جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2023ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایمان افروز اور دل نشین خطاب (حصہ دوم)
23-2022ء میں جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور تائید و نصرت کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ
الفضل انٹرنیشنل کی بطور روزنامہ اشاعت کا آغاز، دورانِ سال اس کے ذریعہ سات کروڑ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا
ہفت روزہ الحکم، تحریکِ وقفِ نَو، ریویو آف ریلیجنز، مرکزی شعبہ آئی ٹی، احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر، الاسلام ویب سائٹ، مرکزی شعبہ اے ایم جے، احمدیہ ٹیلیویژن اور ریڈیو پروگرامز کی مختصر رپورٹس
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس (IAAAE)، مجلس نصرت جہاں اور ہیومینٹی فرسٹ کے خدمتِ انسانیت پر مشتمل بے لوث کاموں کا تذکرہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مخالفین کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں : ’’باز آ جاؤ اور اس کے قہر سے ڈرو اور یقیناً سمجھو کہ تم اپنی مفسدانہ حرکات پر مہر لگا چکے۔ اگر خدا تمہارے ساتھ ہوتا تو اس قدر فریبوں کی تمہیں کچھ بھی حاجت نہ ہوتی۔ تم میں سے صرف ایک شخص کی دعا ہی مجھے نابود کر دیتی مگر تم میں سے کسی کی دعا بھی آسمان پر نہ چڑھ سکی بلکہ دعاؤں کا اثر یہ ہؤا کہ دن بہ دن تمہارا ہی خاتمہ ہوتا جاتا ہے…کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم گھٹتے جاتے اور ہم بڑھتے جاتے ہیں۔
جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2023ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایمان افروز اور دل نشین خطاب (حصہ دوم)
(فرمودہ 29؍ جولائی 2023ء بروز ہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)
الفضل انٹرنیشنل
ہے اس کا اجرا 1994ء میں ہفت روزہ کی شکل میں یہاں سے ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد 2019ء میں اس کو مَیں نے ہفتے میں دو شمارے کر دیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزنامہ ہو چکا ہے اور اس میں اب ہر ماہ پہلے اور تیسرے اتوار کو بچوں کا الفضل بھی شائع ہوتا ہے۔ خصوصی نمبر سمیت اس کے 149 شمارے شائع ہوئے۔ پاکستان میں الفضل کی ویب سائٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال ویب سائٹ، ٹوئٹراور فیس بک وغیرہ کے ذریعے 7کروڑ 26لاکھ سے زائدلوگوں تک پیغام پہنچا۔
الحکم ہفت روزہ
ہے۔ یہ بھی آن لائن اور طبع شدہ حالت میں پہنچتا رہتا ہے۔ مختلف لائبریریوں میں جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اشاعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
انٹرنیشنل ٹرانسلیشن اینڈ ریسرچ آفس
ہے۔ اس شعبہ کے تحت جو کام ہوئے ہیں صحیح بخاری کی شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کا انگریزی ترجمہ جاری ہے اور فقہ المسیح کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول کا انگریزی ترجمہ مکمل ہو چکا ہے۔ حمامة البشریٰ کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ قول الصریح کا انگریزی ترجمہ ہو رہا ہے اور فائیو والیم کمنٹری کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا اس ترجمےکی چیکنگ اور پروف ریڈنگ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح بدری صحابہؓ اور خلفائے راشدین پر جو میرے خطبات ہیں ان کا مجموعہ تیار کر کے ان کو بھی ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اور بہت ساری کتب ہیں جن کا ترجمہ یہ کررہے ہیں۔
مخزن تصاویر
ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے۔ اب تک ان کے ریکارڈ میں 13لاکھ 30ہزار سے اوپر تصاویر ہیں اور ویب سائٹ پر آٹھ سو تصاویر کا اس دفعہ اضافہ کیا ہے سوشل میڈیا پر آتی ہیں۔
تحریک وقف نو
ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت دنیا بھر میں واقفین نو کی کل تعداد 80 ہزار چھ سوہے جس میں 47ہزار 222لڑکے اور 33ہزار 378لڑکیاں ہیں۔ اس سال نئی درخواستیں جن پر والدین کو ابتدائی منظوری بھجوائی گئی ہے ان کی تعداد 3ہزار688ہے اور حتمی طورپر جن کے فیصلے ہو چکے ہیں وہ دو ہزار چھ سوہے۔ ان میں پندرہ سال سے زائد عمر کے واقفین نو کی تعداد 39ہزار سے اوپر ہے جن میں 24ہزار لڑکے اور 14ہزار لڑکیاں ہیں۔ پاکستان میں 35ہزار واقفین نو ہیں پھر جرمنی ہے پھر یوکے ہے پھر انڈیا ہے کینیڈا وغیرہ ہیں افریقن ممالک میں واقفین نو میں شامل ہونے کے لحاظ سے گھانا سرفہرست ہے جہاں واقفین کی تعداد 1780ہے۔ ان میں 959لڑکے اور 821لڑکیاں ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی اور کالج جانے والے بھی ہیں اور بعض کاموں پہ بھی لگ گئے ہیں بعض واقفین نو اپنی پروفیشنل زندگی میں آ کے جماعتی کام بھی کر رہے ہیں۔
احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سینٹر
ہے تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کو محفوظ کرنے کا کام ان کے سپرد ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ سے متعلق ڈوگرہ راج کے زمانے کے شاہی دستاویزات جموں سے حاصل کیے گئے اور محفوظ کیے گئے۔ بہت سے پرانے اخبارات حضرت مصلح موعودؓ کی پرانی تصاویر اور مواد حاصل کیا گیا، محفوظ کیا گیا۔ مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے محققین کو آرکائیوز کا تعارف کروایاگیا، انہیں جماعت پر تحقیق پر آمادہ کیا گیا۔ اسی طرح بعض اَور کام یہ کر رہے ہیں۔ پھر
مرکزی شعبہ آئی ٹی
ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ اب انہوں نے غلام قادر شہید آئی ٹی ریسرچ لیب افریقہ میں گھانا اور نائیجیریا میں قائم کی ہے۔ اسی طرح یہ مختلف شعبہ جات کو راہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہے ہیں۔
پریس اینڈ میڈیا آفس
ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کافی اچھا کام کر رہا ہے اور دنیا کے مختلف ٹی وی چینلز اور ریڈیو سے ان کا رابطہ ہے اور جماعت کے بارے میں خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں یا چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔ دورانِ سال کئی یونیورسٹیز اور سکولز کا وزٹ کیا گیا۔ اسلام پر چھ لیکچر بھی ان کے سٹاف نے دیے۔ مختلف ممالک کے میڈیا کی راہنمائی بھی یہ لوگ کرتے رہتے ہیں۔
الاسلام ویب سائٹ
ہے۔ اس ویب سائٹ پر ملفوظات اور تفسیر کبیر کے جدید کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن کا اضافہ کیا گیا۔ آن لائن قرآن اور موبائل appsمیں خطِ منظور کا اضافہ ہوا۔ آن لائن قرآن میں انگریزی اردو لفظی ترجمہ شامل کیا گیا۔ صحیح بخاری اور عربی تفسیر کبیر شامل کی گئی۔ ہر آیت کے ساتھ متعلقہ ترجمة القرآن کلاس کا ویڈیو لنک شامل کر دیا گیا ہے۔ میانمر زبان میں ترجمہ قرآن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ موبائل app میں تفسیر صغیر، شارٹ کمنٹری، فائیو والیم کمنڑی کا اضافہ کیا گیا۔ Open Quran سرچ انجن میں Lane Lexiconاور لفظی ترجمےکا اضافہ کیا گیا۔ براہین احمدیہ سمیت اٹھاون نئی انگریزی کتب ایپل،گوگل،ایمازون پر شائع کی گئیں، اب تک کل ایک سوپچاس کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ کل تین سو چھپن انگریزی اور ایک ہزار اردو کتب ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ میرے خطبات جمعہ جو ہیں بیس زبانوں میں آڈیو اور ویڈیو میں دستیاب ہیں۔ تقاریر اور کتب اور پریس ریلیز وغیرہ بھی دستیاب ہیں۔ اکثر والنٹیئرز ہیں جو بڑا اچھا کام کر رہے ہیں سٹاف میں تو شاید ایک ان کا مربی ہے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل
ہے اس کےمینیجمنٹ بورڈ میں اس وقت کل سولہ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ کل 506کارکنان اس میں اب کام کررہے ہیں۔ طوعی طور پر 279مرد اور 154خواتین ہیں جبکہ 79 باقاعدہ جماعتی payrollپہ ہیں، الاؤنس لے رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف علاقوں کے لیے ایم ٹی اے کے آٹھ چینلز چوبیس گھنٹے کی نشریات پیش کر رہے ہیں۔
ان چینلز پر اس وقت تیئس مختلف زبانوں میں رواں ترجمے نشر کیے جا رہے ہیں۔ جن میں انگریزی، عربی، فرانسیسی، جرمن، بنگلہ، سواحیلی، افریقن انگریزی، انڈونیشین، ترکی، بلغارین، سپینش، بوسنین، ڈچ، جاپانی، ملیالم، تامل، روسی، پشتو، فارسی، سندھی، چوئی، یوروبا اور ہاؤسا زبانیں شامل ہیں۔ دوران سال ایم ٹی اے ایشیا کے دو چینلز ایم ٹی اے 6ایشیا اور ایم ٹی اے 7ایشیا کی سٹریمنگ سروس کا آغاز کیا گیا۔ اب دنیا بھر میں یہ چینلز چوبیس گھنٹے آن لائن میسر ہیں۔ ایم ٹی اے 6ایشیا پر فار ایسٹ انڈونیشیا، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور روس کے ممالک کے لیے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جبکہ ایم ٹی اے 7ایشیا پر پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے لیے ان ممالک کی علاقائی زبانوں میں پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں۔
دوران سال نائیجیریا اور سیرالیون میں ایم ٹی اے کے دو نئے سٹوڈیوز کا آغاز ہوا اس کے علاوہ انڈونیشیا میں جدید سہولتوں سے مزین تین منزلہ نئے سٹوڈیوز نے کام شروع کر دیا ہے۔ اب یہاں انڈونیشین زبان میں معیاری پروگرام تیار کیے جار ہے ہیں۔ یوکے اور یورپ میں سکائی پلیٹ فارم پر ایم ٹی اے کی ہائی ڈیفینیشن HD نشریات کی ٹیسٹ ٹرانسمشن جاری تھیں اب باقاعدہ طور پر HDنشریات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ افریقہ میں ایم ٹی اے کی بیرونی براڈکاسٹ کے لیے ٹریننگ کی سہولیات بھی ہیں۔ گذشتہ سال سے افریقہ کے مختلف میڈیا اور تنظیموں اور براڈ کاسٹرزکی خواہش پر ایم ٹی اے ان کو تربیت فراہم کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ دوران سال بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی ادارے اپنے عملہ کو ٹریننگ کے لیے ہمارے سٹوڈیو بھجواتے ہیں۔ اس ٹریننگ پروگرام کے ذریعے ایم ٹی اے کو افریقہ کی میڈیا تنظیموں اور براڈ کاسٹرزکے مابین ایک خصوصی مقام حاصل ہوا ہے۔
افریقہ کے مختلف ممالک کے نیشنل چینلز پر ایم ٹی اے کے پروگرامز پیش کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے ذریعے اسلامی تعلیم اور جماعت کی عالمی خدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ دوران سال گیمبیا کے مختلف لوکل ٹی وی چینلز پر 78ہزار گھنٹے سے زائد دورانیہ کے 15ہزار 373پروگراموں کے ذریعے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا۔ ایم ٹی اے افریقہ مختلف زبانوں میں چل رہا ہے اور ایم ٹی اے افریقہ کی برانچز کی تعداد بھی اب بارہ ہو چکی ہے۔ یہ برانچز غانا، گیمبیا، مالی، آئیوری کوسٹ، کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، مایوٹ آئی لینڈ، روانڈا، نائیجیریا، بینن، سیرالیون اور ماریشس میں ہیں اور ان میں بعض جگہوں پر نئے سٹوڈیو بھی قائم ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔
ایم ٹی اے کے ذریعے سے بیعتیں
بھی ہوتی ہیں۔ امیر صاحب
فرانس
