امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ اورلجنہ اماء الله ہالینڈ کے ایک وفد کی ملاقات
آجکل مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر خطبہ دیتا ہوں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی بہت ساری باتیں ہیں جو ہمیں چاہیے کہ ہم دیکھیں اور سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیےrole modelہیں، اُسوہ ٔ حسنہ ہیں، تو اس لیے ہمیں ان کی باتیں سیکھ کر ان پر عمل کرنا چاہیے۔اس لیےخطبہ سننا چاہیے۔سنو، دیکھو اور اس پر عمل کرو، اس کی practiceکرو اور نیک بچے بن جاؤ
مورخہ۲۲؍دسمبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ اورلجنہ اماء الله ہالینڈ کے ایک چھیانوے (۹۶)رکنی وفد کواسلام آباد (ٹِلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔مذکورہ وفدنےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےہالینڈسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام حاضرین کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا نیز صدر صاحبہ لجنہ اماء الله سے شرکاء کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بایں ہمہ حضور نے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ پروگرام کچھ زیادہ رسمی لگ رہا ہے اور شاید زیادہ وقت لے، اس لیے بہتر ہوگا کہ غیر رسمی انداز اختیار کیا جائے۔
صدر صاحبہ نے انتہائی ادب سے اس بات کی تائید کرتے ہوئے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ کُل ۹۶؍ لجنہ اور ناصرات شریکِ مجلس ہیں جو سوالات پوچھنے کی خواہش مند ہیں۔ اس پر حضورِانور نے ازراہ ِشفقت سوالات کرنےکی اجازت مرحمت فرمائی۔ بعد ازاں ناصرات و لجنہ کومختلف مذہبی امور اور حالاتِ حاضرہ کے متعلق سوالات کرنےاور بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع میسر آیا۔
سب سے پہلے ایک ناصرہ حضورِانور کی خدمت میں ملتمس ہوئی کہ تربیتی پروگرام میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لیے اچھے دوست کا انتخاب کریں، لیکن جن بچوں کے ساتھ والدین چاہتے ہیں کہ ہم اُٹھیں بیٹھیں، اگر وہ دوست ہی نہ بننا چاہتے ہوں تو اس بارے میں حضورِانور کی کیا نصیحت ہے؟
حضورِانور نےناصرہ سے پوچھا کہ وہ کس کلاس میں پڑھتی ہے، جس پر اس نے عرض کیا کہ وہ دسویں جماعت میں ہے۔ حضورانور نے پھر دریافت فرمایا کہ اس کے والدین اسے کس قسم کے دوست بنانے کی نصیحت کرتے ہیں، تو ناصرہ نے عرض کیا کہ اچھے بچوں سے، جس پر حضورانور نے مزیددریافت فرمایا کہ اچھے بچے کون سے ہوتے ہیں، تواس نے عرض کیا کہ جو پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں۔
پھرحضورِانور نے اس حوالے سے مزید سمجھایا کہ جس سکول میں جاتی ہو، وہاں کون سے سارےبچے مسلمان ہیں، جو نماز پڑھتے ہیں؟ عیسائی ہی ہیں، وہ تو خدا کو بھی نہیں مانتے، نمازیں کیا پڑھنی ہیں۔ اب تم نمازیوں کو تلاش کرتی رہو گی تو سکول میں تمہارا کوئی دوست ہی نہیں بنے گا۔
اچھے دوستوں کی تلاش کے معیار کی بابت حضورِانور نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اچھے بچوں سے مراد یہ ہے کہ جو تمہارے احمدی بچے ہیں، ان کو تو ویسے ہی اچھا ہونا چاہیے،یہ تو لجنہ کا کام ہے، ناصرات کی سیکرٹری کا کام ہے کہ ان کی تربیت کریں۔ اچھی بچیاں جو ہیں، وہ ساری بچیاں بچپن سے ہی سات سال کی عمر میں،اس وقت سے وہ دین کا علم سیکھیں، اللہ میاں کے حکموں پر عمل کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ سات سال کی عمر میں بچوں کو کہو کہ نمازیں پڑھنا شروع کر دیں اور دس سال کی عمر میں ان کو سختی سے کہو کہ نماز ضرور پڑھنی ہے۔
تربیت کے ضمن میں ماں باپ اور ذیلی تنظیموں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ تو اس قسم کی باتیں سکھانا ماں باپ کا بھی کام ہے اور لجنہ اور ناصرات کی تنظیم کا بھی کام ہے اور خدام الاحمدیہ کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے کہ بچوں کو کہیں۔ کیونکہ اگر صرف لڑکیوں کو کہتے رہیں گے تو لڑکیاں کہیں گی کہ لڑکوں کو کیوں نہیں کہتے، وہ خاص ہیں، لڑکوں کو special treatmentکیوں مل رہی ہے ؟ ہمارے ہاں بعض لوگ لڑکوں کو special treatmentدے دیتے ہیں اور لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ لڑکے نے کچھ مانگا تو اس کو دے دیا،لڑکی نے مانگا تو کچھ نہیں دیا،بڑا ظلم ہوتا ہے، discriminationہوتی ہے۔ یہ نہیں ہونی چاہیے۔ تو یہ تو ان لوگوں کا کام ہے کہ اس طرح تربیت کریں تا کہ وہ اچھے بنیں۔
اپنے گھر اور احمدی ماحول میں دوستی کے دائرے کو وسیع کرنے کے حوالے سے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ گھر کے ماحول سے جب بچہ satisfied ہو گا،تو سب سے پہلےا پنے بہن بھائیوں میں ہی اس کو دوست نظر آئیں گے، ماں باپ میں دوست نظر آئیں گے۔ کھیلنے کےلیے، احمدی ماحول میں جب اجلاس ہویامیٹنگ ہوتی ہے یا کوئی اورفنکشن ہوتا ہے تو اس میں وہاں اچھے دوست نظر آئیں گے۔روز تو دوستوں کے گھر نہیں جا سکتے۔ فاصلے بھی اتنے ہیں۔ اب اپنے امّی ابّا کوکہو کہ مجھے کار یا ٹرین میں بٹھا کر لے جائیں یا ہالینڈ میں سائیکل کا رواج ہے توسائیکل پکڑ کے تم کہو کہ مَیں جا رہی ہوں تو وہ کہیں گے سڑک پر بڑا خطرہ ہے،نہیں جانا، تو اس طرح نہیں ہوسکتا۔
