یادِ رفتگاں

پیارے ابا جان مکرم پروفیسر حبیب احمد صاحب

یاد رفتگان

۱۸۵۷ء کے سانحہ کے نتیجے میں دلّی کی سات سوسالہ تہذیب کا سورج ڈوبا توسیاسی اقتدارکے ساتھ یہ المیہ بھی گزرا کہ ایمان و آگہی کی شمع بھی خاموش ہوگئی اور حالت یہ ہوگئی

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

مغرب کے سیاسی غلبہ کے باعث عیسائی پادری پُرغرور ہوگئے اور اسلام پر زور دار حملے کر رہے تھے۔ جس کے نتیجے میں قطع نظر عوام کے بڑے بڑے علماء اور گدّی نشینوں کی اولادیں بھی آستانِ یار چھوڑ کر

چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی

کا راگ الاپنے لگی تھیں۔

ان مایوسیوں کے اندھیروں میں ایک ماہتاب لب جو آیا اور قرآن پاک کی پیش گوئی اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اسلام کے اس جری پہلوان نے دلائل و براہین کے زور پر کایا پلٹ دی۔ پادری راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے اور اہلِ دل کی آنکھیں حقانیت کے نور سے فروزاں ہوگئیں۔اسلام کی فتوحات کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیوں اور ہندوؤں کے ساتھ مناظرہ کے دوران معرکہ بدر وحنین کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔ اسلام کے اس فتح نصیب جرنیل نے ۱۹۰۴ءمیں سیالکوٹ کا دورہ فرمایا اور اہلِ سیالکوٹ کو شرفِ دیدار حاصل ہوا۔ پیاسی روحیں ایک عالم وجد میں اس سراپا نور ہستی کا دیدار اس طرح کر رہی تھیں جیسے شمع کے گرد پروانے تھے۔

سیالکوٹ میں آپ لیکچر گاہ میں تشریف لے جاتے ہیں۔

’’سامعین میں ہر مذہب اور مذاق کے لوگ موجود تھے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی ہوئی تھی…منصف مزاج غیر مسلم لوگوں کی یہ رائے تھی کہ سیالکوٹ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہر مذہب وملّت کے لوگوں کا ایسا مخلوط اور اتنا عظیم الشان مجمع کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘(ڈاکٹر بشارت احمد: مجّدداعظم جلد دوم صفحہ ۹۹۰)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ سے واپس تشریف لارہے تھے کہ وزیر آباد سٹیشن پر ایک نوجوان چراغ دین کے نصیب جاگ اٹھے۔ اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروزِ کامل کا شرفِ دیدار حاصل ہوا۔ یہ نوجوان جو بچپن میں اپنی والدہ کے انتقال کی وجہ سے اپنی سوتیلی ماں کے سلوک سے دلبرداشتہ ہو کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اور بعد ازاں عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ گیا اور ان کے دامِ فریب میں آگیا اس کی رہائی کی صورت بن گئی۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں:’’۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تقریر کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ جب حضور واپس آئے تو وزیر آباد کے اسٹیشن پر پادری سکاٹ اور میں بھی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ ان دنوں مذہبی حلقوں میں حضور علیہ السلام کا بہت چرچا تھا۔ اس لئے میں نے نہایت شوق سے گفتگو کو سُنا اور اُن بزرگ اور برتر صورت کوخوب جی بھر کر دیکھا۔ ان کی گفتگو روحانیت سے معمور تھی اور پادری سکاٹ اپنے غیرشریفانہ اور اکھڑ طریقہ کلام سے بہت کھسیانے ہوئے اور اپنی بدتہذیبی پر ندامت کا اظہار کیا۔ کچھ رعب تقدس اتنا تھا کہ نہ تو پادری صاحب اور نہ ہی میں زبان کھول سکا۔ ‘‘(الحکم قادیان نمبر ۱۹۳۴ء صفحہ۱۱)

