خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ دسمبر2024ء
’’مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے ۔
اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے زینبؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا
’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ)
سریہ عُکَّاشہ بن مِحْصَن، سریہ محمد بن مسلمہ، سریہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح، سریہ زید بن حارثہ بطرف بنو سُلَیم، سریہ زید بن حارثہ بطرف عِیْص، غزوہ بَنُو لَحْیَان اورسریہ زید بن حارثہ بطرف طَرِف سمیت سنہ ۶؍ہجری میں پیش آنے والے بعض غزوات اور سرایاکے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
دنیا کے بگڑتے ہوئے سیاسی حالات اور آسمانی آفات کے تناظر میں دعاؤں کی تلقین
بظاہر اسلامی دنیا کے خلاف ان کے ارادے خطرناک لگتے ہیں اور اس لحاظ سے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے بھی اس حوالے سے دعا کیا کریں ۔
ایران کے لیے، باقی ملکوں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور شعور دے اور فرقہ واریت اور حکومت کی ہَوس ان میں ختم ہو جائے اور یہ ایک ہو جائیں
مکرم امیر حسن مرڑانی صاحب شہید (میرپورخاص سندھ پاکستان) اور مولانا عبدالستار رؤوف صاحب (مبلغ سلسلہ ملائیشیا ) کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ دسمبر2024ء بمطابق20؍ فتح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو غزوات اور سرایا کے واقعات کے حوالے سے
بیان ہو رہے ہیں ۔ اس تعلق میں
سَرِیہَّ عُکَّاشہَ بن مِحْصِن
کا بھی تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ عکاشہ بن محصن کا غَمْر مَرْزُوْقکی جانب ہے۔ یہ سریہ ربیع الاوّل چھ ہجری میں ہوا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 77دارالکتب العلمیۃ بیروت)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ’’آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک مہاجر صحابی عکاشہ بن مِحصن ؓ کو چالیس مسلمانوں پر افسر بنا کر قبیلہ بنی اسدکے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ اس وقت ایک چشمہ کے قریب ڈیرہ ڈالے پڑا تھا جس کا نام غَمْر تھا جو مدینہ سے مکہ کی سمت میں چند دن کے فاصلہ پر واقع تھا۔ عکاشہ کی پارٹی جلدی جلدی سفر کر کے غمر کے قریب پہنچی تا کہ انہیں شرارت سے روکا جا سکے ۔‘‘ جو منصوبہ بنا رہے تھے وہ لوگ اس سے روکا جائے۔ ’’تو معلوم ہوا کہ قبیلہ کے لوگ مسلمانوں کی خبر پاکر اِدھر اُدھر منتشر ہوگئے تھے۔ اس پر عکاشہؓ اور اس کے ساتھی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 666)
اسی طرح
سریہ محمد بن مَسْلَمہ
کا ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ ربیع الثانی چھ ہجری کو پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو بنو ثَعْلَبَہ اور بَنُو عُوَال کی طرف بھیجا جو ذُوالقَصَّہ میں رہتے تھے۔اور ذوالقصہ مدینہ سے رَبَذَہ کے راستے پر چوبیس میل کے فاصلے پر ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 65، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو دس آدمی دے کر بھیجا۔ یہ جماعت رات کے وقت وہاں پہنچی۔ ان لوگوں نے حضرت محمد بن مسلمہؓ اور آپ کے ساتھیوں کو گھیر لیا اس حال میں کہ یہ سوئے ہوئے تھے اور دشمن کے سو آدمی تھے۔ مسلمانوں کو اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک کہ دشمن نے ان کا تیروں سے محاصرہ نہ کر لیا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ جلدی سے اٹھے اور آپ کے پاس کمان تھی۔ آپ نے اپنے ساتھیوں میں زور سے آواز لگائی کہ ہتھیار سنبھال لو۔ وہ سب بھی جلدی سے اٹھے۔ رات کی ایک گھڑی تیر اندازی ہوتی رہی۔ کچھ وقت تک تیر اندازی آپس میں ہوئی۔ پھر بدوؤں نے نیزوں سے حملہ کر کے باقی سب کو شہید کر دیا اور حضرت محمد بن مسلمہؓ زخمی ہو کر گر پڑے۔ آپ کے ٹخنے پر ایسی چوٹ لگی کہ آپ حرکت نہیں کر سکتے تھے اور ان لوگوں نے آپ کے کپڑے اتار لیے اور چلے گئے۔ ایک مسلمان آدمی کا مقتولین پر سے گزر ہوا اس نے اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا۔ جب حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کو سنا تو حرکت کی۔ اس نے آپؓ کو کھانا دیا اور آپؓ کو سواری پر بٹھا کر مدینہ لے آیا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 79دارالکتب العلمیۃ بیروت)
محمد بن مسلمہؓ کے ساتھیوں کی شہادت کے ذمہ دار دشمنوں سے بدلہ کے لیے بھی ایک سریے کا ذکر ملتا ہے ۔
یہ
سَرِیہَّ حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاح
کہلاتا ہے۔ اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہےکہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان حالات کا علم ہوا۔‘‘ یعنی ذُوالقَصَّہ میں محمد بن مسلمہؓ کے ساتھیوں کی شہادت کا علم ہوا ’’تو آپؐ نے ابوعبیدہ بن الجراح ؓکو جو قریش میں سے تھے اور کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے محمد بن مسلمہؓ کے انتقام کے لیے ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا اور چونکہ اس عرصہ میں یہ بھی اطلاع موصول ہو چکی تھی کہ قبیلہ بنوثعلبہ کے لوگ مدینہ کے مضافات پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے آپؐ نے ابوعبیدہؓ کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت بھجوائی اور حکم دیا کہ راتوں رات سفر کرکے صبح کے وقت وہاں تک پہنچ جائیں ۔ ابوعُبَیدہؓ نے تعمیل ارشاد میں یلغار کر کے عین صبح کی نماز کے وقت انہیں جا دبایا اور وہ اس اچانک حملہ سے گھبرا کر تھوڑے سے مقابلہ کے بعد بھاگ نکلے اور قریب کی پہاڑیوں میں غائب ہو گئے۔ ابوعُبَیدہؓ نے مال غنیمت پر قبضہ کیا اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔
اس مہم میں جن دو صحابہؓ کا ذکر ہے یعنی محمد بن مَسْلَمہؓ اور ابوعبیدہؓ بن الجراح وہ دونوں کبار صحابہ میں سے تھے۔ محمد بن مسلمہؓ اپنے ذاتی اوصاف اور قابلیت کے علاوہ قتل کعب بن اشرف یہودی کے ہیرو تھے کیونکہ یہ مفسد انہی کے ہاتھ سے اپنے کیفر کردار کوپہنچا تھا۔ محمد بن مسلمہؓ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمرؓ کی خلافت میں ان کے خاص معتمد سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ عموماً انہی کواپنے عُمَّال کی شکایتوں کی تحقیق کے لیے بھجوایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان ؓکی وفات کے بعد جب مسلمانوں میں اندرونی فتنوں کا دروازہ کھلا تو محمد بن مسلمہؓ نے اپنی تلوار کو ایک پتھر پر توڑ کر اپنے ہاتھ میں صرف ایک چھڑی لے لی اور جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہی سنا ہوا ہے کہ جب مسلمانوں کے اندر باہمی قتل وغارت کا دروازہ کھلے تو تم تلوار کو توڑ کر گھر میں اس طرح دبک کر بیٹھ جانا جس طرح کسی کمرہ میں اس کا فرش پڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ حکم غالباً محمد بن مسلمہؓ کے لیے یا اس فتنہ کے لیے خاص تھا ورنہ بعض اوقات اندرونی فتنوں کامقابلہ بھی ایک اعلیٰ دینی خدمت کا رنگ رکھتا ہے۔
دوسرے صحابی ابوعبیدہؓ بن الجراح تھے۔ یہ چوٹی کے صحابہ میں سے تھے اور قریشی تھے۔ ان کی رفعتِ شان اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
انہیں امین المِلَّت کا خطاب عطا فرمایا تھا
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جن دو صحابہ کو خلافت کا اہل سمجھا تھا ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔ ابوعبیدہ ؓحضرت عمرؓ کے عہد میں مرض طاعون سے وفات پا کر شہید ہوئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 668-669)
پھر ایک سَرِیہَّ ہے
سَرِیہَّ زید بن حارِثہَ جو بنو سُلَیم کی طرف بھیجا گیا۔
اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓلکھتے ہیں کہ ’’ماہ ربیع الآخر 6؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زیدبن حارثہ ؓکی امارت میں چند مسلمانوں کو قبیلہ بنی سُلَیم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ اس وقت نجد کے علاقہ میں بمقام جَمُوم آباد تھا اور ایک عرصہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکار چلا آتا تھا۔ چنانچہ غزوہ خندق میں بھی اس قبیلہ نے مسلمانوں کے خلاف نمایاں حصہ لیا تھا۔ جب زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھی جَمُوم میں پہنچے جو مدینہ سے قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر تھا تو اسے خالی پایا مگر انہیں قبیلہ مُزَیْنَہ کی ایک عورت حلیمہ نامی سے جو مخالفین اسلام میں سے تھی اس جگہ کاپتہ لگ گیا جہاں اس وقت قبیلہ بنوسلیم کا ایک حصہ اپنے مویشی چرا رہا تھا۔ چنانچہ اس اطلاع سے فائدہ اٹھا کر زید بن حارثہؓ نے اس جگہ پر چھاپا مارا۔ اس اچانک حملہ سے گھبرا کر اکثر لوگ ادھر ادھر بھاگ کرمنتشر ہوگئے مگر چندقیدی اورمویشی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے جنہیں وہ لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔ اتفاق سے ان قیدیوں میں حلیمہ کا خاوند بھی تھا اور ہرچند کہ وہ حربی مخالف تھا‘‘جنگ لڑنے والا تھا۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ کی اس امداد کی وجہ سے‘‘یعنی جو اس نے معلومات مہیا کی تھیں اس کی وجہ سے ’’نہ صرف حلیمہ کو بلا فدیہ آزاد کر دیا بلکہ اس کے خاوند کوبھی احسان کے طور پر چھوڑ دیا اور حلیمہ اور اس کا خاوند خوشی خوشی اپنے وطن کو واپس چلے گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 669)
اسی طرح
سریہ زید بن حارثہ کا ذکر ملتا ہے جو عِیْصْ کی طرف بھیجا گیا۔
اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیین میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جُمَادیَ الاولیٰ‘‘چھ ہجری’’کے مہینہ میں انہیں‘‘یعنی زید بن حارثہ ؓکو ’’ایک سو ستّر صحابہ کی کمان میں پھر مدینہ سے روانہ فرمایا۔ اس مہم کی وجہ اہلِ سِیَر نے‘‘سیرت لکھنے والوں نے ’’یہ لکھی ہے کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کاایک قافلہ آرہا تھا اس کی روک تھام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستہ کو روانہ فرمایا تھا … قریش کے قافلے ہمیشہ مسلح ہوتے تھے اور مکہ اورشام کے درمیان آتے جاتے ہوئے وہ مدینہ کے بالکل قریب سے گزرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی طرف سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔ علاوہ ازیں … یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے تھے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف عداوت کی ایک خطرناک آگ مشتعل ہوچکی تھی اس لیے ان کی روک تھام ضروری تھی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کی خبر پا کر زید بن حارثہ ؓکواس طرف روانہ فرمایا اور وہ اس ہوشیاری سے گھات لگاتے ہوئے بڑھے کہ بمقام عِیْص قافلہ کو جا دبایا۔ عِیْص ایک جگہ کانام ہے جو مدینہ سے چار دن کی مسافت پر سمندر کی جانب واقع ہے چونکہ یہ اچانک حملہ تھا اہل قافلہ مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنے سازوسامان کوچھوڑ کر بھاگ نکلے۔ زید ؓنے بعض قیدی پکڑ کراورسامان قافلہ اپنے قبضہ میں لے کر مدینہ کی راہ لی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 670 )
ان واقعات میں
اَبُوالْعَاص بن رَبِیع کے قید ہونے اور قبول اسلام
کا بھی ذکر ملتا ہے۔
اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے ابوالعاص بن ربیع تجارت کی غرض سے اپنا مال اور قریش کے لوگوں کے مالوں کو لے کر شام کی طرف نکلا۔ جب تجارت سے فارغ ہو گیا اور قافلے کو لے کر واپس لوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لشکر سے سامنا ہوا۔ صحابہؓ نے اس کے پاس موجود سارا سامان اپنے قبضہ میں لے لیا اور قافلے کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔
ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت زیدؓ نے اس قافلے کو جس میں ابوالعاص بھی تھا گرفتار کیا اور انہیں مدینہ لے آئے۔
امام زُہری اورابن عُقْبَہ کے نزدیک اَبُوبَصِیرؓ، ابو جَنْدلؓ اور ان دونوں کے ساتھیوں نے ابوالعاص کے اس قافلے سے مال پکڑا اور ان کو قیدی بنایا۔ ان کا ٹھکانہ سِیْفُ البحر تھا۔ سِیْفُ البحر کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ۔یہ عیص کے نواح میں سمندر کا ساحل تھا۔ آپ دونوں نے ان قافلے والوں میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوالعاص کا سسرالی رشتہ تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوالعاص سریہ والوں سے یعنی زید بن حارثہ کے لشکر سے بھاگ گیا۔ جب مسلمان اس قافلے کے اموال لے کر واپس آ گئے تو ابوالعاص رات کو مدینہ آیا یہاں تک کہ اپنی زوجہ حضرت زینبؓ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپؓ سے پناہ طلب کی۔ حضرت زینبؓ نے ابوالعاص کو پناہ دے دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکبیر کہی تو حضرت زینبؓ نے صُفَّةُ النِّسَاء جو عورتوں کے لیے جگہ تھی، وہاں سے زور سے آواز لگائی اور ایک روایت میں ہے کہ آپؓ نے اپنے دروازے پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا: اے لوگو! میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو!کیا تم نے وہ سنا جو میں نے بھی سنا۔ انہوں نے عرض کیا ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اس ذات کی قَسم!جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! میں اس امر میں سے کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا۔ مجھے اس کا پہلے نہیں پتہ تھا۔ ابھی حضرت زینب سے ہی سنا ہے حتیٰ کہ میں نے وہ سنا ہے جو تم نے بھی سنا ہے۔ مسلمان اپنے دشمن کے خلاف ایک ہاتھ ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا کہ
مسلمان اپنے دشمن کے خلاف ایک ہاتھ ہیں ۔ ان کا ادنیٰ شخص بھی پناہ دے سکتا ہے
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو زینب نے پناہ دی۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے تو حضرت زینبؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہوئیں اور ابوالعاص سے جو کچھ چھینا گیا تھا اسے لوٹانے کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے بیٹی! اس کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو لیکن وہ تمہیں خلوت میں نہ ملے۔ بیشک تم اس کے لیے حلال نہیں ہو کیونکہ وہ کافر ہے اور تم مسلمان ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سریہ والوں کی طرف پیغام بھیجا جنہوں نے ابوالعاص سے مال لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا۔یہ شخص ہم میں سے ہے جیسا کہ تم جانتے ہو۔ یعنی کہ رشتہ داری ہے میرے ساتھ اس کی اور تم نے اس سے مال چھینا ہے۔ اگر تم احسان کرو اور اس کا مال اس کو لوٹا دو۔ حکم نہیں دیا آپؐ نے۔ فرمایا کہ احسان کرو اور اس کا مال اس کو لوٹا دو تو یہ ہمیں پسند ہے اور اگر تم انکار کر دو تو یہ اللہ تعالیٰ کی غنیمت ہے جو اس نے تمہیں دی ہے۔ مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اور تم اس کے زیادہ حقدار ہو۔ تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم یہ مال اس کو واپس لوٹاتے ہیں ۔
