متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)

ایک طوفانی رات

مغرب اور عشاء کی نمازوں کی امامت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ واپس تشریف لے گئے۔ جب آپ اندر داخل ہوئے تو موسم خوشگوار تھا۔ لیکن صرف چند سیکنڈ بعد ہی موسم اچانک بدل گیا۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں اور موسلا دھار بارش برسنے لگی۔وہاں نصب کیے گئے پنڈال (marquees) ہلنے لگے اور کچھ چھوٹے شامیانے تو زمین پر گر گئے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ میں نے موسم کو اتنی تیزی سے اور اس قدر شدت سے بدلتے دیکھا ہو۔میں نے کئی مواقع پر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت اور جماعت کے حق میں موسم کو بدل دیتا ہے۔ میں خود بھی کئی بار ایسے مواقع کا گواہ ہوں جب حضورِانور کی موجودگی میں موسم نے پیشگوئی کے برخلاف رخ اختیار کیا۔ اس شام میری لینڈ میں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم نے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے مظاہرے کا مشاہدہ کیا ہے کیونکہ اس دن کے سب کام مکمل ہونے اور حضورِانور کے اپنی رہائش گاہ میں پہنچنے تک موسم بالکل پرسکون رہااور اس کے بعد ہی طوفان شروع ہوا۔

بعد ازاں یہ سوال اٹھا کہ باقی افراد اپنی اپنی رہائش گاہوں تک کیسے پہنچیں۔ سینکڑوں افراد نے مسجد کے احاطے میں موسم کے تھمنے کا انتظار کرتے ہوئے پناہ لی ہوئی تھی، میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ لیکن چند منٹ کے بعد یہ واضح ہوگیاکہ طوفان ابھی جلدرکنے والا نہیں ہے۔ایک خادم نے ازراہِ مہربانی مجھے ایک چھتری دی جس کے ساتھ میں نے دوڑ کر اپنی رہائش گاہ تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔یہ ایک مختصر سفر تھا لیکن ایسا تھا جو آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے۔ جیسے ہی میں گھر کی طرف بھاگامجھے لگا کہ ہوا مجھے دائیں بائیں گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور میں اپنے قدموں کو بمشکل سنبھال پا رہا ہوں۔چھتری نے کچھ حد تک مدد کی لیکن جب میں اپنی رہائش گاہ پہنچا تو میں مکمل طور پر بھیگ چکا تھا۔ تاہم گرم عمارت میں داخل ہونے کی خوشی ناقابلِ بیان تھی۔ میں یہاں صحیح سلامت پہنچ گیا تھا اور اس کا احساس بہت خوشگوار تھا! قافلے کے دیگر اراکین بعد میں پہنچے اور زیادہ سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئےانہوں نے تب تک انتظار کیا جب تک کہ انہیں گاڑی میں لفٹ لینے کا موقع نہ ملا۔ اس کے باوجود مجھے اندرونی طور پر ایک ہلکا سا فخر محسوس ہوا کہ میں طوفان کے درمیان پیدل چل کر پہنچا ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ اس کے نتیجے میں مجھے سردی یا بخار نہ ہوجائے۔ اللہ کے فضل سےشکر ہے کہ میں بالکل ٹھیک رہا۔

ایک غیر ضروری استقبال

(حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ ۲۱؍اکتوبر۲۰۱۸ء کو مسجد بیت الرحمان میری لینڈ سےHoustonکی طرف روانہ ہونا تھا۔)حضورِانور مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے طیارے میں سوار ہوئے۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اور احمد بھائی، حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی (حضورِانور کی اہلیہ محترمہ) کے بالکل پیچھے بیٹھے ہیں۔ سفر کے دوران حضورِانور کے اتناقریب بیٹھنا ایک غیر معمولی اعزاز تھا۔ لوگ اکثر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ سفر کرنا کیسا ہوتا ہےخاص طور پر ایسے سفر میں جہاں حضورِانور اپنی گاڑی میں نہیں بلکہ ٹرین یا ہوائی جہاز میں ہوں۔ بلا شبہ حضورِانور کے اس قدر قریب سفر کرنے کا تجربہ دلی خشیت اور جذبات کو ابھارنے والا ہوتا ہے۔اڑان بھرنے سے کچھ لمحے قبل طیارے کے کپتان نے ایک خاص اعلان کیاجس میں انہوں نے حضورِانور کو جہاز پر خوش آمدید کہا اور حضورِانور کو دنیا میں امن کے سفیر کے طور پر بیان کیا۔

اسی طرح کا استقبال اگلے دن گوئٹے مالا جانے والی پرواز میں بھی کیا گیا۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ دونوں مواقع پر جماعت احمدیہ امریکہ نے کپتان کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ اس طرح حضورانور کو خوش آمدید کہیں۔جب حضورِانور کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ان پر واضح کیا کہ جماعت کی طرف سے یہ درخواست کرنا کہ فلائٹ کے عملے یا کپتان استقبال کرے تصنع اور ناپسندیدہ ہے۔ اگر کپتان یا عملہ خود سے حضورِانور کا استقبال کرنے کا فیصلہ کرتے تو یقیناً حضورِانور اس جذبے کو سراہتے حالانکہ حضورِانور کی عاجزی ایسی ہے کہ آپ کسی ایسے استقبال کی خواہش یا ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن یہ خیال کہ یہ استقبال جماعت کی درخواست پر کیا گیا تھا حضورِانور کو بالکل پسند نہیں آیا۔ حضورِانور نے بعد میں مجھ سے فرمایاکہ میں نے امریکہ کی جماعت کو بتا دیاہے کہ جہاز میں استقبال کرنے کا یہ مصنوعی بندوبست بالکل غلط ہے اور آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

