الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت مولانا ظفر محمد ظفر صاحب

حضرت مولانا ظفر محمد ظفرصاحب کے بارے میں ذاتی مشاہدات پر مبنی ایک دلچسپ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۷؍جنوری ۲۰۱۴ء میں آپ کے شاگرد مکرم محمد نواز مومن صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔

٭…ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے ’’حرف محرمانہ‘‘کے نام سے ایک کتاب جماعت کے خلاف لکھی اور اس میں بےجا تعلّی سے کام لیتے ہوئے یہ چیلنج بھی دیا کہ دنیا کی کسی زبان میں کوئی ایسا مضاف موجود نہیں جو مضاف الیہ کا مالک ہو اور پھر ایک لمبی فہرست دے کر اپنے چیلنج کومبرہن کیا۔

۱۹۵۵ء کی ایک سرد صبح استاذی المحترم میرے کمرے میںتشریف لائے اور فرمایا کرسی دھوپ میں رکھ دو مَیں اس چیلنج کا جواب لکھنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے تعمیل کی۔ آپ نے برق صاحب کو لکھا کہ میں نے آپ کے چیلنج کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ کا قرآن کریم کا قطعاً کوئی مطالعہ نہیں ہے۔ آپ ذرا سورہ فاتحہ کا مطالعہ کیجیے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اس میں رَبّ مضاف ہے اور الْعَالَمِیْنَ مضاف الیہ ہے اور رَبّ جو مضاف ہے، وہ الْعَالَمِیْنَ کا مالک اور خالق ہے۔ پھر فرماتا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ اس میں مٰلِکِ مضاف ہے اور یَوْمِ الدِّیْنَمضاف الیہ ہے۔ اس میں بھی مضاف، مضاف الیہ کا مالک اور خالق ہے۔ پھر آپ نے رَبِّ النَّاسْ، مٰلِکِ النَّاسْ، اِلٰہِ النَّاسْ، رَبِّ الْفَلَقْ وغیرہ بےشمارمثالیںپیش کرکے برق صاحب کو رجسٹرڈ خط میں یہ شعر بھی لکھا ؎

جو تُو دل لگا کے پڑھ لے سخن ہائے عارفانہ
تجھے بھول جائے یکسر تیرا حرفِ محرمانہ

برق صاحب نے آپ کے اس علمی محاسبہ کا جواب تو نہ دیا لیکن اپنی کتاب ’’رمز ایمان‘‘ (اشاعت ۱۹۷۶ء)میں اعترافات کے زیر عنوان اپنی بعض علمی لغزشوں کا اعتراف کرلیا جس میں مذکورہ غلطی بھی شامل تھی۔

ازاں بعدمحترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے ’’حرف محرمانہ‘‘ کا جواب ’’تحقیق عارفانہ‘‘کے نام سے دیا۔ یہ نام بھی محترم مولانا ظفر صاحب کا ہی تجویز کردہ تھا۔ نیز آپ نے ’’حرف محرمانہ‘‘کے جواب میںجو نوٹس لکھے ہوئے تھے وہ بھی قاضی صاحب کے سپرد کر دیے۔

٭…علم عروض ایک خاصا مشکل علم ہے مگر استاذی المحترم اس علم میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے۔ خاکسار جب فاضل عربی کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو ایک دن میں نے آپ سے عرض کیا کہ علم عروض کو پانچ دائروں میں بیان کیا گیا ہے اور ہر دائرے میں متعدد بحریں ہیں پھر ان کے مختلف اوزان ہیں جن کے یاد کرنے میں خاصی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ مجھے کوئی ایسا طریق بتائیں جس سے فوراً دائرے کا پتا چل جائے اور بحر بھی معلوم ہو جائے اور اس کا وزن بھی معلوم ہو جائے۔ آپ نے تبسم فرمایا اور باہر کی طرف چل دیے ۔ پھر ایک دن صبح صبح تشریف لائے اور فرمایا:آپ کی الجھن کو میں نے حل کر دیا ہے۔قلم لے آئو اور لکھو۔ آپ نے مجھے پانچ اشعار لکھوائے جن میں دائرے کا نام بھی تھا اور اس میں جو بحریں استعمال ہوتی ہیں ان کے نام بھی تھے اور ان کے اوزان معلوم کرنے کا طریق بھی تھا۔ میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق جب ان اشعار کی آزمائش کی تو علم عروض میرے لیے اس قدر آسان ہو گیا کہ چند دن کی مشق کے بعد میں خود کو عروضی خیال کرنے لگا۔