سکول میں اچھے اخلاق کے حامل بچوں سے دوستی کرنے کے ضمن میں حضورِانور نے نصیحت فرمائی کہ پھر سکول ہے، سکول میں تو مذہب کو کوئی نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ کو لوگ نہیں مانتے۔ وہاں تم دیکھو کہ اچھے اخلاق کس کےہیں، moralsکس کے اچھے ہیں، سچ بولنے والے بچے ہوں، جھوٹ بولنے والے نہ ہوں، گندی یا غلیظ باتیں کرنے والے نہ ہوں، غلط قسم کی فلمیں اور انٹرنیٹ پروگرام دیکھنے والے نہ ہوں۔
ایسےبچے تلاش کرو اور وہ مل جاتے ہیں۔ بہت سارے بچے غیروں، عیسائیوں اور لامذہبوں میں بھی ایسے ہیں جن کے ماں باپ چاہتے ہیں کہ وہ اچھی باتیں سیکھیں اور جب تمہارے سے وہ اچھی باتیں سیکھیں گے تو وہ تمہارے دوست بننے کی کوشش کریں گے۔ تو بچوں کےلیے اس طرح کے اچھے بچے تلاش کرنے کے لیے مختلفsituations میں، مختلف ماحول میں، مختلف جگہوں پر مختلفstandards ہو جاتے ہیں۔ تو وہ تم نے تلاش کرنے ہیں۔
دوستوں کے انتخاب میں حالات اور ماحول کے مطابق حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف نماز پڑھنے والے بچوں کو ہی تلاش کیا جائے اور امّاں ابّا کو کہو کہ میرے سارےسکول میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتا تو مَیں کس کو تلاش کروں، بالکل دنیا سے کٹ کے رہ جاؤں اور میری سوشل زندگی نہ ہو۔تو socialize ہونا بھی ضروری ہے۔
جب تم ایسے اچھے دوست بناؤ گی جو شریف ہوں گے، جو اچھی باتیں کرنے والے ہوں گے تو پھر وہ پوچھیں گے تم کون ہو؟ بتاؤ کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں، اسلام کی تعلیم کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں کیا کہتا ہے کہ کس طرح اللہ کی عبادت کرو، ماں باپ کی عزت کرو، دوسروں کے ساتھ نیک سلوک کرو، چیریٹی دو، غریبوں کا خیال رکھو، سچ بولو، جھوٹ کبھی نہ بولو، محنت کرو اوراچھے شہری بن کے ملک کی خدمت کرو۔
تو یہ چیزیں جب دوسرے بچےتم سے سنیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو اچھے بچے ہیں، ان سے دوستی کرنی چاہیے اورپھر وہ اپنے ماں باپ کو بھی جا کے بتائیں گے۔ یہاں کے بہت سارے لوگ ماں باپ سے بھی شیئر کرتے ہیں۔ جب بچے ان کو بتائیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ چلو پھر تم ان سے interact کرو۔ اور اگر تمہارے ماں باپ پڑھے لکھے ہیں تو انہیں بھی اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔
تو اس طرح دوستی بنتی ہے۔ صرف اچھے بچے کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ ماں باپ سے کہو کہ اچھے بچے ہیں تو پھر ہمیں اچھے بچےلا کے بھی دیں۔ پہلے تو ہمیں نمازی لا کے دیں۔ situation کو دیکھنا چاہیے، realistic ہونا چاہیے اور حالات کے مطابق باتیں کرنی چاہئیں۔
آخر پر حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ جس طرح مَیں نے بتایا،اگر بچے غلط قسم کی فلمیں دیکھنے والے ہیں، ان غلط قسم کی باتوں کو سکول میں آ کے discuss کرتے ہیں تو پھران کو avoid کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن شریف میں کہا ہے کہ یہ لغو باتیں ہیں اور ان سے بچ کے رہو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو، ان سب کو بچ کے رہنا چاہیے۔
اس مجلس کا اگلا سوال بھی ایک ناصرہ کو پیش کرنے کی سعادت حاصل ملی جس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد حضورِانور سے دریافت کیا کہ چھوٹے بچوں کو خطبہ کیوں سننا چاہیے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں استفہامیہ انداز میں استفسار فرمایا کہ بڑے بچوں کو کیوں سننا چاہیے؟ نیز تلقین فرمائی کہ جس طرح بڑوں کو سننا چاہیے اسی طرح چھوٹوں کو بھی سننا چاہیے۔
خطبات سننے کے حوالے سےبڑوں کے عملی نمونے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ تمہارے امّاں ابّا کہتے ہیں کہ ہم نہیں سنتے، صرف تم سنو، تو وہ غلط کرتے ہیں۔ پہلے تو اپنے امّاں ابّا کو کہو کہ آپ خطبے سنیں، ہم تو چھوٹے بچے ہیں، ہمیں تو بعض باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ ان کو سنیں، اس پر غور کریں، پھر ہمیں بتائیں کیونکہ خطبے میں بہت ساری اچھی باتیں ہوتی ہیں۔
خطبات کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے بیان فرمایا کہ خطبہ جمعہ نماز کا حصّہ ہے۔ اور اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ میرے خطبے جو ایم ٹی اے پر آتے ہیں، وہ سننے ہیں، تو اس کے لیےیہ ہے کہ بہت ساری اچھی باتیں اور بعض دفعہ نصیحتیں بھی مَیں تقریروں اور خطبوں میں کرتا ہوں، جو بچوں کے لیے بھی ہوتی ہیں اور بڑوں کے لیے بھی ہوتی ہیں، اس پر عمل کرو تا کہ ہم صحیح اسلام کی تعلیم پر عمل کریں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ آجکل مَیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر خطبہ دیتا ہوں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی بہت ساری باتیں ہیں جو ہمیں چاہیے کہ ہم دیکھیں اور سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیےrole modelہیں، اُسوہ ٔ حسنہ ہیں، تو اس لیے ہمیں ان کی باتیں سیکھ کر ان پر عمل کرنا چاہیے۔اس لیےخطبہ سننا چاہیے۔سنو، دیکھو اور اس پر عمل کرو، اس کی practiceکرو اور نیک بچے بن جاؤ۔
