جلسہ سالانہ برطانیہ 2023ء کے دوسرے دن بعد دوپہر کے اجلاس سے حضور انور کا خطاب (حصہ اوّل) فرمودہ 29؍ جولائی 2023ء
23-2022ء میں جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور تائید و نصرت کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ
اس عرصے میں 2 لاکھ 17 ہزار 168 افرادکی احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت
دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے ایمان افروز واقعات
329 نئی جماعتوں کا قیام، 185مساجد کا اضافہ، 124مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کا اضافہ
ایرانی ترجمہ قرآن سمیت اب تک کُل 76 زبانوںمیں تراجم قرآن کریم کی اشاعت
روحانی خزائن کے عربی ترجمہ کی تکمیل و اشاعت
104ممالک میں 620 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریز کا قیام، 47زبانوں میں ساڑھے چار سو سے زائد مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ کی 50 لاکھ سے زائد تعداد میں طباعت
عربک، رشین، چینی، ٹرکش، انڈونیشین، سپینش و دیگر ڈیسکس کے تحت متعدّد کتب کی تیاری و اشاعت، خطباتِ جمعہ حضورانور اور ایم ٹی اے کے پروگرامز کے تراجم
دنیا بھر میں اسلام کے پُر امن اور حقیقی پیغام کی ترویج و اشاعت کے لیے ایم ٹی اے کے تمام چینلز کی بھرپور اور بے مثال خدمات کا تذکرہ
دورانِ سال 9 ہزار سے زائد کتب کی نمائش اور ساڑھے 8 ہزار سے زائد بُک سٹالز کے ذریعہ 21 لاکھ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا
107 ممالک میں ایک کروڑ 17 لاکھ 14 ہزار لیف لیٹس کی تقسیم کے ذریعے ایک کروڑ 81 لاکھ کے قریب افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا
جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2023ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایمان افروز اور دل نشین خطاب (حصہ اوّل) (فرمودہ 29؍ جولائی 2023ء بروز ہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج کی اس دن کی جو تقریر ہے اس میں
اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہیں جماعت احمدیہ پر ان کا ذکر
ہوتا ہے سو اس لحاظ سے میں کچھ کوائف پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے
اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 329ہے۔
ان نئی جماعتوں کے علاوہ
دس سوسولہ (1016) نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے
اور ان جماعتوں کے قیام میں کونگو کنشاسا سرفہرست ہے۔ اس کے بعد تنزانیہ ہے کونگو برازاویل ہے گھانا، نائیجیریا، سینیگال، گنی بساؤ، لائبیریا، نائیجر، بینن، گنی کناکری، مالی، ٹوگو، سیرالیون، روانڈا، آئیوری کوسٹ، گیمبیا میں جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اسی طرح مزید پچیس ممالک ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی چندایک جماعتیں قائم ہوئی ہیں یہ زیادہ تعدادوالی تھیں۔ ان نئی جماعتوں کے قیام کے سلسلے میں بعض واقعات بھی سامنے آتے ہیں جو ایمان افروز ہوتے ہیں۔
گنی بساؤ
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ گنی بساؤ کے ڈمبا کابرا کے علاقہ میں شدید مخالفت کی وجہ سے احمدیت کا پودا نہیں لگا تھا۔ جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر اس علاقے کے چیف سیکھو بالڈے صاحب کو مدعو کیا گیا۔ سیکھو بالڈے صاحب کہتے ہیں کہ میرے علاقے میں جماعت کی بہت مخالفت ہوئی جو کہ ایک چیف کی حیثیت سے مجھے روکنی چاہئے تھی مگر پہلے میں بھی جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت کرتا تھا مگر آج اس جلسےکی برکت سے اور خلیفة المسیح کو دیکھ کر اور انہیں سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کی جماعت سچی ہے اور آج میں اپنے چار سو سے زائد لوگوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں تین نئی جماعتوں کا قیام ہوا۔
کیمرون
کے انتہائی نارتھ میں ایک گاوٴں میمے میں ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعے جماعت قائم ہوئی۔ یہ گاؤں مروہ شہر سے اَسّی کلو میٹر دور ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ فون پررابطہ ہوا پھرہمارے معلم ابوبکر صاحب دو افراد کے ساتھ وہاں گئے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ وہ جماعت سے پوری طرح واقف ہیں۔ کئی سال سے ایم ٹی اے العربیہ دیکھ رہے ہیں اور جماعت سے اچھا تعارف ہے۔ معلم نے جماعت کا مزید تعارف کروایا اور دوبارہ آنے کا پروگرام طے کیا اور یہاں بھی سو سے اوپر افراد نے بیعت کر لی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی۔
