تعارف کتاب

تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئینہ حق نما بجواب الہامات مرزا(حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ)(قسط ۶۱)

(اواب سعد حیات)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرامؓ نے متنوع خدمات کی سعادت پائی، مثلاً حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اپنے آقا و مطاع ؑکی سفر و حضر کی پاکیزہ مصروفیات، مختلف مواقع پر کی گئی تقاریر اور صبح کی سیر اور شام کے دربار میں ارشاد فرمودہ ایمان افروز اور زریں ملفوظات کو قلمبند کیا۔حضرت شیخ صاحب ؓکی دیگر قابل قدردینی خدمات میں طرح طرح کے مخالفین کے اعتراضات اور وساوس کا علمی ردّ بھی تھا۔ جس کا ایک نمونہ یہ زیر نظر کتاب ہے۔

ایک معانداحمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری تھے،جن کو اپنےزمانہ نوجوانی و طالب علمی میں قادیان پہنچنے کا بھی موقع ملا، مگر قسام ازلی سے وہ نعمتِ ہدایت پانے کے حقدار نہ بن سکے۔اللہ تعالیٰ نےاس اشد معاند مولوی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پرایک نہایت خاص اور حیرت انگیز معیار صداقت پورا کرتے ہوئے ایک طویل عمر دی۔

مولوی ثناء اللہ صاحب نےاپنا اخبار ہفت روزہ اہل حدیث ۱۳؍نومبر۱۹۰۳ءکو جاری کیا اور یہ اخبار مسلسل چوالیس سال تک باقاعدہ جاری رہا۔ اس کا آخری شمارہ اگست ۱۹۴۷ءکو شائع ہوا۔ اسی طرح ’’ماہنامہ مرقع قادیان‘‘ بھی مولوی صاحب کی خصوصی ’’کاوش‘‘ تھی جس کا آخری صفحہ تو بطور خاص جماعت احمدیہ کے خلاف وقف رہتا تھا۔ اب چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا ذریعہ معاش ہی تکذیب سے جڑ چکا تھا، اس لئے انہوں نے اپنے مذکورہ بالا اخبار اور پھر مختصر کتابوں کی صورت میں ایک مرزا سیریز ہی شروع کردی، مثلاً ہفوات مرزا، چیستان مرزا، عقائد مرزا، فیصلہ مرزا، مراق مرزا، تاریخ مرزا، نکاح مرزا، نکات مرزا، اباتیل مرزا وغیرہ کے سستے عناوین سے خوب شہرت اور مال بنایا۔ (یاد رہے کہ ’’حالات و الہامات مرزا‘‘ کے عنوان سے ایک الگ کتاب بھی ہے جسے ایک مولوی محمد عبدالوہاب خان نے جنوری ۱۹۲۱ء میں تیار کرکے ریاست رامپور سے شائع کروایا تھا )

کتاب’’الہامات مرزا‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں تین دفعہ طبع کروائی گئی مگر کسی نے توجہ نہ کی۔لیکن جب مولوی ثنا ء اللہ صاحب اپنی شیخی،تعلّی اور لاف و گزاف میں کچھ زیادہ ہی مدہوش رہنے لگے تو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے دور خلافت اولیٰ میں اس طرف توجہ کی اور الحکم قادیان نے اپنے ۷؍جون ۱۹۱۱ء کے شمارے کے صفحہ ۱۳ پر ’’الہامات مرزا کا جواب ‘‘کے عنوان سے لکھا:’’امرتسری منکر ثناء اللہ کے رسالہ الہامات مرزا کا جواب ایڈیٹر الحکم نے لکھنا شروع کردیا ہے اور خدا کے فضل و کرم سے حضرت خلیفۃ المسیح مدظلہ العالی نے منظور فرمایا ہے آپ باوجود ضعف اور شدت گرما کے اس کے مسودہ پر نظر ثانی کردیں۔ چنانچہ حضرت کی خدمت میں پہلا مسودہ دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ اصلاح کرتے جائیں گے۔ کاتب کے حوالہ مسودہ کردیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو الہامات مرزا کے جواب کے لئے بیقرار تھے۔ اب اپنے ارادہ سے اطلاع دیں۔ یہ رسالہ دو سو صفحے سے کم نہیں ہوگا۔ ممکن ہے زیادہ ہوجاوے۔ …‘‘

زیر نظر کتاب آئینہ حق نما کے متن کا جائزہ لیں تو صفحہ اول پر ’’دیباچہ ثنائی پر نظر‘‘کے عنوان کے ماتحت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’مولوی ثناء اللہ امرتسری… نے اپنے رسالہ ’’الہامات مرزا‘‘کے شروع میں ایک ’’دیباچہ قابل ملاحظہ‘‘لکھا ہے۔ میں نے پسند کیا ہے کہ اس کے رسالہ کے کسی بھی ایسے حصہ کو نہ چھوڑوں جو قابل لحاظ ہو۔ اس لئے میں اسی ’’دیباچہ ثنائی‘‘ … سے اس رسالہ کو شروع کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق‘‘

کتاب کے صفحہ ۱۱ پر مؤلف نے دس ایسے پوائنٹ درج کیے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا انجام کیسا ہے۔ آپ بلاریب ایک فتح نصیب جرنیل تھے۔ اور آپ اپنا مفوضہ مشن مکمل کرکے اپنے خالق کے حضور حاضر ہوئے۔