آخر پر حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ جہاں بچوں کے لیے خطبہ سننا ضروری ہے، وہیں بڑوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ پہلے بڑوں کو سننا چاہیے، یہ نہیں کہ بڑے کچھ اور دیکھ رہے ہوں اور بچوں کو کہیں کہ تم خطبہ سنو۔ بڑوں کو اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں۔
ایک ناصرہ نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ ہم کیسے self -confidence (خود اعتمادی) حاصل کر سکتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں جامع راہنمائی فرمائی کہ تم پہلے تو یہ خیال رکھو کہ یہاں کسی complex میں آنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم احمدی مسلمان ہیں۔ اور یہ دماغ میں ڈالو کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور آخر میں ultimately ہم نے ساری دنیا کو احمدیت کا پیغام پہنچا کے احمدی مسلمان بنانا ہے۔ جب تمہیں یہ پتا ہو گا، determination ہو گی، تو مضبوط ہو جاؤ گی اور پھر تم سمجھو گی کہ مَیں کچھ چیز ہوں، دنیا کومَیں نے سکھانا ہے، میرے پاس جو علم ہے، جو میرا مذہب ہے، جو میرا دین ہے، جو میرا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے، وہ دوسروں کا نہیں ہے، اس لیےمَیں نے دوسروں کو سکھانا ہے۔
جو تمہارا اپنا بچوں کا ماحول ہے، جماعت کا ماحول ہے، ناصرات کی کلاسیں یا آپس میں بچوں کےفنکشن ہیں، اس میں ایک تو یہ ہے کہ تمہارے پاس اگر خود دینی علم ہو گا اور تم اچھی باتیں کرنے والی ہو گی، تمہارے اچھے اخلاق ہوں گے، ویسے بھی تمہارا knowledge اچھا ہو گا تو تمہارے اندر confidence پیدا ہو گا۔ دوسراسکول میں تم اچھا پڑھو گی اور محنت کرو گی اور ایک اچھی سٹوڈنٹ بن جاؤ گی، اچھے نمبر لینے والی ہو گی، تو تمہارے اندر confidenceپیدا ہو گا۔ اس کے لیےیہ ضروری ہے کہ سکول میں جو پڑھتی ہو، گھر آ کے وہ reviseکرو، پڑھو اوردیکھو اور اگلے دن پھر جا کر سناؤ۔ جب تم ٹیچر کے سامنے اپنی باتیں بتاؤ گی کہ تم نے یہ پڑھا، یہ دیکھا، یہ سیکھا تو ٹیچر تمہیں سوال کرے گی اور تم صحیح جواب دو گی تو تمہارے اندر confidence پیدا ہو گا۔
پھر دوسرے لوگ بھی تمہیں دیکھیں گے۔ کچھ لوگ jealousبھی ہو جائیں گے کہ اس کو یہ آتا ہے، ہمیں نہیں آتا، لیکن بہت سارے بچے بچیاں تم سے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ جب تم سے سیکھنے کی کوشش کریں گے تو تمہارے اندر confidence مزید develop ہو جائے گا، اور پیدا ہوگا۔ اور پھر تم ان کو بھی بتاؤ گی کہ مَیں کون ہوں،ہماری کیا تعلیم ہے، کیوں میرے اچھے اخلاق ہیں۔ تو جب تمہارے morals بھی اچھے ہوں گے، اخلاق بھی اچھے ہوں گے، تمہاری باتیں بھی اچھی ہوں گی، تمہاری پڑھائی بھی اچھی ہو گی تو تمہارے اندر self -confidenceپیدا ہو جائے گا۔
ایک ناصرہ نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی آمین (کی تقریب) پر کیا کیا تھا؟
حضور انورنے اس کے جواب میں مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے تو کوئی آمین نہیں کروائی۔ شاید میری جو پڑھانے والی ٹیچر تھی، اس نے سن لیا اور بس ختم ہو گیا۔ کوئی فنکشن نہیں کیا،کوئی دعوت نہیں کی، کچھ نہیں کیا۔بعض لوگ ہمارے زمانے میں بھی آمین کرتے تھے، میرے بعض کزن بھی کرتے تھے، مَیں نے تو کوئی نہیں کی اور نہ ہی مجھے کبھی کوئی خیال آیا کہ مَیں نے ضرور آمین کرنی ہے۔
ایک لجنہ ممبر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا نوجوان لجنہ کے لیےپڑھائی مکمل کرنے سے پہلے شادی کرنا مناسب ہے، اس تناظر میں کہ شادی کی وجہ سے پڑھنے کا موقع نہ ملے یا وہ شادی کے بعد تعلیم حاصل نہ کر سکے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر اچھا رشتہ ملتا ہے اور لڑکی شادی کرنے پر راضی ہے تو شادی کر لو اور پھر یہ کہ فیملی نہیں بنانی کیونکہ مَیں نے پڑھنا ہے،وہ غلط ہے۔
حضورِانور نے ذکر کیا کہ بعض لڑکیاں ایسی ہیںجنہوں نے شادی کی، ان کے دو تین بچے ہو گئے تو پھر انہوں نے پڑھائی کی بلکہ بعضوں نے مجھے بتایا، امریکہ میں مجھے دو تین ایسی لڑکیاں ملی تھیں کہ جنہوں نے بچوں کی پیدائش کے بعد جب بچے بڑے،ذرا بڑے ہو گئے تو پھر پڑھنا شروع کیا اور میڈیسن بھی کیا۔ شادی کربھی لی تو preference پہلے یہی ہونی چاہیے کہ گھر کو سنبھالنا ہے، یا تو شادی نہ کرو، لیکن اگر اچھا رشتہ ملے تو شادی کر لینی چاہیے۔