ابن عقبہ نے لکھا ہے کہ ابوالعاص نے حضرت زینبؓ سے اپنے ان ساتھیوں کے بارے میں بات کی جن کو ابوبصیرؓ اور ابوجندلؓ نے قید کیا تھا اور ان سے مال لے لیا تھا۔ حضرت زینبؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں بات کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ہم نے چند لوگوں کو داماد بنایا اور ہم نے ابوالعاص کو بھی داماد بنایا۔ اور اس کو ہم نے اچھا داماد پایا۔ وہ شام سے اپنے چند قریشی ساتھیوں کے ساتھ آ رہا تھا۔ ابوجندل اور ابوبصیر نے ان کو پکڑ لیا اور ان کو قیدی بنایا اور ان کے پاس جو کچھ تھا اسے چھین لیا اور ان میں سے کسی ایک کو قتل نہ کیا اور زینب نے مجھ سے سوال کیا کہ میں اس کو پناہ دوں ۔ کیا تم ابوالعاص اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دیتے ہو؟ تو لوگوں نے کہا جی ہاں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ابوجندلؓ اور آپ کے ساتھیوں کو ابوالعاص اور اس کے قید ساتھیوں کے بارے میں پہنچا تو انہوں نے سب کو آزاد کر دیا اور ہر چیز ان کی طرف لوٹا دی یہاں تک کہ رسی بھی لوٹا دی۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر کے نزدیک
صحابہؓ نے ان کی ہر چیز لوٹا دی یہاں تک کہ کوئی آدمی ڈول لے کر آ رہا تھا ،کوئی مشک اور کوئی لوٹا لے کر آ رہا تھا اور کوئی کجاوہ کی لکڑی لے کر آ رہا تھا۔ انہوں نے سب کچھ قیدیوں سمیت واپس کر دیا اور اس میں سے کوئی چیز بھی گم نہ پائی۔
پھر ابوالعاص مال لے کر مکہ کی طرف چلا گیا اور ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا۔ پھر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مکہ والوں کے سامنے ابوالعاص نے کہا کہ اے اہل مکہ !کیا تم میں سے کسی ایک کا کوئی مال میرے پاس باقی رہ گیا جسے اس نے نہ لیا ہو؟ اے اہل مکہ !کیا میں نے اپنی ذمہ داری کو پورا پورا ادا کر دیا ؟تو ان سب نے کہا ہاں ۔ اللہ تعالیٰ تجھے بہتر بدلہ دے ہم نے تجھے بہت اچھا وفادار پایا ہے۔ تب ابوالعاص نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز مجھے اسلام لانے سے نہیں روک سکتی تھی۔ یعنی جب میں مدینہ تھا وہاں بھی اسلام لا سکتا تھا لیکن مجھے ڈر ہوا کہ تم گمان کرو گے کہ میں نے تمہارے اموال کھانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان اموال کو تمہاری طرف پہنچا دیا۔ جو امانتیں تھیں میں نے تمہیں واپس کر دیں اور میں ان سے فارغ ہو گیا تو میں اسلام لے آیا۔ پھر وہاں سے چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آ گئے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 83-84دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(ماخوذ از طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ 66، 67دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ160 زوار اکیڈمی کراچی)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ’’ان قیدیوں میں جو سریہ بطرف عِیْص میں پکڑے گئے ابوالعاص بن الربیع بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اورحضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ اس سے قبل وہ جنگِ بدر میں بھی قید ہوکر آئے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس شرط پرچھوڑ دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کرآپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں گے۔ ابوالعاص نے اس وعدہ کو پورا توکردیا تھا مگر وہ خود ابھی تک شرک پرقائم تھے۔ جب زید بن حارثہ انہیں قید کرکے مدینہ میں لائے تورات کا وقت تھا مگر کسی طرح ابوالعاص نے حضرت زینبؓ کو اطلاع بھجوا دی کہ میں اس طرح قید ہوکر یہاں پہنچ گیا ہوں تم اگرمیرے لیے کچھ کرسکتی ہو تو کرو۔ چنانچہ عین اسی وقت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ صبح کی نماز میں مصروف تھے زینبؓ نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کرکہا کہ ’’اے مسلمانو! میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ ؓکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ ’’جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہو گا۔ واللہ! مجھے اس کا علم نہیں تھا مگر
مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے زینبؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا
’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں ۔‘‘
اور جو مال اس مہم میں ابوالعاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا۔ پھر آپ گھر میں تشریف لائے اور اپنی صاحبزادی زینبؓ سے فرمایا ’’ابوالعاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو مگر اس کے ساتھ خلوت میں مت ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے۔‘‘چند روز مدینہ میں قیام کرکے ابوالعاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہو گئے جس پر آپؐ نے حضرت زینبؓ کوان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا۔‘‘ یعنی اب ان کواجازت دے دی کہ وہ بیوی کے طور پر رہ سکتی ہیں ۔’’…بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ اور ابوالعاص کا دوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا مگر پہلی روایت زیادہ مضبوط اور صحیح ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 670-671)