واقعات تو بہت ہیں اب میں چھوڑتا ہوں کیونکہ اَور بھی رپورٹ ہے۔ امیر صاحب
لائبیریا
نے جو رپورٹ دی ہے کہ بومی کاؤنٹی کے ایک گاؤںساقی ٹاؤن میں ہماری ٹیم تبلیغ کے لیے گئی۔ گاؤں کے امام اور سرکردہ احباب سے مل کر باقاعدہ تبلیغی پروگرام کے لیے تاریخ اور وقت طے کر لیا گیا۔ چھوٹے دیہات کو بھی اطلاع پہنچائی گئی اور مقررہ وقت پر پروگرام ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور دعویٰ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ جماعت میں خلافت اور تبلیغ کی کوششوں کا ذکرکیا گیا۔ اسی طرح غیروں کی طرف سے جماعت کے بارے میں جو غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں ان کی وضاحت کی گئی۔ آخر پر اس گاؤں کے امام عبداللہ صاحب نے کہا۔ آج مجھ پر حقیقت کا اظہار ہو گیا ہے او رہمیں پہلے جماعت کے بارے میں جو کچھ بتایا جاتا تھا وہ اچھا نہیں تھا۔ اور کہتے ہیں جب آپ پچھلی دفعہ آئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور قرآن کے بارے میں بیان سن کر تعجب ہوا تھا کیونکہ
ہمیں یہی بتایا جاتا تھا کہ آپ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہیں لیکن آپ کی تو ساری باتیں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور قرآن کی تعلیم کے گرد گھومتی ہیں۔
پس انہوں نے پھر ان باتوں کو دیکھ کر اپنے بہت سے افراد کے ساتھ بیعت کی اور جماعت میں شامل ہو گئے۔
اس سال نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد
کی جو رپورٹ ہے وہ ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور اس دفعہ مجموعی تعداد جو جماعت نے مساجدکی صورت میں پیش کی وہ 185 ہے جن میں 129مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں اور 56بنی بنائی عطا ہوئیں اور ان میں مختلف ممالک میں مساجد ہیں۔ گھانا میں سب سے زیادہ ہیں پھر سیرالیون میں نائیجیریا میں بینن میں تنزانیہ، برکینا فاسو، کونگو کنشاسا، آئیوری کوسٹ، مالی، لائبیریا، گیمبیا، گنی بساؤ، نائیجر، کیمرون، یوگنڈا، سینیگال، گنی کناکری، چاڈ، برونڈی، سینٹرل افریقہ، کینیا، ٹوگو، کونگو برازاویل، زیمبیا، ساؤ تومے۔ ہندوستان میں بھی مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ انڈونیشیا، بنگلہ دیش، نیپال، جرمنی، برطانیہ، فرانس، امریکہ۔
پاکستان میں مُلّاں کے کہنے پر انتظامیہ بھی ہماری مسجدیں اور منارے گرانے پر تلی ہوئی ہے اور دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد عطا فرما رہا ہے اور ہم ہی اسلام کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔
سینٹرل افریقہ
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک امیر تاجر جو مسلمان تھا ہماری مسجد کے پاس سے گزرا اور اس مسجد کی فوٹو بنانے لگا۔ اس کے پوچھنے پر اس کوبتایا گیا کہ یہ مسجد جماعت احمدیہ کی ہے تو کہنے لگا کہ بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ مستری آپ نے باہر سے منگوایا ہے اور اس پہ کتنا خرچہ آیاہے؟ ہمارے ممبر صاحب نے بتایا کہ اس مسجد کو پانچ ملین سے زیادہ نہیں لگا۔ کہنے لگا کہ اس مہنگائی کے باوجود آپ نے اتنی سستی مسجد بنائی ہے! ہمارے مولوی تو اس طرح کی مسجد دس دس ملین میں بنا رہے ہوتے ہیں پھر بھی مکمل نہیں ہوتی اور آپ لوگوں نے تو بڑی جلدی اس کو مکمل بھی کر لیا ہے۔
بیلیز
کی رپورٹ ہے کہ بلیدن گاؤں بیلیز کے مرکز سے پانچ گھنٹے کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔ یہاں کے نومبائعین کے ایک خاندان نے اپنے گھروں کے قریب مسجد کی خواہش ظاہر کی۔ یہ خاندان چاہتا تھا کہ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ سیکھ سکیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ مسجد کے لیے ایک زمین تلاش کریں تو انہوں نے فوری طور پر اپنی ہی زمین پیش کر دی اور کہا کہ خداکے گھر کو اپنی ہی جائیداد پر تعمیر کرنا میرے لیے اعزاز کا باعث ہوگا۔ انہوں نے نہ صرف زمین پیش کی بلکہ اپنا ایک بیٹا بھی دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور اب یہ نوجوان مرکز میں رہ رہا ہے اور جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہاہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔
مساجد کی تعمیر میں مخالفت
کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بینن