لکھتے ہیں کہ سٹراس برگ میں ایک مقامی فرانسیسی دوست نے اسلام قبول کیا۔ اس نے جماعت احمدیہ کے بارےمیں یوٹیوب پر ایم ٹی اے فرانسیسی نشریات میں سے ایک پروگرام کے ذریعے پتا لگایا۔ دس سال تک یہ صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدے پر شک میں رہا چنانچہ جیسے ہی اسے ایم ٹی اے چینل کا پتا چلا اس کے دل نے سچائی کو قبول کر لیا۔ بیعت کرنے کے بعد اس نے اپنے ارد گرد تبلیغ شروع کر دی اور اس کی تبلیغ سے نومبر 2022ء کو اس کی اہلیہ اور بڑے بیٹے نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
کیمرون
کے ایک دور دراز گاؤں کے رہنے والے ڈیگا سلمان صاحب نے بیان کیا کہ میں کیبل کے ذریعے ایم ٹی اےالعربیہ دیکھتا رہتا ہوں۔ میں سیکنڈری سکول میں ٹیچر ہوں۔ گذشتہ سال یوکے کا سارا جلسہ میں نے ایم ٹی اے کے ذریعے سے دیکھا۔ دوسرے روز غیر مسلم مہمانوں کے جماعت کے متعلق تبصرے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ دنیا میں صحیح اسلامی تعلیم پیش کر رہی ہے۔ تیسرے دن میرے لیے مزید دلچسپی کا باعث ہوا کہ میں نے دیکھا کہ امام جماعت احمدیہ اپنے پیروکاروں سے بیعت لے رہے ہیں اور ساری دنیا سے لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس نظارے نے مجھے یاد کرایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم تھا کہ لوگوں سے بیعت لیں اور آپ مسلمان ہونے والوں سے بیعت لیا کرتے تھے چنانچہ اسی وقت میں کیبل آفس گیا اور وہاں سے جماعت کا رابطہ نمبر لیا جو معلم ابوبکر صاحب کا تھا۔ اس طرح میرا جماعت سے رابطہ ہوا اور میں نے مزید معلومات لیں۔ دل کی تسلی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو فیملی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
فرنچ نژاد ایک دوست سلیم صاحب ہیں۔ انہیں سٹراس برگ میں مسجد کے بارے میں پتا لگا انہوں نے اپنے دوستوں سے رائے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ان سے بچ کےرہنا۔ موصوف نے ایم ٹی اے پر پروگرام دیکھا تھا ان پر اس کاگہرا اثر ہوا تھا چنانچہ انہوں نے دوستوں کی بات نہیں مانی تجسس تھا۔ کہنے لگے کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے روکا تھا نماز جمعہ پر انہوں نے ہماری مسجد میں آنا شروع کر دیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ تبلیغ شروع ہوئی سوال و جواب ہوتے رہے۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے اتفاق کرتے ہوئے بیعت کر لی۔ احمدیت کے بعد بتایا کہ میں سترہ سال پہلے عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوا تھا۔ مجھے اسلام کی تمام تعلیمات سے اتفاق تھا صرف حیات مسیحؑ کے عقیدے پر کچھ تحفظات تھے۔ ان سوالات کو لے کر میں تمام مسلمانوں کے فرقوں کے پاس گیا لیکن کوئی بھی مجھے تسلی بخش جواب نہیںدے سکا۔ میں اس عقیدہ کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا لیکن مجھے جماعت احمدیہ میں اس کا جواب مل گیا جب میں نے ایم ٹی اے پر وفات مسیح پر مبنی پروگرام دیکھے اور مسجد آ کر سوالات کرنے کا موقع ملا تو میرے دل کو تسلی ہوئی کہ یہی اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی۔
احمدیہ ریڈیوسٹیشنز
جماعت احمدیہ کے اپنے ریڈیو سٹیشنز کی تعداد اس وقت 25ہے۔ مالی میں 15، برکینا فاسو میں، سیرالیون میں، تنزانیہ، گیمبیا، کونگو کنشاسا اور اس کے ذریعے سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیغام پہنچ رہا ہے اور دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اس کے ذریعے سے اسلام اور احمدیت کا پیغام سن رہے ہیں۔ جرمنی میں تین ریڈیو سٹیشنز کا قیام ہو چکا ہے۔
عربی ریڈیو سٹیشن
کا نام ’’الاحمدیہ صوت الاسلام‘‘ ہے۔
ترک ریڈیو سٹیشن
کا نام ’’صدائے اسلام احمدیت‘‘ ہے۔
جرمن ریڈیو سٹیشن
کا ’’وائس آف اسلام‘‘ ہے۔ دوران سال ان تینوں ریڈیو سٹیشنز پر 778گھنٹے کے مختلف پروگرام ہوئے۔