حضرت ابوالعاصؓ کا تجارتی کاروبار مکہ میں تھا اس لیے وہ مدینہ میں قیام نہ کر سکتے تھے۔چنانچہ قبول اسلام کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر پھر مکہ لوٹ آئے۔ مکہ کے قیام کی وجہ سے انہیں غزوات میں شرکت کا موقع نہ مل سکا۔ صرف ایک سریہ میں جو دس ہجری میں حضرت علی ؓکی سرکردگی میں بھیجا گیا تھا اس میں شریک ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے یمن سے واپسی میں انہیں یمن کا عامل بنایا تھا۔ حضرت زینبؓ کے آٹھ ہجری میں انتقال کے بعد ابوالعاص بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور بارہ ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔
(سیرالصحابہ جلد4 صفحہ 491 دار الاشاعت کراچی)
(اسدالغابۃ جلد 6 صفحہ 182-183 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد7صفحہ 132 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر ایک غزوہ کا ذکر ملتا ہے جو
غزوہ بنو لَحْیَان
کہلاتا ہے۔ یہ نام لِحیان اور لَحیان دونوں طرح آتا ہے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 677 حاشیہ)
بنو لحیان بنو ھُذَیل کی ایک شاخ تھے۔ مکہ سے تین مرحلوں پر وادی عُسْفَان تھی جس کے شمال مشرق میں پانچ میل کے فاصلے پر وادی غُرَانْ میں بنو لحیان رہتے تھے۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6صفحہ 30 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
( فرہنگ سیرت صفحہ 200،219 زوار اکیڈمی کراچی)
غزوہ بنو لحیان کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ کس مہینے اور سال میں ہوا۔
علامہ ابن سعد کے مطابق یہ غزوہ ربیع الاول چھ ہجری کے بالکل آغاز میں ہوا۔ محمد بن عمر کے مطابق رجب چھ ہجری اور علامہ ابن اسحاق کے مطابق یہ غزوہ، غزوہ بنو قریظہ کے چھ ماہ بعد جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں ہوا۔ علامہ حاکم نے اسے ماہ شعبان کا غزوہ لکھا ہے۔ علامہ ابن حزم نے پانچ ہجری، علامہ ذھبی نے چھ ہجری اور بعض سیرت نگاروں نے اسے چار ہجری کا غزوہ لکھا ہے۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ 30، 31دار الکتب العلمیۃ بیروت)
( سیرۃ النبیؐ لابن ہشام صفحہ 663دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں اسے جمادی الاولیٰ چھ ہجری بمطابق ستمبر 627ء کا غزوہ لکھا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ
’’غزوہ بنولحیان کی تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے۔ ابن سعد نے اسے ربیع الاول چھ ہجری میں بیان کیا ہے مگر ابن اسحاق اور طبری نے تصریح کی ہے کہ وہ جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں ہوا تھا۔‘‘آپؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اس جگہ ابن اسحاق کی پیروی کی ہے‘‘ یعنی ان کے نزدیک وہ صحیح ہے۔’’واللہ اعلم‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 674 ، 676)
غزوہ بنو لحیان کے پس منظر
کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اصحاب رَجِیْع کے المناک واقعہ کا حوالہ دے کر ذکر کرتے ہیں کہ
’’اس موقع پردس بے گناہ مسلمان جواسلام کی پُرامن تبلیغ کے لیے بھجوائے گئے تھے نہایت بےدردی اور دھوکے کے ساتھ قتل کردئے گئے تھے اور اس سارے فتنہ کی تہ میں بنولحیان کا ہاتھ تھا جو اس زمانہ میں مکہ اورمدینہ کے درمیان وادی غُرَان میں آباد تھے۔ طبعاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کاسخت صدمہ تھا اور چونکہ بنولحیان کا رویہ ابھی تک اسی طرح معاندانہ اور مفسدانہ تھا اور ان کی طرف سے آئندہ کے لیے بھی اندیشہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کسی مزید فتنہ انگیزی کاباعث نہ بنیں اس لیے آپؐ نے انتظامی لحاظ سے مناسب خیال فرمایا کہ ان کی کسی قدرگوشمالی ہوجائے تاکم از کم آئندہ کے لیے مسلمان ان کے فتنوں سے محفوظ ہو جائیں ۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 674 ، 675 )
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن اُمِّ مکتوم کو مدینہ پر نائب مقرر کیا۔ اس گوشمالی کی مہم کے لیے آپ نکلے اور ابن اُمِّ مکتوم ؓکو نائب مقرر کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دو سو صحابہؓ اور بیس گھوڑے لے کر مدینہ سے شمال کی طرف شام کے رستے پر روانہ ہوئے جبکہ بنو لحیان مدینہ کے جنوب میں حجاز میں مکہ کے رستے کے قریب رہتے تھے۔ شمال کی طرف جانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ بنو لحیان پر ان کی لاعلمی میں اچانک حملہ کرنا چاہتے تھے تا کہ وہ حملہ کی اطلاع پا کر کہیں بھاگ نہ جائیں ۔ اسی مقصد کے لیے آپؐ نے ایسا رستہ استعمال کیا جو عام طور پر استعمال نہ ہوتا تھا اور تیزی سے سفر کرتے ہوئے بنو لحیان کی بستی غران میں پہنچ گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شہید ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے شہید صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کی۔ بنو لحیان کو آپؐ کے آنے کا علم ہوا تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف بھاگ گئے۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی نہ پکڑا گیا۔
