حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مومن لغویات سے بچتا ہے

نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی ۳۱؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو کیا کچھ شوروغل نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری ساری رات صرف شور شرابے کے لئے، شراب کباب کے لئے، ناچ گانے کے لئے جاگتے ہیں۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لئے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہئے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔… ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔ اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ وہ عہد جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ۸۰۰-۸۰۱۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر۲۴۰۳۶۔ عالم الکتب بیروت۱۹۹۸ء) (خطبہ جمعہ ۳۰؍ دسمبر ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button