سالِ نو کااستقبال
’’ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو‘‘(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے
(درعدن)
اسلامی کیلنڈرکاآغازمحرم الحرام کی پہلی تاریخ کوغروبِ آفتاب سےہوتاہے جبکہ شمسی یاعیسوی سال۳۱؍دسمبرکی نصف شب کے بعدشروع ہوتاہے۔سال نوکے آغاز کے ساتھ ہی جہاں اور بہت سے پیغامات ہمیں اپنے دوست احباب، عزیزو اقارب اور پیاروں سے موصول ہوتے ہیں وہاں حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کا مندرجہ بالا شعر نئے سال کی مبارکبادی کے طور پر کثرت سے ایک دوسرے کو بھیجا جاتا ہے۔اگر اس شعر کی گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو یہ ایک مکمل دعا ہے۔ یعنی جن کے اوپر خدا تعالیٰ کےفضل کاسایہ فگن ہوجائے وہ ایک دودن کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیےاللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے تلے آجاتے ہیں اس لیے اُنہیں اور کیا چاہیے!ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل کاسایہ کیسے حاصل کیا جائے ؟ یہ ہے اصل سوال ! جو بہت غور طلب ہے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ یہ نسخہ بہت ہی کارآمد ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’خداتعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہےجو شخص اُس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے۔وہ اُس سے بڑھ کر اپنا صدق و صفا اُس سے ظاہر کرتا ہے۔اُس کی طرف صدق دل سے قدم اُٹھانے والاہرگز ضائع نہیں ہوتا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۶)
دنیادارنئےسال کااستقبال کیسےکرتےہیں؟
خوش رہنا اور خوشیاں منانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اللہ تعالیٰ کےفضل سےہم سب کی زندگیوں میں خوشیوں کےبےشمارمواقع آتےہیں جنہیں ہم اُس کےبتائےہوئےطریق کے مطابق مناتےہیں اور اللہ تعالیٰ کےدیے ہوئے وسائل کو ضائع کرنے کی بجائے مثبت کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا کی طرف میلان رکھنے والے لوگ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں۔اُن کے مذہبی تہوارہوں یا مختلف رسمیں،ثقافتی پروگرام ہوں یا تاریخ سازمواقع یاپھرنئےسال کی مناسبت سےہونےوالی تقریبات،ان پر ہرسال کروڑہاروپیہ پانی کی طرح بہادیاجاتاہے۔نئےسال کی خوشی میں دعوتوں کا اہتمام، چراغاں، آتش بازی اوررقص وسرورکی محافل کاانعقادکیا جاتاہے۔ منچلےنوجوان نئےسال کی آمدپر گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں کےسائلنسرنکال کر رات بھرنہ صرف فضاکوآلودہ کررہےہوتےہیں بلکہ اس شورشرابےسےدوسروں کاجینابھی محال کردیتےہیں۔کثرت سےشراب نوشی کےنتیجےمیں ہونےوالی مدہوشی سےبہت سےحادثات رونماہوتےہیں۔اس سب ہلڑبازی اورنئےسال کوبےہنگم طریقوں سےمنانے کی وجہ سےآج اسلامی اورغیراسلامی ملکوں میں بہت سامالی اورجانی نقصان ہوجاتاہے۔ بعض شہروں اورقصبوں میں انتظامیہ قومی دنوں اور نئےسال کی خوشی میں خودآتش بازی کاایک مخصوص جگہ پرانتظام کرتی ہے تاکہ امنِ عامہ کی صورت حال برقراررہے۔ہاں اکّادکّا جگہوں پرلوگ خودبھی پٹاخےچلاتے نظرآتےہیں۔علاوہ ازیں ایک دوسراطبقہ فضامیں آتش بازی کےنتیجے میں فضامیں بکھرتے خوشنما اوردیدہ زیب رنگوں کےجھرمٹ سےلطف اندوزہونےکےبعد اپنےپسندیدہ مشروبات کےخالی کین،شیشے کی خالی بوتلیں اور کھانےکی دیگراشیا کےریپرز سمیت ہرطرف کچرےکاڈھیرلگاکرگھروں کو چل پڑتےہیں۔گویاقانون نافذکرنےوالےادارےاس دن عوام کوآزادی کےنام پرلاقانونیت کی کھلی اجازت دے دیتے ہیں۔
