متفرق مضامین

معدنی وسائل کی کثرت کے بارے میں قرآن مجید کی پیشگوئی

(ابو نائل)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس آیت کریمہ کے وہ مطالب بیان کیے جن سے قرآن مجید کا ایک عظیم معجزہ دنیا کے سامنے آیا

سورۃ الزلزال میں آخری زمانےکی علامات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَأَخۡرَجَتِ الۡأَرۡضُ أَثۡقَالَهَا۔وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا۔ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا۔ (الزلزال:۳تا۶)ترجمہ: اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔ اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔

سب سے پہلے تو یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ أَثۡقَالَهَا کے لفظ سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ کی لغت مفردات امام راغب میں لکھا ہے:’’بعض نے کہا ہے کہ زمین کے دفینے مراد ہیں۔اور بعض نے حشر کے روز قبروں سے زندہ ہو کر نکلنا مراد لیا ہے۔‘‘اور اسی طرح لغت اقرب الموارد میں ’الاثقال‘ کا مطلب لکھا ہے ’کنوز الارض و موتھا‘ یعنی زمین کے خزانے اور اس میں موجود مردے۔ اس آیت میں ’ثقل‘ کے لفظ کا مطلب لکھا ہے ’ای ما فی جوفھا من الدفائن والاموات‘ یعنی جو اس کے پیٹ میں دفینے یا مردے موجود ہیں۔

پرانے مفسرین کی تفسیر

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے قبل پرانے مفسرین نے اس آیت کریمہ کے کیا مطالب بیان کیے ہیں۔

پرانے مفسرین نے اس آیت کا اطلاق قیامت کے دن رونما ہونے والے واقعات پر کیا ہے۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے: ’’صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی، سونا چاندی مثل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا، قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا، آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں، اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا، چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دیے تھے غرض وہ مال یونہی بکھرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا۔انسان اس وقت ہکا بکا رہ جائے گا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہری ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب دیکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہوجائے گا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ پس زمین بالکل بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے۔‘‘

یہاں اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ صحیح مسلم کی جس حدیث کا ذکر اس تفسیر میں کیا گیا ہے وہ صحیح مسلم کی کتاب الزکوٰۃ کے باب: بَابُ التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ قَبْلَ أَنْ لَا يُوجَدَ مَنْ يَقْبَلُهَا کی آخری حدیث ہے۔ اس کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے :’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ زمین اپنے جگر کے ٹکڑے سونے اور چاندی کے ستونوں کی مانند اگل دے گی۔قاتل آئے گا اور کہے گا اس (مال) کی وجہ سے میں نے قتل کیا اور قطع رحمی کرنے والا آئے گا اور کہےگا اس (مال) کی وجہ سے میں نے قطع رحمی کی اور چور آئے گا اور کہے گا کہ اس (مال) کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر وہ اس (مال ) کو چھوڑ دیں گے اور اس میں سے کچھ بھی نہ لیں گے۔‘‘