اس کے بعد مؤلف نے مولوی ثناء اللہ کے بعض مغالطوں کو علم تعبیر الرویاء کے مسلم اصولوں کی رو سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد مؤلف نے بعض ثنائی تالیفات سے ان اشعار اور فقرات کو نقل کیا ہے جو ثنائی شوخی اور دور از متانت طبیعت کا پتہ دیتے ہیں۔ اور ثابت کیا ہے کہ مولوی صاحب کی طبیعت کا میلان کس طرف تھا۔ درحقیقت مامور من اللہ حضرت احمد ؑ کے آئینہ میں مولوی امرتسری نے بحالت خواب اپنا ہی اصل نقشہ اوراندرونی حلیہ دیکھ لیا تھا۔

کتاب کے صفحہ ۲۲ پر مولوی ثناء اللہ کے طریق مباحثہ پر نظر ڈالی گئی ہے۔

صفحہ ۲۷ پر مقدمہ کے عنوان سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئیوں کا علی منہاج النبوۃ ہونا بتایا گیا ہے۔ کیونکہ حضور ؑ نے جب اپنی تصنیف اعجاز احمدی میں مولوی ثناء اللہ کو چیلنج دیا تو یہی لکھا تھا کہ ’’تفتیش کے وقت منہاج نبوۃ کو معیار صدق و کذب کا ٹھہراویں۔‘‘

مصنف نے کتاب میں آگے چلتے ہوئے پیشگوئی کا فلسفہ، ضرورت کا مضمون تفصیل سے بیان کرکے صفحہ ۴۶ پر پیش گوئی متعلقہ ڈپٹی آتھم کا احوال درج کیا ہے اور ساتھ مولوی امرتسری کے اعتراضات اور وساوس کا بھی متفرق دلائل از احادیث،کتب تاریخ اور مختلف دستاویزات سے خوب ردّ کیا ہے۔

کتاب کے صفحہ ۸۳ پر مولوی امرتسری کی ایک اور علمی ذلت کا احوال بتاتے ہوئے اپنے بارے میں لکھا کہ ’’میں خود جو حضرت مسیح موعود ؑکا ادنیٰ خادم ہوں اور نہ میں مولوی فاضل ہوں۔ نہ دیوبند کا سندیافتہ۔ نہ امرتسری حلوہ کھلانے والے استاد کا تربیت یافتہ۔ اور نہ دہلوی بزرگ کے عاشقانہ اشعار سننے والا۔ ہاں حضرت میرزا اور اس کے حقیقی جانشین کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کا فخر رکھتا ہوں…‘‘

الغرض ہر رنگ سے مخالف کو پیش گوئی کی حقانیت بتاتے، سمجھاتے اور اتمام حجت کرتے ہوئے مصنف نے کتاب کے صفحہ۹۴؍ پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے مئی ۱۸۹۶ء کے اس اشتہار کا مکمل متن درج کیا ہے ۔

کتاب کے صفحہ۱۱۳؍ پر دوسری پیشگوئی جو پنڈت لیکھرام کے حق میں تھی اس کا تجزیہ شروع ہوتا ہے اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔تیسری پیش گوئی بابت مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد تھی۔ جس کامکمل احوال کتاب کے صفحہ ۱۳۷ سے شروع ہوکر ۱۶۸ تک لکھا ہے۔اگلے باب میں چوتھی پیش گوئی کا ذکر ہے جو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی و جعفر زٹلی اور تبتی کے متعلق تھی، جس میں اس موضوع پرتفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے صفحہ ۲۳۹ تک متنوع مواد پیش کیا گیا ہے جوفریقین کی باہمی خط و کتابت، مطبوعہ اشتہارات اور بعض فتاویٰ سے ماخوذ ہے۔

کتاب میں آگے چل کر مصنف نے پانچویں پیش گوئی کا ذکر کیا ہے جو نشان آسمانی میعادی سہ سالہ کے متعلق ہے۔

اس سہ سالہ پیش گوئی پر مولوی ثناء اللہ کے اعتراضات کو مؤلف نے دو حصوں میں لیا ہے۔ ایک حصہ میں عام اعتراضات کو لیا گیا ہے اور دوسرے حصہ میں علمی نکتہ چینیوں کا جواب ہے جو کتاب کے صفحہ ۲۵۱ سے ۲۶۸ تک قولہ اور اقول کی طرز پر موجود ہے۔

کتاب کے صفحہ ۲۳۷ پر چھٹی پیش گوئی بابت طاعون پنجاب کا تذکرہ ہے۔

کتاب کے صفحہ ۲۶۲ پر ساتویں پیش گوئی کا بیان ہے جو حفاظت قادیان کے متعلق تھی، جس کا تفصیلی ذکر کتاب کے صفحہ ۲۹۲ تک چلتا ہے۔

آٹھویں پیش گوئی مولوی ثناء اللہ امرتسری کے متعلق ہے جس میں مولوی صاحب کی قادیان آمد کا احوال اور زمانی ترتیب سے باہمی خط و کتابت درج کرکے مولوی صاحب کی چالاکیوں کا پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح مولوی صاحب لفظی ہیر پھر میں اپنی مہارت تامہ کا سہارا لےکر عوام الناس کو خراب کیا کرتے تھے، اور مولوی صاحب قادیان پہنچے بھی تو بجائے مسیح وقت کی مجلس میں حاضر ہوتے، مگر وہ تو قادیان کے آریہ مندر میں جا فروکش ہوئے۔ اور منھاج نبوت کو بھول کراحقاق حق کے لیے من مانیاں کرنے لگے۔ بلطائف الحیل ٹلاتے رہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button