حضورِانور نے خواتین کو تعلیم اور ازدواجی زندگی کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے تلقین فرمائی کہ جب شادی کر لی تو پھر بہتر یہی ہے کہ جو اپنے گھر کی زندگی ہے اس کو گزارو اور بچے ہوجائیں تو ان کو سنبھالو اور ان کی تربیت کرو۔ پھراگر کسی profession میں جا رہی ہو، پڑھائی کرنی ہےاور اگر ہمت ہے تو پھر بعد میں کر سکتی ہو۔ ابھی بھی بعض لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ابھی کل ہی مجھے ناروے سے ایک احمدی مل کے گئے ہیں، ان کی بیوی پاکستان سے آئی تھی، بیس بائیس سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ اب بچے بڑے ہو گئے تو اس نے دوبارہ پڑھائی شروع کی اور اب اس سال اس نے میڈیسن کر لیا ہے اور اس کی عمر تقریباً ۴۸ یا۴۹ سال ہو گئی ہے۔ تو ایسی ہمت والی عورتیں ہوتی ہیں، تو جو ایسا کر سکتی ہیں وہ کریں، لیکن اس لیے اپنے گھروں کو برباد نہ کرو کہ ہم نے پڑھائی کرنی ہے۔ اس لیے ہم یہاں رہیں گی، خاوند وہاں ہیگ(Hague) میں رہ رہا ہے اور مَیں ایمسٹرڈم (Amsterdam)میں پڑھائی کر رہی ہوں تو مَیں وہاں رہوں گی، یہ نہیں ہو گا۔
حضورِانور نے آخر پر تاکید فرمائی کہ رہنا ہے تو اکٹھے رہو، فیملی بناؤ اور جب فارغ ہو جاؤ تو پھر آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کر کے، تم میں mutual agreementہونا چاہیے، اس کے بعد اگر پڑھائی کرنی ہے اور خاوند کہتا ہے کہ ٹھیک ہے تو کر لو۔ اور وہ بھی کسی اچھے profession کے لیے،کوئی خدمتِ انسانیت کےلیے پڑھائی کرنی ہے تو کرو۔ میڈیسن ہے یا ایسی اور ٹیچنگ ہے جس سے لوگوں کو فائدہ ہو۔ لیکن صرف یہ کہ مَیں نے پیسے کمانے کے لیے پڑھنا ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں، سوائے اس کے کہ خاوند پیسے نہ دیتا ہو، تو پھر وہ ویسے ہی خاوند ظالم ہے اس کو سمجھاؤ۔
ایک شریکِ مجلس نے ذکر کیا کہ مغربی دنیا میں لوگ اپنے پالتو جانوروں کو ہر جگہ لے کر جاتے ہیں نیز پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی وہ عموماً کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ نیز اگر ان جانوروں سے direct یا indirect رابطہ ہو توکیا نماز ادا کر سکتے ہیں ؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں استفہامیہ اندازمیں توجہ دلائی کہ ان کے جانور ہیں، وہ لے جاتے ہیں تو تمہیں کیا اعتراض ہے، سیٹوں پر بیٹھے ہیں تو پھر کیا ہوا؟ سیٹ کو صاف کرو اور تم وہاں بیٹھ جاؤ۔ تمہیں یہ تو نہیں کہتے تم اس کو اپنی گود میں بٹھا لو۔ اور کیا کر سکتی ہو ؟ اگر تم کہو گی کہ مَیں نے نہیں بیٹھنا، اس کو اُتارو تو وہ کہیں گے تم اُتر جاؤ، ہم نہیں اُتارتے۔اپنے گھر میں جو تمہاری اپنی چیز ہے وہاں گند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تم نے نماز وغیرہ پڑھنی ہوتی ہے اور جگہ صاف رکھنی ہے تو ٹھیک ہے۔
باقی اگر صاف کتّا ہے،گند کوئی نہیں ہے، تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ کتّے بعض دفعہ لباس کو touchکر جاتے ہیں، ہم لوگ بہت زیادہ rigidہو جاتے ہیں کہ نہیں کرنا چاہیے۔
حضورِانور نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سارے لوگ تھے، جنہوں نے بکریوں، lamb یا sheep وغیرہ کے herds رکھے ہوتے تھے تو انہوں نے shepherd dog بھی رکھے ہوتے تھےاور ان میں پھر رہے ہوتے تھےتو وہ ان کے کپڑوں کو آ کےtouch بھی کر دیتے تھے۔ ظہر، عصر کی نماز کا وقت ہوتا تھا تووہ لوگ انہی کپڑوں میں آ کے مسجدِ نبویؐ میں نماز بھی پڑھ لیا کرتے تھے، حالانکہ انہیں کتّوں نے touch کیا ہوتا تھا۔
حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ وضو کیا، نماز پڑھ لی، تو کوئی ایسا ہرج نہیں ہے۔ گند نہیں لگنا چاہیے، گند کی صفائی ہونی چاہیے، باقی گھروں میں کیونکہ کتّوں کے ساتھ گند وغیرہ بھی آ جاتا ہے تو اس لیے وہاں یہ avoid کرو۔ مسجد صاف جگہ ہے، اس میں کتّے نہیں آنے چاہئیں، بلّیاں وغیرہ تو ہر ایک کے گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔ باقی اسی سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ لوگ عام طورپر زیادہ تر گھروں میں dogs ہی رکھتے ہیں جو کہ بعض دفعہ بڑے خوفناک، furiousقسم کے ہوتے ہیں اور ان کو دیکھ کر ویسے ہی ڈر لگتا ہے۔ان کے باہر pen بنا کر انہیں وہاں رکھو۔
[قارئین کی معلومات کے لیے عرض کیا جاتا ہے کہ ’’pen‘‘ ایک مخصوص احاطہ یا بند جگہ ہوتی ہے جو عام طور پر جانوروں، خاص طور پر کتّوں یا دیگر پالتو جانوروں کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ یہ ایک محفوظ اور محدود جگہ ہوتی ہے جہاں جانور آزادانہ طور پر حرکت کر سکتےہیں، اس جگہ کا مقصد جانوروں کو ایک مخصوص دائرے میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں اور ان کی نقل و حرکت پر قابو پایا جا سکے۔]آخر پر حضورِانور نے سوال کے نفسِ مضمون کے مطابق پالتو جانوروں کے حوالے سے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ اگر وہ بسوں میں بیٹھتے بھی ہوں تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس جگہ کوئی گند لگا ہوا ہے توصفائی کر لو، بال اس کے نظر آ رہے ہیں تو ایک ٹشو سے صاف کر لو، ہر ایک کے پاس جیب میں ٹشو تو ہوتا ہے۔
حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا اگلا سوال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کےلیے سب سے ضروری چیز کیا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ کہ مَیں نے جنّ و اِنس کو پیدا نہیں کیامگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔ تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا، اچھا انسان بنایا اور سب سےsuperiorبنایا ہے۔ جو جانور اور بہت ساری چیزیں ہیں، ان سب سےsuperiorبنایا تو اس لیے تم میری شکرگزاری کرو اور شکرگزاری کے لیے یہ ہے کہ تم میری عبادت کرو۔ تو اللہ تعالیٰ کو جو چیز پسند ہے وہ عبادت کرنا اور عبادت میں اس کا شکر ادا کرنا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان بنایا ہے، ہمیں سوچ دی، ہمیں اچھا انسان بنایا۔ ہم اللہ کا شکر کر رہے ہیں جو اس نے ہمیں نعمتیں دی ہیں، ان ملکوں میں کھانے پینے کا سامان دیا، سواریاں دیں اور پڑھائی کی facilities دیں اور موقع دیا کہ ہم پڑھ سکیں اور اچھے بن سکیں تو اس پر شکر گزاری کرو کیونکہ یہی چیز اللہ کو پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ شکر گزاری کو پسند کرتا ہے اور اس کے لیےعبادت کرنا ضروری ہے۔
ایک شریکِ مجلس کی جانب سے راہنمائی طلب کی گئی کہ خود کو بیرونی مضراثرات سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں قرآنِ شریف کی تعلیمات پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ایک سچا مسلمان، خاص طور پر ایک احمدی مسلم لڑکی یا عورت کو ان احکاماتِ الٰہی کو سمجھنا اور اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔
حضورِانور نے پانچ وقت کی نماز کی اہمیت پر زور دیا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے نیز قرآنِ شریف کو باقاعدگی سے پڑھنےاور سمجھنے کی ترغیب دلائی۔ اسی طرح حضورِانور نے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قرآنِ شریف کی اس آیت کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ یعنی اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہیں۔
خود کو مضر اثرات سے محفوظ رکھنےکے لیے غیر ضروری اور غلط قسم کی سرگرمیوں سے بچنا ضروری ہے، جیسا کہ ٹی وی یا انٹرنیٹ پر نامناسب مواد جو انسان کو بے حیائی کے مواد سے روبرو کر سکتا ہے۔ مزید برآں حضورِانور نے اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کے لیے مسلسل دعاؤں، خاص طور پر پنج وقتہ نمازوں کے التزام اور باقاعدگی سے استغفار ’’اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْهِ ‘‘ پڑھنے کی جانب توجہ مرکوز کروائی۔
بایں ہمہ حضورِانور نے فرمایا کہ اس طرح کی دعائیں انسان کو دنیا کے منفی اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں اور گناہ کی عادات سے بچنے میں مدد دیتی ہیں۔
حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ ایک احمدی مسلمان ہیں اور ایک احمدی مسلمان کے طور پر آپ نے یہ عہد کیا ہے کہ نہ صرف آپ اپنے آپ کو بہتر مسلمان بنائیں گے بلکہ آپ اسلام کا پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں گے۔ اگر آپ خود اسلام کی اچھی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے تو آپ دوسروں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
آخر پر حضورِانور نے فرمایا کہ ان اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انسان کامیابی سے خود کو بیرونی مضر اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ہم احمدی مسلمانوں کے لیے ہجرت کا مقصد دین کو آزادی سے قائم کرنا اور اپنی روحانی اور دینی حالت کو بہتر بنانا ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ جب ہجرت کرتے ہیں تو وہ اس قربانی اور مقصد کو فراموش کر بیٹھتے ہیں ا ور دنیاوی معاملات میں زیادہ مگن ہو جاتے ہیں۔ نیز اس کی بابت راہنمائی طلب کی کہ اس بارے میں جماعت کو کیا کرنا چاہیے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کو realiseکراؤ۔ یہ تو لجنہ کا کام ہے اور جماعت کے شعبہ تربیت کا کام ہے۔ان کو کہیں کہ تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا، پاکستان سے اگر ہجرت کی ہے تو وہاں یہ بہانا تھا کہ ہم کھل کے نمازیں نہیں پڑھ سکتے، جمعہ نہیں پڑھ سکتے، کئی سال ہو گئے ہیں کہ احمدیوں نے مسجد میں جا کے جمعہ نہیں پڑھا بلکہ کئی سال سے تو عورتوں نے عیدیں بھی نہیں پڑھیں۔
تو یہاں اس لیے ہم آئے تا کہ ہمیں آزادی ملے اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں اور جب اللہ تعالیٰ نے یہاں آزادی دے دی ہے تو اس کی شکرگزاری کرنی چاہیےاور ایک صحیح اچھے انسان کو تو یہی چاہیے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کو موقع دیا اور غلط چیزوں سے بچایا اور موقع دیا کہ یہاں آ کے اپنے دین پر صحیح طور پر عمل کر سکیں، تو ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس پر عمل کریں۔