٭…علم و فضل کے علاوہ آپ اپنے کردار و عمل کے لحاظ سے بھی ایک نادرۂ روزگار شخصیت تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بےانتہا توکل تھا۔ باوجود عسرت کے آپ نے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا ؎

پیش ارباب کرم، ہاتھ وہ کیا پھیلاتا
جس کو تنکے کا بھی احسان گوارا نہ ہوا

ایک دفعہ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل صاحب نے سٹاف کو حکم دیا کہ وہ اچکن پہن کر جامعہ آیا کریں۔ آپ کے پاس کپڑا تھا اور نہ سلائی کے لیے رقم تھی۔ بعض ممبران نے آپ سے کہا کہ فلاں جگہ سے بلاقیمت کوٹ مل سکتا ہے۔ لیکن آپ نے وہاں جانا پسند نہ کیا۔ پھر اپنی کس مپرسی پر نظر کرتے ہوئے آپ رات کواٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور باچشم تر عرض کیا: میرے مولیٰ!تو میری دلی کیفیت سے خوب آگاہ ہے کہ میں کسی کے سامنے سوال کرنے کا عادی نہیں اب تُو ہی میرا انتظام کر۔ اگلے روز ہی بذریعہ ڈاک سنگاپور سے مولوی غلام حسین صاحب ایاز کا ایک پارسل آپ کے نام آیا جس میں اچکن کا کپڑا تھا۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ ایاز صاحب نے پندرہ بیس سال میں آپ کو کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ پھر سلائی کی رقم کا انتظام یوں ہوگیا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک مؤکل آپ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ اس سے فیس لے کر اس کا مقدمہ لڑیں۔ چنانچہ اس شخص کی فیس سے آپ نے اچکن سلوا لی۔

٭… غالباً ۱۹۴۱ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام آپ نے مبارکہ بیگم رکھا ۔ قضائے الٰہی سے وہ بچی فوت ہو گئی ، غم کا ہونا تو طبعی بات تھی۔ اس وقت آپ نہایت عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے ، اس غم نے آپ کو مزید پریشان کر دیا۔ مگر قربان جائیے آپ کے ثبات و استقلال کے جب بچی کی تدفین سے فارغ ہو کر آپ گھر آئے تو بیگم صاحبہ سے فرمایا۔ آج گوشت پکائو اور نہایت لذیذ پکائو۔پھر کھانا کھاکر فرمایا: ہمیں مبارکہ بیگم کی وفات کا غم ضرور ہے لیکن ہم وہی بات کریں گے جس سے ہمارا ربّ راضی ہو۔

٭…اللہ تعالیٰ نے آپ کو نفس مطمئنہ عطا فرمایا تھا جو کسی بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی پریشان نہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ آپ کی اکلوتی صاحبزادی کا خاوند رات گئے آپ کے ہاں آیا۔ آپ سوئے ہوئے تھے۔ اُس نے آپ کو جگایاتو آپ نے پوچھا : اس وقت آنے کی کیا و جہ ہے؟ اس نے کہا: مَیں آپ کی بیٹی کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: دے دو۔ اُس نے طلاق نامہ آپ کے ہاتھ میں تھمایا اور چل دیا ۔ آپ نے طلاق نامہ تکیے کے نیچے رکھا اور سو گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو فرمایا: جو ہونا تھا ہوچکا، ہم کیوں پریشان ہوں، جس بات سے ہمارا ربّ راضی ہے ہم بھی اسی سے راضی ہیں۔

آپ نے سچ کہا ہے ؎

کتنا ہے خوش نصیب ظفؔر آج تک جسے
دنیا کے حادثات پریشاں نہ کر سکے

٭…ایک دفعہ آپ کے بھتیجے خان محمد نے اپنے بڑے بھائی محمود خان پر کلہاڑی سے وار کیا جس سے اسے گہرا زخم آیا۔ لیکن لواحقین نے تھانے جاکر کچھ مخالف لوگوں کے خلاف پرچہ دے دیا کہ انہوں نے ہمارے آدمی پر حملہ کیا ہے۔ آپ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو آپ تھانے گئے اور تھانیدار سے کہنے لگے جن کو آپ نے گرفتار کیا ہے یہ سب بےگناہ ہیں اور اصل مجرم میرا بھتیجا ہے۔ تھانیدار آپ کی صاف گوئی پر حیران رہ گیا اور اس نے آپ کے لیے پنکھا اور مشروب منگوایا اور آپ کی حق گوئی کے طفیل فریقین کے درمیان مصالحت کرا دی۔