’’وائس آف اسلام، یوکے‘‘
یہ سب سے پہلے یہاں یورپ میں شروع ہوا تھا۔ اس یوکے ریڈیو کی توسیع ہوئی ہے اور دوران سال یوکے کے مزید تین شہروں کارڈف لیڈز اور کوونٹری میں وائس آف اسلام کی کوریج شروع کی گئی ہے۔ اس طرح اب یہ نشریات نو شہروں میں سنی جا سکتی ہیں۔ قبل ازیں لندن، بریڈ فورڈ، ایڈنبرا ،لنڈنڈیری، مانچسٹر اور گلاسگو میں نشریات جاری تھیں۔ یوکے کے ادارہ Ofcomکے مطابق اس کی کوریج 5.8ملین گھرانوں اور اندازاً پندرہ ملین افراد تک ہے۔ وائس آف اسلام بہت مقبول ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ اور اسلامی تعلیم کا بھی لوگوں کو پتہ لگ رہا ہے۔
احمدیہ ریڈیو کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں،
افریقہ میں بھی اور اَور جگہوں پر بھی۔ اس کے ذریعے سے خود لوگوں میں اور احمدیوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ مثلاً
سینٹرل افریقہ
کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک روز ہمارے مبلغ نے ریڈیو پر حقوق العباد کے موضوع پر پروگرام کیا اور میاں بیوی کے حقوق بیان کیے۔ ایک عیسائی فیملی اس پروگرام کو سن رہی تھی۔ اس فیملی نے کچھ عرصےبعد مبلغ سلسلہ کو فون کیا اور کہا کہ آپ نے میاں بیوی کے جو حقوق اسلام کی رو سے بیان کیے تھے اس کے بعد ہمارے گھر میں اب کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے ہمارا گھر جہنم بنا ہوا تھا۔ ہم آپ کا ریڈیو پروگرام مستقل سنتے ہیں۔ ہم جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ کے پروگرام نے ہمارے درمیان صلح کروا دی۔
صرف اپنوںپر اثر نہیں ہو رہا بلکہ غیر بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب احمدیوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کو کس قدر فائدہ اٹھانا چاہیےاور اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانا چاہیے۔
اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی تعداد
کے بارے میں لکھا ہے کہ 67ممالک سے جو رپورٹیں آئی ہیں ان میں دو ہزار 900 اخبارات اور رسائل نے 1494جماعتی مضامین آرٹیکل اور خبریں شائع کی ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد 22کروڑ 57لاکھ 68ہزارہے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کے علاوہ ستر ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر بھی جماعت کو اسلام کا پرامن پیغام پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے۔ اس سال تین ہزار 266ٹی وی پروگراموں کے ذریعے دو ہزار 848گھنٹے وقت ملا۔ اسی طرح ریڈیو کے ذریعے سے وقت ملا۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس
یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہے ہیں۔
مرکزی شعبہ اے ایم جے
کے تحت بھی کام ہو رہا ہے۔ ان کے بھی آرکیٹکٹ جو ہیں وہ مختلف ملکوں میں جا کر جماعتی عمارات کے نقشے وغیرہ بناتے ہیں ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔
سینٹرل لیگل ڈیپارٹمنٹ
ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے قانونی مشورے دیتاہے، اچھے کام کر رہا ہے۔
مجلس نصرت جہاں
ہے۔ اس کے تحت افریقہ کے 13ممالک میں 37ہسپتال اور کلینک قائم ہیں۔ ان میں 42مرکزی ڈاکٹرز، 37لوکل اور 8وزٹنگ ڈاکٹرز خدمت میں مصروف ہیں۔ گذشتہ سال پانچ لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولت مہیا کی گئی۔ لائبیریا میں ایک کلینک کاکاٹا کے مقام پر زیر کارروائی ہے۔ افریقہ کے بارہ ممالک میں ہمارے 616 پرائمری اور مڈل سکولز اور دس ممالک میں 80سیکنڈری سکولز کام کر رہے ہیں جن میں 18مرکزی اساتذہ خدمت کر رہے ہیں۔ یہاں بھی نصرت جہاں بورڈ یوکے میں بنایا گیا تھا اس میں مختلف ممبران ہیں۔ یہ بھی ہسپتالوں اور سکولوں وغیرہ کے لیے پروگرام بناتے ہیں، ان کی مدد کرنے میں کافی اچھا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہمارے ان ہسپتالوں کے ذریعے سے نادار لوگوں کے آنکھوں کےفری آپریشن ہوئے۔ اب تک اس پروگرام کے ذریعے 20ہزار سے زائد افراد کے فری آپریشن ہو چکے ہیں۔ فری میڈیکل کیمپس لگائے جاتے ہیں۔ 37ممالک میں 776 فری میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔ دو لاکھ دو ہزار سے اوپر مریضوں کو مفت دوائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس میں بہت سارے افریقہ کے ممالک ہیں۔
خون کے عطیات
کے ذریعے سے بھی ضرورتمندوں کو مفت خون مہیا کیا جاتا ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعے سے بھی انسانیت کی خدمت کی جا رہی ہے۔ 64ممالک میں ہیومینٹی فرسٹ رجسٹرڈ ہو چکی ہے۔ اس کے تحت بھی اب ہسپتال وغیرہ نے باقاعدہ کام شروع کر دیے ہیں۔ صرف ہنگامی مدد نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ چیریٹی واک کے ذریعے سے ان کے لیے رقمیں بھی اکٹھی کی جاتی ہیں۔ قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبر گیری کا بھی انتظام ہے۔ مجموعی طور پر 14ہزار 586 قیدیوں سے رابطہ کیا گیا اور ان کی ضروریات پوری کی گئیں۔ 11ممالک میں 21قیدیوں نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق پائی اور اس طرح ان سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں ان کو بھی اسلام کی تعلیم کے متعلق بتایا جا رہا ہے۔
نومبائعین سے رابطےکی بحالی کی رپورٹ
یہ ہے کہ کیمرون نے 12ہزار 437 نومبائعین سے رابطہ کیا۔ سینیگال نے 8ہزار 760، نائیجر میں 5 ہزار 74، کونگو کنشاسا میں 2ہزار 900، برکینا فاسو میں 2 ہزار 300، بینن میں 2 ہزار 200، تنزانیہ میں دوران سال ایک ہزار 900 نومبائعین سے رابطہ ہوا۔ آئیوری کوسٹ میں پھر نائیجیریا، سیرالیون، کینیا، گنی بساؤ، مڈغاسکر، کونگو برازاویل، گنی کناکری، لائبیریا وغیرہ گھانا، یوگنڈا، گیمبیا۔ ایشیا میں بنگلہ دیش، ہندوستان، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں نومبائعین سے رابطے ہوئے۔ یوکے میں بھی ایک سو اکسٹھ 161 نومبائعین سے رابطہ ہوا اور اللہ کے فضل سے دوبارہ ان کو جماعتی نظام کا حصہ بنایا گیا۔ نومبائعین کے لیے تربیتی کلاسز اور ریفریشرکورسز بھی منعقد کیے گئے۔
اکانوے ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال 41ہزار 177
تربیتی کلاسز اور تعلیمی کلاسز اور ریفریشر کورسز کا انعقاد
ہوا اور ایک لاکھ 10ہزار سے زائد شاملین تھے اور کلاسز میں ایک ہزار 246 اماموں کو ٹریننگ دی گئی۔
اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو پھل عطا فرمائے ہیں جو بیعتیں عطا فرمائی ہیں ان کی تعداد 2لاکھ 17ہزار 168ہے۔ گذشتہ سال کی نسبت 40ہزار 323 کا اضافہ ہے۔ 114ممالک سے 430 سے زائد اقوام کے لوگ جماعت میں داخل ہوئے۔ نائیجیریا میں سب سے زیادہ بیعتیں ہیں اکتالیس ہزار، گنی کناکری ہے، پھر کونگو برازاویل ہے، گنی بساؤ ہے، پھر کیمرون ہے، سینیگال ہے، تنزانیہ ہے، لائبیریا کونگو کنشاسا، سیرالیون، ٹوگو، گیمبیا، گھانا۔
پھر برکینا فاسو میں بیعتیں ہیں، مالی، نائیجر، بینن،آئیوری کوسٹ، سینٹرل افریقن ریپبلک، روانڈا، چاڈ، کینیا، یوگنڈا، برونڈی، زمبابوے، ساؤ تومے، مڈغاسکر۔ اس کے علاوہ جو ممالک ہیں ملاوی، زیمبیا، صومالیہ، الجیریا، ایکویٹوریل گنی، ایتھوپیا، ماریشس، مصر، گبون، لیسوتھو، موریطانیہ، ساؤتھ افریقہ، سوازی لینڈ، مراکش، کوموروس آئی لینڈ، ری یونین آئی لینڈ، کیپ ورڈے آئی لینڈ یہاں بھی بیعتیں ہوئی ہیں، انڈونیشا، انڈیا، بنگلہ دیش، فلپائن، ملائیشیا، نیپال، قرغیزستان، ترکی، قازقستان، کمبوڈیا، سری لنکا، کبابیر پھر اس کے علاوہ تھائی لینڈ، بھوٹان، چائنا، جاپان، رشیا، میانمار یہاں بیعتیں ہوئی ہیں۔ یوکے میں بھی اس سال 153 کے قریب بیعتیں ہوئی ہیں۔ پھر جرمنی ہے، سوئٹزر لینڈ، فرانس، سپین، ناروے، بیلجیم، آئرلینڈ، البانیہ، آسٹریا، آذربائیجان، بلغاریہ، ڈنمارک، فن لینڈ، یونان، اٹلی، کوسووو، ہالینڈ، پرتگال، سلووینیا، نارتھ امریکہ میں کینیڈا میں دوران سال اٹھاسی بیعتیں ہیں۔ ہیٹی پھر امریکہ، ڈومینیکن ریپبلک، بیلیز، جمیکا، ہنڈورس، گوئٹے مالا، ٹرینی ڈاڈ ٹوباگو، میکسیکو، کیمن آئی لینڈ، پھر ساؤتھ امریکن بلاک میں پیراگوئے، گیانا، بولیویا، فرنچ گیانا، پیرو، پانامہ، برازیل، ارجنٹائن، کولمبیا، سورینام، وینزویلا۔ فجی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، مارشل آئی لینڈ، مائیکرونیشیا، گوام اور اس طرح بہت سارے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ نے بیعتیں عطافرمائی ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کل عالمی بیعت میں اس کا مزید ذکر ہو گا۔
اس کے بہت سارے واقعات بھی ہیں۔ بیان کرنا تو مشکل ہے۔امیر صاحب
تنزانیہ
لکھتے ہیں۔ ڈوڈوما ریجن کے ایک گاؤں سے عبداللہ صاحب ہماری مسجد آئے اور جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے بھی اس مسجد کے سامنے سے گزرے ہیں لیکن کبھی اندر آنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آج ان کے دل میں ڈالا گیا کہ وہ مسجد کے اندر آئیں، وہاں موجود مبلغ اور معلمین نے انہیں تفصیل سے جماعت کے عقائد کا تعارف کروایا، سوالات کے جوابات دیے۔ اس کے بعد بھی متعدد بار مسجد آتے رہے اور اپنے علماء کی طرف سے جماعت پرہونے والے اعتراضات کے جوابات حاصل کرتے رہے۔ جب ان کو تسلی ہو گئی کہ جماعت احمدیہ سچی ہے تو انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیارکر لی اور اپنے علاقے میں بھی تبلیغ شروع کر دی۔ بیعت کرنے سے قبل اس علاقے میں غیر از جماعت مسلمانوں کی مسجد بن رہی تھی۔ عبداللہ صاحب اس کے چندے کے محصل تھے اس وجہ سے پہلے ہی اہل علاقہ میں ان کی نیکی اور شرافت مشہور تھی۔ انہوں نے ہمارے مبلغ کو وہاں تبلیغ کرنے کی دعوت دی اور لوگوں کو اکٹھا کیا۔ ان لوگوں کے ساتھ غیر از جماعت عالم بھی موجود تھے۔ گفتگو کے دوران غیر از جماعت عالم نے کہا میرے پاس تو احمدیوں کی باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہر کسی کو اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ اس پر وہاں موجود انتالیس احباب نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔ کم از کم مولوی وہاں کے اتنے ایماندار ہیں کہ جو حقیقت کا اظہار ہے وہ کر دیتے ہیں۔ پاکستانی مولویوں کی طرح نہیں ہیں۔
اسی طرح مائیکرو نیشیا میں بھی، کانگو برازاویل میں مختلف جگہوں پر بےشمار واقعات ہیں بیان کرنا تو اس وقت مشکل ہے۔
کانگو برازاویل
میں پگمیز (Pygmies) بھی رہتے ہیں۔ وہاں معلم صاحب کہتے ہیں ہم پگمیز کے ایک گاؤں اوندابا میں تبلیغ کی غرض سے گئے لیکن گاؤں والوں نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیا۔ صرف ایک عورت کو ہم نے تبلیغ کی اور وہاںسے پھر دوسرے گاؤں چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک پرانی جماعت سے ایک لڑکا ہمارے پاس آیا جس کا تعلق بھی پگمیز کے خاندان سے ہے۔ اس نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا کہ آپ ہمارے خاندان کے دوسرے افراد کو تبلیغ کرنے کی غرض سے گئے تھے لیکن انہوں نے آپ سے تعاون نہیں کیا تو ہم آپ سے اس پر معافی مانگنے آئے ہیں۔ ہم نے ان کو سمجھا دیا ہے کہ جب بھی جماعت احمدیہ کے مشنری آپ کے پاس آئیں تو آپ نے ان کی بات غور سے سننی ہے کیونکہ احمدی ہی تو ہیں جو ہماری بات کو سنتے ہیں اور ہماری تکالیف کا خیال رکھتے ہیں۔ جتنا پیار محبت ہمیں ان سے ملا ہے کسی سے آج تک نہیں ملا۔ چنانچہ جب دوسری دفعہ ہم وہاں پر گئے تو سارا گاؤں اکٹھا ہو گیا اور تبلیغ اور مجالس سوال و جواب کے بعد تیئس افراد نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر یہ لوگ ہمیں اپنے خاندانوں کے دوسرے دیہات میں تبلیغ کی غرض سے ساتھ لے کر گئے اور اللہ کے فضل سے اب تک 27دیہات میں 462بیعتیں ہو چکی ہیں۔
