خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍نومبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں بےشمار جگہ اپنے آنے کی غرض اور اس زمانے میں کسی مصلح کے آنے کی ضرورت کا بیان فرمایا ہے۔ اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ آپؑ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنا عین وقت کی ضرورت تھا اور اللہ تعالیٰ کی سنت اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے…پس آج بھی جو ہم اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ایک احمدی کے لیے مضبوطی ایمان کا ذریعہ ہیں۔ بعض لوگوں کے واقعات میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انبیاءکی سچائی کوپرکھنے کےمعیاراورحضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ کسی آنے والے شخص کی سچائی کے پرکھنے کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ‘‘کسی شخص کے سچا ماننے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی کھلی کھلی خبر کسی آسمانی کتاب میں موجود بھی ہے۔ اگریہ شرط ضروری ہے تو کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہوگی۔اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے دعویٰٔ نبوت پر سب سے پہلے زمانہ کی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ پھریہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا یا نہیں۔ جب یہ تمام باتیں پوری ہو جائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ اپنی زبان حال سے فریاد کررہا ہے کہ اِس وقت اسلامی تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لئے اور دنیا میں گم شدہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئےبلاشبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑھوں کوپانی دیوے۔ اور اس طرح پر بدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستی کی طرف رجوع دیوے۔سو عین ضرورت کے وقت میں میرا آنا ایسا ظاہر ہے کہ میں خیال نہیں کرسکتا کہ بجز سخت متعصّب کے کوئی اس سے انکار کر سکے۔ اور دوسری شرط یعنی یہ دیکھنا کہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ یہ شرط بھی میرے آنے پر پوری ہوگئی ہےکیونکہ نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ جب چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہوگا تب وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ سو قمری حساب کے رُو سے چھٹا ہزار جو حضرت آدمؑ کے ظہور کے وقت سے لیا جاتا ہے مدت ہوئی جو ختم ہو چکا ہے اور شمسی حساب کے رُو سے چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہے۔’’وہ بھی ہو چکا ہے۔ ‘‘ماسوا اس کے ہمارے نبیﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر ایک مجدد آئے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اب اِس چودھویں صدی میں سے اکیس سال گزر ہی چکے ہیں۔’’جب آپؑ نے فرمایا یہ اس وقت کی بات ہے ۔ ‘‘اور بائیسواں گزر رہا ہے۔اب کیا یہ اس بات کا نشان نہیں کہ وہ مجدد آگیا۔’’
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرغیزستان سےبابائیواسلام بیک صاحب کےقبولیت احمدیت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: بابائیو اسلام بیک (Boboev Islombek) صاحب روسی ہیں، قرغیزستان کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلق قرغیزستان میں کاشغر قِشلاق سے ہے اور کہتے ہیں میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرتے ہوئے حقیقی اسلام یعنی جماعت میں شامل ہو رہا ہوں۔احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدیؑ نے اسلام کی خوبیوں کو بہت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ صرف امام مہدیؑ ہی اس طرح اسلام کی خوبیوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے متقی بنا دے اور دس شرائط بیعت پر عمل کرنے والا بنا دے۔ یہ ایک دُور دراز کے علاقے میں بیٹھے ہوئے شخص کا بیان ہے۔ اب ایک جگہ نہیں ہر ملک میں یہ حال ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تنزانیہ کےریجن شیانگامیں مسجدکی تعمیرکےایمان افروزواقعہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:تنزانیہ کا ایک ریجن ہے شیانگا۔ وہاں کی ایک جماعت ہے مونگا لانگا (Mwangalanga)۔ یہاں جماعت میں جب احمدیت کا آغاز ہوا تو شروع میں احمدی احباب درختوں کے سائے میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ اسی دوران وہاں پر ایک شخص محمد فونگونگا (Fungagunga) نے جماعت کی شدید مخالفت شروع کر دی اور چند احباب سےمل کر مشہور کر دیا کہ یہ احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں اور ہم مسلمان جلد ہی یہاں مسجد بنائیں گے۔ اس شخص نے ایک صاحبِ حیثیت خاتون کی ضمانت بھی لے لی کہ وہ مسجد کے لیے رقم دے گی۔ دوسری طرف جب ایک مخلص احمدی رمضان صاحب نے اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کی تو اس شخص نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ قطعہ زمین غیر از جماعت مسلمانوں کو مل جائے مگر وہ احمدی ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جماعت کی مسجد بننا شروع ہوئی اور پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ اس اثنا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اس مخالف شخص کے گھر تک پہنچی۔ اب یہ مخالفت کر رہا ہے اور اس کے گھر بھی احمدیت کا پیغام پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی اور بچوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی اور اب وہ اپنی مخالفت میں اکیلا رہ گیاہے۔ اب اگر اس شخص میں عقل ہو اور اس جیسے بہت سے ایسے لوگ ہیں تو ان کے لیے یہی نشان کافی ہے کہ باوجود مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اس کے بیوی بچوں کے دل میں حقیقی اسلام کا جوش پیدا کیا اور اس کا کوئی زور نہیں چلا۔ یہ ایمان، یہ تبدیلی کوئی انسان پیدا کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہوتا ہے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازبکستان سے ایک احمدی سنت سلطانووچ صاحب کےاہل خانہ کے ایمان لانے کا کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:بخارا جو رشیا کا علاقہ ہے وہاں ایک مخلص احمدی سنت سلطانووچ صاحب ہیں۔ ازبکستان سے ان کا تعلق ہے اور رشیا میں ملازمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اکیلا ہی احمدی ہوں اور اپنی اہلیہ اور بچے کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے متعارف کراتا رہتا ہوں۔ شوق ہے کہ میرے بیوی بچے بھی احمدی ہو جائیں۔ بہت دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسلام احمدیت کے نور سے منور کرے۔ کہتے ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ میری خواب میں آئے اور میرے دل پر سر رکھ کر مسلسل سورۂ اخلاص کی تلاوت فرما رہے ہیں جس سے مجھے بہت ہی دلی سکون ملا۔ اسی طرح میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ موجود ہوں اور وہاں میں نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکو بھی دیکھا۔ مجھے اس خواب سے یہ اطمینان ملا کہ جنت سے مراد اسلام احمدیت ہے جس کی تعلیم جنت نما ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری اہلیہ اور بیٹے کو بھی اس جنت میں لے کر آئے گا۔ ابھی اس خواب کو چند دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے انیس سالہ بیٹے دیار بیگ سنت کا دل اسلام احمدیت کے لیے کھول دیا اور اس نے بیعت کر لی ہے۔ میرے لیے بڑا خوشی کا دن تھا۔ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح میری اہلیہ کے دل کو بھی کھولے اور اسلام احمدیت کی آغوش میں لے آئے۔
سوال نمبر۶:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےڈوری ریجن کے ایک خادم جابر صاحب اور برکینافاسو کے شہداء کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:برکینا فاسو کے ڈوری ریجن کی جماعت ٹاکا (Taka) کے ایک احمدی خادم جابر صاحب کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ دہشت گردوں نے پکڑ لیا اور کہا جس طرح کل ہم نے مہدی آباد میں احمدیوں کو مارا ہے تمہیں بھی قتل کر دیں گے۔ پھر ان کا موبائل فون لے کے چیک کیا تو اس میں سے جماعتی مبلغین کی تقاریر ملیں۔ تقاریر سن کر کہنے لگے کہ ہم ان سب کی تلاش میں ہیں کیونکہ یہ ریڈیو پر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس طرح احمدی خادم سے اس کے والد صاحب کا پتہ پوچھا اور کہاکہ کل ہم تمہارے گاؤں آئیں گے۔ جابر صاحب کو جب یہ پتہ لگا تو وہ گھر آئے اور اپنے والد اور گھر والوں کو لے کر اسی رات محمدؑ آباد جو ڈوری میں ہے اور جہاں جماعت کی آبادی ہے وہاں آ گئے اور اب گھر بار اور سامان وغیرہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اگلے روز دہشتگرد ان کے گاؤں آئے اور ایک شخص سے زبردستی ان کے گھر کا پتہ معلوم کر کے وہاں پہنچے۔ پورے گھر کی تلاشی لی۔ سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا اور یہ ساتھ کہتے رہے کہ یہاں جو بھی احمدی ہے اسے قتل کر دیں گے۔ بہرحال وہ تو وہاں سے آ گئے تھے اور اس وقت جماعتی انتظام کے تحت وہاں محمد آباد میں مقیم ہیں۔ برکینا فاسو کے شہیدوں نے اپنی جان دے کر وہاں کے احمدیوں کا ایمان کمزور نہیں کیا بلکہ ہر روز ان کے ایمان میں مضبوطی آ رہی ہے۔ اب ان غریب لوگوں نے اپنا تھوڑا بہت جو بھی سامان تھا،گھر میں گھر بار اور جو روزی کا سامان تھا جس پر ان کا انحصار تھا سب کچھ چھوڑ دیا لیکن اپنا ایمان نہیں چھوڑا۔ ان لوگوں کو احمدیت قبول کیے ابھی چند سال گزرے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اَور ہستی نہیں جو اس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کر رہی ہے۔ایک طرف تو احمدیت کی مخالفت کے باوجود ایمان کی مضبوطی کے ہم نظارے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کثرت سے نظر آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو حضرت مسیح موعود ؑکے ماننے کے لیے کھول رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا یہ وقت ہے تلاش کرو اللہ تعالیٰ بھی پھر اس میں مدد کرتاہے۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سینیگال کے ریجن تامباکونڈا میں تبلیغ احمدیت کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: سینیگال کا ریجن تامبا کونڈا ہے۔ وہاں کے ایک علاقے میں تبلیغ کا پروگرام بنایا گیا۔ کہتے ہیں وہاں چند سال قبل ایک شخص نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی تھی لیکن گاؤں کے لوگ مخالفت کر ہے تھے۔ اس سال گاؤں کے چیف اور امام سے بار بار ملاقات کر کے تبلیغی پروگرام بنایا گیا۔ گردونواح کے گاؤں کے چیف اور اماموں کے ساتھ عام لوگوں کو بھی دعوت دی گئی۔معلمین نے اسلام کی موجودہ حالت،مسیح موعود ؑکی ضرورت، اورکیا اس زمانے میں ضرورت بھی ہے؟ مسیح موعود کی آمد اور اسلام کی ترقی میں جماعت احمدیہ کا کردار کے عناوین پر تقاریر کیں۔ بعد ازاں سوال و جواب ہوئے۔ قریبی گاؤں سے جو لوگ آئے تھے کہنے لگے کہ انہوں نے احمدیت کا نام ہمسایہ ملک گیمبیا میں سنا تھا مگر وہ عقائد وغیرہ کے متعلق نہیں جانتے تھے۔ آج اس جلسہ میں جماعت کے عقائد کے متعلق وضاحت سن کر بغیر کسی سوال کے انہوں نے احمدیت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد گاؤں کے امام نے کھڑے ہو کر احمدیت کی سچائی کا اعلان کیا۔ اس کے دیہات کے چیف نے اپنی فیملی کے ساتھ احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر کسی کو بھی تمام حاضرین میں سے کوئی شک ہے تو یہاں بیان کر دے وگرنہ بعد میں کوئی حیلہ بہانہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد تمام حاضرین نے اپنے خاندانوں سمیت احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ پکڑ پکڑ کر بھی لاتاہے۔