تکفیر کرنے کی بجائے اس کے پیغام کو سنیں اور سمجھیں۔ کفر کے فتوے لگانے میں جلدی نہ کریں۔ ہم اس محبت کا دعویٰ مسلمانوں سے کرتے رہیں گے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آنحضرتﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ چاہے وہ ظاہری دعویٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان امت کو عقل اور شعور دے اور وہ بلاوجہ کی مخالفت سے باز آئیں۔ سوچیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا نہیں۔ کیونکہ اکثریت بلا سوچے سمجھے مولوی کی تقلید کرتے ہیں۔ اور مولوی بھی پڑھتے نہیں۔ ان کو چاہیے تھا کہ اگر سمجھ نہیں آتا تو احمدیوں سے پوچھیں۔ اس کے بعد اگر نظر آتا کہ یہ باتیں قرآن و سنت کے منافی ہیں تو مخالفت کا حق رکھتے تھے۔ لیکن کیا تم نے ہمارا دل چیر کر دیکھا ہے کہ ہمارے دلوں میں رسول اللہﷺ کا عشق و محبت نہیں۔ پس کچھ تو غور کرو!
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل دے کہ وہ اس طرح سوچیں۔ اور ہمیں بھی توفیق دے کہ حبِّ پیغمبری کا دعویٰ اپنے ہر عمل سے ثابت کریں جن کی حضرت مسیح موعودؑ نے وضاحت فرمائی ہے۔ اور اس محبت میں بڑھتے چلے جائیں اور زبانی باتیں نہ ہوں بلکہ ہم اس ماننے کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ عشق کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کی کوشش کریں اور رسول اللہﷺ کا جھنڈا دنیا میں لہرانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک یہ حاصل نہ کر لیں۔
حضورِانور نے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادیان کے جلسے میں شامل ہونے والے ہر فرد کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اور جو گھروں میں بیٹھے سن رہے ہیں ان کو بھی حفظ و امان میں رکھے۔ قادیان کے ساتھ دیگر ممالک میں جلسے ہورہے ہیں۔ ٹوگو، مالی، برکینافاسو، گنی کناکری، نائیجر، گنی بساؤ، سینیگال، امریکہ کے ویسٹ کوسٹ میں جلسہ ہورہا ہے۔ یہ سب اس لیے یہاں جمع ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کو سمجھیں اور دنیا میں پھیلائیں۔ اور وہ سب برکات ساتھ لے کر جائیں۔
قادیان میں اس وقت ۴۲؍ممالک کی نمائندگی ہے اور حاضری سولہ ہزار اکیانوے (۱۶۰۹۱) ہے۔ قادیان کے حوالےسے اچھی حاضری ہے۔
حضورِانور کا خطاب گیارہ بج کر ۴۵ منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضورِانور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضورِانور نے اسلام آباد ٹلفورڈ میں جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والے احباب جماعت کی حاضری کا اعلان فرمایا جو تین ہزار تین سو اٹھاسی (۳۳۸۸) تھی۔
بعد ازاں قادیان دار الامان سے اردو اورعربی زبان میں ترانے پیش کیے گئے۔ اس کے بعد حضورِانور السلام علیکم کہہ کر اسٹیج سے تشریف لے جا رہے تھے کہ انتظامیہ کی جانب سے جب بتایا گیا کہ افریقہ کے احمدی بھی ترانے پیش کرنا چاہتے ہیں تو حضورِانور ازراہِ شفقت دوبارہ منبر پر رونق افروز ہو گئے اور افریقہ کے ممالک، ٹوگو، مالی، برکینافاسو، گنی بساؤ، نائیجر اورسینگال سے پیش ہونے والے ترانے کھڑے ہو کرسماعت فرمائے۔ پھربارہ بج کر ۸ منٹ پر حضورِانور نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، جماعت احمدیہ قادیان دارالامان (بھارت)، تمام شرکائے جلسہ سالانہ قادیان و دیگر ممالک نیز احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کو کامیاب جلسہ سالانہ کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کے لائحہ عمل طے کریں اور ہمارے اعمال حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں حبِّ پیغمبریﷺ کے عکاس ہوں۔ آمین
٭…٭…٭