٭…اسی تعلق میں ایک اَور واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک احمدی نے ایک غیر ازجماعت دوست سے کچھ رقم لینی تھی آپ کے بیٹے برادرم ناصر احمد ظفر نے وہ رقم لے کر ایک آدمی کے پاس بطور امانت رکھوا دی۔ احمدی دوست نے خیال کیا کہ ناصر احمد رقم خردبرد کر گیا ہے۔ اس نے استا ذی المحترم سے کہا کہ ناصر احمد مجھے رقم نہیں دیتا ۔ آپ نے اسے مشورہ دیا کہ آپ دارالقضاء میں ناصر احمد کے خلاف دعویٰ دائر کر دیں ۔ چنانچہ اس نے دارالقضاء میں ناصر احمد کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ پہلی پیشی پر ہی قضاء نے ناصر احمد کو بری کر دیا کیونکہ جس کے پاس رقم بطور امانت پڑی تھی اس نے کہا کہ یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے، رقم میرے پاس موجود ہے۔

اگرچہ آپ کو اپنے لخت جگر کے بارے میں یقین تھا کہ وہ ایسی حرکت نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی آپ نے مدعی کے سامنے اپنے بیٹے کی بریت نہیں کی اور نہ ہی کوئی صفائی پیش کی بلکہ اسے دعویٰ دائر کرنے کا مشورہ دیا کہ اگر وہ خطا کار ہے تو اسے سزا ملے اور اگر بے گناہ ہے تو اس کی سچائی آشکار ہو۔

٭…حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے بچو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہن رسا عطا فرمایا تھا اور آپ حاضر دماغی میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خلیفہ بننے سے دس بارہ سال قبل آپ نے فرمایا کہ مجھے مقطعات قرآنی سے معلوم ہوا ہے کہ چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ہوں گے۔

٭…اسی طرح مولوی محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم ابھی طالب علم تھے کہ ایک روز استاذی المحترم نے انہیں فرمایا: تم ناظر امورعامہ بنوگے اور تمہیں کار بھی ملے گی۔ آپ نے یہ بات انہیں اس وقت بتائی جب کسی ناظر کے پاس شاید سائیکل بھی نہیں تھی۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ ۴۰-۳۵سال بعد مولوی محمد شفیع اشرف صاحب ناظر امورعامہ بنے اور انہیں کار بھی ملی۔

٭…آپ خشک زاہد نہ تھے بلکہ بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دفعہ آپ بحری جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ کچھ علماء حضرات بھی اس میں سوار تھے وہ آپس میں علمی گفتگو کرنے لگے تو آپ بھی ان میں شامل ہوگئے، ایک مولوی نے دوسرے سے پوچھا۔ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ اس نے کہا میں سکندرنامہ پڑھا ہوا ہوں۔ سب لوگ اس کی عبقریت سے مرعوب ہو کر خاموش ہو گئے۔ پھر اُن میں سے ایک نے استاذی المحترم سے پوچھا آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ آپ نے کہا مَیں قواعداللغۃ العربیۃ المصریۃ پڑھا ہوا ہوں۔ وہ بھی لمبا تڑنگا نام سن کر دم بخود رہ گئے اور کہنے لگے واقعی آپ بہت بڑے عالم ہیں ۔حالانکہ عربی گرائمر کی یہ کتاب جامعہ احمدیہ کی دوسری یا تیسری کلاس میں پڑھائی جاتی تھی۔

٭…آپ کی قوت حافظہ اس قدر تیز تھی کہ آپ کو اپنے بچپن کے واقعات بھی یاد تھے۔ آپ نے ایک د فعہ مجھے بتایا کہ مجھے اپنی والدہ کا دودھ پینا بھی یاد ہے۔

٭…فاضل عربی کے کورس میں حماسہ اور متنبی ، ادب کی دو ضخیم کتابیں ہیں جن کے مجموعی صفحات ڈیڑھ ہزار کے قریب ہوں گے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان دونوں کتابوں سے کوئی ایک مصرع پڑھو اور اس کا دوسرا مصرع میں آپ کو سنادوں گا اور واقعی بات ایسے ہی تھی ۔