ہمارےپیارے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ۳؍جنوری ۲۰۱۵ءمیں فرماتے ہیں:’’مجھے مختلف لوگوں کےنئےسال کےمبارکبادکےپیغام آرہےہیں۔فیکسیں بھی اورزبانی بھی لوگ کہتےہیں۔آپ سب کوبھی یہ نیاسال ہرلحاظ سے مبارک ہو۔لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گاکہ ایک دوسرےکومبارکباددینےکافائدہ ہمیں تبھی ہوگاجب ہم اپنےیہ جائزےلیں کہ گذشتہ سال میں ہم نے اپنےاحمدی ہونےکےحق کوکس طرح اداکیاہےاورآئندہ کےلیےہم اس حق کواداکرنےکےلیےکتنی کوشش کریں گے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍جنوری ۲۰۱۵ء تا۲۹؍جنوری ۲۰۱۵ء،صفحہ ۵)
اگرایک سال گزرنے پر ہم اپنا احتساب کرتے ہوئے نئے سال کو خوش آمدید کہیں،اپنے آ پ کو پہلے سے بہتر بنانے کا ارادہ کریں، اپنے رویّوں اور سوچوں میں مثبت تبدیلی کاعزم باندھیں تب تونئے سال کا استقبال اور اُس کی مبارکباد کچھ معنی رکھتی ہے ورنہ بقول فیض لدھیانوی ؎
اے نئے سال بتا،تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
بےسبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک بادیں
غالباً، بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
بدقسمتی سے عصرحاضرمیں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کو رسم ورواج کے طوق نےاپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھاہے جن سے چھڑانے اور آزاد کرانے کے لیے اسلام آیا تھا۔آپ یہ پڑھ کرششدررہ جائیں گے کہ نئے سال کااستقبال ہویاقومی تقریبات کا انعقاد،دنیابھرمیں آتش بازی کےمقابلہ جات میں سب سےزیادہ خرچ کرنےوالےممالک میں مسلمان سرفہرست ہیں۔
۱۔ابو ظہبی: سال ۲۰۰۹ء میں، متحدہ عرب امارات کے۳۷ ویں قوی دن کےموقعہ پرابوظہبی نےسب سےمہنگی آتشبازی کاریکارڈ توڑا۔۵۵منٹ پرمحیط اس آتش بازی کےڈسپلےپر۲۰؍ملین امریکی ڈالرزلاگت آئی۔یہ تقریبات ۲۳؍نومبرسے۴؍دسمبرتک جاری رہیں۔
۲۔کویت: اسی طرح کویت نےخلیج کی آئین اورپارلیمنٹ بنانےوالی پہلی عرب ریاست کے۵۰سال پورے ہونےکی خوشی میں ایک گھنٹہ طویل آتش بازی کامظاہرہ کیا،جس میں ۷۷،۲۸۲گولےچلائےگئے۔جس پرکل ۱۵ملین امریکی ڈالرزخرچ کیے۔
۳۔متحدہ عرب امارات (دبئی)میں واقع دنیاکاسب سےطویل القامت برج،برج خلیفہ جس کی اونچائی ۸۲۹.۸؍ میٹر اور۲،۷۲۲؍فٹ ہے۔یہا ں پربھی نئےسال کی خوشی میں چراغاں اوراطراف میں آتش بازی سےفضا میں بکھرتی رنگوں کی دھنک،جسےدیکھنے کےلیےایک جمِ غفیرجمع ہوتاہے۔ ۲۰۱۴ءمیں دبئی میں سب سےبڑےپائروٹیکنکس (Pyrotechnics)شوکامظاہرہ ہوا جس میں ۴۰۰,۰۰۰ امریکی گولوں کاریکارڈتوڑتے ہوئےصرف چھ منٹ میں ۴۷۹،۶۵۱؍گولےچھوڑے۔ اس شوپر چھ ملین امریکی ڈالرز لاگت آئی۔
۴۔آسٹریلیا:سڈنی ہاربربریج (Sydney Harbour Bridge) پرجوجشن کامرکزہے۶.۳؍ملین سالانہ بجٹ خرچ کرتا ہے۔یہاں ہرنئےسال کااستقبال ایک الگ (Theme) تھیم کےتحت ہوتاہے۔۲۰۲۳ءکی خوشی میں صرف آتش بازی کےذریعہ ہونےوالےمظاہروں کےلیے ۵.۸؍ملین ڈالرزکابجٹ مختص تھا۔اس فائرورکس کےدوران ہاربربریج سےآبشارکے اترنےکانظارہ دنیابھرسے ایک بلین سالانہ لوگ کرتے ہیں اورساحل کےاطراف سے۱.۵ملین زائرین اس سےمحظوظ ہوتےہیں۔( GSI Markets.Jan,3,2017 )
