حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی شفا دینے والی ہے

علاج بھی بے شک خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے ہیں اور اس کے بتائے ہو ئے طریق پر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن انحصار صرف اور صرف خداتعالیٰ کی ذات پر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو شفا دینے والی ہے۔ جب سب علاج بے کار ہو جاتے ہیں تو دعا سے اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے۔ اس کے بارہ میں بھی ہمیں آنحضرتﷺ کی زندگی میں واقعات ملتے ہیں۔ آپؐ کے صحابہؓ کی زندگی میں ملتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ملتے ہیں۔ آپؑ کے صحابہؓ کی زندگی میں ملتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک ہم شفا پانے اور احیاء موتیٰ کے نشان دیکھتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بیٹے کے ہمراہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس نے کہا یا رسول اللہﷺ یہ دیوانہ ہے اور ہمارے کھانے کے اوقات میں اس کی دیوانگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کو خاص طور پر کوئی دورہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے کھانے کو برباد کر دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس بچے کی چھاتی پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لئے دعا کی۔ اس بچے نے قے کر دی اور اس کے منہ سے کوئی سیاہ رنگ کی چھوٹی سی چیز نکلی اور اس نے چلنا شروع کر دیا۔ اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسند عبداللہ بن عباس۔ جلد اول صفحہ ۶۳۴۔ ایڈیشن۱۹۹۸ء۔ حدیث نمبر ۲۱۳۳)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت سلمی کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا۔ مَیں نے پوچھااے ابومسلم یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا۔ لوگوں نے بیان کیا کہ حضرت سلمیٰ کو زخم آیا ہے۔ مَیں نبی کریمﷺ کے پاس آیا۔ تو آپؐ نے اس زخم پہ تین بار پھونک ماری تو اس کے بعد مجھے آج تک کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔(بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوۃ ذات قرد۔ حدیث نمبر ۴۲۰۶)

اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہمیں اس طرح کے نشان ملتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر خود فرماتے ہیں کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خان ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہ دیتی تھی۔ گویا کہ وہ مردہ کے حکم میں تھا۔ اس وقت مَیں نے اس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ تب مَیں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ یا الٰہی ! مَیں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں، اس کے جواب میں خداتعالیٰ نے فرمایا۔ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ(البقرۃ: ۲۵۶)یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے۔ تب میں خاموش ہو گیا۔ بعد اس کے بغیر توقف کے الہام ہوا اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَازُ یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تب مَیں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خداتعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن میں آیا، تندرست ہو گیا اور زندہ موجودہے۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۳۰،۲۲۹)

(خطبہ جمعہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۰۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۹؍جنوری ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button