٭…اشعار کا منظوم ترجمہ کرنے کے فن میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔ پڑھاتے ہوئے عربی زبان کے اشعار کا منظوم ترجمہ بھی کیا کرتے تھے۔

٭…آپ کی شاعری ، شریعت کی حدود اور اخلاقی قیود کی پابند تھی اور آپ نے اس سے تبلیغ کا کام لیا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی، نعتیں کہیں۔ قرآن کریم کی مدح کی اور ان کے علاوہ بہت سے قیمتی مضامین کو اپنے اشعار میں بیان کیا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اگر لوگ زمین و آسمان کی پیدائش اور سیارگان فلک کے متعلق غور و فکر کریں تو انہیں پتا چل جائے گا کہ یہ سبھی چیزیں توحید الٰہی کا اعلان کررہی ہیں۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎

زبانِ حال سے ہر آن دے رہے ہیں صدا
نجوم و شمس و قمر، لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ

دورِ نبوت سے لے کر مسلمان شعراء نے حضرت نبی کریمﷺ کی مدح کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ایسے اشعار لکھے ہیںکہ ان کی مثال نہیں ملتی ۔ آپ کی ایک ایسی ہی نعت سے تین بند پیش ہیں جن سے واضح ہو گا کہ آپ فن نعت گوئی میں بھی امام تھے۔ آپ فرماتے ہیں ؎

موسوی اعجاز انۡشَقّ الحجر
دونوں میں ہے قدرتِ حق جلوہ گر
کعبۃ اللہ میں جو رکھے تھے صنم
کر دئیے اُن سب کے تُو نے سر قلم
الغرض جتنے ہوئے پیغامبر
تُو ہے جامع سب کا قصہ مختصر

آپ نے قرآن کریم کی مدح میں بھی بے مثال اشعار رقم فرمائے ہیں ، تین اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎

قرآن پاک جہان میں تو وہ بے مثال کتاب ہے
جو کمالِ حسن و جمال میں فقط آپ اپنا جواب ہے
تری آیہ آیہ کے ربط میں ترے امر و نہی کے ضبط میں
مری زندگی کا ہے ضابطہ مری بندگی کا نصاب ہے
تو کلامِ ربِّ خبیر ہے تو نشانِ شانِ قدیر ہے
تِرا کر سکے جو معارضہ بھلا کس غریب کی تاب ہے

جماعت احمدیہ کے ساتھ آپ کو قلبی وابستگی تھی ایک دفعہ بعض وجوہ کی بِنا پر آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے حکم سے اپنے وطن جانا پڑا۔ وہاں سے آپ نے حضورؓ کی خدمت میں ایک نظم ارسال فرمائی جس کا مضمون یوں تھا کہ مجنوں لیلیٰ سے بیزار ہو سکتا ہے ، بلبل نثارِخار ہو سکتی ہے۔ پروانہ شبِ تار کی زلفوں کا اسیر ہو سکتا ہے۔ مچھلی مسکنِ آبی کو چھوڑ سکتی ہے، پانی اپنی برودت کو چھوڑ کر آگ میں بدل سکتا ہے۔ اور آخر میں اپنے آقا کو مخاطب کرکے عرض کرتے ہیں ؎

یہ ممکن ہے کوئی محمودؔ شانِ بےنیازی میں
ایازِؔ باوفا سے برسرِ پیکار ہو جائے
غرض سب کچھ یہ ممکن ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا
کہ احمدؑ کی جماعت کا ظفرؔ غدار ہو جائے

پیشگوئی مصلح موعود میں درج ’’وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا‘‘ کی علامت کی جماعت کے علماء اور شعراء نے مختلف توجیہات کی ہیں۔ آپ کی منفرد توجیہ کچھ یوں ہے ؎

حضرت احمدؑ سے پہلے تین تھے ایسے بشر
حق تعالیٰ کی بشارت سے ملے جن کو پسر
حضرت ابراہیمؑ اوّل، دوم یحییٰؑ کے پدر
سوم مریم محصنہ جس پر تھی مولیٰ کی نظر
تیری پیدائش نے احمدؑ کو کھڑا ان میں کیا
ہیں یہی وہ تین جن کو چار تُو نے کر دیا

ایک دوست فراقِ قادیاں میں گریہ کناں تھے۔ آپ نے انہیں قادیان چھوڑنے کی حکمت سے یوں آگاہ کیا ؎

