الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم فضل الرحمٰن خان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۲؍جنوری ۲۰۱۴ء میں محترم فضل الرحمٰن خان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی کا تفصیلی ذکرخیر اُن کی اہلیہ مکرمہ گوہر سلطانہ صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب ایک فرمانبردار بیٹے، شفیق باپ، محبت کرنے والے شوہر، بہن بھائیوں کا خیال رکھنے والے، مخلص دوست، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے والے، اپنے عہدوں کو ایمانداری اور وفاداری سے نبھانے والے، بیوائوں، یتیموں ضرورتمندوں، کارکنان اور ملازمین سے شفقت کا سلوک کرنے والے انسان تھے۔ دینی و دنیاوی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔
ہمارا ساتھ نصف صدی پر محیط ہے۔ ابتدائی سال ہم نے حیدرآباد سندھ میں ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں گزارے۔ جہاں وہ چیف انجینئر تھے۔ علاقائی قائد تھے اور قاضی ضلع بھی تھے۔ اتوار کے دن فجر کی نماز ہمارے گھر ہوتی جس میں مربی صاحب لطیف آبادسے تشریف لاتے۔ دیگر احباب جماعت بھی نماز میں شامل ہوتے۔ نماز کے بعد درس ہوتا۔ دینی باتیں ہوتیں اور پھر ناشتے کا انتظام ہمارے ہاں ہوتا۔
آپ انتہائی بہادر انسان تھے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی قریبی پہاڑیوں پر چھاتا برداروں کے اترنے کا خطرہ تھا۔ فیکٹری کی حفاظت کے لیے آپ نے بھی دیگر افسران کے ساتھ رات بھر ڈیوٹی دی۔ بلیک آئوٹ کی وجہ سے مَیں گھبرا جاتی تو وہ مجھے تسلی دیتے۔ دورانِ ملازمت ہمیشہ چیلنجز کو قبول کرتے اور سخت ترین حالات میں بھی نہ گھبراتے۔ بنوں شوگر مل کے مینیجر کو اس کے دفتر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ فضل الرحمٰن صاحب کو ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری سے تبدیل کر کے بنوں شوگر مل بھیج دیا گیا۔ کیونکہ آپ پشتو زبان جانتے تھے اور بنوں کی مقامی زبان پشتو تھی۔ حالانکہ آپ کا مضمون ’’سیمنٹ‘‘ تھا لیکن حالات کے تقاضے کے مطابق آپ نے نئی ذمہ داریاں بہت خوبی سے نبھائیں اور نو سال کا عرصہ وہاں گزارا۔ اس دوران مختلف مواقع پر بہت سی مشکلات پیش آئیں جنہیں آپ نے ہمت، حوصلے اور دعائوں سے برداشت کیا۔ ایک مرتبہ فیکٹری کی انتظامیہ اور گنا سپلائی کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور تمام افسران نے اپنی فیملیز محفوظ مقامات پر بھجوا دیں لیکن آپ اللہ پر توکّل کرتے ہوئے اپنی فیملی کے ساتھ وہیں رہے اور دوسروں کے لیے حوصلے کا باعث بنے۔ اسی طرح ۱۹۷۴ء کا واقعہ ہے کہ ایک دن بنوں کے ڈپٹی کمشنر نے آپ کو اطلاع دی کہ آج رات مولویوں نے آپ کے گھر کو جلانے کا منصوبہ بنایا ہے اور درخواست کی کہ آپ آج ہی اپنی فیملی کو لے کر یہاں سے کم از کم ایک ہفتہ کے لیے کہیں چلے جائیں۔ کیونکہ اُن کے لیے امن و امان قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ فضل الرحمٰن صاحب نے DCکو کہا کہ اگر تو یہ law and order کی requirement ہے تو میں اس کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنائوں گا۔ جہاں تک خوف کی بات ہے تو انشاء اللہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ آپ مع بچوں اور بوڑھے والدین کے صرف چند جوڑے کپڑوں میں نکلے۔ ہمارے ساتھ پولیس کی گاڑی، فیکٹری کی سیکیورٹی کی گاڑی اور اپنی گاڑی تھی۔ ہم نے گھر کی چابیاں ملازمین کے حوالے کر دیں جنہوں نے کچھ عرصے کے بعد ہمارا سارا سامان بحفاظت پہنچا دیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے آپ کی پوسٹنگ P.M.D.C میں کر دی اور ہم نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی۔
