میری اہلیہ صالحہ یاسمین تبسم کا ذکر خیر
۲۴؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کو میرے چمن سے وہ شجر ہی اکھڑگیا جس کا سایہ ہم سب کے لیے ایک بیش بہا نعمت تھا یعنی میری اہلیہ صالحہ یاسمین تبسم ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر راہیٔ ملکِ عدم ہوئیں۔ ہر انسان میں گونا گوں خصوصیات ہوتی ہیں۔ اور ان پہ کوئی اظہار کرنا چاہیے تو کتاب بن جائے۔ اور ہر انسان اس قابل ہوتا ہے کہ اس کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی صفاتِ حسنہ کو اجاگر کیا جائے۔میری شریک حیات صالحہ یاسمین صاحبہ ۱۹۸۵ء میں میرے عقد میں آئیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرحومہ نے کمال وفا اور محبت سے اپنا عہدِ نبھایا۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری بیگم نے نماز اور روزہ میں کوتاہی کی ہو۔ ساری زندگی ہر ممکن طور پر تہجد کی بھی پابند رہیں۔ خاص طور پر آخری ایام میں تو باوجود شدید بیماری کے تہجد میں ناغہ نہیں ہونے دیتی تھیں۔ تلاوت قرآن پاک صرف صبح باقاعدگی سے نہیں بلکہ سونے سے قبل بھی ہمیشہ سورۂ یاسین جو زبانی یاد تھی اور سورۃالتغابن پڑھے بغیر نہیں سوتی تھیں۔ چاروں بچوں کو سترہ سے اٹھارہ سورتیں ازبر کروائیں۔ جن کی اکثر دہرائی بھی کرواتی رہتی تھیں۔ اپنے چندہ جات اور جماعتی پروگراموں میں شامل ہونے اور بچوں کو بھی شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتیں۔ دینی اور سماجی ہر لحاظ سے میری اہلیہ ایک مثالی خاتون تھیں۔ مرحومہ نے گھر، گھر گرہستی اور خانہ داری کو بھی گویا مذہب ہی کی طرح پورے احترام سے نبھایا۔گھر کی صفائی کچھ ایسے کہ ہمیشہ الطَّہُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا۔ مہمان نوازی کا وصف کچھ ایسا امتیازی تھا کہ جس کا ہمارا ہر عزیز اور ملنے والا معترف تھا۔ شہر میولہائم میں رہائش کے دوران نوّے کی دہائی میں ایک بزرگ عباسی صاحب کو شفٹ ہونے کے کچھ مہینوں کے بعد پہلی ملاقات پہ میں نے اپنا تعارف کروایا تو فرمانے لگے کہ اچھا وہ جس گھر میں بہت دعوتیں ہوتی ہیں، آپ کا ہے۔ گھروں میں دعوت کے لیے گھر کی عورت کا ایک خاص کردار ہوتا ہے۔ جس پہ مجھے ہمیشہ فخر رہا کہ میں نے جب بھی کسی کو دعوت دی، انہوں نے ہمیشہ اسے اپنے لیے سعادت سمجھا اور ہر مہمان کی مہمان نوازی میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ خصوصاًمیں اکثر تبلیغی غرض سے اپنے جرمن، اٹالین اورترک دوستوں کو گھر پہ دعوت دیتا رہتا تھا تو کمال احترام اور محبت سے دعوت کا اہتمام کرتیں۔ عزیزوں اور رشتہ داروں سے تو محبت کا ایک ایسا رشتہ استوار کررکھا تھا جسے مثالی کہا جا سکتا ہے۔میری معمولی تنخواہ پہ اپنے مکان کی خرید کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا مگر مرحومہ کی خواہش پہ اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بھی دی تو انتہائی قناعت کے ساتھ گھر کے اخراجات کو اس طرح چلایا کہ کبھی مالی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مرحومہ کو اپنی ذات کے لیے کوئی خواہش یا فرمائش کی عادت ہی نہیں تھی۔ بلکہ فرمائش کی عادت سے تو کلیۃً مبرا تھیں۔ اور جو مل جائے اسی پہ خوش ہوجاتی تھیں۔ اگر کبھی چندے کی ادائیگی میں مجھ سے سستی ہو جاتی اور رقم کہیں اورخرچ ہو جاتی تو اس بات خاصا ناراض ہوتیں کہ تنخواہ ملتے ہی پہلے چندہ کیوں ادا نہیں کر دیا۔جان لیوا بیماری کی تشخیص اگرچہ وفات سے تین سال قبل ہوگئی تھی مگر کبھی حوصلہ نہیں ہارا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گھر میں فعال اور باہر سیر، جو اُن کی تیس سالہ عادت تھی، میں مزید اضافہ کر دیا۔ سیر کے دوران ہمیشہ درود شریف اور قرآنی دعاؤں سے کبھی غافل نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی میں ساتھ ہوتا تو بتاتیں کہ فلاں جگہ سے لے کر فلاں جگہ تک میں اتنی بار درود شریف پڑھ لیتی ہوں۔ سارا راستہ دعاؤں اور درود پہ تقسیم کررکھا تھا۔ یہ شغف گھر میں بھی ہمیشہ زیرِ لب جاری رہتا۔ قوتِ ارادی ایسی کہ فوت ہونے سے تین ہفتے قبل بھی سیر پہ جانے پہ مصر تھیں اور گھر کے پاس ہی چند باغیچوں کے ارد گرد جو آدھا کلومیٹر بنتا ہے، دو تین چکر انتہائی کمزوری کی حالت ہونے کے باوجود لگائے۔ اکثر کہا کرتیں کہ میں اپنی روٹین میں کمی نہیں ہونے دوں گی۔ اس مرض سے لڑنے کا یہی ہتھیار ہے کہ کبھی ہار نہیں مانوں گی۔قوتِ برداشت ایسی کہ کسی معمولی تکلیف کی کبھی پروا ہی نہیں کی۔ مجھے یاد نہیں کہ مرض الموت کے آخری چھ ماہ سے قبل کبھی مجھے یہ کہا ہو کہ میری طبیعت خراب ہے، خود ہی کچھ پکا لو۔ اور ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو میں چلتے پھرتے دیکھ کر بہت حیران ہوتا۔ وفات سے قبل فقط دو دن ایسے تھے کہ بستر سے نہیں اٹھ سکیں۔ اتنی کمزوری کے باوجود خود کو محرک رکھا اور کسی لمحے بھی ہمت نہیں ہاری۔ آخری ایام میں اکثر بڑی حسرت سے مجھے کہا کرتیں کہ بجائے اس کے کہ میں آپ کی خدمت کرتی، الٹاآخری وقت میں آپ کو میری خدمت کرنی پڑ گئی۔ تقدیر پہ زور نہیں۔ یہ حقِ خدمت تو میاں بیوی دونوں کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے، میرا جواب ہوتا تھا۔مرحومہ کی تعلیم مڈل سے میٹرک کے درمیان تھی۔ انگلش سے قطعی ناواقف تھیں اور بہت مطالعہ کی عادت نہ ہونے کے باوجود جرمن زبان کا وہ کورس جس کے بغیر جرمن شہریت کا حصول ممکن نہیں تھا، اپنی پہلی ہی کوشش سے پاس کر کے دماغی لیاقت کا ثبوت دیا۔
؎ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
آپ موصیہ تھیں اور زود فریڈھوف فرینکفرٹ میں امانتاً مدفون ہوئیں۔میری بہن بشریٰ حبیب از پیرس لکھتی ہیں:ہماری بہت ہی پیاری بھابھی جان چند دن پہلے ہمیشہ کے لیے ہمیں داغ مفارقت دے گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ وہ بہت خوبیوں کی مالک خاتون تھیں۔ بہت نیک اور سادہ مزاج تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے آپ سے منسلک ہر رشتے کا ایمانداری سے حق ادا کیا۔ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی۔میں ۱۹۸۵ء میں شادی کے بعد فرانس آئی تو اس کے چند ماہ بعد وہ بھی شادی کے بعد جرمنی آگئیں۔ اس وقت میرے قریبی رشتہ داروں میں سب سے قریبی رشتہ میرے بھائی بھابھی کا تھا۔ میں ہر سال گرمیوں کی تعطیلات میں اور جلسہ سالانہ کے موقع پر انہی کے گھر قیام کرتی۔ ہمارے بچوں کی عمروں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ بھابھی جان سب سے بہت پیار سے پیش آتیں اور ہماری مہمان داری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی تھیں۔ ان سینتیس یا اڑتیس سالوں میں مَیں نے انہیں کبھی کسی کو ڈانٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سب کے ساتھ ہمیشہ شفقت کا سلوک کیا۔ اور یہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ یہی وطیرہ تھا۔ان گزرے برسوں میں بہت سے بھانجے بھتیجے جو روزگار کے سلسلہ میں جرمنی آتے رہے، ان کو نہ صرف اپنے گھر بلکہ دل میں جگہ دی اور بعض کے خود رشتے کروائے اور شادیوں کا انتظام کروایا۔میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ میرے ساتھ بڑی بہنوں کی طرح ہمیشہ شفقت کا سلوک کیا۔ کئی گھریلو معاملات میں میری راہنمائی کی اور نصائح بھی کیں، جو ہمیشہ میرے کام آئیں۔ اگر سب لکھنے لگوں تو بہت سے صفحات بھر جائیں گے۔ وہ ہماری فیملی کے لیے ایک نافع الناس وجود تھیں۔
(مبشراحمد تبسم۔جرمنی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: سابقون الاولون سپاہی