(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6صفحہ 30 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الرحیق المختوم صفحہ 284)
آپؐ نے ایک یا دو دن وہاں قیام فرمایا اور ہر طرف گروہ روانہ کئے لیکن پھر بھی کوئی نہ پکڑا گیا۔’’آپؐ نے منزل مقصود پرپہنچ کروہاں کچھ وقت قیام فرمایا اور روایت آتی ہے کہ
جب اس سفر میں آپؐ اس مقام پرپہنچے جہاں آپؐ کے صحابہؓ شہید کئے گئے تھے تو آپؐ پرسخت رقت طاری ہو گئی اور آپؐ نے نہایت الحاح کے ساتھ ان شہداء کے لیے دعا مانگی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 675)
پھر لکھا ہے کہ جب بنو لحیان پر اچانک حملے کا ارادہ ان کے پہاڑوں پر بھاگ جانے کی وجہ سے پورا نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عُسْفَان تک گئے تا کہ مکہ والے سمجھیں کہ آپؐ مکہ آنے والے ہیں لہٰذا آپ اپنے صحابہؓ کے ساتھ عُسْفَان چلے گئے۔ ابن اسحاق کے مطابق پھر آپ نے دو گھڑ سوار بھیجے اور ابن سعد کے مطابق آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو دس گھڑسواروں کے ساتھ بھیجا تا کہ قریش ان کے بارے میں سنیں اور ان سے خوفزدہ ہو جائیں ۔ حضرت ابوبکر کُرَاعُ الغَمِیْم تک گئے جو عسفان سے آٹھ میل پر ایک وادی ہے پھر حضرت ابوبکر عسفان کی طرف واپس آ گئے اورکسی سے ان کا سامنا نہ ہوا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ واپسی کا سفر شروع کیا اور چودہ دن باہر رہنے کے بعد واپس آ گئے۔
(ماخوذ ازسبل الھدیٰ و الرشاد جلد6صفحہ30دارالکتب العلمیۃ 1993ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 243 زوار اکیڈمی کراچی)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ’’واپسی سفر کے دوران میں آپؐ نے ایک دعا فرمائی جسے بعد میں مسلمان اپنے اہم سفروں سے واپسی کے موقع پر عموماً پڑھا کرتے تھے۔وہ دعایہ ہے۔
آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَاحَامِدُوْنَ۔ یعنی ’’ہم لوگ اپنے خدا کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ اسی کی طرف جھکنے والے۔ اسی کی عبادت کرنے والے۔ اسی کے سامنے گرنے والے اوراپنے ربّ کی تعریف کے گیت گانے والے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے بعد کے سفروں میں عموماً یہ دعافرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے ساتھ یہ الفاظ زیادہ فرماتے تھے کہ
صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَنَصَرَعَبْدَہٗ وَحَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ۔
یعنی ’’ہمارے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا اوراپنے بندے کی نصرت فرمائی اور دشمن کے لشکروں کو خود اپنے دم سے پسپا کر دیا۔‘‘
یہ دعا جوغزوہ بنولَحْیَان کے تعلق میں اہل سِیَر نے بیان کی ہے اور محدثین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اپنے اندر ایک خاص کیفیت کی حامل ہے اور اس کے مطالعہ سے ان جذبات کے اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے جو اس پُر آشوب زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فِدَاہُ نَفْسِی کے قلب مطہر میں موجزن تھے اور جنہیں آپؐ اپنے صحابہ کے اندر پیدا کرنا چاہتے تھے۔
اس دعا میں یہ تڑپ مخفی ہے کہ دشمن کی طرف سے جوروک مسلمانوں کی عبادت گزاری اور اسلام کی پُرامن تبلیغ کے رستے میں ڈالی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ اسے دورفرمائے اور جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اس روک کو دور کیا ہے اس پر شکر گزاری کاگیت گایا گیا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے ایک نہایت دل پسند کام میں منہمک ہو اور پھر یکلخت کوئی دوسرا شخص اس کے کام میں مخل ہو کر اس کی توجہ کومنتشر کر دے مگر کچھ وقت کے بعد خدائی فضل کے ماتحت یہ روک دور ہو جائے اور وہ شخص پھراپنے محبوب مشغلہ میں مصروف ہونے کا موقع پا لے۔ ایسے موقع پر جو جذبات اس شخص کے دل میں اٹھیں گے وہی اس دعا میں مخفی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
ہم اس سفر کی عارضی رخنہ اندازی سے آزاد ہو کر پھر اس کیفیت کی طرف واپس آرہے ہیں کہ جس میں ہم اپنے خدا کی یاد میں وقت گزار سکیں گے اور اس کی حمد کے گیت گانے کاموقع پائیں گے۔ ہاں وہی خدا جو اس سے پہلے بھی متعدد موقعوں پرہمیں دشمن کے فتنہ سے محفوظ کرکے امن عطا کرتا رہا ہے۔ یہ جذبہ کیسامبارک اور کیسا دلکش اور کیسا پُرامن ہے!