میرے دونوں بڑے بیٹے ابھی ڈیڑھ سال اور تین سال کے تھے کہ ان دونوں کو خسرہ نکل آیا اور وہ تکلیف کی وجہ سے بہت بے چین رہتے تھے۔ فضل الرحمٰن صاحب میرے ساتھ مل کر ساری ساری رات بچوں کی تیمارداری کرتے۔ ایک بچے کو وہ اٹھاتے اور ایک کو میں اٹھاتی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتے اور ہمیشہ محنت کرنے اور اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کی تلقین کرتے۔ اپنے سب بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور آگے ان کے بچوں سے بھی والہانہ پیار کرتے تھے۔ روزانہ بلاناغہ سب بچوں کو فون کرتے اور سب کی خیریت معلوم کرتے۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ تلقین کرتے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو زبان ضرور سکھائیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اردو میں ہیں۔ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت دلچسپی لیتے تھے۔ بچوں کی شادیوں کے موقع پر خلیفۂ وقت سے مشورہ لینا بہت ضروری سمجھتے تھے۔ میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کا رشتہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اور سب سے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر عطاءالقدوس کا رشتہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے تجویز فرمایا تھا۔ ان فیصلوں کو آپ خوش قسمتی سمجھتے تھے۔
ڈیوٹی پر موجود خدام کے لیے بہت زیادہ محبت اور ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے کہ یہ اپنے کام چھوڑکر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اکثر کہتے تھے کہ مَیں ان سب کے لیے بہت دعا کرتا ہوں اور مجھے بھی ان کے لیے دعا کرنے کا کہتے۔ دوران ملازمت اور جماعتی کاموں میں بھی اپنے ماتحت لوگوں سے کام کروانے کا سلیقہ جانتے تھے۔ بہت سے غیراز جماعت دوستوں کی مالی مدد کرتے تھے۔ ہمارے گھر کا مالی جو ۲۸؍سالوں سے ہمارے پاس کام کر رہا ہے۔ اس کے متعلق اپنی آخری بیماری میں مجھے کہا کہ وہ ہمارے گھر کے فرد جیسا ہے اسے ہٹانا نہیں اور ہمیشہ اس کا خیال رکھنا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں شیعہ سنی فسادات کے نتیجے میں میری دو بہنیں بے سروسامانی کی حالت میں پاڑہ چنار سے پنڈی ہمارے پاس آئیں۔ فضل الرحمٰن صاحب نے ایک باپ کی طرح ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔اور ہر طرح سے ان کی دلجوئی کی اور تقریباََ دو سال بعد جب پنڈی میں ان کا اپنا گھر بن گیا اور وہ جانے کا کہتیں تو انہیں باصرار روکتے اور کہتے کہ یہ گھر بھی تمہارا ہے۔ان کی ضروریات اور علاج معالجہ کا خاص خیال رکھتے۔ آج میری بہنیں ان کے لیے روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آج ہم دوبارہ یتیم ہو گئی ہیں۔
دعائوں پر بہت یقین تھا۔ایک دفعہ ایوان توحید میں کسی تقریب کا انعقاد تھا ۔ بارشوں کے دن تھے اور اس رات تیز بارش تھی۔ آپ پنڈی سے باہر کی جماعتوں کے افراد کی شمولیت اور بارش کی وجہ سے ان کو درپیش آنے والی تکلیف کے احساس سے بہت پریشان تھے اور ساری رات بارش کے رُکنے کی دعا کرتے رہے۔ صبح مطلع صاف تھا، دھوپ نکل آئی اور اجتماع میں بھرپور حاضری تھی۔
جب بھی گھر سے باہر جاتے تو دعا ضرور کرواتے اور اپنے ماتھے پر ’’یا عزیز‘‘ لکھتے۔ جو انہیں سید سرور شاہ صاحب نے بتایا تھا کہ اس طرح کرنے سے دوسرے شخص کا رعب تم پر نہیں پڑے گا۔ اکثر رات کو جب سب گھر والے اکٹھے بیٹھتے تو آپ کی گفتگو کا موضوع حضرت مسیح موعودؑ، خلفائے احمدیت اور بزرگان سلسلہ کے واقعات ہوتے۔ آخری ایام میں فجر کی نماز کے بعد اور رات کو سوتے وقت اونچی آواز میں رورو کر دعائیں کرتے۔
شروع سے میں نے آپ کو نمازوں کا پابند، روزے رکھنے والا اور دعائیں کرنے والا پایا۔ عرصہ دراز سے رات کو دو اڑھائی بجے اٹھ جاتے۔ تہجد پڑھتے، قرآن پاک با ترجمہ پڑھتے اور پھر فجر کی نماز پڑھتے۔ علی الصبح ناشتہ کرتے اور پھر اخبار پڑھتے۔خطبہ جمعہ خاص اہتمام سے سنتے اور گھر میں موجود سب افراد کو تاکیداً بلاکر بٹھاتے کہ وہ بھی خطبہ سنیں۔ خطبہ کے دوران کسی کو بات نہیں کرنے دیتے تھے۔