٭…امریکہ کےشہرنیویارک میں ٹائمزاسکوائرجیسی مشہورجگہ پر نصف شب کونئے سال کوخوش آمدیدکہنےکامنظربھی لاکھوں لوگوں کی توجہ کامرکزہوتاہے۔آدھی رات یعنی ۱۲:۰۰ بجنے سےچندلمحات پہلےٹائمزاسکوائرمیں موجودلاکھوں لوگ الٹی گنتی گن کرکرسٹل کی بنی ہوئی گیندکوگرتادیکھ کرخوب محظوظ ہوتے ہیں۔یہاں گیندگرنےکےمنظرسےلے کر مین ہیٹن سکائی لائن (Manhattan Skyline)کےفائرورکس پر(آتش بازی)۶ملین ڈالرزسالانہ خرچ کئےجاتےہیں۔(GSI Markets.Jan,3,2017)
٭…برطانیہ کے تاریخی اور ثقافتی شہر لندن میں دریائے ٹیمز (Thames)پر بنائے گئے تاریخی پُلوں، ٹاوربریج (Tower Bridge)،شارڈ(The Shard)سےلے کرلندن آئی(London Eye)تک نئے سال کی وسیع پیمانےپرہونے والی صرف آتش بازی کی تقریبات پرسالانہ ۴.۵ملین پائونڈز خرچ کیےجاتے ہیں جبکہ ایک لاکھ زائرین وہاں جمع ہوتےہیں۔(ویکیپیڈیا)
٭…فرانس کاشہر پیرس، یہاں پر۹۸۴؍فٹ بلند ایفل ٹاور(Eiffel Tower)جسے۱۸۸۹ءکوکھولاگیا۔ یہ ٹاور ایک نامور فرانسیسی انجینیئرگسٹاؤ ایفل(Gustave Eiffel)نےنہایت منفرداورانوکھےاندازمیں ڈیزائن کیا تھا۔ یہاں پربھی لوگوں کا ایک جم غفیرنئےسال کےاستقبال پرآتش بازی کےمناظردیکھنےکےلیےجمع ہوتاہےبلندقامت ایفل ٹاوراورآتش بازی کےمناظرسے روشنیوں کاشہرفرانس جگمگااٹھتاہے۔
٭…جرمنی کےتاریخی شہربرلن میں برینڈن برگ گیٹ (Brandenburg gate)پربھی آتش بازی کےشاندار اورمشہورترین مظاہرےہوتےہیں۔میوزک بینڈز اورسال نوکااستقبال کیاجاتاہےجسےہزاروں لوگ دیکھنےآتےہیں۔اس تقریب پر لاکھوں یورو خرچ ہوتاہے۔
٭…کینیڈین بھی اس دوڑمیں کچھ کم نہیں۔نیاگرافال (Niagara Fall)جسے ۲۶؍فروری۲۰۱۴ءکو نارتھ امریکہ کاساتواں بڑاقدرتی عجوبہ قراردیاگیاتھا،قدرتی حسن سےمالامال اس آبشار اوروکٹوریہ پارک میں آتش بازی کےمظاہرے،موسیقی اوردعوتیں رات گئےتک جمتی ہیں۔ جسے دیکھنےکےلیے لوگ کینیڈاکےدوردرازعلاقوں سےوہاں پہنچتےہیں۔
اگریہ کہاجائے کہ لوگ ٹکٹ خریدکران تقریبات میں شامل ہوتےہیں یاعوام کےاداکردہ ٹیکس کی رقم سےلوگوں کوتفریح مہیاکی جاتی ہےتو اس صورت میں بھی کھربوں روپے تفریح کےنام پرآگ میں جھونک دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ضمن میں ہماری راہنمائی کرتےہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ۳۰؍دسمبر۲۰۱۶ءمیں فرماتےہیں: ’’ نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی ۳۱؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو کیا کچھ شوروغل نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری ساری رات صرف شور شرابے کے لیے، شراب کباب کے لیے، ناچ گانے کے لیے جاگتے ہیں۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لیے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہیے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۰تا۲۶؍جنوری۲۰۱۷ءصفحہ۶)
احمدی مسلمان نیاسال کیسےمناتاہے؟
