مغربی ممالک میں بسنے والے احمدی اور اُن کی ذمہ داریاں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمود۵؍جنوری۲۰۰۷ء)
جب نئے اور پرانے احمدی اس مقصد کی ادائیگی کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے معیار بڑھنے شروع ہوں گے۔ اور جب معیار بڑھیں گے تو ڈچ قوم میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف آپ لوگوں کو خود مزید توجہ پیدا ہوگی تا کہ یہ لوگ بھی ہدایت پانے والے بن جائیں۔ ان لوگوں کو علم ہی نہیں ہے کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے۔ اسی لئے اس نا واقفیت کی وجہ سے یہ لوگ اسلام پر حملے کرتے ہیں، اسلام کی تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں، استہزاء کرتے ہیں، اس کی خوبصورت تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔ بعض بڑے شدید ردّ عمل ہیں مثلاً پردے پر یہاں بہت شور اٹھتا ہے اور اس کے Ban کرنے کے لئے قانون سازی کا بھی سوچا جا رہا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام کی بھیانک تصویر ان کو دکھائی گئی ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم ان لوگوں کے سامنے اس طرح پیش ہی نہیں کی گئی جو اس کے پیش کرنے کا حق ہے۔ اگر احمدی مرد عورت، جو یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں، بڑے چھوٹے سب، شروع میں ہی اس طرف توجہ دیتے، بہت پہلے سے اس طرف توجہ ہوتی، اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور احمدیت اور حقیقی اسلام سے لوگوں کو متعارف کرواتے تو مَیں نہیں سمجھتا کہ یہ صورتحال پیدا ہوتی۔ بہر حال اب بھی وقت ہے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ اسلام کی صحیح تعلیم لوگوں کو بتانے کے لئے ایک مہم کی صورت میں کوشش کرنی چاہئے۔ پہلے بھی میرا خیال ہے یہاں مَیں دو دفعہ اس بات کا اظہار کر چکا ہوں، اس طرف توجہ دلا چکا ہوں لیکن جس طرح کوشش ہونی چاہئے اس طرح کوشش نہیں ہوئی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہترین امت قرار دیا ہے جن کو دنیا کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری نظر ہمیشہ دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے کی طرف رہے اور سب سے زیادہ بڑی خیر اور بھلائی کیا ہے، وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے۔ دنیا کو فائدہ پہنچانے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ نیکی کی ہدایت کرو اور اسلام کی تعلیم نے نیکیاں بھی ساری گِنوادی ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ جب آپ نیکی کی تلقین کریں گے نیکی کی تعلیم پھیلائیں گے توسب سے پہلے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو قائم کرنا ہوگا۔ اپنے اندر، اپنے بچوں کے اندر ان نیکیوں کو رائج کرنا ہوگا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں۔ اس میں سب سے بڑھ کر جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں۔ جب حقیقی معنوں میں عبادت کے معیار بلند ہوں گے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور ذاتی رشتہ داریاں یا تعلق داریاں اس بات کی طرف نہیں لے جائیں گی کہ نیکی کے معیار ہر ایک کے لئے الگ بن جائیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیکیوں کو رائج کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہوں گے۔ اور یہ باتیں، نیکیاں قائم کرنا اور بدی سے روکنا، ہم اس لئے کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان کامل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا ہے۔ پس جب ہم اپنے اندر یہ پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدیوں سے روکنے والے بن جائیں گے تو غیر کو بھی ہماری طرف توجہ پید اہوگی کہ یہ لوگ نیکیاں اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اللہ کی خاطر یہ تمام کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ہر احمدی اپنے ماحول میں جہاں وہ کام کر رہا ہے یا رہائش رکھتا ہے، کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا ہے۔ تو جب آپ کے چہروں سے آپ کی حرکات و سکنات سے یہ ظاہر ہورہا ہوگا کہ آپ کو بدی سے سخت نفرت ہے اور برائی کی محفلوں سے سلام کرکے اٹھ جانے والوں میں شامل ہیں تو ان کو توجہ پیدا ہوگی کہ پتہ کریں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اور اس طرح آپ میں سے ہر ایک کی شخصیت سے یہ اظہار ہورہا ہوگا کہ یہ نیکیوں کو پھیلانے والے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اور جب لوگ قریب ہوکر دیکھیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ سعید فطرت لوگوں کے سینے یقیناً کھولے گا۔ ہر قوم میں سعید فطرت ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔ پس تبلیغ کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔ صرف اس ماحول میں ہی نہ رچ بس جائیں۔ اس کی خوبیاں بے شک اختیار کریں لیکن ان کی برائیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ آپ لوگوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم خیر امت ہیں، ہمارے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہم اس مقصد کو جاننے والے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور یوں عبادت کرنے والوں کے پھل بھی پھر عبادت کی طرف توجہ دینے والے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی صورت میں ملیں گے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ عارضی تبدیلیاں یا دوہرے معیار یا ایمانی حالتوں میں بڑھنے میں کمی ایسے لوگوں کو اگر پھل ملیں گے بھی، وہ بیعتیں کروائیں گے بھی تو یا تو وہ عارضی ہوں گی، کچھ دیر کے لئے آئے اور پھر چلے گئے، یا اس معیار کی نہیں ہوں گی جو ایک احمدی کا ہونا چاہئے۔ یہ باتیں سن کر صرف تعداد کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ بعض جگہ عادت ہوتی ہے صرف بیعتیں کروانے لگ جاتے ہیں۔ یہ دیکھیں اور یہ دیکھنا چاہئے کہ تقویٰ کے معیار بڑھانے والے احمدی حاصل ہوں۔ پس یاد رکھیں چاہے آپ جو موجودہ احمدی ہیں ان کی نسلوں میں ترقی ہے یا نئے آنے والے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہے، اگروہ نیکیوں کے معیار بلند کرنے، تقویٰ پر چلنے اور عبادت کی طرف توجہ دینے والے نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں اور ایسے لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں۔ پس آپ لوگ جو یہاں کے احمدی ہیں، پرانے احمدی ہیں یا نئے احمدی ہیں مل کر ایسے پروگرام بنائیں جس سے آپ کی نسل کی تربیت بھی ہورہی ہو۔ بہت سارے لوگ پریشانی میں لکھتے ہیں تو نسلوں کی تربیت کے لئے خود بھی تو کچھ کوشش کرنی پڑے گی۔ تا کہ ہر احمدی بچہ اس تربیت کی وجہ سے خیر اُمّت کی منہ بولتی تصویر بن جائے۔ تبلیغ کے میدان میں نیکیاں پھیلاتے اور برائیوں سے روکتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچا کر اس طرح ان لوگوں کو اپنے اندر سموئیں کہ وہ بھی خیر اُمّت کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ یاد رکھیں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ مسجدیں بھی ہیں اس طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ (Hague) میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید اندازاً 50 سال سے زائد عرصہ ہی ہوگیا ہے۔ اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ کی تھی۔ پھر یہ نن سپیٹ کا سینٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کر دیا ہے۔ ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی۔ اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اور قربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کرکے اب مسجدیں بنا سکتے ہیں۔ جب کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ مدد بھی فرمائے گا انشاء اللہ۔ خیراُمّت ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے تو پھر اس پر توکل بھی کریں۔ اور یہ کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ مدد بھی فرمائے گا جیسا کہ مَیں نے کہا۔