جب M.T.A کا آغاز ہوا تھا تو ہمارے گھر میں ڈش انٹینا تھا اور تمام حلقہ کے احباب و خواتین خطبہ جمعہ اور درس قرآن (جو رمضان میں ہو اکرتا تھا) سننے کے لیے ہمارے گھر تشریف لاتے تھے۔ ان کی خاطر تواضع کے لیے آپ ذاتی طور پر اہتمام کرواتے۔
آپ کے اپنے غیرازجماعت پڑوسیوں سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان کے غم و خوشی میں شامل ہوتے اور ہر قسم کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے۔ آپ کی وفات کے موقع پر ان سب نے بہت ہمدردی اور تعاون کا سلوک کیا۔ وفات پر آنے والے مہمانوں کے لیے اپنے گھر پیش کیے۔ سیکیورٹی مہیا کرنے کی آفر کی۔
آپ ہر مشکل وقت میں دعائوں سے کام لیتے تھے اور اکثر سچے خواب دیکھتے۔ ایک دفعہ آپ کی عینک ہر جگہ ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملی۔ تو صبح اٹھ کر مجھے کہنے لگے کہ میری عینک تمہارے پاس ہے۔کیونکہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے۔ اسے ڈھونڈو۔ مَیں نے ہنس کر کہا کہ مَیں نے آپ کی عینک کیا کرنی ہے لیکن انہوں نے پورے وثوق سے کہا کہ میری عینک تمہارے پاس سے ہی نکلے گی۔ کافی دیر بعد جب میں اپنے کسی کام سے اپنی عینک کیس میں سے نکالنے لگی تو میری عینک کی بجائے ان کی عینک تھی جو میں نے غلطی سے اپنی عینک سمجھ کر ڈال لی کیونکہ دونوں عینکیں میز پر اکٹھی پڑی تھیں۔
چندوں کی ادائیگی میں اور دیگر تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور بچوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ اپنے سکول کے زمانے سے وصیت کی ہوئی تھی۔اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ہمیشہ ادا کرتے۔ سب بچوں کی طرف سے انتہائی مطمئن تھے۔
اپنی بیماری کے پیش نظر مجھے ہمیشہ صبر اور حوصلے کی تلقین کرتے۔ کہتے کہ گھبرانا نہیں۔ ہر بات کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھو۔ میں نے تمہارے لیے بہت دعائیں کی ہیں اللہ تمہارا حافظ ہو۔ آخری بیماری میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی نظم کے یہ اشعار سناتے۔ ؎
نہ رونا میرے مرنے پر نہ کرنا آہ اور زاری
نہ ہونا صبر سے عاری میری بیگم میری پیاری
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ آخری وقت میں لندن میںہی مقیم تھے۔ جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے آئے تھے لیکن جلسہ کے بعد بیمار ہوکر لندن میں ہی وفات پائی۔ بیماری کے دوران بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ شفقت اور محبت بھری دعائیں آپ کو ملتی رہیں۔ وفات ہونے پر حضور اقدس نے حاضر جنازہ بھی پڑھایا ۔ بعدازاں جنازہ ربوہ لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۳؍نومبر۲۰۱۶ء میں محترمہ امۃالقدوس صاحبہ کی ایک غزل شامل اشاعت ہے جو مصطفیٰ زیدی کی ایک غزل پر تضمین ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:
سمٹتی جائے گی ہر رہگزر آہستہ آہستہ
’’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ‘‘
کبھی ترکِ تعلق کی نہ دل میں سوچ بھی لانا
ہیں دل آپس میں مل جاتے مگر آہستہ آہستہ
انا کی آندھیاں ان کی ہیں دیواریں ہلا دیتیں
پھر آخر ٹوٹتے جاتے ہیں گھر آہستہ آہستہ
کوئی بستی اُجڑنے کو بس اِک ساعت ہی کافی ہے
مگر آباد ہوتے ہیں نگر آہستہ آہستہ
کبھی یکلخت تکمیلِ محبت ہو نہیں سکتی
کیا کرتے ہیں جذبے بھی اثر آہستہ آہستہ
کسی پَل روح بھی قصرِ بدن کو چھوڑ جائے گی
ہیں خستہ ہو رہے دیوار و در آہستہ آہستہ
ضمیرِ دل کو گر ہم لوریاں دے کر سلا ڈالیں
ہے مٹ جاتی تمیزِ خیر و شر آہستہ آہستہ
شبِ تِیرہ کی تاریکی بجا لیکن ذرا سوچو
نکلتی ہے پھر اس سے ہی سحر آہستہ آہستہ