اگر دنیا داری میں ہی پڑ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے! ایک حدّ تک تو مَیں تمہیں دیتا ہوں، لیکن پھر بعض دفعہ مَیں چھین بھی لیا کرتا ہوں۔ بعض دفعہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سبق دینے کے لیے اس دنیا میں ہی ان کے حالات خراب کر دیتا ہے، ان کے گھر کے سکون ختم ہو جاتے ہیں، satisfactionنہیں رہتی۔ صرف دنیا کماتے کماتے پھر ذہنی سکون (peace of mind)ختم ہو جاتا ہے۔ یا یہاں اگر بچ بھی گئے، اگر غلط حرکتیں کر رہے ہیں تو اگلے جہان میں پکڑے جاتے ہیں۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ لجنہ کا کام ہے، شعبہ تربیت کا کام ہے کہ ان کو پیار و محبّت سے سمجھاتے رہیں۔ جماعتی طور پر بھی لوگوں کو سمجھاتے رہنا چاہیےکہ ہمارا جو مقصد ہے وہ کیا ہے، ہم بڑے مقصد کے لیےآئے ہیں، انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تو جو مقصد ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا، ان کو بتاؤ کہ یہ مقصد ہماری زندگی کا ہے اور اس پر ہمیں سب سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آخر پر حضورِانور نے یاددہانی کروائی کہ ہم سمجھا ہی سکتے ہیں، ڈنڈے تو نہیں مار سکتے، سمجھانا کام ہے۔ سمجھاتے رہنا چاہیے، مستقل اور پیار سے لجنہ اور ناصرات کو بھی سمجھانا چاہیے۔
اگلا سوال بھی ایک لجنہ ممبر کی جانب سے کیا گیا کہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے ہمیں حقوق اللہ ادا کرنے پر زیادہ زور دینا چاہیے یا حقوق العباد پر زیادہ زور دینا چاہیے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دونوں ضروری ہیں۔ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے حقوق اللہ بھی ضروری ہیں اور حقوق العباد بھی ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیے ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ابھی مَیں نے بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے، جنّ و اِنس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے، یہی مقصد ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، اس کے حکموں پر چلنا، اس کا ہی حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیے ہیں، اس پر عمل کرو۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہاری نمازیں تمہیں واپس لَوٹا دی جائیں گی، تمہارے منہ پر ماری جائیں گی، الله میاں قبول نہیں کرے گا، مگر کیوں؟کیونکہ تم غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، یتیموں کا خیال نہیں رکھتے تھے، تمہارے اچھے اخلاق نہیں تھے، اس لیے مَیں نمازیں قبول نہیں کروں گا۔ تو اس لیےموقع محل کے لحاظ سے ہر چیز ہوتی ہے، حقوق اللہ بھی ضروری ہیں اور حقوق العباد بھی ضروری ہیں۔
حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ اگر انسان صرف کہہ دے کہ مَیں نمازیں پڑھ رہا ہوں اور حقوق العباد ادا نہیں کررہا۔ مثلاًایک خاوند ہے جو اپنی بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا، ایک باپ ہے جو اپنے بچوں کا حق ادا نہیں کر رہا، ایک بھائی ہے جو اپنے بہن بھائیوں کا حق ادا نہیں کر رہا، ایک ماں ہے جواپنے خاوند اور بچوں کا حق ادا نہیں کر رہی تو اس کی نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حضورِانور نے یاد کروایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے حق رکھے ہیں۔ خاوند کا بھی، بیوی کا بھی، بچوں کا بھی، بہن بھائیوں کا بھی، لوگوں کا بھی، معاشرے کا بھی اور اس پر مَیں نے گذشتہ کئی سالوں سے جلسہ کی تقریروں میں لمبے حقوق بھی بیان کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے۔ اس لیے حقوق اللہ بھی ضروری ہیں اور حقوق العباد بھی ضروری ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بعض دفعہ حقوق العباد، حقوق اللہ سے بڑھ جاتے ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں اپنے حق تو بعض دفعہ معاف کر دیتاہوں۔ مثلاً اگر کوئی نماز چھوڑتا ہے تو وہ تو مَیں معاف کر دوں گا کہ ٹھیک ہے کہ اس نے مجھ سے معافی مانگ لی، غلطی ہو گئی، نماز چُھٹ گئی، لیکن اگر اس نے کسی کا حق مار لیا، کسی پر ظلم کیا تو اس کو اس کی سزا ملے گی۔ بعض دفعہ الله تعالیٰ معاف نہیں کرتا۔ تو اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام میں جو تعلیم دی ہے، وہ بڑی balancedتعلیم ہے کہ جہاں حقوق اللہ ادا کرو، وہاں حقوق العباد بھی ادا کرو اور قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر لکھ دیا کہ ان کی نمازیں کیوں واپس کیں کہ وہ بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، یتیموں کا خیال نہیں رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ہمسایوں کا خیال رکھو، ان کے حق ادا کرو، دشمن سے بھی نیک سلوک کرو اور دنیا پراحسان کرو۔
تو یہ چیزیں موقع محل کے لحاظ سے ضروری ہیں۔ اگر نہیں کرتے تو بیشک جتنی مرضی نمازیں پڑھنے والا ہو، اللہ میاں اس کی نمازیں قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ نےقرآن شریف میں یہ خود کہہ دیا ہے۔
حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ جن کے خاوند حق ادا نہیں کرتے، ان کے خاوندوں کو کہیں کہ حق ادا کیا کریں، جن کے سسرال والے حق ادا نہیں کرتے تو سسرال والوں کو کہیں کہ حق ادا کیا کریں۔ یہ نہیں کہ جماعت کا کام کر لیا اور بیوی بچوں کے حق ادا نہ کیے، صرف جماعت کا حق ادا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، وہاں بھی نمازیں ضروری ہیں اور پھر بندوں کے حق ادا کرنا بھی ضروری ہیں۔
ایک لجنہ ممبر نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کیاہم youth care میں مدد کر سکتے ہیں، جیسا کہ گورنمنٹ بچوں کو لے کے کچھ عرصہ کے لیے foster parentsکو دے دیتے ہیں، تو کیا ہم اس طرح کےfoster parents بن سکتے ہیں؟
اس کے جواب میں حضورانور نے سب سے پہلے اس سوال کرنے والی لجنہ سے اس کی عمر کی بابت دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ اٹھارہ سال کی ہیں، یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے تبصرہ کیا کہ پھر تم تو نہیں بن سکتی۔ تمہارے ماں باپ بن سکتے ہیں، وہ چاہیں تو بن جائیں، یہاں یوکے میں بھی بہت سارے احمدی ایسا کرتے ہیں۔
حضورِانور نے اس حوالے سے مزید روشنی ڈالی کہ اچھی بات ہے کہ foster parentsبن جاؤ، ان کو پھر کم از کم نیک باتیں سکھاؤ، ان کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا اور ان کو پالنا بڑی نیکی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تو اس نیکی کا اجر دے گا، اگر صحیح طرح ان کی careکر رہے ہو، ان کا خیال رکھ رہے ہو اور ان کو پال رہے ہو۔
حضورِانور نے foster parents بننے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا ضرور کرنا چاہیے، کوئی ہرج نہیں ہے، بلکہ ثواب اور نیکی کا کام ہے۔
نیز توجہ دلائی کہ اگر ہمارے احمدی بچے کسی عیسائی کے پاس چلے جائیں تو عیسائی ہو جائیں گے، اس لیے بہتر ہے کسی عیسائی کےیا دوسرے مسلمانوں کے بچے اپنے پاس لا کے ان کو نیکی کی باتیں سکھاؤ تا کہ وہ بعد میں اسلامی تعلیم سیکھ کر اسلام قبول کرلیں۔ زبردستی توکسی کو ہم مسلمان نہیں بنا سکتے، لیکن اچھے اخلاق جب دکھاؤ گے، اچھی تعلیم دو گے، تو بچے جب بڑے ہوں گےتو ان میں یہ احساس خود بخود پیدا ہو گا اور ان کو خیال آئے گا کہ میرے جو foster parentsتھے، مَیں ان کے پاس جاؤں، ان کی باتیں سیکھوں اور پھر مَیں اچھا مسلمان بن جاؤں۔
[قارئین کی معلومات کے لیے بیان کیا جاتا ہے کہ ’’foster parents‘‘ وہ افراد یا خاندان ہوتے ہیں جو عارضی طور پر کسی بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کرتے ہیں، جب بوجوہ وہ بچے اپنے حقیقی والدین یا سرپرست کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ صورت حال مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہوسکتی ہے، جیسا کہ حقیقی والدین کی بیماری، مالی مشکلات یا بچے کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتی یا اس کی پرورش کے سلسلے میں پائی جانے والی غفلت کا سامنا۔ foster parentsبچے کو مناسب رہائش، کھانا اور موزوں تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ایک محفوظ اور بہتر ماحول میں پروان چڑھ سکے۔foster care عارضی طور پر یا طویل مدتی ہو سکتی ہے جو کہ حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ بعض اوقات جب بچے کے حقیقی والدین یا سرپرست کے ساتھ دوبارہ رہنے کا امکان موجود نہ ہو یا بچے کی فلاح و بہبود کے لیے یہ بہتر نہ ہوتو foster parentsبچے کو گود بھی لے سکتے ہیں۔ foster care کا بنیادی مقصد بچے کو وہ محبّت اور دیکھ بھال فراہم کرنا مقصود ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ایک محفوظ اور صحت مند ماحول میں پرورش پاتے ہوئے معاشرے کا فعّال اور سود مند حصّہ بن سکے۔
ایک شریکِ مجلس کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سکول میں دوستوں کا انتخاب کیسے کیا جائے؟
حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی اوّل الذکر راہنمائی کو دُہرایا اور فرمایا کہ دوستوں کا انتخاب اچھے اخلاقی کردار کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔ نیز وضاحت فرمائی کہ اگرچہ ایمان سے متعلق اعمال قابلِ ستائش ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ دوست اپنے روزمرّہ کے رویّہ میں بھی مثبت اقدار کو اپنائیں۔ خاص طور پرحضورِانور نے ان لوگوں سے بچنے کی تاکیدفرمائی کہ جنہیں غیرمناسب فلمیں یاshows وغیرہ دیکھنے کی عادت ہو یا جو سوشل میڈیا کا غیر مفید استعمال کرتے ہوں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اچھے کردار والے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا انسان کو عبادت اور اللہ پر ایمان کی طرف راغب کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جو منفی اثرات مرتّب کرتے ہوں، انسان کے ایمان اور اخلاق کو آہستہ آہستہ کمزور کر سکتا ہے۔
حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ اچھے اخلاق بتدریج لوگوں کو نیکی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی شخص پہلے ہی عبادت میں مشغول ہو، اگر کسی کے اچھے اخلاق ہوں، تو ممکن ہے کہ وہ کسی وقت عبادت گزار اور اللہ کا ماننے والا بھی بن جائے۔ اس لیے ہمیشہ ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو آپ پر منفی اثرات مرتّب نہ کریں اور جو آپ کے مثبت اثرات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اس ضمن میں حضورِانور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی سے ایک واقعہ کا بھی تذکرہ فرمایا جس میں ایک نوجوان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کالج میں ایک دہریہ کے ساتھ بیٹھ کمزور ہو گیا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت پر اس شخص نے اپنی نشست تبدیل کی اور آہستہ آہستہ اس نے اللہ تعالیٰ پر اپنا ایمان دوبارہ حاصل کر لیا۔ یہ واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان کے ساتھی اس کے روحانی اور اخلاقی نقطۂ نظر کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں کہ بعض اوقات کسی کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔
اگلا سوال یہ تھا کہ جب ہم قرآنِ مجید پڑھتے ہیں تو درمیان میں سجدہ آتا ہے کیا ہم اسی جگہ پر سجدے کر سکتے ہیں یا قبلہ رخ ہونا لازمی ہے؟
حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ جہاں بھی بیٹھے ہو ں اسی طرح سجدہ کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہاں جب عالمی بیعت میں ہم سجدہ کرتے تھے تو اس وقت بھی تو دائیں بائیں سجدے کر ہی لیتے تھے۔ تو سجدہ جہاں بھی بیٹھے ہو کر لو۔ قبلہ رخ ہو کے کرنا ہے تو اس طرح کر لو، وہ بھی اچھی بات ہے، لیکن جہاں بیٹھے ہوئے ہو وہیں کر لو۔
حضورِانور نے اس حوالے سے مزید وضاحت فرمائی کہ بعض دفعہ ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں قرآنِ شریف پڑھ رہے ہو، مثلاً سکول میں یا کہیں کرسی پر تو سجدہ کر ہی نہیں سکتے، تو وہاں پھر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر لو یا ضروری نہیں ہے کہ وہاں ہی سجدہ کرو بلکہ ایسی روایتیں بھی ملتی ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے بعض دفعہ سجدہ نہیں بھی کروایا یا بعض دفعہ کہا کہ بعد میں سجدہ کر لینا یا تو گھر جا کے سجدہ کر لو۔
حضورِانور نے ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ہمارے سکول میں قرآنِ شریف پڑھایا کرتے تھے، ربوہ میں جماعت کا سکول تھا، تو جب ہمارے ماسٹر بھامبڑی صاحب قرآنِ شریف پڑھاتے تھے تو وہ اکثر کہا کرتے تھے اچھا! گھر جاؤ گے تو سجدہ کر لینا۔ تو حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اگر نہ بھی کیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن دل میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کہ وہ سب سے بڑا ہے، یہ خیال رہنا چاہیے۔
آخر پر ایک بچی نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ مَیں ایک واقفۂ نَو بچی ہوں، مَیں سب بہن بھائیوں میں بڑی ہوں، نیز راہنمائی طلب کی کہ اس حیثیت سےمَیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت میں کیا کردار ادا کر سکتی ہوں اور ان کےلیے رول ماڈل (role model)کیسے بن سکتی ہوں؟
حضورِانور نے اس پر مختلف امور کی جانب توجہ دلاتے ہوئے راہنمائی فرمائی کہ اچھی اچھی باتیں کرو، نیک باتیں کرو، نمازیں پڑھو۔ ان کو بتاؤ کہ نماز پڑھنی کیوں ضروری ہیں، قرآنِ شریف پڑھو، قرآنِ شریف پڑھنا کیوں ضروری ہے، اس پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے، ہم احمدی مسلمان ہیں، کیوں احمدی مسلمان ہیں، کیا ہماری تعلیم ہے، کیا اچھے اخلاق ہمیں دکھانے چاہئیں۔
مزید ذاتی نیک نمونے پیش کرنے کی بابت تاکیدکرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ پڑھائی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے، اس کے لیے خود پڑھائی کی طرف توجہ دو، نیکی کی کتابیں پڑھو، جنرل نالج حاصل کرو، ٹی وی کے اچھے پروگرام دیکھو، ان سےکہو کہ بُرے پروگرام ہمیں نہیں دیکھنے چاہئیں۔ خود بھی ہر وقت انٹرنیٹ پر بیٹھ کر iPad، android یا tablet دیکھتی رہو گی تو بچے کہیں گے کہ تم خود تو یہ کر رہی ہو اور ہمیں کیا کہہ رہی ہو؟ تو جو تم خود کرتی ہو، وہ دوسروں کو بھی سمجھاؤ کہ وہ کرنا ہے۔ لیکن جو خود نہیں کرتی اس کے بارے میں اگر تم نصیحتیں کرو گی تو کوئی نصیحت نہیں مانے گا، پھر رول ماڈل تو نہیں بن سکتی، اپنے اچھے نمونے دکھاؤ تو تم رول ماڈل بن جاؤ گی۔
یہ اس مجلس میں حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا آخری سوال تھا۔
ملاقات کے اختتام پر صدر صاحبہ لجنہ اماء الله نے حضورِانور کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے عاجزانہ درخواستِ دعا کی۔ اس کے بعد حضورِانور نے تمام حاضرین میں بطورِ تبرک قلم تقسیم فرمائے۔
٭…٭…٭