کی رپورٹ ہے کہ یہاں کے ریجن ناتی ٹنگو کا ایک گاؤں ہے جس میں جماعت کو مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ گاؤں ناتی ٹنگو مشن سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس میں چھیالیس کلو میٹر کچا انتہائی خراب اور پہاڑی راستہ ہے۔ یہ گاؤں فولانی قوم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ 2016ء میں یہاں جماعت قائم ہوئی تھی اور ڈیڑھ سو سے اوپر بیعتیں ہوئی تھیں۔ یہاں کی جماعت بہت مستحکم اور فعال ہے۔ صدر جماعت نے مسجد کے لیے قطعہ زمین جماعت کو پیش کیا۔ علاقہ کے سینٹرل امام نے لوگوں کو مسجد کی تعمیر روکنے کا کہا اور مختلف طریقوں سے ڈرانے کی کوشش کی۔ بہرحال انہوں نے مجھے بھی رپورٹ کی، خود بھی کوشش کرتے رہے دعائیں بھی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپریل میں ہی وہ روک دور ہو گئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور وقار عمل کے ذریعےسےاور دوسرے تعمیری کام کے ذریعےسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسجد تعمیر ہو گئی۔ مخالفین نے بہت زور لگایا، میئر کو بھی کہا اور میئر صاحب نے کہا کہ نہیں ان کو میں اجازت دیتا ہوں بلکہ جب مسجد کا افتتاح ہوا تو میئر خود آئےاور انہوں نے کہا کہ باوجود بیماری کے اس لیے آیا ہوں کہ مجھے پتا ہے کہ جماعت جس طرح فلاحی کام کرتی ہے اور جس طرح مذہب کی تعلیم دے رہی ہے اور امن پھیلا رہی ہے وہ انہی کاکام ہے۔
چاڈ
کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ جب سے جماعت احمدیہ کی مسجد دارالحکومت چاڈ میں تعمیر ہوئی ہے مخالفت میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ چند علماء جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتی۔ اس سال فروری میں جماعت احمدیہ چاڈ کو پہلا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق ملی تو علماء کی طرف سے علاقے کے لوگوں کو منع کیا گیا کہ جماعت کے جلسےمیں نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر بھی کامیاب نہ ہونے دی اور محلے کے لوگ جلسےمیں شامل ہوئے۔ ان شاملین جلسہ میں ایک شخص عبداللہ صاحب بھی تھے۔ انہوں نے جلسہ کے موقع پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ہم مسلمانوں میں بھی جماعت احمدیہ کے متعلق تشویش رہتی ہے۔ مشائخ کرام بہت کچھ جماعت احمدیہ کے متعلق کہتے رہتے ہیں لیکن
آپ لوگوں کی تقاریر سن کر پتا چلا ہے کہ جتنی محبت آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں اتنی ہم مسلمان نہیں کرتے۔
پھر
مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ
جوہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 124مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا اور یہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں جن میں افریقہ بھی شامل ہے یورپ بھی شامل ہے اور قرغیزستان وغیرہ بھی۔ آسٹریلیا بھی۔
رقیم پریس
کی رپورٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اس سال کافی کتب شائع کی ہیں خاص طور پر قرآن کریم ناظرہ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا جو لفظی ترجمہ ہے وہ شائع کیا ہے اور اللہ کے فضل سے بڑی اعلیٰ پرنٹنگ بھی ہے اور بائنڈنگ وغیرہ بھی ہے۔ یہاں displayمیں لگا بھی ہوا ہے اور بڑی سستی قیمت پہ ہمیں یہ مہیا ہو گیا ہے۔
وکالت تصنیف یوکے
کی رپورٹ کے مطابق ایرانی ترجمہ قرآن بھی اس سال شائع ہوا۔ اب تک 76 زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ البانین ترجمہ قرآن بھی تیار ہے اور چھپنے کے لیے پریس میں ہے، ڈینش ترجمہ قرآن بھی پریس میں ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پانچ کتب کے انگریزی ترجمے ہوئے ہیں اور اسی طرح اَور بھی بہت ساری کتب کے تراجم ہو رہے ہیں۔ یہ ساری کتب بک سٹال میں بھی مہیا ہیں جو شائع ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی خوبصورت اور اچھی پرنٹنگ ہے ویسے بھی ان کی جلد وغیرہ بھی بڑی دیدہ زیب ہے اور سستی ہے قیمت بھی زیادہ نہیں ہے ہدیہ بہت تھوڑا ہے۔
نظارت اشاعت قادیان
کی رپورٹ ہے۔ ناظرہ قرآن کو نئی پندرہ لائنوں کی سیٹنگ جس میں ہر صفحےکے آخر میں آیت کا اختتام ہوتا ہے اس کی سیٹنگ کرنے میں اور میر اسحٰق صاحب والےترجمہ میں انہوں نے بڑا کام کیا ہے اور خط منظور کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اس کے علاوہ ہندی اور ملیالم کا ترجمہ ہے، گجراتی ترجمہ ہے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب کا جو ترجمہ قرآن ہے اس کا مراٹھی ترجمہ اس طرح قرآن کریم کے تراجم پر بہت سارا کام انہوں نے بھی کیا ہے۔ لوگوں کو بڑے پسند آتے ہیں غیر بھی لے کر جاتے ہیں۔