اس حدیث کی کچھ بھی تشریح کی جائے یہ ایک علیحدہ مضمون ہے لیکن اس میں کہیں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ اس میں قیامت کے روز کے واقعات کا ذکر ہے اور نہ ہی یہ ذکر ہےکہ اس میں یہ وہی واقعات ہیں جن کا ذکر سورۃ الزلزال میں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس باب میں درج احادیث میں یہ ذکر چل رہا ہے کہ ایک ایسا دَور آئے گا کہ مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ زکوٰۃ کو قبول کرنے والا شخص ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔اسی طرح تفسیر در منثور میں بھی اس آیت کی کم و بیش وہی تفسیر بیان کی گئی جو کہ تفسیر ابن کثیر میں بیان ہوئی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس آیت کریمہ کے وہ مطالب بیان کیے جن سے قرآن مجید کا ایک عظیم معجزہ دنیا کے سامنے آگیا۔آپؑ تحریر فرماتے ہیں:’’ہمارے علماء نے جو ظاہری طور پر اس سورۃ الزلزال کی یہ تفسیر کی ہے کہ درحقیقت زمین کو آخری دنوں میں سخت زلزلہ آئے گا اور وہ ایسا زلزلہ ہوگا کہ تمام زمین اس سے زیرو زبر ہو جائے گی اور جو زمین کے اندر چیزیں ہیں وہ سب باہر آجائیں گی اور انسان یعنی کافر لوگ زمین کو پوچھیں گے کہ تجھے کیا ہوا تب اس روز زمین باتیں کرے گی اور اپنا حال بتائے گی۔ یہ سراسر غلط تفسیر ہے کہ جو قرآن شریف کے سیاق و سباق سےمخالف ہے۔ اگر قرآن شریف کے اس مقام پر بنظر غور تدبر کرو تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں یعنی سورۃ البیّنہ اور سورۃ الزلزال سورۃ لیلۃ القدر کے متعلق ہیں اور آخری زمانہ تک اس کا کل حال بتلا رہی ہیں ما سوا اس کے ہر یک عقل سلیم سوچ سکتی ہے کہ ایسے بڑے زلزلہ کے وقت میں کہ جب ساری زمین تہ و بالا ہو جائے گی ایسے کافر کہاں زندہ رہیں گے۔ جو زمین سے اس کے حالات استفسار کریں گے کیا ممکن ہے کہ زمین تو ساری زیر و زبر ہوجائے یہاں تک کہ اوپر کا طبقہ اندر اور اندر کا طبقہ باہر آجائے اور پھر لوگ زندہ بچ رہیں…‘‘(ازالۂ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۱۶۶تا۱۶۸)

اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس سے کیا مراد ہے کہ زمین اپنے بوجھ نکال دے گی؟ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’آج جو أَخۡرَجَتِ الۡأَرۡضُ أَثۡقَالَهَا کا زمانہ ہے یہ مسیح موعود ہی کے وقت کے لئے مخصوص تھا چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجادیں اور نئی کانیں نکل رہی ہیں۔ ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے۔‘‘(الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۱ صفحہ۷)پھر آپؑ ان آیات کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’نیز زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنے تمام خواص ظاہر کردے گی اور علم طبعی اور فلاحت کے ذریعہ سے بہت سی خاصیتیں اس کی معلوم ہو جائیں گی اور کانیں نمودار ہوں گی اور کاشتکاری کی کثرت ہو جائے گی۔غرض زمین زرخیز ہو جائے گی اور انواع اقسام کی کلیں ایجاد ہوں گی یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔‘‘(شہادۃالقرآن،روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۳۱۵)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری زمانے کی علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایسا ہی قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ان دنوں میں زمین سے بہت سی کانیں اور مخفی چیزیں نکلیں گی اور ان دنوں میں آسمان پر کسوف و خسوف ہوگا اور زمین پر طاعون بہت پھیل جائے گی اور اونٹ بے کار ہوجائیں گے۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۲۱۱و ۲۱۲)

خلفائےکرام حضرت مسیح موعودؑکی تفسیر

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’یہ اثقال معدنیات کی قسم سے بھی ہیں اور علوم و فنون کے قسم سے بھی ہیں۔ جس قدر معدنیات اس وقت میں نکلے اور نکل رہے ہیں۔ اس کی نظیر اگلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۴۳۸)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تفسیر کبیر میں اس آیت کریمہ کے چھ وسیع معانی بیان فرمائے ہیں۔ان میں سے صرف ایک کا حوالہ درج کیا جاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تحریر فرماتے ہیں:’’تیسرے معنے اَثْقَالَ کے ظاہری زمین کے لحاظ سے یہ بنیں گے کہ زمین میں سے قسم قسم کی کانیں نکل آئیں گی۔چنانچہ دیکھ لو آج کروڑوں کروڑ ٹن مٹی کا تیل جس کا پہلے زمانہ میں خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا زمین میں سے نکل رہا ہےاور ہر شہر،ہر قصبہ اور ہر گائوں میں اس سے کام لیا جارہا ہے۔تمام دنیا میں چکر لگا کر دیکھ لو ہر جگہ لیمپ مٹی کے تیل سے ہی جگمگاتے نظر آئیں گے سوائے ان مقامات کے جہاں بجلی کی روشنی مہیا کی جا تی ہے۔پہلے زمانہ میں عام طور پر سرسوں کا تیل دئے میں ڈال کر روشنی حاصل کی جا تی تھی مگر اب کہیں بھی سرسوں کا تیل استعمال نہیں ہوتا سب جگہ مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کارخانے وغیرہ مٹی کے تیل سے چلتے ہیں۔پٹرول جس سے موٹریں چلتی ہیں وہ بھی زمین میں سے ہی نکلتا ہے۔پھر پتھر کا کوئلہ جس سے انجن، ریلیں اور مشینیں وغیرہ چلتی ہیں یہ بھی زمین میں دبا پڑا تھا اسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے نکالا اور بڑی بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام آنے لگا۔اس طرح اور کئی قسم کی دھاتیں مثلاََ یورینیم، پلاٹینم اور ریڈیم وغیرہ زمین میں چھپی پڑی تھیں اور لوگوں کو ان کا کچھ علم نہیں تھا۔آج بہت سے کام ان کے ذریعہ چل رہے ہیں۔ اور ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ زمین نے آج اپنے بوجھ باہرنکال کرپھینک دیئے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۴ صفحہ ۲۹ و ۳۰)

آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کے ارشادات

مندرجہ بالا حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک آمد سے قبل مفسرین ان آیات کی جو تفسیر بیان کر رہے تھے، اس سے ان آیات میں درج پیشگوئیوں کی وہ عظمت اور ان کا وہ معجزہ ظاہر نہیں ہوتا تھا جو اس تفسیر سے ظاہر ہوتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاء نے بیان فرمایا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اس مضمون کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ آخری زمانے میں معدنیات کثرت سے نکالی جائیں گی۔اور ظاہر ہے آنحضرتﷺ کی مبارک صحبت سے تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کے ارشادات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے تھے:اذا ظھرت معادن فی آخر الزمان یاتیک شرار الناس۔ترجمہ: جب آخری زمانہ میں معدنیات ظاہر ہوں گی تو تم پر شریر لوگ مسلط ہوجائیں گے۔(کتاب الفتن از نعیم بن حماد اردو ترجمہ ابو بکر واحدی، ناشر العلم ٹرسٹ لاہور ۲۰۱۵ء صفحہ ۶۵۳)

حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا :من اقتراب الساعۃ ظھور المعادن و کثرۃ المطر و قلۃ النبات…۔ترجمہ:قربِ قیامت میںمعدنیات ظاہرہوجائیں گے۔بارشیں زیادہ ہوں گی اور نباتات کم اگے گی…(کتاب الفتن از نعیم بن حماد اردو ترجمہ ابو بکر واحدی، ناشر العلم ٹرسٹ لاہور ۲۰۱۵ء صفحہ ۶۸۱و ۶۸۲)

ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید نے یہ اعلان کیا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ زمین اپنے میں مدفون خزانے نکال دے گی۔ اس دور میں اگر کوئی شخص چند لمحوں کے لیے بھی سوچے کہ زمین میں کون سے خزانے مدفون تھے جو کہ آخری زمانے میں نکلنے شروع ہو گئے تو اس کے ذہن میں خام تیل، کوئلہ، مختلف دھاتوں، اور دیگر معدنی وسائل کا ہی خیال آئے گا۔ اس ضمن میں اعداد و شمار اور حقائق پیش کرنے سے قبل یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا قرآن مجید کے نزول کے وقت کسی شخص کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا تھا کہ کسی دَور میں اتنی بڑی مقدار میں معدنی وسائل نکالے جائیں گے اور ان پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہوگا۔