انسان کی فطرت نیک ہو تو کسی سچے کا چہرہ دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے۔کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی نہ کسی اعجازکی، سارے حجاب اُٹھ جاتے ہیں اور صداقت صورتِ خورشید ظاہر ہوجاتی ہے۔چنانچہ اس نوجوان کے بھی حضرت مسیح موعود کے دیدارکےبعدسارے حجاب اٹھنے شروع ہوگئے۔ آپ نے احمدیوں سے رابطے شروع کردیے۔ آپ فارسی کے استاد تھے۔ حضرت چودھری نصراللہ خاں کی صحبت سےبھی فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ بالآخر ۱۹۰۹ء میں قادیان آکر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر شرف قبولیت اسلام واحمدیت حاصل ہوا۔ (امۃالمنان قمر: خاندانِ سیکھواں اور میری آپ بیتی صفحہ ۴۳)

عافیت کے اس حصار میں داخل ہونے والے میاں چراغ دین ولد میاں نظام الدین صاحب پروفیسر حبیب احمد کے والد اور میرے داداتھے۔ آپ اکتوبر ۱۹۰۹ء میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ کو شرفِ دیدار مسیح موعود علیہ السلام حاصل ہوچکا تھا۔ اور قبولیت احمدیت کےبعد آپ نے اطاعتِ خلافت کے ایسےبے نظیر نمونے دکھائے کہ قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔آپ کی عمر تیس سال تھی اور آپ کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جس میں سےآپ کے دو بچے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ آپ کی شادی کروانا چاہتے تھے۔ آپ کی شادی کے بارے میں ’’حکیم محمد اسماعیل صاحبؓ (صحابی حضرت مسیح موعودؑ) سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے کسی مجلس میں اشارہ کر کے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس نئے احمدی ہونے والےشخص (مولوی چراغ دین صاحب) کو رشتہ دے۔ ارشاد کا سننا تھا کہ میاں جمال الدین صاحب نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور کہا کہ پیارے آقا میں آپ کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے اپنی بیٹی سارہ بیگم کا رشتہ پیش کرتا ہوں۔‘‘(امۃ المنان قمر: خاندان سیکھواں اور میری آپ بیتی صفحہ ۴۶)

فدائیٔ خلافت حضرت میاں جمال الدین صاحب ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ اور ۳۱۳؍صحابہ کی فہرست میں ان کا تیسواں نمبر ہے۔ اور اس کے علاوہ آئینہ کمالات اسلام، سراج منیر، تحفہ قیصریہ، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی کے شرکاء اور کتاب البریہ اورضمیمہ انجام آتھم میں آپ کا مالی قربانی کرنے والوں میں ذکر ہے۔ آپ کی بیٹی سارہ بیگم کی عمر سولہ سال تھی لیکن آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ارشاد پر لبیک کہتےہوئے اپنی بیٹی کا رشتہ ایک ایسے نو احمدی سے کر دیا جسے وہ جانتے تک نہ تھے لیکن ان کے نزدیک سب سے بڑا اور حقیقی رشتہ احمدیت کا رشتہ تھا۔ اور سب سے مقدم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ارشاد تھا۔ حضرت میاں جمال الدین صاحب ؓکی بیٹی سارہ بیگم حبیب احمد صاحب کی والدہ تھیں۔

حضرت سارہ بیگم احکامِ دین حق کی سختی سے پابندی کرتیں ان کو لوائے احمدیت کے لیے سوت کاتنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ بچے تعلیم حاصل کرکے دین کی خدمت کریں۔ ان کے بڑے صاحبزادے مولانا نور الدین منیر کو جو وائسراے دہلی کے آفس میں ملازم تھے جب استعفیٰ دے کر وقفِ زندگی کی توفیق ملی تو انہیں بے انتہا خوشی ہوئی۔ ان کی بیٹی امۃ الرشید شوکت اہلیہ مفتی ملک سیف الرحمان صاحب کو لجنہ اماء اللہ کے مختلف عہدوں پر اور بطور سیکرٹری مصباح اور محلے میں صدر لجنہ کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ ان سے اکثر حضرت سارہ بیگم کہا کرتی تھیں کہ جاؤ تم جا کر لجنہ اماءاللہ کے کام کرو میں تمہارے بچے سنبھالتی ہوں۔(امۃالمنان قمر : خاندانِ سیکھواں اور میری آپ بیتی صفحہ ۴۸)