مالی
کے ریجن کے مربی لکھتے ہیں۔ سکاسو شہر کے تجارتی اور ثقافتی فیسٹیول میں قرآن کریم اور جماعتی لٹریچر کے حوالےسے ایک بک سٹال لگانے کی توفیق ملی۔ ایک غیر ازجماعت پولیس افسر جماعتی سٹال پر آئے اور جماعت کے فرنچ ترجمہ قرآن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دس کاپیاں خرید لیں اور بتایا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے یہ سب سے بہترین ترجمہ ہے۔ یہ دس کاپیاں میں نے اپنے محلے کی مسجد میں رکھنے کے لیے لی ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔
روحانی خزائن کے عربی ترجمہ کی تکمیل اور اشاعت
بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو چکی ہے۔ اس سال بارہ کتب شائع ہو چکی ہیں اور اس طرح ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔
جرمن زبان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ترجمے
ہو کر شائع ہو چکے ہیں۔ 82کتب ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس سال بھی 10کتب انہوں نے شائع کیں۔ انڈیا کی مختلف زبانوں میں تیلگو، بنگلہ، تامل وغیرہ میں مختلف کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور جماعتی لٹریچر شائع ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے تراجم جو ہیں بنگلہ زبان میں 20کتب، جرمن میں 10، انڈونیشین میں 10، انگریزی میں 7، تیلگو میں 4، عربی، اردو فارسی اور تامل زبان میں تین تین، فرانسیسی، ترکش اور لوگانڈا زبان میں دو دو، پرتگیزی اور کریول زبان میں ایک ایک کتاب شائع ہوئی۔
کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تبصرے اور ان کے ذریعےسے جو بیعتیں ہوئیں
اس کے بارے میں امیر صاحب
بیلجیم
لکھتے ہیں کہ ایک بیلج پروفیسر Renaud Quoidbach ہیں مارچ میں ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی، انہوں نے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان کی بیعت کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ان کا تعلق پہلے عیسائی مذہب سے تھا لیکن حضرت عیسیٰ کو خدا نہیں مانتے تھے پھر انہوں نے زندہ خدا کی جستجو شروع کی۔ یہ صاحب مسجد بیت المجیب میں بھی آتے رہے اور مشنری انچارج صاحب سے بھی ان کی تفصیلی نشست ہوئی تھی۔ کافی بیمار بھی رہتے تھے۔ انہوں نے خدا کے وجود کی تلاش شروع کی اور اس حوالے سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ لسلام کی کتب بھی دی گئیں اور میرا خطبہ باقاعدہ سنتے تھے۔ چھ مارچ کا خطبہ انہوں نے سنا جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں محاسنِ قرآن جو میں نے بیان کیے تھے وہ انہوں نےسنے تو کہتے ہیں آہستہ آہستہ اس کے بعد ان کو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان پیدا ہونے لگا اور یہ خدا تعالیٰ کا بار بار نام لے کر ذکر الٰہی بھی کیا کرتے تھے۔ کچھ دنوں کی چھٹی لے کر یہ ہالینڈ بھی گئے تا کہ خدا کی جستجو میں کسی جگہ تنہائی میں رہیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں مطالعہ بھی کرتے رہےجس سے ان کو خداتعالیٰ کے وجودپر ایمان پیدا ہو گیا اور اب انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
وکالت اشاعت طباعت
جو ہے ان کی رپورٹ کے مطابق 105 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال 448 مختلف کتب پمفلٹ اور فولڈرز وغیرہ 47 زبانوں میں 50 لاکھ 89ہزار کی تعداد میں طبع ہوئے۔ جن 47 زبانوں میں لٹریچر کی تفصیل بھی ہے یہ مختلف زبانیں ہیں۔ سینتالیس زبانیں ہیں جن میں لٹریچر طبع ہوا۔ دنیا بھر میں جماعت اور ذیلی تنظیموں کے تحت 26زبانوں میں 124تعلیمی تربیتی اور معلوماتی مضامین پر مشتمل اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ جن 26 زبانوں میں اخبارات اور رسائل شائع ہو رہے ہیں ان کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ مختلف زبانیں ہیں ان میں افریقہ کی اور یورپ کی زبانیں بھی ہیں۔
وکالت اشاعت ترسیل
کی رپورٹ کے مطابق 45 ممالک کو 24 زبانوں میں ایک لاکھ 62ہزار سے زائد کتب بھجوائی گئیں۔ مختلف ممالک میں 4ہزار 814مختلف عناوین کی کتب، فولڈر 99لاکھ 56ہزار سے زائد کی تعداد میں مفت تقسیم کیا گیا۔ اس کے ذریعےسے دنیا بھر میں 15لاکھ 90ہزارافراد تک پیغام پہنچا۔
نمائشوں اور بک سٹالز