اسلام کی زندگی بخش تعلیمات سب مذاہب سےجداہیں اس لیےہم نیاسال بھی منفرداورجدااندازمیں مناتےہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ جشن اورآتش بازی صرف وقتی اورعارضی خوشیاں دےسکتے ہیں۔اگرہم دائمی اورہمیشگی کی خوشیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ سےاس کافضل مانگتےہوئے،خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفۃالمسیح کی ہدایت وراہنمائی میں اپنی زندگیاں گذارنی ہوں گی۔ لیکن اگرہم بھی دوسروں کی دیکھادیکھی صرف چراغاں اورآتش بازی کی حدتک نئےسال کوخوش آمدیدکررہے ہیں تویہ نبی کریم ﷺکےان الفاظ میں ہمارےلیےلمحہ فکریہ ہے۔جوشخص جس قوم کی مشابہت اختیارکرےوہ انہی میں سےشمارہوگا۔(سنن ابوداؤدحدیث نمبر: ۴۰۳۱)
چنانچہ ایک مومن یہ دعا کرتے ہوئے نئے مہینے یا نئے سال میں داخل ہوتا ہے :اللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ۔(الطبرانی المعجم الاوسط)اے اللہ! اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں۔اور پھر یہ رسم و رواج ہیں۔یہ بوجھ بنتےچلے جاتے ہیں۔جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں اور بعض جو،ان کے قریبی ہیں،دیکھنے والے ہیں،ان کو بھی مشکلات میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔‘‘ (بدرسوم و بدعات اور ان سے اجتناب کے بارہ میں تعلیمات صفحہ۲۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۸۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کی روشنی میں فرمایا : ’’خوشی کے طبعی اظہار سےممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں،قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا۔آپؑ نے فرمایا کہ نیتوں پر دارومدار ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بے تکلفی سے بعض باتیں خود بخود رونما ہورہی ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ رسم کی شکل اختیار کرجاتی ہیں اور انہیں ان کے کرنے پر غیراللہ کا خوف مجبور کردیتا ہے۔ چنانچہ اس مقام پر نہ صرف وہ منع ہوجاتی ہیں بلکہ شرک میں داخل ہونے لگتی ہیں۔ یہ اس وقت کے امام کا فرض ہے کہ وہ قوم کو لازماً ان چیزوں سے روک دے۔‘‘(خطبات طاہر جلد ۲ صفحہ ۶۲۹)
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ ۳۰؍دسمبر۲۰۱۶ءمیں فرماتےہیں:’’ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ وہ عہد جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ۸۰۰-۸۰۱۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر۲۴۰۳۶۔ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء)(الفضل انٹرنیشنل ۲۰تا۲۶؍جنوری۲۰۱۷ءصفحہ۶)
آج کی مادہ پرست دنیا میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہےآفات، شدائدو مصائب، بےحیائیاں اور برائیاں ایک خوفناک اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑی ہیں۔اسلام کے اس دور آخرین میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اللہ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کے سائے تلے پروان چڑھیں اور اپنے ہر دن کو مبارک اور ہرشب کو خیر کا باعث بنانے والی ہوں تو پھر مسیح محمدیؐ کے ساتھ اور آپ کے خلفائے عظام کی اطاعت میں رہتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔آمین
دن ہوں مُرادوں والےپُرنُورہو سویرا
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
(محمودکی آمین۔دُرِّثمین اُردو)
٭…٭…٭