خام تیل کا استعمال

اس دَور میں ان سب وسائل میں سے جس کا سب سے زیادہ خیال ذہن میں آتا ہے وہ خام تیل ہے جو زمین سے نکالا جاتا ہے اور جس سے حاصل ہونے والے پٹرول، ڈیزل، اور مٹی کے تیل سے دنیا میں توانائی کی بہت سی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔یوں تو قدیم زمانہ سےانسان سطح زمین کے قریب موجود خام تیل سے واقف تھا۔ اور بہت سی تہذیبوں نے اس سے مٹی کا تیل علیحدہ بھی کیا۔چین کے لوگ بھی صدیوں سے خام تیل کے استعمال کا محدود علم رکھتے تھے۔ اور رازی نے اپنی کتاب ’کتاب الاسرار‘ میں خام تیل سے مٹی کےتیل کو علیحدہ کرنے کا طریقہ لکھا تھا لیکن انیسویں صدی سے قبل دنیا میں اس کا استعمال ایسی مقدار میں ہوتا تھا جو کہ نا قابل ذکر تھی اور نہ ہی اس کو باقاعدہ دریافت کر کے نکالنے کی کوئی کوشش ہوتی تھی۔ رات کو چراغ جلانے کے لیے نباتات سے حاصل ہونے والے تیل مثال کے طور پر سرسوں کا تیل اور زیتون کا تیل استعمال ہوتے تھے۔

یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب ۱۸۴۶ءمیں کینیڈا کے ایک سائنسدان ابراہام گیسنر (Abraham Gesner) نے زمین سے نکلنے والے کوئلے سے مٹی کا تیل نکالنے کا سائنسی طریقہ دریافت کیا اور ۱۸۵۴ء میں پہلے نیویارک اور پھر بوسٹن میں صنعت لگا کر مٹی کے تیل کی تیاری شروع ہوئی۔اورلمبے دورانیہ کے لیے لیمپوں میں اس کا استعمال شروع ہوا۔

انہی برسوں میں سکاٹ لینڈ کے ایک سائنسدان جیمز ینگ نے کوئلے کی ایک کان سے رِستہ ہوا خام تیل دیکھا اور اس سے ایندھن نکالنے کا طریقہ دریافت کیا۔۱۸۵۹ء میں ایڈوین ڈریک نامی شخص نے تجارتی بنیادوں پر پینسیلوینیا امریکہ میں تیل کے کنویں سے خام تیل نکالنے کا کام شروع کیا اور پھر جلد ہی کینیڈا اور پولینڈ میں بھی تیل کے کنویں دریافت کر کے ان سے تیل نکالنے کا کام شروع کیا۔۱۸۶۰ء میں زمین سے خام تیل نکالنے کا کام اتنی ابتدائی حالت میں تھا کہ دنیا بھر میں امریکہ میں ہی دنیا بھر کا اکثرخام تیل نکالا جا رہا تھا اور ایک سال میں صرف ۶۷؍ہزار میٹرک ٹن تیل نکالا گیا تھا۔ اور اب زمین نے اس طرح اپنے خزانے نکالنے شروع کیےہیں کہ صرف ۲۰۲۳ء میں ساڑھے چار ارب میٹرک ٹن خام تیل زمین کے پیٹ سے نکالا گیا تھا۔ یعنی اس وقت دنیا بھر میں ایک منٹ میں جتنا خام تیل نکالا جاتا ہے وہ اس سے زیادہ ہے جو کہ ۱۸۶۰ء میں سال بھر میں نکالا جا رہا تھا۔صرف ڈیڑھ سو سال قبل یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اس مقدار میں زمین سے خام تیل نکالا جا ئے گا۔

کوئی یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ تو پرانے زمانہ سے موازنہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر روز اس پیشگوئی کی صداقت زیادہ روشن ہو کر ظاہر ہو رہی ہے۔۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ایک سال میں پینتیس کروڑ ٹن خام تیل نکالا جا رہا تھا اور اب ساڑھے چار ارب ٹن خام تیل نکل رہا ہے۔ دنیا بھر میں توانائی پیدا کرنے کے لیے اس کا جو استعمال ہو رہا ہے وہ سب کے علم میں ہے اور اس کے بغیر موجودہ دور کی ترقی ممکن نہیں تھی۔نزول قرآن مجید کے وقت تو کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زمین کے پیٹ سے اتنے اہم خزانے اتنی بڑی مقدار میں نکالے جائیں گے۔

کوئلہ کا استعمال

اب زمین کے ایک اور مدفون خزانے کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی کوئلہ کا۔ اس کا دنیا میں صنعتی ترقی سے گہرا تعلق ہے۔ویسے تو زمین سے نکال کر کوئلےکو ہزاروں برسوں سے استعمال کیا جارہا ہے لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں سٹیم انجن کی ایجاد اور اس کے وسیع پیمانے پر استعمال سے اس کی اہمیت اور مانگ میں بہت اضافہ ہوا۔ اور پھر صنعتی انقلاب کے بعد اس کو وسیع پیمانے پر کارخانوں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس طرح اس نے تاریخی لحاظ سے دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔کچھ دہائیوں سے ماحولیات پر اس کے غلط اثرات کی وجہ سے اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ گذشتہ سوا سو سال میں کوئلہ کی کتنی بڑی مقدار کو زمین سے نکالا گیا ہے۔کوئلے کی مانگ میں اضافہ ہونے با وجود ۱۹۱۳ء میں پوری دنیا میں سوا ارب ٹن کوئلہ ایک سال میں زمین سے نکالا جا رہا تھا جبکہ ۲۰۲۳ء میں یہ مقدار بڑھ کر آٹھ ارب ٹن ہو چکی ہے۔

(T. J. Brown. FROM EMPIRE TO ENTERPRISE: 100 YEARS OF HISTORY THROUGH MINERAL EXTRACTION STATISTICS. Proceedings of the 18th Extractive Industry Geology Conference 2014 and technical meeting 2015.)(https://ourworldindata.org/grapher/coal-production-by-country.accessed on 9.12.2024)

یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کتنی بڑی مقدار میں ہر سال اربوں ٹن خام تیل اور کوئلہ زمین سے نکال کر توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گذشتہ چند صدیوں میں دنیا میں جو مادی ترقی دیکھنے میں آئی وہ ممکن ہی نہیں تھی اگر زمین سے یہ خزانے حاصل نہ کیے جاتے۔قدیم تاریخ یا سو سوا سو سال قبل کے اعداد و شمار تو ایک طرف رہے، صرف گذشتہ بیس پچیس سال کے دوران زمین سے نکالے جانے والے خزانوں کی مقدار میں جو اضافہ ہوا ہے اور موجودہ ترقی میں ان کی اہمیت جس طرح بڑھ رہی ہے وہ قرآن مجید کی اس عظیم پیشگوئی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لوہے کا بڑھتا ہوا استعمال

اب خام تیل اور کوئلہ کے علاوہ زمین سے نکلنے والی مختلف معدنیات کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں دھاتوں کی کانوں کی ایک اپنی اہمیت ہے۔موجودہ تاریخ میں جس دھات نے انسانی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے وہ لوہا ہے۔۱۹۱۳ء میں ایک سال میں دنیا بھر میں لوہا خام حالت میں ۱۶۲؍ملین ٹن کی مقدار میں نکالا گیا تھا۔ اور اب ایک سال میں ڈھائی ہزار ملین ٹن کی مقدار میں نکالا جا رہا ہے۔ اس دوران سترہ سو فیصد کا اضافہ ہوا۔صرف گذشتہ پچیس سال کے دوران ہی یہ مقدار ڈھائی گنا ہو چکی ہے۔یہ درست ہے کہ سوا سو سال میں دنیا کی آبادی بھی پانچ گنا ہو چکی ہے لیکن آبادی کے اضافہ سے بھی موازنہ کیا جائے تو بھی ان معدنی وسائل کا استعمال ہوش ربا مقدار میں بڑھ رہا ہے۔

معدنی وسائل کا کل استعمال

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا میں ایک سال میں معدنیات کی کل کتنی مقدار زمین سے نکالی جا رہی ہے اور ماضی قریب میں اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۸۴ء میں کل دنیا میں ایک سال کے اندر نو ارب تینتیس کروڑمیٹرک ٹن کے کل معدنی وسائل نکالے گئے تھے۔۲۰۰۰ء میں یہ مقدار بڑھ کر گیارہ ارب بتیس کروڑ میٹرک ٹن ہو گئی۔ اس وقت تک اس مقدار میں تدریجی اضافہ ہو رہا تھا لیکن ۲۰۲۳ء میں مقدار بڑھ کراٹھارہ ارب ستاسٹھ کروڑ سے زائدہو گئی۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے زمین سے یہ خزانے نکالے جا رہے ہیں۔ اور اس دور میں قرآن کریم کی اس پیشگوئی کی صداقت پہلے سے بھی زیادہ روشن ہو کر ظاہر ہو رہی ہے۔

(World Mining Data 2024, compiled by International Organizing Committee for World Mining Congressess p 32)

جس وقت قرآن مجید نے اس پیشگوئی کا اعلان کیا اس وقت صرف چند قسم کےمعدنی وسائل نکالے جا رہے تھے۔آج جو انواع و اقسام کے خزانے زمین سے نکالے جارہے ہیں، آج سے چودہ سو سال قبل ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اس وقت کوئی یورینیم اور اس سے حاصل ہونے والی جوہری طاقت کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔اور آج ہماری زندگیوں میں زمین سے نکلنے والی معدنیات کی جو اہمیت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ہم اپنے دفتر سے نکل کر جس کار یا بس یا ٹرین میں بیٹھتے ہیں اس کو زمین سے نکلنے والی دھاتوں سے بنایا جا تا ہے۔یہ کاریں یا بسیں یا ٹرینیں زمین سے نکلنے والے پٹرول سے چل رہی ہوتی ہیں۔ ہم اپنی سواری سے اتر کر دفتر جاتے ہوئے جس تارکول کی سڑک پر چلتے ہیں اسے زمین سے نکلنے والے خزانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم جس دفتر میں جاتے ہیں یا جس گھر سے نکل کر جاتے ہیں اس کی تعمیر میں سیمنٹ استعمال ہوتا ہے جس کو بنانے کے لیےزمین سے نکلنے والا لائم سٹون استعمال ہوتا ہے۔جو بجلی کی تاریں ہم تک بجلی پہنچاتی ہیں ان کو زمین سے نکلنے والی دھاتوں سے بنایا جاتا ہے۔ اور جس کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں اس کو بنانے میں بہت سی معدنیات استعمال ہوتی ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آج کی زندگی کا پہیہ زمین کےپیٹ سے نکالے جانے والے ان وسائل کے بغیر نہیں چل سکتا۔

جدید مفسرین کی تفسیر

جیسا کہ مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا تھا کہ بہت سے پرانے مفسرین سورت زلزال میں درج اس پیشگوئی کا مفہوم سمجھ نہیں سکتے تھے کیونکہ ابھی انسانی علوم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ یہ مضمون ان پر کھل سکے۔ لیکن جب سے یہ جدید دور شروع ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے اس عظیم قرآنی پیشگوئی کی عظمت دنیا کے سامنے بیان کی۔ اب جب کہ یہ پیشگوئی کھلے طور پر پوری ہو کر ایک روشن نشان بن چکی ہے، کیا اس دَور کے مفسرین اب اس کی حقیقت بیان کر رہے ہیں ؟ اس دور کے دو اہم مفسرین کی تفاسیر سے اس آیت کریمہ کی تفسیر پیش کی جاتی ہے۔

ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اپنی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ میں اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:’’یہ وہی مضمون ہےجو سورۃ انشقاق آیت ۴ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے و القت ما فیھا و تخلت ’’اور جوکچھ اس کے اندر ہے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی‘‘۔ اس کے کئی مطلب ہیں : ایک یہ کہ مرے ہوئے انسان زمین کے اندر جہاں جس شکل اور جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے، ان سب کو وہ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور بعد کا فقرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت اس کے جسم کے تمام بکھرے ہوئے اجزا جمع ہو کر اسی شکل وصورت میں از سر نو زندہ ہو جائیں گے جس میں وہ پہلی زندگی کی حالت میں تھے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ کیسے کہیں گے کہ یہ زمین کو کیا ہو رہا ہے۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف مرے ہوئے انسانوں ہی کو وہ باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ ان کی پہلی زندگی کےافعال و اقوال اور حرکات و سکنات کی شہادتوں کا جو انبار اس کی تہوں میں دبا پڑا ہے، اس سب کو بھی وہ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اس پر بعد کا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ زمین اپنے اوپر گذرے ہوئے حالات بیان کرے گی۔تیسرا مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سونا چاندی اور جواہر اور ہر قسم کی دولت جو زمین کے پیٹ میں ہے، اس کے بھی ڈھیر کے ڈھیر وہ باہر نکال کر رکھ دے گی اور انسان دیکھے گا کہ یہی ہیں وہ چیزیں جن پر وہ دنیا میں مرا جاتا تھا جن کی خا طر اس نے قتل کئے، حق داروں کے حقوق مارے، چوریاں کیں، ڈاکے ڈالے، خشکی اور تری میں قزاقیاں کیں، جنگ کے معرکے برپا کئے اور پوری پوری قوموں کو تباہ کر ڈالا۔ آج وہ سب کچھ سامنے موجود ہے اور اس کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے لئے عذاب کا سامان بنا ہوا ہے۔‘‘

یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ مودودی صاحب اس آیت کریمہ کا اطلاق روز قیامت پر کرتے ہیں اور اس دَور میں پوری ہونے والی پیشگوئی کا ذکر نہیں کر رہے۔

جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تَرجمہ قرآن ’البیان‘ کے حواشی میں اس آیت کریمہ کی یہ تفسیر بیان کرتے ہیں :۱ اصل الفاظ ہیں: ’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ یعنی زمین جیسے کرۂ عظیم کے ساتھ تمہارے تصورات سے مافوق یہ حادثہ جس طرح پیش آناچاہیے، اُسی طرح پیش آئے گا۔ آیت میں یہ مضمون فعل زِلْزَالکے محض مفعول مطلق کے طور پر آنے سے نہیں، بلکہ زمین کی طرف اُس کے مضاف ہونے سے پیدا ہوا ہے۔

۲۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی قبروں کے مردے، اپنے خزینے اور دفینے اور مجرموں کے جرائم کی یادگاریں، سب اپنے اندر سے نکال کر باہر ڈال دے گی۔

۳۔یعنی انسان کے اعضا و جوارح کی طرح زمین بھی اُس روز گویا ہو گی اور اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں: ’’اِس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اِسی زمین کے اوپر یا نیچے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے یہ انسان کے اعمال و اقوال کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس طرح انسان کے اعضا و جوارح اور اُس کے بدن کے روئیں روئیں کو اُس کے خلاف گواہی دینے اور اُس کی زندگی کا ریکارڈ سنانے کے لیے گویا کر دے گا، اُسی طرح زمین کو بھی ناطق بنا دے گا کہ وہ ہر ایک کا ریکارڈ سنا دے۔‘‘(تدبرقرآن۹/۴۹۳)

۴۔اصل میں لفظ ’وَحْی‘استعمال ہوا ہے۔ یہ ایما اور اشارہ کے مفہوم میں ہے۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی یہ اِس معنی میں آیا ہے۔غامدی صاحب بھی اپنے ترجمہ قرآن کے ان حواشی میں ان آیات کے معانی کو روز قیامت رونما ہونے والے واقعات تک محدود کر کے بیان کرتے ہیں اور جو اس دور میں قرآن مجید کی یہ عظیم پیشگوئی ثابت ہوئی ہے اس کا ذکر نہیں کرتے اور نہ اس کی کوئی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کی طرف سے بیان کی جانے والی تفسیر کے حوالے درج کرنے کے علاوہ پرانے اور عصر حاضر کے مفسرین کی تفاسیر کے حوالے بھی لفظ بلفظ درج کر دیے گئے ہیں۔ کون سی تفسیر سے قرآن مجید کی عظمت زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور کن تفاسیر میں محض پرانے مفسرین کے بیان کردہ نکات کو بغیر کسی تحقیق کے درج کیا گیا ہے، یہ فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔

بد قسمتی سے چند سال سے مولوی حضرات کی طرف سے جماعت احمدیہ پر بار بار قرآن مجید میں معنوی تحریف کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس الزام کی حقیقت بھی اس قسم کے موازنہ سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ بعض مرتبہ محض قلت تدبر اور محض تقلید کی کوکھ سے بھی اس قسم کے بے بنیاد الزام جنم لیتے ہیں۔اس قسم کے مضامین قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ اس مضمون میں صرف ایک آیت کے صرف ایک پہلو پر محض چند حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ ہر نیا دور قرآن مجید کی صداقت کے نئے ثبوت مہیا کرتا چلا جائے گا۔اور یہ نئے ثبوت اپنے اپنے دور میں قرآن مجید کی عظمت کو مزید روشن کر کےدکھاتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button