کے ذریعے سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام ہو رہا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق 9ہزار 166نمائشوں کے ذریعے 4لاکھ 20ہزار سے اوپر افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔ 1774سے زائد تراجم قرآن کریم تحفةً مختلف مہمانوں کو دیے گئے۔ 8ہزار 567بک سٹال اور بک فیئرز کے ذریعے 17لاکھ 24ہزار سے زائدافراد تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔
نمائشوں کے حوالے سے واقعات
کا بھی ذکرہے۔ کہتے ہیں ایک یونیورسٹی کے طلبہ چیک ریپبلک میں ہماری نمائش میں آئے۔ ایک طالب علم نے لکھا کہ ہم طلبہ آپ سب کا دلی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ کے اس پروگرام نے ہمیں خدا کے قریب کیا ہے۔ ایک خاتون نے لکھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ میں اس نمائش میں شامل ہوئی۔ مجھے آج بہت اچھی اور نئی معلومات ملیں۔ جو میرے ذہن میں اس سے قبل تعصبات تھے وہ اس نمائش سے دور ہوئے اور اب میرے سامنے اسلام کی ایک بالکل نئی اور خوبصورت تصویر ہے۔ نمائش کو دیکھنے کے بعد ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اپنے تاثرات لکھتے ہیں، اس نمائش کے ذریعے سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اسلام اور قرآن کے متعلق بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔ میرا ذہن کھلا اور میرے دماغ نے ان کی باتوں کو تسلیم کیا۔ آج احمدیہ جماعت نے میری آنکھیں کھولیں۔ بہت سی باتیں میں نے پہلے سنی ہوئی تھیں جو کہ آج غلط ثابت ہوئیں۔ میں جہاں اسلام کو منفی مذہب ہونے کا مترادف سمجھتا تھا وہاں آج اس نمائش کے ذریعے میرے لیے اب اسلام میں محض مثبت باتیں ہی ہیں۔
نمائش دیکھ کر ایک نوجوان طالب علم نے کہا۔ میں کچھ عرصےسے خدا کی تلاش میں ہوں۔ صحیح مذہب کی تلاش میں ہوں مگر مجھے مسلمانوں میں تفرقہ اور فساد نظر آتا ہے۔ آج جماعت احمدیہ مسلمہ کی نمائش میں شامل ہو کر میرے جملہ شکوک دور ہوئے اور مجھے اس جماعت میں امن محسوس ہوتا ہے لہٰذا اگر میں مسلمان بنا تو میںاحمدی مسلمان بنوں گا۔
بک فیئرز اور بک سٹالز میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان کے بھی تاثرات ہیں۔
ایک تاثر دھیما جی آسام کے ایک ضلع کا ہے۔ اس ضلع میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس علاقے میں بک فیئر کے موقعےپر جماعتی نمائندگان کی طرف سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں سے ملاقات کی گئی۔ ہمارا سٹال بک فیئر میں مسلمانوں کا واحد سٹال تھا اور اس سٹال کی اخبارات کے ذریعے بھی تشہیر ہوئی تھی چنانچہ یہاں کے چیف جج مرتضیٰ چودھری صاحب از خود ہمارے سٹال پر تشریف لائے۔ جماعت کی طرف سے بک فیئرز میں اسلام کی نمائندگی سے بہت خوش ہوئے۔ سٹال پر ڈیوٹی دینے والے تمام خادمین سلسلہ کو اپنے گھر کھانے پر دعوت بھی دی۔ جماعتی نمائندگان کے لیے خصوصی دعوت کا انتظام کیا اس دوران موصوف نے بار بار اس بات کااظہار کیا کہ اس علاقے میں جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے آپ نے اسلام کی نمائندگی کر کے بڑا اچھااور اہم کام کیا۔ نیز موصوف نے اپنی بیٹی کو ہمارے سٹال سے کتب خرید کر دیں اور انٹرنیٹ پر بھی یہ ریسرچ کر رہے ہیں۔ اسی طرح اَور بھی لوگ ہیں یہاں انڈیا میں آسام میں جو ریسرچ کر رہے ہیں۔ بک سٹالوں کا ان پہ اثر ہو رہا ہے۔
سپین
سے عبدالصبور نعمان صاحب کہتے ہیں اتوار والے دن میڈرڈ میں مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر مرحوم کی جگہ پر تبلیغی سٹال لگانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ سٹال پر ایک الجزائری پروفیسر آیا۔ اسے کتاب القول الصریح اور دیگر جماعتی لٹریچر دیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے یہ کتاب تین مرتبہ پڑھ لی ہے اور اپنی فیملی سمیت چھ افراد نے الجزائر میں بیعت کر لی ہے۔
دنیا کی لائبریریوں کے بارے میں
رپورٹ ہے کہ دنیا کے 104 ممالک میں اب تک 620 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کا قیام ہو چکاہے جن کے لیے لندن سے اور قادیان سے کتب بھجوائی گئی ہیں۔
وکالت تعمیل و تنفیذ
کی رپورٹ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ہندی تراجم کروانے کا کام جاری ہے۔ کل88کتب میں سے 78کتب کے ہندی تراجم شائع ہو چکے ہیں اور باقی بھی تیار ہیں۔ اسی طرح نظارت اشاعت کی رپورٹ بھی میں نے پڑھ لی۔ اسی طرح مہمان وہاں آتے ہیں ان کو بھی اسلام کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ذریعے اچھا کام ہو رہا ہے۔
عربی ڈیسک
کے تحت گذشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہوئے ان کی تعداد 178ہے۔ ملفوظات کی دس جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ کا عربی ترجمہ پرنٹنگ کے لیے پریس کو دیا جا رہا ہے اور ملفوظات کی پرنٹنگ کے بعد کُل شائع شدہ عربی مجلدات اور کتب وغیرہ کی تعداد 188ہو جائے گی۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی 34کتب کا عربی ترجمہ اس میں تفسیر کبیر کا دس جلدوں کا سیٹ بھی سر فہرست ہیں۔ علاوہ ازیں انوار العلوم کی بعض کتب اور دیگر بہت سی کتب کا عربی ترجمہ ہوچکا ہے اور تیاری کے مراحل میں ہے۔
عربوں کے بعض تاثرات
لکھے ہیں۔ ایک خاتون کہتی ہیں کہ میرا نام اُمِّ اسلام ہے میرا جماعت سے رابطہ ایم ٹی اے العربیہ کے ذریعے سے ہوا۔ ابھی تک بیعت نہیں کی۔ مجھے خط لکھا۔ کہتی ہیں آپ کو میرا یہ پہلا خط ہے۔ کہتی ہیں کہ مجھے دعاکے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا یقین ہو گیا ہے۔ دعا کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک امام صاحب ہیں جن کے ہاتھ میں ایک پیپر ہے جس سے وہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک دن ٹی وی پر مختلف چینل بدل کر دیکھ رہی تھی تو ایک چینل پر مجھے وہی امام صاحب نظر آئے جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا اور وہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ کہتے ہیں میرا سلام قبول کریں اور حالات درست ہونے کے لیے دعا کریں۔ اس طرح ان عرب لوگوں کے بھی بہت سارے واقعات ہیں۔ انہوں نے احمدیت میں داخل ہونے کے بعد قبولیت دعا کے مختلف واقعات لکھے ہیں کس طرح ان کو فیض پہنچتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان پرفضل فرمایا کس طرح بعض واقعات ایمان میں پختگی کا باعث بنے۔
رشین ڈیسک
ہے۔ رشین زبان میں ترجمہ قرآن کریم کی نظر ثانی کی گئی ہے اور پروف ریڈنگ کے آخری مراحل میں ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے سرالخلافہ اور برکات الدعا کا رشین ترجمہ ہو چکا ہے۔ دہرائی اور پروف ریڈنگ ہو رہی ہے۔ اسی طرح حقیقة الوحی کا بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ تذکرةالشہادتین کا بھی نصف ترجمہ ہو چکا ہے۔ ملفوظات کی تمام جلدوں کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے، دہرائی ہو رہی ہے اور سیرت حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے، دہرائی ہو رہی ہے ترجمہ ہو گیاہے۔ رحمة للعالمین، دنیا کا محسن یہ بھی حضرت مصلح موعودؓ کی ہے یہ بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔ پھر میری کچھ چھوٹی چھوٹی کتب ہیں ان کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب ہمارا خدا اور حیات طیبہ از شیخ صاحب سوداگر مل اس کا بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس طرح اَور بہت ساری کتب ہیں جن کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے اور رشین ویب سائٹ پہ بھی انہوں نے بہت سارے ترجمے ڈالے ہیں۔ کہتے ہیں دوران سال اس ویب سائٹ کو وزٹ کرنے والوں کی تعداد 11ہزار 200رہی اور یوٹیوب پر راہ ہدیٰ چینل بھی ہے جو بڑی تیزی سے ازبک قوم میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ اب تک 115 ویڈیوز اس چینل پر اپ لوڈ ہو چکی ہیں۔ 71ہزار مرتبہ دیکھی گئی ہیں۔ کئی سو افراد اس کو سبسکرائب بھی کر رہے ہیں۔ قرغیز سائٹ بھی ہے اس میں ایک لاکھ 98ہزار 715دفعہ یہ ویب سائٹ وزٹ کی گئی اور پیج وزٹس کی تعداد 4لاکھ 32ہزار سے اوپر ہے۔
بنگلہ ڈیسک
ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی کام بھی کرر ہے ہیں ایم ٹی اے پر پروگرام بھی دے رہا ہے لٹریچر کا ترجمہ بھی کر رہا ہے قرآن شریف کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہے اور ایم ٹی اے پر باون گھنٹے کے لائیو بنگلہ پروگرام انہوں نے دیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب گورنمنٹ انگریزی اور جہاد اور ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی کا ترجمہ کیا گیا۔ دس دلائل ہستی باری تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح باقی کتب کا بھی ترجمہ یہ کر رہے ہیں۔ بس ان کو تھوڑی سی اپنی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے باقی آہستہ آہستہ ان کا کام ہو رہا ہے۔
فرنچ ڈیسک
ہے اس میں بھی تحفہ بغداد، سیرة الابدال، احمدی اور غیر احمدی میں فرق، قاعدہ وغیرہ کا ترجمہ ہو گیا ہے۔ بعض کتب پر یہ نظر ثانی کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ خطبات کا ترجمہ ہے سوشل میڈیا وغیرہ پربھی ان کے کافی پروگرام آتے رہتے ہیں جس سے اسلام احمدیت کا تعارف دنیامیں ہو رہا ہے۔
ٹرکش ڈیسک
ہے ترکی زبان میں تذکرة الشہادتین، احمدی اور غیر احمدی میں فرق، دافع البلاء، حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور بہت سارے پروگرام ہیں ایم ٹی اے پر پروگرام بھی انہوں نے پیش کیے۔ خلافت اسلامیہ، خلافت احمدیہ، ختم نبوت وغیرہ پر پروگرام بھی انہوں نے ایم ٹی اے پر پیش کیے۔
چینی ڈیسک
ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترجمےکے کام کر رہے ہیں اور چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کا چینی ترجمہ طبع ہوا ہے۔ اسی طرح ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ کا ترجمہ ہورہا ہے ’’دیباچہ تفسیرالقرآن‘‘ پرکام جاری ہے۔ ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ اس پر بھی کام ہو رہا ہے اور بہت ساری کتب پہ یہ کام کر رہے ہیں۔
سواحیلی ڈیسک
ہے ان کے بھی ایم ٹی اے پر باقاعدہ پروگرام آ رہے ہیں۔ اسی طرح بعض کتب کا یہ ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔
انڈونیشین ڈیسک
ہے یہ بھی مختلف پروگرام دے رہے ہیں اور کتب کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بھی ترجمہ کر رہے ہیں اسی طرح خطبات کا باقاعدہ ترجمہ کرتے ہیں۔
سپینش ڈیسک
ہے اس میں بھی اللہ کے فضل سے کام ہو رہا ہے انہوں نے بھی بہت ساری کتب کا سپینش ترجمہ کر دیا ہے۔ ازالہ اوہام، دافع البلاء، ضرورة الامام، تجلیات الٰہیہ، حجة الاسلام اور اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب کا بھی ترجمہ کیا ہے اور شائع بھی ہو گئیں۔ اسی طرح خطبات وغیرہ کا بھی ترجمہ یہ کرتے ہیں۔
فارسی ڈیسک
کا بھی قیام کیا گیا ہے اور اس میں بھی اب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بائیس کتب کا فارسی ترجمہ ہو چکا ہے۔
لیف لیٹس اور فلائرزکی تقسیم کا منصوبہ
جو تھا اس سال 107 ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 17لاکھ 14ہزار لیف لیٹس تقسیم ہوئے جس سے ایک کروڑ 80لاکھ 91ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ اس میں جرمنی، یوکے، ہالینڈ، آسٹریا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، پرتگال، فرانس، سپین، بیلجیم، مالٹا، فن لینڈ، چیک ریپبلک، ہنگری، پولینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ امریکن بلاک کے ممالک ہیں۔ کینیڈا سب سے اول ہے پھر امریکہ ہے ٹرینی ڈاڈ ہے میکسیکو ہے ہیٹی ہے گوئٹے مالا ہے ڈومینیکن ریپبلک، ارجنٹائن، یوراگوئے، ہنڈورس، بیلیز، پیراگوئے، جمیکا، گیانا، بولیویا۔ پھر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ فار ایسٹ کے ممالک ہیں۔ آسٹریلیا، فجی، نیوزی لینڈ، مارشل آئی لینڈ، مائیکرونیشیا۔ افریقہ کے ممالک ہیں برکینا فاسو، بینن، تنزانیہ، کیمرون، مڈغاسکر، کینیا، چاڈ، زیمبیا، نائیجیریا، کونگو برازاویل، کونگو کنشاسا، نائیجر، ماریشس، گھانا، گیمبیا، سیرالیون، مالی، زمبابوے، ٹوگو، لائبیریا، برونڈی، ایکویٹوریل گنی، یوگنڈا، گنی کناکری۔ اس کے علاوہ انڈیا میں بھی تین لاکھ سے اوپر تقسیم ہوا جاپان میں تقسیم کیا گیا بنگلہ دیش میں تقسیم کیا گیا انڈونیشیا میں بھوٹان نیپال وغیرہ میں فلپائن میں یہ ہزاروں میں لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔
نائیجیریا
کے معلم لکھتے ہیں۔ ہم نے دوسے جماعت کے گردو نواح میں گھر گھر تبلیغ کی۔ پمفلٹ تقسیم کیے۔ ہمارے ایک پمفلٹ کو پڑھ کر ایک دوست اگلے جمعہ ہماری مسجد آئے۔ کہتے ہیں خاکسار اتفاقاً اس دن جماعت کو درپیش مخالفت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد پر لیکچر دے رہا تھا۔ کہتے ہیں اس دن جمعہ کی نماز کے بعد میں نے ان کے مختلف سوالوں کے جواب دیے۔ اس پر اس نے کہا کہ میں اتنی جلدی یہ سب کچھ ماننے کو تیار نہیں۔ اس پر ان سے کہا کہ وہ دو تین سال جماعت کو دیکھیں اور مطالعہ کریں۔ جاتے وقت ان کو ایک کتاب Ahmadiyyat or Qadianism مطالعے کے لیے دی۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ اس رات میں نے دل کی گہرائی سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس بھائی کو ہدایت عطا فرمائے تا کہ یہ لوگوں کی تبلیغ کا ذریعہ بن جائے۔ کہتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر وہ اگلے ہی دن دوبارہ آئے اور آتے ہی جماعت میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ان سے پوچھا کہ کس بات نے اتنی جلدی احمدیت قبول کرنے پر آمادہ کیا جس پر اس نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اور کتاب کے مطالعےنے میری مدد کی ہے چنانچہ وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ ایک ماہ کے اندر ہی جماعت میں فعال ہو گئے جماعت کی بہت ساری کتب کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ایک نوجوان نے بھی ان کے ذریعے سے احمدیت قبول کی ہے۔
یوکے
میں لیف لیٹ کے ذریعے ایک یہودی پروفیسر کا قبول احمدیت کا واقعہ ہے۔ رپورٹ دینے والے رفیع الدین صاحب کہتے ہیں کیمبرج میں لیف لیٹنگ کرنے کے لیے گیا۔ لیف لیٹنگ سے قبل میں نے دعا کے لیے بھی لکھا (مجھے لکھ رہے ہیں) پھر بارش کا موسم تھا کہتے ہیں بارش میں ایک شاپنگ سینٹر کے باہر لیف لیٹس تقسیم کرنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ کافی دیر وہاں کھڑا رہا کسی نے لیف لیٹ لینے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ کچھ دیر بعد ایک دوست سوینے (Sweeney) صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں کچھ دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بارش اور ٹھنڈ میں کھڑے ہو کر لوگوں کو کچھ دینا چاہ رہے ہو باوجود اس کے کہ لوگ کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے اس پر میں نے انہیں بتایا کہ میں اسلام کا پیغام پھیلا رہا ہوں اور اس کو جماعت کا تعارف کروایا۔ اس پر کہنے لگے کہ میں آپ لوگوں کے متعلق مزید سیکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اس نے میرے سے رابطہ لے لیا۔ کچھ دیر بعد اس سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران پتا چلا کہ اس کا تعلق یہودی مذہب سے ہے۔ اکنامکس کے ایک سینئر لیکچررہیں۔ اسلامک فنانس میں ایک لمبا عرصہ کام کیا ہے۔ اس کو سوالات کے جواب دیے گئے۔ رابطہ جاری رہا۔ بعد میں ان کو مبلغین سے بھی ملاقات کروائی گئی۔ اسلامک فنانس میں چونکہ ایک لمبا عرصہ انہوں نے کام کیا ہے اس لیے ان کو اسلام کے بارے میں پہلے بھی دلچسپی تھی۔ ان کو اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر کتب بھی مطالعےکے لیے دی گئیں۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل کے ساتھ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی حق کی طرف راہنمائی کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے لائیو خطبات بھی سننے شروع کر دیے خط بھی لکھنے شروع کر دیے مجھے اور دعا بھی کی۔ بعض خوابیں دیکھیں۔ ایک خواب میں دیکھا کہ ہر طرف جنگ کا سامان ہے۔ بموںاور گولیوں کی برسات ہو رہی ہے۔ زندگی موت کی جنگ چل رہی ہے اس دوران کہتے ہیں مجھے کہاجاتا ہے کہ جس شخص نے تمہیں اسلام احمدیت کا پیغام دیا ہے اس کے قریب چلے جاؤ اور جس طرف وہ جائے اسی طرف تم چلے جاؤ۔ یہ خواب دیکھ کر تسلی ہو گئی اور انہوں نے ایک سال تک تحقیق کرنے کے بعد پھر بیعت کر لی۔ اور ابھی بھی قائم ہیں۔ بیعت کے بعد کافی مخالفت کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑا ہے ان سے گھر والوں نے تعلقات توڑ لیے۔ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے تھے یونیورسٹیوں نے کانٹریکٹ ختم کر دیے۔ پھر بیمار تھےبیچاروں کو کینسر تھا وہ بھی پھیل گیا بہت سی آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ شکر گزاری کے جذبات رکھتے رہے اور تبلیغ کا شوق پورا کرتے رہے احمدیت پر قائم رہے۔
ریویو آف ریلیجنز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رسالے کا اجرا فرمایا تھا۔ پہلا شمارہ 1902ء میں شائع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کو 121 سال ہو چکے ہیں۔ اب یہ انگریزی، جرمن، فرنچ اور سپینش زبان میں شائع ہورہاہے اور اس سال دو لاکھ ایک ہزار سے اوپر کی تعداد میں پرنٹ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ریویو آف ریلیجنز کو بین الاقوامی پبلشنگ باڈیز اور سینئر میڈیا ڈائریکٹرز ایک انتہائی معتبر اشاعت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ پروفیشنل پبلشنگ ایسوسی ایشن یوکے میں ایک نیشنل ادارہ ہے جو ملکی سطح پر پبلشرز کی نمائندگی کا جائزہ لیتا ہے اور یوکے حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کے ساتھ بھی مل کر کام کرتا ہے۔ اس نے اپنی کئی نیشنل کمیٹیوں یا پینلز میں ریویو آف ریلیجنز کو شامل کیا ہے۔ ریویو آف ریلیجنز کو نیشنل ایوارڈز کے لیے بطور جج منتخب کیا گیا تا کہ نیشنل سطح پر میگزینز میں بہترین مصنفین اور ایڈیٹرز کا انتخاب کیاجا سکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بہت زیادہ ایکسپوژر (exposure) دنیا میں اب ہو رہا ہے علاوہ اس کے کہ جماعت کے افراد بھی پڑھ رہے ہیں۔
(باقی آئندہ)