اللہ تعالیٰ نے آپ کوتین بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ حبیب احمد ان بیٹوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ ۱۹۳۰ء میں پیدا ہوئے اور قادیان کی پُرنور فضاؤں میں آپ کا بچپن گزرا۔ آپ کو بچپن سے ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سحرانگیز اور دل ربا انداز خطیبانہ سننے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ اکثرحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس کمال کا ذکر کیا کرتے تھے:’’جلسہ سالانہ کے چشم دید واقعات خاکسار نے بچپن میں اپنے والد محترم حبیب احمد (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ)سے سنے تھے۔ وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ جب حضور رضی اللہ عنہ تقریر فرماتے تو حاضرین کے دل گویا ان کی مٹھی میں ہوتے تھے۔ ادھر مضمون کی وضاحت کے لئے کوئی دلچسپ واقعہ بیان کرتے تو محفل کشت زعفران بن جاتی۔ ادھر کسی دنیا دار کی کسی دل گداز واقعہ کے نتیجہ میں کایاپلٹ جانے کی داستان بیان کرتے تو حاضرین چشمِ پُرآب ہوجاتے۔ (نصیر حبیب لندن: الفضل ۲۶؍دسمبر۲۰۲۲ء)

بعد میں خاکسار کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تقاریر کا مطالعہ کرنے کی سعادت ملی۔ تو شنید دید میں بدل گئی۔

ابا جان (حبیب احمد صاحب) بچپن میں بہت ذہین طالب علم تھے۔ ایک مرتبہ خاکسار پروفیسر عبدالغنی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ پروفیسر سعید اللہ خان صاحب نے جو شماریات کے پروفیسر تھے میرے بارے میں پروفیسر عبدالغنی صاحب سے پوچھا کہ یہ ریاضی میں کیسا ہے۔ اس کے والد جو میرے کلاس فیلو تھے بہت ذہین تھے۔ پروفیسر صاحب سوال سن کر مسکرا دیےکیونکہ خاکسار کا ہاتھ ریاضی میں تنگ تھا۔

جونہی ابا جان نے میٹرک کیا۔ ہندوستان کے سیاسی افق پر تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہندو اور مسلم دونوں قوموں کوسلامتی اور ترقی کا راستہ دکھلایا۔ لیکن کانگریس کی ہٹ دھرمی کے باعث کوئی سمجھوتہ کانگریس اورمسلم لیگ میں نہیں ہوسکا۔ بالآخر تقسیم ملک کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

چنانچہ مسلمانان ہندوستان نے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسلم لیگ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا بعض لوگوں کے اس انتباہ کے باوجود کہ پاکستان میں آپ کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے گا جو افغانستان میں احمدیوں کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن آپؓ نے فرمایا ہمیں علم ہے لیکن چونکہ مسلمان مظلوم ہیں لہٰذا ہم اُن کا ساتھ دیں گے۔

بالآخر ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا اور پاکستان کےقیام کا اعلان ہوگیا لیکن بدقسمتی سے پنجاب کی تقسیم کے معاملے میں نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت کی وجہ سے پنجاب کے مسلمانوں سے ناانصافی اور زیادتی روا رکھی گئی۔ اور بعض مسلم اکثریت کے علاقےبھی ہندوستان کودے دیے گئے جن میں قادیان بھی شامل تھا۔اب مسلمانوں کے پاس ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ قادیان کے اردگرد دہشت گردوں کے حملے ہورہے تھے۔ صورت حال نہایت نازک تھی۔ قادیان میں احمدیوں کے علاوہ پچاس ہزار کے قریب مسلمان پناہ گزیں تھے۔قادیان پر بھی حملے ہورہے تھے۔ ابا جان پر ان واقعات کا گہرا اثر ہوا۔ ایک مرتبہ مجھے انہماک کے ساتھ مطالعہ کرتے دیکھ کر فرمانے لگے قادیان میں ایک نوجوان تقسیم کے موقع پر اپنے مطالعہ میں اتنا محو تھا کہ اُسے اردگرد کی کوئی خبر نہیں تھی۔ یہاں تک کہ دہشت گرد گھر میں آئے اور اسے شہید کر گئے۔لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بے مثال قیادت اور راہنمائی کی بدولت جماعت احمدیہ کے افراد بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔

ایک موقع پر جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پشاور تشریف لے گئے تو لنڈی کوتل کےشنواری اور آفریدی سرداروں کے ایک وفد نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے اُن پٹھان سرداروں سے پوچھا کہ وہ ملاقات کرنے کی کیوں خواہش رکھتےتھے۔ انہوں نے جواب دیا: ’’قادیا ن کے احمدیوں نے نہایت جانبازی سے اپنے شہرکی حفاظت کی۔ ہم مسلمانوں کے اس بہادر فرقے کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔‘‘ آپؓ نے فرمایا:’’مسلمان بہادرہی ہوتے ہیں وہ کبھی بزدلی نہیں دکھاتے۔‘‘ (مولانادوست محمد شاہد: تاریخ احمدیت جلد ۱۱۔ امرتسر۲۰۰۷ء صفحہ ۳۱۳)

ابا جان کی تعلیم کاسلسلہ ہجرت اور نامساعد حالات کی وجہ سےٹوٹ چکا تھا۔ ایک وقفہ کے بعد آپ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ احمد یہ میں داخل ہوئے۔ جو اس وقت احمد نگر میں واقع تھا لیکن یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ شاید جامعہ احمدیہ کا نصاب ان کےلیے مشکل تھا۔ آپ کو جامعہ احمدیہ چھوڑنا پڑا۔اس کےبعد آپ پاکستان نیوی میں بھرتی ہوگئے۔آپ کو ورزش اور جسم کومضبوط بنانے کا بہت شوق تھا۔ اور آپ اس قدرمضبوط اور تنومند تھے کہ ایک مرتبہ مجھے ایک عزیز نےبتایا کہ آپ کے والد اپنے گھر میں ورزش کرتے تو ان کے قدموں کی دھمک ہمارے گھر میں سنائی دیتی تھی۔ لیکن کراچی کی مرطوب آب وہوا انہیں موافق نہ آسکی اور ان پر شدید نمونیہ کا حملہ ہوا۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے صحت پر ایسا بُرا اثر پڑا کہ آپ کا مضبوط جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا، نہایت نحیف و لاغر ہوگئے اور آپ پرڈیپریشن کا حملہ ہوا۔

آپ ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ آپ کونیوی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینی پڑی۔ آپ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ آپ مراقبہ میں چلے گئے اور سوچوں کے سمندرمیں ڈوب گئے۔ بالآخر اس مراقبہ کےنتیجے میں آپ کو ایک ایسا گوہر نایاب ملا جو کہ بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ لینے کے لائق ہے خواہ جان دینے سے ملے۔ یعنی آپ اپنے رب کے بارے میں ’’ہونا چاہیے‘‘ کے مقام سے ’’ہے‘‘ کے مقام پر پہنچ گئے۔ آپ کو یہ گوہر نایاب سلوک کی راہ سے نہیں بلکہ جذب کی راہ سے حاصل ہوا۔ سلوک کے سفر میں بندہ بعض اوقات وہ بوجھ نہیں اٹھاتا جو اُس پر گراں گذرے لیکن جذب کی راہ میں اُس پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ لیکن جذب کی راہ میں جو آپ کو امید ملی اس سے کامیابی کے دروا ہونے لگے۔آپ نے اپنا تعلیمی سفر دوبارہ شروع کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ٹی آئی ہائی سکول میں بطور استاد ملازمت کا آغاز کیا۔ اور دینی تعلیم بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی۔ ۱۹۵۸ء میں آپ کی شادی حضرت خواجہ محمد عبداللہ صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی امۃ الحفیظ بیگم سے ہوگئی۔ ولیمہ میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی شرکت فرمائی۔(بحوالہ امۃ اللطیف شوکت زیروی : حکایت شوکت: نومبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۱۹)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ سب نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعض کو دینی خدمت کی بھی توفیق ملی۔ خاکسار کا نام حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے نصیر احمد رکھا۔

