امتِ مسلمہ کی نازک حالت پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کے رہنما کلمات
سال 2024ء اپنے اختتام کو پہنچا۔ یوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہرہ آفاق تصنیف ’’حقیقت الوحی‘‘ کی اشاعت کو 118 سال کا عرصہ گزر گیا۔ یعنی اس تحریر کو جہاں حضورؑ نے فرمایا:
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔اور اے جزائر کے رہنے والو!کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد و یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کیے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔۔۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات اس پیشگوئی کے ایک سال بعد واقع ہوگئی۔ مگر آپ کے بعد آپ کے خلفاء اس تنبیہہ کی یاددہانی کرواتے رہے۔ اور حالات تیزی سے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف بڑھتے رہے۔
پھر ایک صدی گزر گئی۔ نئی صدی طلوع ہوئی۔ اور اس کے ساتھ ہی نیا ہزاریہ بھی طلوع ہوا۔ اب دنیا ایک بدلی ہوئی دنیا تھی جو گویا خود کو ان الفاظ کے پورا ہونے کی طرف دھکیل رہی تھی۔سیاسی، جغرافیائی، عسکری، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، غرض ہر لحاظ سے دنیا نِت نئے بحرانوں کا شکار ہوچکی تھی۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہوتی جاتی تھی۔
ایسےکثیرالجہاتی مسائل سے دوچار دنیا میں حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت کا پانچواں دور شروع ہوا۔ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ کے سامنے صرف جماعت احمدیہ کی قیادت کی بھاری ذمہ داری ہی نہ تھی، بلکہ تمام امت مسلمہ کی درست سمت میں رہنمائی کی گراں تر ذمہ داری بھی تھی۔ اور اسلام کی تعلیمات کے ذریعے تمام دنیا کی تعلیم و تربیت بھی آپ ہی کے سپرد تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہ صرف اس تنبیہہ کا انہی الفاظ میں اعادہ فرمایا، بلکہ اس تنبیہہ میں جس طوفان کا ذکر ہے، اس کے قریب ہونے، اس کی سمت، اس کی شدت بارہا بیان فرمائی۔
حضرت صاحب نے اپنے خطابات، خطبات، پیغامات کے ذریعے اسلامی دنیا کو ان خطرات سے ہمیشہ متنبہ فرمایا ہے جن کے بادل ساری دنیا پر منڈلا رہے تھے۔ اس طرف بھی متعدد مرتبہ توجہ دلائی کہ مغرب متحد ہے اور اسلامی دنیا انتشاراور تفرقہ کا شکار ہے۔ جب تک اتحاد نہیں، عصرِ حاضر میں مسلم دنیا کی بقا بھی ممکن نہیں۔
حضرت صاحب 21 سال سے یہ تنبیہہ اور اس کی یاد دہانی فرماتے چلے آرہے ہیں۔ اور اب جب میں حضور کی خدمت میں حاضر تھا، تو 2024 کی شام ڈھل رہی تھی۔ اور بائیسواں سال طلوع ہونے کو تھا۔
حضور نےملک شام کے حالاتِ حاضر ہ کا تذکرہ فرمایا۔ اور پھر فرمایا:
’’میں تو کافی عرصہ سے کہہ رہا ہوں۔ کہ مسلم دنیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کو مانتے تو شاید سبھی ہیں مگر اس طرف عملی اقدام کوئی نہیں۔