مگر افسوس کہ پھربھی بعض دشمنان اسلام اعتراض سے باز نہیں آتے اور یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کی اصل غرض جارحانہ فوج کشی اور دنیا طلبی تھی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 675 ، 676)
پھر ایک سریہ
سریہ زید بن حارثہ
ہے۔ یہ سریہ جُمَادیَ الآخِر چھ ہجری میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو بنو ثعلبہ بن سعد کی جانب طَرِف مقام کی طرف بھیجا۔ طَرِف بنو ثعلبہ کے ایک کنویں کا نام ہے جو عراق کے رستے میں مدینہ سے چھتیس میل دور ہے۔ حضرت زید بن حارثہؓ پندرہ آدمیوں کے ہمراہ نکلے یہاں تک کہ جب طَرِف میں پہنچے تو وہاں اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ لیا اور وہاں پر موجود بادیہ نشین ڈر گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چل پڑے ہیں اور وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جانوروں کو ہانک کر مدینہ لے آئے۔ بنو ثعلبہ کے لوگ ان صحابہ ؓکی تلاش میں نکلے لیکن وہ صحابہ ؓکو نہ پکڑ سکے۔ صحابہ ؓکل بیس اونٹ لے کر آئے۔ چار راتیں اس مہم کے لیے باہر رہے اور لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ اس سریہ میں مسلمانوں کا شعار اَمِتْ اَمِتْ تھا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ87دارالکتب العلمیۃ بیروت)
باقی انشاء اللہ آئندہ۔
آجکل جو دنیا کے حالات ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ شام میں جو حالات ابھرے ہیں جو ابھی واضح نہیں ہیں ۔ کہنے کو تو ایک ظالم جابر حکومت ختم ہوئی لیکن دعا کریں کہ آنے والی حکومت بھی انصاف سے کام لینے والی ہو۔
یہ آنے والے کہتے تو بہت ہیں کہ ہم انصاف کریں گے لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جب طاقت مل جائے تو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ان علاقوں کے احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
تجزیہ نگار تو لکھتے ہیں کہ عوام بظاہر ظلم ختم ہونے پر خوشیاں منا رہے ہیں لیکن آئندہ کیا ہو گا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اسی طرح اسرائیل بھی ان علاقوں پر بلا وجہ حملہ کر رہا ہے ۔
بظاہر اسلامی دنیا کے خلاف ان کے ارادے خطرناک لگتے ہیں اور اس لحاظ سے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے بھی اس حوالے سے دعا کیا کریں ، ایران کے لیے، باقی ملکوں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور شعور دے اور فرقہ واریت اور حکومت کی ہوس ان میں ختم ہو جائے اور یہ ایک ہو جائیں ۔
اگر اس طرح کی یہی حرکتیں مسلمانوں کی طرف سے جاری رہیں تو پھر ایسے ظالموں کی اللہ تعالیٰ کس طرح مدد کر سکتا ہے جو اپنے لوگوں کو ہی مار رہے ہوں ؟ بہرحال بہت دعائیں کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ احمدی نہ تو ان نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ ہیں نہ ہی غیروں کے ہاتھ سے جو مسلمانوں کے خلاف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے۔
اسی طرح
دنیا میں آجکل طوفان بھی بہت آ رہے ہیں ۔ گذشتہ دنوں مایوٹ (Mayotte) میں طوفان آیا
وہاں بھی احمدی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں اور جماعت بھی وہاں خدمت کر رہی ہے اور اس کو وہاں حکومت نے بھی سراہا ہے۔ اور جہاں لوگ کھانا منہ مانگے دام بیچ رہے ہیں اور بھوکوں کو کھانا نہیں مل رہا وہاں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت کر رہی ہے اور کھانا کھلا رہی ہے لیکن بہرحال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان جزیروں کو آسمانی آفات سے محفوظ رکھے۔
اس کے بعد، نماز کے بعد، میں
جنازے
پڑھاؤں گا ۔ یہ
پہلا جنازہ امیر حسن مرڑانی صاحب شہید کا ہے
یہ دُر محمد صاحب، نصرت آباد (ضلع میر پور خاص) کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں انہیں شہید کر دیا گیا۔اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مسجد سے گھر جارہے تھے ۔ فائرنگ کر کے انہیں شہید کیا گیا۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں والدہ اور اہلیہ اور دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ۔ بہن بھائی ہیں ۔
تفصیل کے مطابق امیر حسن صاحب 13؍دسمبر کی صبح نماز تہجد اور نماز فجر کی باجماعت ادائیگی کے بعد واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ ان کے بیٹے عزیز تیمور عمر بارہ سال بھی ہمراہ تھے۔ ان کے گھر اور مسجد کے درمیان ایک سڑک ہے۔ انہوں نے سڑک ابھی کراس ہی کی تھی کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار افراد جو پہلے سے وہاں موجود تھے اپنے چہرے ڈھانکے ہوئے تھے۔ انہوں نے قریب آ کے نام پوچھا۔ شناخت ہونے پر فائرنگ کر دی۔ شہید مرحوم کو پانچ گولیاں لگیں جس کے نتیجہ میں موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اس کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے۔ ان کے بیٹے عزیز تیمور کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں محفوظ رکھا۔بیٹے نے نہایت ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے احباب جماعت کو وقوعہ کی اطلاع دی۔
مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑنانا مکرم دھنی بخش صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا، جنہوں نے 1937ء میں خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم کے دادا احمدی نہیں تھے لیکن باقی خاندان نے، چچاؤں نے احمدیت قبول کر لی ۔ شہید مرحوم کے والد دُر محمد نے خلافت ثانیہ کے دور میں 1964ء میں بیعت کی تھی مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے ذریعہ سےجو اُن دنوں میں وہاں تھے اور زمیندارہ کرتے تھے ، شہید کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور کچھ عرصہ سے نصرت آباد میں بطور سیکیورٹی گارڈ بھی ڈیوٹی دے رہے تھے۔ مرحوم کو قائد مجلس خدام الاحمدیہ کی خدمت کی توفیق ملی اور وقت شہادت سیکرٹری وقف نو کی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ خلافت سے اخلاص و وفا کا بڑا تعلق تھا۔ مہمان نواز تھے ۔حلیم طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ہمارے لیے یہ بڑا اعزاز ہے کہ میرے بیٹے کو شہادت ملی۔ مجھے تو اگر دوسرا بیٹا بھی قربان کرنا پڑے تو جماعت کے لیےقربان کر دوں ۔ بڑے حوصلے والی ماں ہیں۔ ان کے والد فوت ہوئے تو اس کے بعد ہمیشہ بہن بھائیوں کا خیال رکھتے تھے ۔کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ ہمسائیگی میں ایک غیر احمدی خاتون تھی جو نابینا تھی۔ اس کی بکریوں کواور اس کے بچوں کا خیال رکھتے۔ ان کے بچوں کو سکول لے کے جاتے ۔ نماز باجماعت کے بڑے پابند تھے۔
امیر صاحب ضلع میر پور خاص لکھتے ہیں کہ ہر جماعتی پروگرام کے لیے سارے کام چھوڑ کر ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتے تھے اور گذشتہ ایک ماہ سے کہتے ہیں کہ مرحوم میں نمایاں تبدیلی میں نے دیکھی ہے کہ فجر سے پہلے آ کر مسجد کھولنا ،نوافل ادا کرنا روزانہ کا معمول تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایک نئے امیر حسن نے جنم لیا ہے۔
خالد بلوچ جامعہ کے استاد ہیں، ان کے رشتہ دار ہیں۔کہتے ہیں ان کی خوبیوں میں بہادری اور دوسروں کے کام آنا بہت زیادہ ہے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہمیشہ روحانی امور زیر بحث لاتے۔ اکثر خدا اور بندے کے تعلق کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے اس بات پر بات کرتے۔
ایک اَور مربی صاحب ہیں لکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں ان کے غیر از جماعت لوگوں سے اچھے تعلقات تھے۔ ان کی وفات پر دُور دُور سے لوگ اظہارِ تعزیت کے لیے آئے اور سبھی کایہ کہنا تھا کہ یہ سب سے پیار محبت کرنے والا وجود تھا۔ ہر کسی کا مشکل میں ساتھ دینے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، درجات بلند کرے، ان کے بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
دوسرا جنازے کا ذکر ہے
مکرم مولانا عبدالستار رؤوف صاحب مبلغ سلسلہ ملائیشیا۔
یہ بھی گذشتہ دنوں پچھتر (75)سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 15؍جنوری 1973ء میں ان کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔اکتوبر 77ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ مبشر کا کورس مکمل کیا۔ مختلف ممالک میں خدمت کی توفیق پائی۔ بطور مبلغ 85ء میں انڈونیشیا میں ان کا تقرر ہوا۔ پھر فجی بھیجا گیا، وہاں کچھ سال رہے۔ پھر انڈونیشیا چلے گئے۔ پھر ملائیشیا بھیجا گیا وہاں تبلیغ کی۔ پھر ویتنام ان کا تقرر ہوا وہاں چند سال رہے۔ پھر انہوں نے ملائیشیا خدمت کی توفیق پائی ۔ اور بڑے خدمت کرنے والے تھے۔ ان کے لواحقین میں اہلیہ ،ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں ۔ ان کے جاننے والے لکھتے ہیں کہ جماعت کے لیے مکمل طور پر وقف تھے اور احباب جماعت کو بھی قربانیوں کی اور وقف کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ بہت پیار کرنے والے اور ہر ایک کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے والے انسان تھے۔ تبلیغی کوششوں سے کئی لوگوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کرتے۔ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ دوسرے ملکوں میں جا کر جماعت کی خدمت کے لیے کہا جاتا تو اپنی بیوی اور بچوں کو پیچھے چھوڑ کر بغیر کسی فکر کے چلے جاتے تھے اور ہمہ وقت جماعت کے لیے قربانی کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ،درجات بلند فرمائے ۔ ان کے بچوں کو بھی یہ نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔
(الفضل انٹرنیشنل۱۰؍جنوری۲۰۲۵ء، صفحہ ۲تا۶)