۱۹۶۵ء میں آپ کی تقرری نصرت جہاں سکیم کے تحت بطور استاد سیرالیون ہوگئی۔آپ اس دوران ایم اے فلاسفی بھی کر چکے تھے آپ نے سیرالیون میں بطور استاد اور پرنسپل ۱۳ سال تک خدمات سر انجام دیں۔ آپ کو انگریزی زبان میں مضامین لکھنے کا شوق تھا جو ریویو آف ریلیجنز میں بھی چھپتے تھے۔آپ نے انگریزی ادب میں ایم اے بھی کر لیا۔ انگریزی اخبارات میں بھی آپ خطوط لکھا کرتے تھے جو پسند کیے جاتے تھے۔ آپ ۱۹۸۵ء میں پاکستان واپس آگئے اور آپ کی تقرری جامعہ احمدیہ میں بطور استاد شعبہ انگریزی میں ہوگئی۔۱۹۸۴ء میں پاکستان میں احمدیہ جماعت پر سخت ترین اور ظالمانہ پابندیاں لگا دی گئیں۔ جس کے نتیجے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو لندن ہجرت کرنی پڑی لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت ترقی کے نئے دَور میں داخل ہوگئی اور ایم ٹی اے کے ذریعے ایک عالمگیر تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جماعت کو مربیان کی ضرورت تھی جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی مہارت رکھتے ہوں۔ ابّا جان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ جامعہ کے طلبہ کو گیارہ برس تک نہایت محنت اور جانفشانی سے انگریزی کی تعلیم دیتے رہے تاکہ مربیان کرام تبلیغی میدان میں اپنے دینی فرائض احسن رنگ میں ادا کرسکیں۔ ایک مرتبہ ۱۹۹۱ء میں خاکسار کو جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے سامنے اپنا ایک مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ خاکسار کا مضمون ’’چند جدید تحریکیں، ایک جائزہ ‘‘ جو بعد میں الفضل اور ماہنامہ انصار اللہ میں بھی شائع ہوگیا تھا۔ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر تھا جو تاریخی تناظرمیں بیان کیا گیا۔ مضمون کے آغاز سے قبل خاکسار کا تعارف مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب نے اس طرح کروایا کہ یہ ہمارے انتہائی محنتی فرض شناس استاد کے بیٹے ہیں۔ ابا جان کی شخصیت اور ان کی زندگی کے واقعات ہمارے لیے ایک زبردست تحریک تھے اور مایوسیوں کے اندھیروں میں نور سحرتھے۔ آپ فرماتے تھے کہ بندے کو اپنے ربّ پر یقین کامل ہونا چاہیے۔

۲۰۰۲ءمیں ابا جان کینیڈا منتقل ہوگئے۔ یہاں پر آپ کی ملاقات اپنے پرانے شاگردوں سے ہوتی رہتی تھی۔ نسیم مہدی صاحب سابق امیر جماعت کینیڈا نے آپ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ بھی سکول کے زمانے میں آپ کے شاگردوں میں تھے۔ خاکسار کو بھی یوکے میں جب بعض مربیان سے جو آپ کے شاگرد تھے ملاقات کا شرف حاصل ہوتاہے تو وہ آپ کا ذکر نہایت محبت اور عقیدت سے کرتے ہیں۔

آپ کا انتقال ۲۲؍اکتوبر ۲۰۲۱ء کو کینیڈا میں ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی نماز جنازہ غائب ۱۸؍نومبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں پڑھائی۔ جس کا اعلان یوں شامل اشاعت الفضل انٹرنیشنل ہوا:

’’مکرم حبیب احمد صاحب (ٹورانٹو۔ کینیڈا) ۲۲؍اکتوبر۲۰۲۱ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم نے ٹی آئی ہائی سکول ربوہ میں ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ ایم اے فلاسفی اور ایم اے انگلش کی تعلیم مکمل کی پھر سیرالیون میں بطور استاد و پرنسپل اور بعدازاں جامعہ احمدیہ ربوہ میں بطور پروفیسر شعبہ انگریزی خدمت کی توفیق پائی۔ پنجوقتہ نمازوں کے پابند، بے حد شفیق اور خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے ایک نیک انسان تھے۔پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍نومبر۲۰۲۱ء)

ابا جان کی زندگی اس سچائی کی شہادت تھی کہ ’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے … یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سےملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ ‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۲۱، ۲۲)

(پروفیسر نصیر احمد حبیب۔لندن)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button