مجھے خوشی ہوئی جب مجھے یہ پتا چلا کہ حضورِانور نے اس عمل کو روک دیا ہے۔ حضورِانور کا مقام ایسا ہے کہ جماعت کو کبھی بھی خلافت کے لیے تعریف یا عزت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود خلافت احمدیہ کو عظیم شان عطا فرمائی ہےجس کی بے شمار مثالوں کا ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں۔

پرواز کے دوران ہمیں beef salad پیش کیا گیاجو بہت عمدہ تھا اور عمومی طور پر میرے ہوائی جہاز کے کھانوں کے تجربات سے کہیں بہتر تھا۔ حضورِانور نے کھانا نہیں لیا لیکن آپ نے سٹرابیری چیز کیک کا ایک ٹکڑا تناول فرمایا۔ ایک موقع پر حضورِانور چند سیکنڈ کے لیے شاید تھوڑا آرام کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے سیدھا میری طرف دیکھا۔ جب حضورِانور نے میری طرف دیکھاتو میں نے نروس انداز میں مسکرا کر نظریں جھکا لیں۔ چند سیکنڈ بعد جب دوبارہ اوپر دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضورِانور اپنی نشست پر واپس تشریف لے جا چکے تھے۔

بیلیز (Belize) کےوفد سے ملاقات

(مسجد بیت الاوّل گوئٹےمالا میں احباب جماعت سےاجتماعی ملاقات)کے بعدحضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے احاطے میں واقع ایک دفتر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہمسایہ ملک بیلیز سے تعلق رکھنے والے احمدی نومبائعین کے ایک وفد سے ملاقات فرمائی۔ جیسے ہی ملاقات اختتام پذیر ہوئی بیلیز کی چند کم عمر احمدی بچیوں نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک نظم پڑھنا چاہتی ہیں۔حضورِانور نے ان کو اجازت عطا فرمائی اور اگلے چند منٹوں میں ان بچیوں نے نہایت خوش الحانی اور خلوص کے ساتھ نظم ؎ہے دستِ قبلہ نما، پیش کی۔ جب وہ نظم کے کورَس لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ پر پہنچیں، تو کمرے میں موجود تمام افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب بیلیز کی بچیاں خوشی کے ساتھ اپنے خلیفہ کے سامنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مشہور نظم پڑھ رہی تھیں تو یہ ایک یادگار اور جذباتی منظر تھا۔

نظم ختم ہوتے ہی حضورِانور مسکرائے اور نہایت شفقت سے فرمایاکہ مجھے بہت اچھا لگا جس طرح آپ نے اسے خوبصورتی سے پڑھا ہے۔ اللہ آپ سب پر فضل کرے اور میری خواہش ہے کہ آپ اس کے الفاظ کے معنی بھی سیکھیں کیونکہ اس طرح آپ اس سے زیادہ لطف اُٹھا سکیں گی اور آپ کو اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔

اس کے بعد حضورِانور کو فہیم یونس صاحب نے مسجد کا دورہ کروایا۔ مسجد میں تصویری نمائش دکھاتے ہوئے فہیم صاحب نے کہاکہ حضور!ہم نے ایک نمائش تیار کی ہے جس میں خلفاء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھایا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کے حوالے سے ہمیشہ محتاط رہنے والےحضور نے فرمایاکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی نمائش ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہمیشہ خلفاء سے پہلے آنا چاہیے۔

ابھی حضور کا احاطے کا معائنہ جاری ہی تھا جب حضور ایک نوجوان مربی صاحب کے قریب سے گزرے جو کہ باہر کھڑے ہو کر نعرے بلند کر رہے تھے۔انہیں دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ آپ کو مسجد میں جا کر نماز کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس وقت نماز اہم ہے، نعرے نہیں۔

نماز کے بعد، حضور ان دو اوورفلو (overflow)مارکیز کے قریب سے گزرے جو نماز کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔ ایک مرد احباب سے بھری ہوئی تھی اور دوسری خواتین سے۔جب حضور وہاں سے گزرے تو دونوں جانب کے احمدیوں نے نعرے بلند کیے اورہر کسی نے اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ حضور ان کو اپنی موجودگی(presence) سے مشرف فرمائیں۔ حضورِانور نے ان کی درخواستیں سنیں تو فرمایاکہ مردوں کو تومجھے دیکھنے کے بہت مواقع ملتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حضورِانور خواتین کی مارکی کی طرف مڑے اور لجنہ ممبرات سے ملاقات فرمائی۔ جب حضورِانور نے ان کے سلام کا جواب ہاتھ اٹھا کر دیا تو کئی لجنہ ممبرات جن میں بڑی تعداد افریقی نژاد امریکی خواتین کی تھی جذبات سے مغلوب ہو کر اشکبار ہو گئیں۔ سب ایک ہی جذبے سے سرشار تھے یعنی اس شدید خوشی میں کہ ان کے محبوب خلیفہ دنیا کے دوسرے کونے سے ان کے پاس تشریف لائے اور ان کی مسجد کا افتتاح فرمایا۔

(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں:ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button