متفرق مضامین

اِنْ شَاءَ اللّٰہ

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

خیر و برکت عطا کرنے والا کلمہ

’’ان شاءاللہ کہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انسان کے تمام معاملات اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ وہ طرح طرح کی مصائب اور مکارِہ وموانع میں گھرا ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ جو کچھ ارادہ اس نے کیا ہے وہ پورا نہ ہو۔ پس ان شاءاللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے مدد طلب کی جاتی ہے۔ آج کل کے ناعاقبت اندیشن و نادان لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

مسلمان دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہیں جنہیں زندگی کے ہر معاملے میں زندہ خدا، زندہ کتاب قرآن کریم اور زندہ رسولﷺ کی راہنمائی حاصل ہے۔ قرآن کریم ایک کامل و مکمل کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول وضوابط موجود ہیں۔ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اُس کے اِذن کی محتاج ہے۔کوئی بھی کام اُس کے ارادے اور منشا کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔اس لیےوہ ہر کام شروع کرنے سے پہلےاُس کا نام لیتا ہےاور اُس کی مدد چاہتا ہے تاکہ اُس کام میں برکت شامل ہوجائے۔ اگروہ مستقبل میں کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے قرآن کریم نے اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کے مبارک الفاظ سکھلائے ہیں تاکہ عالم الغیب خدا اُس کام کو بہتر طریق پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمادے۔ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ ایک کلمۂ خیر ہے جسے ادا کرتے ہوئے انسان کواپنی کمزوری اور کم مائیگی کا احساس رہتا ہے اور وہ اپنے آسمانی آقاجَلَّ شَانُہُ کوتمام طاقتوں اور قوتوں کا سر چشمہ جانتے ہوئے اُس کی بلند شان کا اظہار واقرار کرنے لگتاہے۔ پس انسان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ عاجزی اختیار کرےاور فروتنی کے ساتھ اُس کی اطاعت و بندگی میں لگا رہے تاکہ اُس کی قربتوں کا سفر تادم آخر جاری رہے۔

اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کے معنی ہیں:اگر اللہ چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں اس جملہ، فقرہ یا اصطلاح کو متعدد جگہوں پر استعمال کرتے ہوئے اپنے بندوں کومستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان مبارک الفاظ کو اپنے ارادے کے ساتھ شامل کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : وَلَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَاذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَقُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا۔ (الکہف:۲۵،۲۴) اور ہرگز کسی چیز سے متعلق یہ نہ کہا کر کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔ سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ اور جب تُو بھول جائے تو اپنے ربّ کو یاد کیا کر اور کہہ دے کہ بعید نہیں کہ میرا ربّ اس سے زیادہ درست بات کی طرف میری راہنمائی کردے۔یعنی مستقبل کے بارے میں کوئی بھی بات کہنے یا ارادہ باندھنے سے پہلے اِنْ شَاءَ اللہ کہہ لیا کرواور اگر کبھی بھول جاؤ تو جس وقت یاد آئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرلیا کرو۔ قال ابن عباس: معناہ اذا نسیت الاستثناء ثم ذکرت فاستثن وجوز ابن عباس الاستثناء المنقطع، وان کان بعد سنۃ (تفسیر الخازن، الکھف، تحت الآیۃ:۲۴) حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھول جاؤ توجب بھی یاد آئے(اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ) کہہ لیا کرو،آپؓ فرماتے ہیں کہ خواہ سال بعد ہی یاد آئے تو کہہ لے۔ غرض بھول جانے کی صورت میں جب بھی یاد آئے اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہہ لینا چاہیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جہاں کہیں خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا خیال نہ ہو۔ نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی ہے۔ جنہوں نے اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (یوسف:۱۳) اِنَّا لَہٗ لَنَاصِحُوْنَ (یوسف:۱۲) اِنَّا لَفَاعِلُوْنَ (یوسف:۶۲) وغیرہ الفاظ کے ساتھ دعویٰ کیا۔ مگر کہیں وفا نہ ہوا۔ ‘‘(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۰؍مارچ ۱۹۱۰ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد ۳صفحہ ۱۰)

اسی طرح آپؓ فرماتے ہیں:’’اس سے بڑھ کر دُکھ کی کہانی ایک ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہماالصلوٰۃ والسلام کے نام سے عام مسلمان واقف ہیں۔ مگر سلیمان علیہ السلام کے بیٹے کے نام کی وہ شہرت نہیں جو باپ دادا کی ہے۔ اور پوتے کا نام تو قریباً معدوم ہے۔ حدیث میں اس راز کا ذکر ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میری بیویاں بہت ہیں۔ ان سے بڑی اولاد اور عظیم الشان لوگ پیدا ہوں گے۔ اس دعویٰ کے ساتھ ان شاءاللہ نہ کہا۔ نتیجہ خراب ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اپنی ہجرت کے ارادے کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان شاءاللہ کہہ لو۔‘‘(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷تا۲۴؍مارچ ۱۹۱۰ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد ۳صفحہ ۱۰) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے مندرجہ بالا ارشاد میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے اُ س کے آخر پر یہ الفاظ مذکور ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ قَالَ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ لَجَاھَدُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ (صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیربَاب مَنْ طَلَبَ الْوَلَدَ لِلْجِھَادِ حدیث:۲۸۱۹) اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد ؐکی جان ہے اگر وہ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ کہتے تو سب کے سب (پیدا ہوتے اور) سوار ہوکر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔ گویا جس کام کو ارادۂ الٰہی کے ساتھ نہ جوڑا جائے وہ کام بے برکت ہوجاتا ہے۔

قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا(الدھر:۳۱) اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے (کہ ہو جائے) سوائے اس کے کہ (وہی) اللہ چاہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) صاحبِ حکمت ہے نیز فرمایا ہے: وَمَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (التکویر:۳۰) اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ چاہے، تمام جہانوں کا ربّ۔پس اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ بہت ہی بابرکت کلمہ ہے اس لیے مستقبل کے لیے ارادہ یا نیت کرتے وقت اس کلمہ خیر کو پڑھ لینا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام میں خیر اور برکت شامل فرمادے اور وہ بخیروخوبی انجام پذیر ہوجائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ان شاءاللہ کہنا نہایت ضروری ہے کیونکہ انسان کے تمام معاملات اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ وہ طرح طرح کی مصائب اور مکارِہ وموانع میں گھرا ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ جو کچھ ارادہ اس نے کیا ہے وہ پورا نہ ہو۔ پس ان شاءاللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے مدد طلب کی جاتی ہے۔ آج کل کے ناعاقبت اندیش و نادان لوگ اس پر ہنسی اڑاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱۰صفحہ۳۲۰۔ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ یوکے۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہنا سنّتِ انبیاءہے: قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہنا سنّتِ انبیاء ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ پیارےبندے اپنے ہر ارادے اور کسی بھی مقصد کے حصول سے پہلے اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ ضرور کہا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے: قَالَ اِنَّمَا یَاۡتِیۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ اِنۡ شَآءَ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ(ھود:۳۴)اس نے کہا یقیناً اللہ ہی اُسے لیے ہوئے تمہارے پاس آئے گا اگر وہ چاہے گا۔ اور تم کبھی (اُسے) عاجز کرنے والے نہیں ہوسکتے۔سورت کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّلَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا (الکہف:۷۰) اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو مجھے تُو صبر کرنے والا پائے گا اور میں کسی امر میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ وَقَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۔(یوسف:۱۰۰) پس جب وہ یوسف کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے اپنے والدین کو اپنے قریب جگہ دی اور کہا کہ اگر اللہ چاہے تو مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئےاُن کے سُسرکی طرف سے اِنْ شَاءَ اللہ کے استعمال کے متعلق فرمایا: قَالَ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُنۡکِحَکَ اِحۡدَی ابۡنَتَیَّ ہٰتَیۡنِ عَلٰۤی اَنۡ تَاۡجُرَنِیۡ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَمَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (الْقَصَص:۲۸) اس نے (موسیٰ سے) کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی اِن دونوں بیٹیوں میں سے ایک تجھ سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تُو آٹھ سال میری خدمت کرے۔ پس اگر تُو دس پورے کردے تو یہ تیری طرف سے (طوعی طور پر) ہوگا اور میں تجھ پر کسی قسم کی سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ چاہے تو تُو مجھے نیک لوگوں میں سے پائے گا۔سورت بقرہ میں بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان ہونے والے مکالمے میں بھی اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے: قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَاِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ(البقرۃ:۷۱) انہوں نے کہا اپنے ربّ سے ہماری خاطر دعا کر کہ وہ ہم پر (مزید) واضح کرے کہ وہ کیا ہے؟ یقیناً سب گائیاں ہم پر مشتبہ ہوگئی ہیں۔ اور ہم یقیناً اِنْ شَاءاللہ ضرور ہدایت پانے والے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰیؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ (الصّٰٓفّٰتِ:۱۰۳) پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمرکو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتاہے۔ یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔اللہ تعالیٰ نے سورت فتح میں رسول کریمﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَمُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَاتَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا (الفتح:۲۸) یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رؤیا حق کے ساتھ پوری کردکھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کروگے۔ پس وہ اس کا علم رکھتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے۔ پس اس نے اس کے علاوہ قریب ہی ایک اَور فتح مقدر کردی ہے۔

قرآن کریم کے متعدد مقامات پر مسابقت فی الخیرات کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ مومنین نیکی، تقویٰ، خیر اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اس ذریعہ سے ایک حسین معاشرے کا قیام عمل میں آجائے۔اس لیے سابِق بالخیرات بننا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی ہمارا مقدر بن جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے: وَلِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ (البقرۃ:۱۴۹)اور ہر ایک کے لیے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے :وَسَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَجَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ (اٰلِ عِمْرٰن:۱۳۴) اور اپنے ربّ کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔ وہ متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

قرآن کریم نے مومنوں کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ(الْمُؤْمِنُوْنَ:۶۲)یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ اُن میں سبقت لے جانے والے ہیں۔

اسلام ایک عالمگیر دین ہے جس کی تعلیم دنیا کے تمام انسانوں کے لیے نازل کی گئی ہے اس لیے اسلامی تعلیم میں تنگ نظری کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ دنیا کا ہر انسان اسلام کی تعلیم پر ایمان لاسکتا ہے اور جو ایمان نہ لانا چاہے وہ بھی اس کے جس حصے پر چاہے عمل کر سکتا ہے اُس پر کسی قسم کی قدغن یا پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے بے شمار انسان اسلامی اصطلاحات کا برملا استعمال کرتے اور اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر عمل کرتے ہیں۔ خاص طورپرعرب معاشرے میں اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اور دیگر اسلامی اصطلاحات کا استعمال عام ہے۔جہاں صرف مسلمان ہی یہ اصطلاحات استعمال نہیں کرتے بلکہ عیسائی عرب اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے عرب اور غیر عرب اپنی روز مرہ زندگی میں اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے آسمانی آقا نےہمارے لیےنیکیوں کے جوبے شمار مواقع پیدا فرمائے ہیں ہم اُن سے فائدہ اُٹھائیں اورخیر اوربرکت عطا کرنے والے تمام الفاظ اور کلمات جو قرآن کریم اور رسول کریمﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،اُنہیں اپنی زندگیوں کا لازمی جزو بنالیں۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سالِ نو کااستقبال

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button