وقف جدید کے ستاسٹھ ویں(۶۷)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اوراڑسٹھویں(۶۸)سال کے آغاز کا اعلان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍جنوری۲۰۲۵ء
٭ …وقف جدید کے ستاسٹھ ویں سال کے اختتام پر جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کو دورانِ سال اس مالی نظام میں ايک کروڑچھتيس لاکھ اکياسي ہزار پاؤنڈ کي مالي قرباني پيش کرنے کي توفيق ملي۔ يہ وصولي گذشتہ سال سے سات لاکھ چھتيس ہزار پاؤنڈ زيادہ ہے
٭…مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا بیان
٭… سالِ نو کی مناسبت سے دعا ؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍جنوری۲۰۲۵ء بمطابق ۳؍ صلح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۳؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ، سورة الفاتحہ اور سورہ اٰلِ عمران کی آیت ۹۳کی تلاوت کے بعد مذکورہ آیتِ کریمہ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتےجب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
حضورِانور نےفرمایا: ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی راہ کی تلاش میں رہتا ہے، اسے اُن راہوں کی تلاش کرتےرہنا چاہیے جو خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی راہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال کے خرچ کرنے کو بھی خدا تعالیٰ نے ایک نیکی قرار دیا ہے۔
اس آیت میں بھی یہی مضمون ہے کہ وہ مال جس سے تم محبت کرتے ہو اگر وہ خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو تب یہ بڑی نیکی ہوگی۔ بےشک اللہ تعالیٰ ہر نیکی کا اجر دیتا ہے، لیکن انسان کو کیونکہ مال سے محبت ہوتی ہے اس لیے اس طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس آیت کے متعلق فرمایا مال کے ساتھ محبت نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو۔ اگر آنحضرتﷺ کے زمانے کے ساتھ اس زمانے کا مقابلہ کیا جائے تو افسوس ہوتا ہے کیونکہ جان سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں؛ اور اُس زمانے میں جان ہی دینی پڑتی تھی۔ تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے، جان سب کو پیاری لگتی ہے، مگر وہ ہمیشہ اس بات پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردیں۔
حضورؑ نے فرمایا بےکار اور نکمّی چیزوں کو خرچ کرنے سے کوئی انسان نیکی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کرلوکہ نکمّی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ نصّ صریح ہے کہ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔ جب تک عزیز ترین اور پیاری سے پیاری چیز کو خرچ نہیں کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ کیا صحابہ کرامؓ مفت میں اس درجے تک پہنچ گئے؟ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جاکرایک معمولی خطاب، جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوسکتی ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رضی اللّٰہ عنھم کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے، یوں ہی آسانی سے مل گیا؟
فرمایا: خدا ٹھگا نہیں جاسکتا، مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کےحصول کے لیے تکلیف کی پروا نہ کریں۔ کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔
دنیا میں انسان مال سے بہت محبت کرتا ہے، اسی لیے علمِ تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے۔
آج جماعتِ احمدیہ کے افراد نے اس راز کو صحیح طور پر سمجھ لیا ہے کہ حقیقی نیکی تک پہنچنے کے لیے اس مال کو خرچ کرنا ضروری ہے جو عزیز ترین مال ہو۔ یہ یقیناً حضرت مسیح موعودؑ کی تربیت کا اثر ہے کہ آج تک یہ قربانی کے معیار ہم دیکھتے چلے جارہے ہیں، وہ معیار جو صحابہؓ نے قائم کیے اور پھر جن کو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں آپ کے صحابہؓ نے قائم کیا۔ پھر اس کے بعد خلافت کے ہر دَور میں یہ قربانیاں ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ آج تک یہی قربانیاں ہمیں نظر آرہی ہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہیے ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اسے راہِ حق میں خرچ کردیا اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے سمجھ،دانائی اور علم و حکمت عطا کی اور اس سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔
ایک حدیثِ قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہوجا۔ نہ آگ لگنے کا خطرہ ہے نہ ڈوبنے کا اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر ہے۔ مَیں تیرا خزانہ پورا تجھے دوں گا اُس دن جب تُو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔
حضورِانور نےمذکورہ بالا حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا یعنی مرنے کے بعد جب انسان کو نہیں پتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا تب اللہ تعالیٰ اس مال کے خرچ کرنے سے انسان کی بخشش کے سامان فرمادے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں مَیں یقیناً سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے…قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلے کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھو! دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندے کے نہیں چلتا…
سب رسولوں کے وقت چندے جمع کیے گئے پس ہماری جماعت کے لوگوں کو اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دے دیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے حضورِانورنے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی قربانیوں کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے بعض ارشادات پیش فرمائے۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے ایک موقعے پرحضورؑ کو لکھا کہ حضرت پیرو مرشدمَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مرادکو پہنچ گیا۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جب وقفِ جدید اور تحریکِ جدید کی تحریکیں کیں تو بعض بہت غریب لوگوں نے تھوڑی تھوڑی رقمیں پیش کیں، کوئی مرغی لے آیا کوئی انڈے لے آیا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم نے پیش کردیا۔اسی ضمن میں حضورِانور نے حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب ؓ کی مالی قربانیوں کی تفصیل بیان فرمائی۔
حضورِانورنے صحابہؓ و بزرگان کی بعض روایات پیش کرنے کے بعدفرمایا کہ آج بھی ہمیں یہ نمونے جابجا ملتے ہیں۔ یہ روح ہمیں آج بھی احمدیوں میں نظر آتی ہے۔ اس کے بعد حضورِانور نے مارشل آئی لینڈز، قازقستان، کیمرون، نائیجر، گیمبیا،تنزانیہ، چیک ری پبلک وغیرہ ممالک کے بعض اخلاص اور قربانی کے واقعات پیش فرمائے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ جماعت کے جو بھی اخراجات ہورہے ہیں، ہمارے دنیا بھر میں جو مشن ہیں، تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے ہی ہیں جو خالص طور پر مرکز میں آتے ہیں، باقی تو مقامی ممالک میں ہی خرچ ہوجاتا ہے، یہ سب خرچ ان ہی چندوں سے ہورہا ہے۔ افریقی ممالک میں جہاں غربت ہے،گوکہ وہ چندے دیتے ہیں لیکن بوجہ غربت وہاں مساجد ہیں، مشن ہیں ان کو چلانے کےلیے رقم چاہیے ہوتی ہے۔
افریقہ میں اس وقت ۷۹۵۳؍مساجد بن چکی ہیں، اور ۳۰۶؍مساجد زیرِتعمیر ہیں۔ ۱۸۶۰؍مشن ہاؤسز کام کر رہے ہیں۔ چار سَو مرکزی مبلغین اور دو ہزار سے زیادہ معلمین کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح قادیان، ساؤتھ امریکہ، جزائر وغیرہ ممالک میں رقم خرچ ہوتی ہے۔ لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم کے اخراجات ہیں۔ یہ سارے خرچ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے کرتا ہے۔ بعض دفعہ حیرانی ہوتی ہے، اور سمجھ نہیں آتی کہ خرچ اتنا زیادہ ہے، اتنے وسیع کام ہیں اور آمد اس کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے۔ اگر وقفِ جدید اور تحریکِ جدید کے چندے کو ملا لیں تو یہ تیس سے اکتیس ملین پاؤنڈ بنتا ہے۔ اس کے مقابل پر ۱۰۶؍ممالک کے مشنز کو جو سالانہ گرانٹ دی جاتی ہے وہی تقریباً اس کے برابر ہے۔ پھر جامعات ہیں، ایم ٹی اے ہے، مرکز کے اپنے اخراجات ہیں، تو یہ سب اخراجات اللہ تعالیٰ کس طرح پورے کرتا ہے سمجھ نہیں آتی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو یہی فرمایا تھا کہ مال تو مَیں تمہیں دوں گا اور وہ اس وعدے کے مطابق مال دے بھی رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے کہ ہم اسے صحیح مصرف میں بھی لاسکیں، اللہ تعالیٰ صحیح خرچ کرنے کی توفیق دے، کبھی اس میں کوئی بےقاعدگی نہ ہو۔
حضورِانورنے وقفِ جدید کے سالِ گذشتہ کی رپورٹ کے حوالے سے فرمایا کہاللہ تعالیٰ کے فضل سےوقفِ جدید کا ۶۷واں سال ختم ہواہے۔
دورانِ سال جماعت احمدیہ عالمگیر کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک کروڑچھتیس لاکھ اکیاسی ہزار پاؤنڈ یعنی تقریباً ۱۴؍ملین کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔
یہ وصولی گذشتہ سال سے سات لاکھ چھتیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمدللہ!
حضور انور نے ممالک اور جماعتوں کی پوزیشن بیان فرمائی نیز خطبہ جمعہ کے آخر پر سال نو کی مناسبت سے دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ دونوں کی تفصیل درج ذیل لنکس پر ملاحظہ ہو۔
٭…٭…٭