’’ساری مسلم دنیا کو صرف یہ یقین ہے کہ مسلم ممالک کے خلاف جو بھی کارروائی ہو رہی ہے، اس میں اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ باقی ان کا ایجنڈا کیا ہے، اور مسلم دنیا اس کے لیے کیا اقدام کرسکتی ہے، اس طرف سے سارے مسلم ممالک غافل بیٹھے ہیں۔
’’اسلام مخالف طاقتیں تو صرف سیاسی اقتدار نہیں چاہتیں۔ وہ تو اب جغرافیائی حدود کو اسلامی دنیا کے اندر تک پھیلانا چاہتی ہیں۔ یہ ایجنڈا اس قدر واضح طور پر سامنے آ رہا ہے کہ اب تو مغربی تجزیہ نگار بھی اسلام مخالف طاقتوں کے ان عزائم سے اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں اور برملا اس کااعتراف کرنے لگے ہیں۔
’’میں نے اتحاد کی طرف تو توجہ دلائی ہی ہے، مگر ساتھ یہ بھی ہر بار بتایا ہے کہ مسئلے کا حل صرف سیاسی نہیں۔ مسلمان ہو کر اگر مسئلے کے روحانی پہلو سے نظر چراتے رہیں گے تو حل کیسے نکلنا ہے؟ جہاں تک ارضِ مقدس کا سوال ہے، اس میں تو اللہ تعالیٰ نے اس کا دارومدار عملِ صالح کو قرار دیا ہے۔
’’عملِ صالح دعا کے بغیر ممکن نہیں۔ اتحاد دعا کے بغیر ممکن نہیں۔ اور جب تک اتحاد نہیں، تب تک اسلام کے نام پر تو کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی۔
’’حضرت مصلح موعودؓ نے تو اسلام مخالف طاقتوں کے عزائم بتاتے ہوئے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ان کی نظر صرف یروشلم پر نہیں۔ ان کی نظر تو مکہ اور مدینہ پر ہے۔ انہوں نے خیبر واپس لینے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ تو سوال صرف کسی اسلام مخالف گروہ یا ریاست کا نہیں، سوال خیبر اور مکہ اور مدینہ کا ہے۔ مسلمان انہیں بچانے کے لیے متحد ہوں، کیونکہ دشمن متحد ہے۔‘‘
میرا خیال ہے کہ میں نے حضرت صاحب کے وہ تمام خطبات اور خطابات سنے ہیں جہاں حضور نے اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کا ذکر فرمایا۔ مگر میرے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی تقریب یا خطبہ جمعہ کے ماحول کے علاوہ حضرت صاحب نے اس موضوع پر کچھ فرمایا اور میں نے حضور کی موجودگی میں تنہا اور بالمشافہ یہ تذکرہ سنا۔ بلکہ مشاہدہ کیا۔ کیونکہ میں نے حضور کے چہرہ مبارک پر دکھ کے آثار دیکھے۔ اور ہر لفظ میں امت کے انتشار پر وہ درد محسوس کیا، جو پہلے کبھی تنہائی میں بالمشافہ نہیں کیا تھا۔
اس کے بعد حضرت صاحب نے سورۃ البقرہ کی آیت 75کے نہایت لطیف معانی بیان فرمائے:
’’وہ جو قرآن کریم میں آیا ہے کہ کفار کے دل پتھروں کی طرح سخت ہو گئے، بلکہ پتھر سے بھی بڑھ کر سخت ہوگئے۔ اسی آیت میں یہ بھی فرمادیا کہ پتھر وں میں سے بھی نہریں اور دریا نکل سکتے ہیں۔
’’اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے دل اسلام کے لیے پتھروں کی طرح سخت ہو چکے ہیں، اور مسلمانوں کے اپنے دل ایک دوسرے کے لیے پتھروں کی طرح ہو گئے ہیں۔
’’غیر مسلم تجزیہ نگاروں میں سے اب کچھ ایسے بھی اٹھ رہے ہیں جو اسلام دشمن طاقتوں کے عزائم کو بے نقاب کرنے لگے ہیں۔ میں ان حالات میں اِس آیت کے ساتھ اس حدیث کو بھی رکھ کر دیکھتا ہوں جہاں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ آخری وقت میں یہ نوبت آجائے گی کہ پتھر بھی بتائیں گے کہ میرے پیچھے ایک دشمنِ اسلام چھپا ہوا ہے۔
