احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
’’نواب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ میں نے دُعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
نواب صدیق حسن خان پر ابتلا اورمقدمات
(گذشتہ سے پیوستہ)اس زمانے کی کچھ تفصیلات نواب صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’اِبقاء الْمِنَنْ بِاِلْقَاءِ الْمِحَنْ‘‘ میں بیان کی ہیں۔۳۹۴ صفحات کی یہ کتاب دارالدعوة السلفیہ شیش محل روڈ لاہور سے دسمبر۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی۔
بہرحال یاس و ناامیدی کے بادلوں کی تاریکی جب بڑھنے لگی اور دن خوفناک راتوں میں تبدیل ہونے لگا تو آخر کار بڑی انکساری کے ساتھ حضرت اقدس مرزاغلام احمدصاحب قادیانی مصنف براہین احمدیہ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔اب آگے کا احوال اس راستباز و صادق کی زبان مبارک کےالفاظ میں ہی ہم پڑھتے ہیں۔آپؑ فرماتے ہیں:’’منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے جو میری تائید میں ظاہر ہوئے نواب صدیق حسن خان وزیر ریاست بھوپال کے بارہ میں نشان ہے اور وہ یہ ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی معہود پیدا ہوگا تو غیرمذاہب کے سلاطین گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کر دیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کا عیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے رُو برو پیش کیا جائے گا۔ یہ الفاظ تھے جو اُنہوں نے اپنی کتاب میں شائع کئے تھے جو اب تک ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور یہی موجب بغاوت سمجھے گئے اور یہ اُن کی غلطی تھی…مگر چونکہ نواب صدیق حسن خان کے دل میں خشک وہابیت کا خمیر تھا اس لئے انہوں نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایا اور آخر پکڑے گئے اور نواب ہونے سے معطل کئے گئے اور بڑی انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دعا کروں تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اُس کے لئے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی۔ میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط اُن کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو اُن دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر حال پنشنر ساکن امرتسر اور مولوی محمد حسین بٹالوی ہیں۔ آخر کچھ مدت کے بعد ان کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔ گویا یہ سمجھا گیا کہ جو کچھ اُس نے بیان کیا ایک مذہبی پرا نا خیال ہے جو ان کے دل میں تھا بغاوت کی نیت نہیں تھی۔[اسی جگہ حاشیہ میں فرماتے ہیں :]
نواب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ میں نے دُعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے سو ایسا ہی ظہور میں آ یا۔ (کتاب براہین احمدیہ)منہ۔‘‘(حقیقةالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۴۶۷و۴۷۰)
مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمدشاہدصاحب تاریخ احمدیت میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ’’نواب صاحب مولوی سید اولاد حسن صاحب قنوجی کے فرزند تھے انہوں نے علوم دینی علمائے یمن وہند سے حاصل کئے۔ پھر ریاست بھوپال کی ملازمت اختیار کرلی اور بتدریج ترقی کر کے وزارت ونیابت پر فائز ہوگئے یہاں تک کہ ان کا بھوپال کی والیہ شاہجہان بیگم صاحبہ سے ۱۸۷۱ء میں عقد ہوگیا جس کے بعد وہ عملاً ریاست کے فرمانروا بن گئے تھے۔ اور حکومت برطانیہ نے انہیں ’’ نواب والا جاہ‘‘۔ ’’امیر الملک‘‘اور ’’معتمد المہام‘‘ کے خطابات سے نواز دیا۔ نواب صاحب اپنی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور علو مرتبت میں بھی اسلام کی تحریری خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ اور ان کی علمی تصانیف کا ہندوستان کے طول وعرض میں ایک شہرہ تھا۔ اور مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی تو انہیں’’مجدد وقت‘‘ تسلیم کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے ان کی اسلامی خدمات پر حسن ظن کرتے ہوئے انہیں ’’براہین احمدیہ‘‘ بھجوائی تھی۔ مگر انہوں نے یہ کتاب پھاڑ کر واپس کردی اور لکھا کہ ’’مذہبی کتابوں کی خریداری حکومت وقت کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے اس لئے ریاست سے کچھ امید نہ رکھیں۔‘‘حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب کی یہ صورت دیکھی تو آپؑ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے دعا کی کہ ان کی عزت چاک کردی جائے۔ خدا کی قدرت دیکھئے اس واقعہ پر ابھی دو تین سال کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ…اسی حکومت نے (جس کی خوشنودی کے لئے انہوں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی توہین کی تھی) ان پر بعض مقدمات دائر کر دئیے اوروہ جرائم پیشہ انسانوں کی طرح ریاست میں معصوموں کے خون بہانے،سوڈانی مہدی کو امداد بھجوانے اور اپنی مختلف تصانیف میں انگریزی گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے سنگین الزمات میں ماخوذ ہوگئے اور حکومت نے ان پر سر لیپل گریفن کا تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ان کے نوابی کے خطابات چھن گئے اور یہاں تک بےآبروئی ہوئی کہ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ نے حکومت پر زور دیا کہ اس سیاسی مقدمہ میں ان سے ذرہ بھر رعایت روانہ رکھی جائے اور ان جرائم کی پاداش میں وہ تختہ دار پر لٹکا دئیے جائیں یا کالے پانی بھیج دئیے جائیں۔ حتٰی کہ خود مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو نواب صاحب کے دفاع میں ایک مبسوط مضمون ’’اشاعت السنہ‘‘ میں لکھنا پڑا۔ اور ’’گورنر ڈفرن اور سرلیپل گریفن کے حضور میں‘‘ نہایت عاجزی کے ساتھ التجا کرنا پڑی کہ وہ نواب صاحب موصوف کے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان کا خطاب بحال فرمائیں۔ وہ گورنمنٹ کے حقیقی اور دلی خیرخواہ ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا شمار حکومت انگریزی کے دلی خیر خواہوں اور حقیقی وفاداروں میں ہوتا تھا اور حکومت کی نگاہ میں ان کی شہادت بڑی وقیع اور پختہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ان کی یہ اپیل بالکل ناقابل التفات سمجھی گئی اور حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسی لئے پنڈت لیکھرام نے مارچ ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدسؑ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا’’آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اور آپ کی دعا تو تقدیر معلق کو باسلوبی ٹال سکتی ہے․․․․صدیق حسن خاں معزول ہیں اور ان کی نسبت جوجو مقدمات اور غبن مال سرکاری دائر ہیں ان سے نہایت ملول ہیں․․․․جناب بیگم صاحبہ والئی بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ دے کر خارج کرنا چاہتی ہیں ان کا ارادہ نسخ کیجئے۔‘‘
(پنڈت لیکھ رام تکذیب براہین احمدیہ جلد دوم میں لکھتاہے : ’’آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اورآپ کی دعاتو تقدیر معلق کو باسلوبی تمام ٹال سکتی ہے۔ہم بھی چندنامی اشخاص کے نام لکھتے ہیں ذراانکی مراد بھی پورن کیجئے…صدیق حسن خاں بھوپال معزول ہیں اوران کی نسبت جو جومقدمات اور غبن مال سرکاری دائرہیں ان سے نہایت ملول ہیں…جناب بیگم صاحبہ والی بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ روپیہ دیکر خارج کرناچاہتی ہیں ان کا ارادہ فسخ کیجئے …‘‘ بحوالہ کلیات آریہ مسافر صفحہ۴۹۵)
خداکی شان پنڈت لیکھرام نے تو یہ بات طنزا ًکہی تھی مگر آپؑ ہی کی دعا کی برکت سے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معاملہ تشویشناک صورت اختیار کرتا دکھائی دیا تو خود نواب صاحب موصوف نے سر تاپا عجزو انکسار بن کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں درخواست دعا لکھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں ان کی خدمات پیش کرتے اور دعا کی سفارش کا پیغام بھجواتے ہوئے حافظ محمد یوسف صاحب کو قادیان روانہ کیا۔ حافظ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے جب حاضر ہو کر حضورؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست پیش کی تو حضرت اقدس نے اولاً دعا کرنے سے انکار کردیا اور براہین کا واقعہ بیان کر کے یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کرلیں۔ موحد ہونے کا دعویٰ کر کے ایک زمینی حکومت کے خوف اور وہ بھی دین کے معاملہ میں جس میں خود اس حکومت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے اس پر بہت دیر تک تقریر فرماتے رہے۔چوں کہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے۔ میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا عرض کرتا ہی رہا۔ نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی آخر حضرت صاحبؑ نے دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا اور میں تو اسی غرض سے آیا تھا جب تک آپ نے دعا نہ کردی اور یہ نہ فرمایا کہ میں نے دعا کردی ہے وہ توبہ کریں خدا تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم کرے گا حکومت کے اخذ سے وہ بچ جائیں گے۔
………حافظ صاحب کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے’’براہین احمدیہ‘‘ کی خریداری کے لئے نواب صاحب کی طرف سے درخواست کی آپ نے اس کو منظور نہ فرمایا۔ ہر چند عرض کیا گیا آپ راضی نہ ہوئے فرمایا میں نے رحم کر کے ان کے لئے دعا کردی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے ایسے شخص کو جس نے کتاب کو اس ذلت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا۔ یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کو جو میں نے تحریک کی تھی خدا تعالیٰ کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کرکے کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور خدا تعالیٰ انہیں کسی اور نیکی کی توفیق دے۔ ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امید گاہ نہیں بنایا۔ ہماری امید گاہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اوروہی کافی ہے نواب صاحب سنگین مقدمہ میں پانچ سال تک مبتلا رہے اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق انہیں حکومت کے مواخذہ سے بھی بچالیا اور ان کے خطابات بھی بحال کردئیے گئے۔ لیکن افسوس وہ بحالی کی خبر ملنے سے پہلے ہی اس دار فانی سے چل بسے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ۲۲۱تا ۲۲۳)
نواب صاحب کی وفات استسقاء کی تکلیف دہ بیماری سے فروری ۱۸۹۰ء میں ہوئی۔(ماخوذازابقاءا لمنن بالقاء المحن صفحہ ۳۵۱)
٭…٭…٭
گذشتہ قسط: احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح