متفرق

الفضل کے اجراء کا پس منظر

خلافت اولیٰ کے آغاز سے ہی منکرین خلافت کی طرف سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ خلافت کے اختیار ات کو کم کرنے اور مقام کو گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ انجمن کے سرکردہ ممبران مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کا دل سے احترام نہ کرتے۔احمدی احباب کو خلافت کے خلاف ابھارتے۔خلافت کے مقا م کو گرا کر بیان کرتے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی عظمت کو گرانے کی کوشش کرتے ۔انجمن کے اجلاسات میں خلیفۃ المسیح کے الفاظ کی جگہ ’’ خلیفہ صاحب‘‘ استعمال کرناشروع کردیا۔بعد میں ’’حضرت مولوی صاحب‘‘ استعمال کرتے۔بعد ازاں میرمجلس(پریزیڈنٹ) کےالفاظ استعمال شروع کردیے۔اس خطر ہ کو بھانپ کر حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو امیر مجلس مقرر کردیا۔

۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ میں حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تقریر کاوقت مقرر کرکے خلافت کے مقام کی ہتک کی گئی۔اس طرح حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ پربےجا اسراف اور فضول خرچی کے الزام لگائے گئے۔حضرت مرزابشیرالدین محمود احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پرانی رقابت کی وجہ سے الزامات لگائے گئے۔اس قدر مخالفت کی گئی کہ جھوٹ اور سچ اورصحیح اورغلط کی تمیز ناممکن تھی ۔ حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے شوریٰ بلائی۔ان لوگوں کو سمجھایا۔ آخر جنوری ۱۹۰۹ء میں ان کی بیعت کو فسخ فرمایا اور ان سے دوبارہ بیعت لی ۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ جنہوں نے قادیان میں خلافت کی تائید میں (حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اجازت کے بغیر)جلسہ خلافت منعقد کیاان کو بھی دوبارہ بیعت کاحکم ارشاد فرمایا۔۱۹۱۳ء میں ان لوگوں نے ایک انجمن بنائی جس کے تحت ایک اخبار نکالا جس کا نام ’پیغام صلح‘ رکھا۔

ان حالات میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ ، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے سلطان نصیر بن کر کھڑے ہو گئے اور ہر پہلو سے اپنے امام کی اطاعت اور فدائیت کے بے مثال نمونے پیش کیے۔ حضورؓ فرماتے ہیں: ’’اس کے بعد ۱۹۱۳ء آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بُعد اور نور نبوت سے علیحدگی نے جو بعض لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیا تھا ۔ اس نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ سلسلہ پاش پاش ہو جائے گا۔ نہایت تاریک منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔مستقبل نہایت تاریک نظر آتا تھا۔بہتوں کے دل بیٹھے جاتے تھے ۔ کئی ہمتیں ہارچکے تھے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو سلسلے کے کاموں کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو کسی شمار میں ہی نہ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پرجو عہد میں نے کیا تھا وہ بار بار مجھے اندر ہی اندر ہمت بلند کرنے کے لئے اکساتا تھا۔ مگر میں بے بس اور مجبور تھا ۔ میری کوششیں محدود تھیں۔ میں ایک پتے کی طرح تھا جسے سمندر میں موجیں ادھر سے ادھر لئے پھریں۔

’’بدر‘‘ اپنی مصحلتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا تھا اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں۔ بہت گراں گذرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا ۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو ابھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھی۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسے ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔ ( انوار العلوم جلد ۸ صفحہ ۳۶۹)

اس کے سرمایہ کے لیے جس مخلصین نے قربانی کی ۔ حضور ؓلکھتے ہیں: میری حرم اول نے مجھے دو زیور دئے۔ ایک ان کے اپنے استعمال کے لئے تھا اور ایک زیور انہوں نے ہماری بڑی بیٹی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ یہ زیور پونے پانچ سو روپے میں میں لاہور جا کر بیچ کر آیا۔ دوسری تحریک حضرت اماں جان ؓکے دل میں ہوئی جنہوں نے اپنی ایک زمین الفضل کے سرمایہ کے لئے دی جو ایک ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک ڈالی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحب تھے جنہوں نے کچھ نقد اور زمین کا ایک ٹکڑا الفضل کے لئے دیا ۔ یہ السابقون الاولون میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قیامت تک ان کی قربانیوں کو زندہ رکھے گا انشا اللہ تعالیٰ۔

(مرسلہ:مینیجر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button