’’ورنہ پتھر تو نہیں بولا کرتے۔ تو قرآن کریم نے جس طرح دلوں کو پتھر سے تشبیہہ دی ہے، آخری زمانے سے متعلق اس حدیث کو سمجھنے کی ایک نئی راہ نکلتی ہے۔
’’مگر مسئلہ یہ ہے کہ بعض غیر مسلموں کے پتھر دلوں سے پانی پھوٹ تو پڑا، اور وہ خود اسلام دشمن عناصر کی نشاندہی بھی کرنے لگے ہیں، مگر مسلمانوں کے اپنے دل آپس میں پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں تو ان پر پانی پڑتا بھی ہے تو وہ سخت کے سخت ہی رہتے ہیں۔ صرف مخالفین ِاسلام کے لیے ہی نہیں، بلکہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی۔
’’مسلم دنیا میں اس وقت جو بد امنی ہے، جو آپس میں دل پھٹے ہوئے ہیں، اور جو اتحاد ہی نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کو مارنے پرتُلے ہوئے ہیں۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کی تائیدان کی مدد کو کیسے آسکتی ہے؟
’’میں تو لمبے عرصے سے یہی کہہ رہا ہوں کہ دعاؤں کے بغیر مسلم دنیا ہمیشہ اسی طرح مغلوب رہے گی۔ پتھر دلوں سے پانی کی نہریں پھوٹنے کا راز قرآن کریم نے تو روحانیت میں رکھ دیا ہے۔ سیاسی گٹھ جوڑ میں نہیں۔ تو دعا اور عملِ صالح اگرنہیں، توپتھر دلوں سے پانی کے چشمے نہیں پھوٹ سکتے اور نہ ہی کوئی تدبیر کارگر ہو سکتی ہے۔
’’اس وقت عملِ صالح بھی زمانے کے امام کو ماننے کے علاوہ ممکن نہیں۔ باقی میں سمجھاتا بھی رہا ہوں اور دعا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمادے۔‘‘
یہ ملاقات ایک گزرتے سال کی ڈھلتی شام اور ایک نئے سال کی چڑھتی صبح کے سنگم پر مجھے نصیب ہوئی۔ ملاقات کا اختتام تھا کہ حضرت صاحب نے جلسہ سالانہ قادیان کا ذکر فرمایا۔ دو دن کی کارروائی ہو چکی تھی۔ اگلے روز حضرت صاحب نے اختتامی خطاب فرمانا تھا۔
’’قادیان میں تو غیر متوقع بارش ہوئی ہے۔ جلسہ گاہ میں تو جلسہ کی کارروائی نہیں ہوسکی۔ مسجد اقصیٰ وغیرہ میں انتظام کرنا پڑا۔ اب دیکھوکل وہاں کیسا موسم ہوتا ہے۔‘‘
ان الفاظ میں کچھ خاص بات تھی۔ الفاظ بظاہر خیال کی طرز پر تھے۔ مگر ان میں ایک تمنا پوشیدہ تھی۔ اگلے روز جب جلسہ سالانہ قادیان سے خطاب فرمانے حضرت صاحب تشریف لائے، تو قادیان کے لائیو مناظر ایم ٹی اے کے ذریعے دکھائے گئے۔ ہزاروں شاملینِ جلسہ قادیان جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ جلسہ گاہ پر موسمِ سرما کی خوبصورت، روپہلی دھوپ چمک رہی تھی۔ اس دھوپ سے مسیح پاکؑ کی بستی دمک رہی تھی۔ اور حضرت مسیح پاکؑ کے مہمانوں کے چہرے اس دھوپ میں تمتما رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کے تمناکے رنگ میں ادا کیے ہوئے الفاظ کو دعا کے طور پر قبول فرمایا۔
اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی تمام تمناؤں اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔ دنیا پر چھائے ناامیدی اور دہشت کے بادل چَھٹ جائیں، اور 2025 کا سورج زندگی کی حدت اور نور کے ساتھ طلوع ہو۔
اَللَّھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ ا لْقُدُس