ہمارا قادیاں اک بوستاں ہے
ہم اس کی بُوئے خوش ہیں اس جہاں میں
یہ فطرت کے مخالف ہے کہ خوشبُو
رہے محدود صحنِ گلستاں میں
تُو سمجھا ہم پراگندہ ہوئے ہیں
مرے نزدیک ہم پھیلے جہاں میں
ظفرؔ گر ہوں حقیقت بِیں نگاہیں
بہاریں ہی بہاریں ہیں خزاں میں

ایک دفعہ موضع احمد نگر میں کچھ جھگڑا ہو گیا جس میں ایک صاحب کی نوازش سے آپ کو بھی ملوث کر کے حوالات میں بند کرا دیا گیا۔ اُس رات آپ کو جو خلوت نصیب ہوئی تو آپ نے وہ رات اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے اور نوافل ادا کرتے گزاری ۔ا للہ تعالیٰ نے اس شب آپ کو بعض بشارات سے بھی نوازا تو علی الصبح آپ نے اختر شیرانی مرحوم کے انداز میں ایک نظم لکھی اور اس دوست کو یوں پیغام دیا ؎

میرے ہمدم یہ مری تلخیٔ اوقات کی رات
بن گئی میرے لیے عین عنایات کی رات
محتسب پاتا اگر آج یہ برکات کی رات
ضبط کر لیتا ظفرؔ تیری حوالات کی رات

جامعہ کے طلبہ کو آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ؎

لیکن وہ علم موت ہے جس میں عمل نہ ہو
نکتہ رہے یہ یاد، عزیزانِ جامعہ

دنیا میںہر انسان کی کچھ آرزوئیں ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے وہ مسلسل مصروف جدوجہد رہتا ہے۔ استاذی المحترم بھی اپنے دل میں ایک آرزو رکھتے تھے اور وہ یہی تھی کہ آپ عالم با عمل اور عاشقِ قرآن بنیں۔ آپ فرماتے ہیں ؎

ہاں مرے دل میں بھی ہے ایک تمنا مولیٰ
وہ اگر پوری ہو تو بندۂ احسان بنوں
آرزو تیرے ظفرؔ کی ہے یہی بچپن سے
عالم باعمل و عاشق قرآن بنوں

دنیا میں بےشمار لوگوں نے مسئلہ تدبیر و تقدیر پر بحث کی ہے اور افراط و تفریط کا شکار ہو کر جادۂ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں۔ آپ نے یہ مشکل عقدہ یوں حل کر دیا ؎

تدبیر بھی ہے قبضۂ تقدیر میں ظفرؔ
مولا تجھے مقام توکّل عطا کرے

اللہ تعالیٰ کی ذات سے آپ کو بے پناہ عشق تھا اور وہی آپ کا مطلوب و مقصود تھا۔ آپ کے ایک عربی قصیدے کے چند اشعار کا منظوم ترجمہ کچھ یوں ہے:

میرے دل میں تُو آگ ایسی لگا دے
جو ہر آتش کو خاکستر بنا دے
تُو ہی محبوب ہے اے میرے داور
مجھے اپنی محبت میں فنا کر
نہیں حاجت سوا تیرے کسی کی
ہے بس کونین میں درکار تُو ہی

آپ کو قرآن کریم کی تفسیرمیںبڑا کمال حاصل تھا۔ آپ نے مقطعاتِ قرآنی کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۱؍نومبر۲۰۱۴ء میں محترم ظفرمحمد ظفر صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو اپنے استاد حضرت مولوی سیّد محمدسرور شاہ صاحب کی یاد میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

آ رہی ہے یاد سرور شاہ کی
حضرتِ استاذ عالی جاہ کی
عشق احمدؑ جن کو لایا کھینچ کر
ہو گئے قربانِ حق وہ سر بسر
آ گئے وہ چھوڑ کر سارا جہاں
دیکھ کر حُسن و جمالِ قادیاں
ادّعائے علم و ساداتی غرور
ہو گئے کافور احمدؑ کے حضور
خدمتِ دینی رہا اُن کا شعار
کٹ گئی یوں زندگیٔ مستعار
عالمانِ احمدیت نامور
آپؓ کے ہی فیض سے ہیں بہرور
پا گئے وہ احمدیت میں مقام
اُن پہ ہو رحمت خدا کی والسّلام

مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button