خوابوں کے ذریعے سے بھی اللہ تعالیٰ راہنمائی کرتا رہتا ہے۔
اس میں بھی بے شمار لوگوں کے واقعات ہیں جن کا بیان کرنا تو مشکل ہے۔
مالی
سے مبلغ لکھتے ہیں سکاسو ریجن کا ایک واقعہ ہے۔ ایک مشن ہاؤس میں ابوبکر صاحب بیعت کرنے کے لیے آئے۔ کہنے لگے کہ وہ ریڈیو احمدیہ سنا کرتے تھے لیکن کبھی بیعت کرنے کی جانب دل مائل نہیں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کل رات میں نے خواب میں د یکھا کہ ایک سفید گھوڑا آسمان کی بلندیوں میں اڑ رہا ہے جس پر ایک نہایت خوش لباس بزرگ سوار ہیں جنہوں نے عمامہ پہنا ہوا ہے اور آسمان سے آواز آ رہی ہے کہ یہی اس زمانے کےامام ہیں ان کی بیعت کرو۔ اس کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی اور دل مطمئن تھا۔ جب انہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو کہنے لگے کہ بالکل کل رات اسی بزرگ کو انہوں نے خواب میں دیکھا تھا۔ چنانچہ وہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔
کانگو کنشاسا
سلمان فانی صاحب لوکل مشنری ہیں، کہتے ہیں باندوندو شہر میں ایک کلاریس نامی بیوہ خاتون ہے جس کے شوہر کی وفات کو پانچ برس ہو چکے ہیں۔ کہتی ہے کہ بار بار ان کے مرحوم خاوند اس کو خواب میں آ کر تلقین کرتے تھے کہ اسلام قبول کر لو اس کے ساتھ ساتھ وہ خواب میں ایک بزرگ کی زیارت بھی کرتی۔ چنانچہ ایک دن مشن ہاؤس آئی اور دیوار پر لگی ہوئی میری تصویر جب انہوں نے دیکھی تو کہنے لگی کہ یہی تو تھے جن کو میں خواب میں دیکھتی تھی اس کے بعد اس خاتون نے بیعت کر لی۔
لائبیریا
کے ایک نومبائع تھامس شریف صاحب کہتے ہیں ایک روز خواب دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا آؤ اور نبی کو دیکھو۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ میرے استاد نے مجھے بتایا ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ اس نے مجھے تین مرتبہ بلایا پھر میں دیکھنے گیا تو میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے سر پر پگڑی کی طرح سفید کپڑا بندھا ہوا تھا۔ کئی سال بعد جب میں سیرالیون گیا تو وہاں مجھے ایک مسجدجانے کا موقع ملا جہاں اسی بزرگ کی تصویر دیکھی جومجھے خواب میں دکھائے گئے تھے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی اور جماعت میں شامل ہو گیا۔ اس طرح مختلف ممالک کے واقعات ہیں یورپ میں بھی ہیں امریکہ میں بھی ہیں افریقہ کے بھی ہیں۔
مایوٹ آئی لینڈ
ایک دور دراز علاقہ ہے ایک نومبائع دوست ہارون صاحب نے بیعت کرنے کے بعد بتایا کہ میں نے بہت سی مسجدوں میں نمازیں ادا کی ہیں مگر کہیں بھی سکون نہیں ملا مگر جب سے احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھی ہے سکون ہی سکون ہے۔ موصوف اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ پہلے جماعتی سینٹر کے پاس ایک سلفی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے مگر ایک رات خواب میں ایک سفید رنگ کے کپڑے پہنے ایک شخص نے ان سے کہا کہ جاؤ احمدیہ مسجد میں نماز ادا کرو۔ کہتے ہیں کہ یہ خواب کئی دفعہ آئی جس کے بعد انہوں نے احمدیہ مسجد میں نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور مطمئن ہو کر بیعت کر لی۔
ایک لمبا واقعہ کینیڈا کے ایک عیسائی دوست کا بھی ہے۔ اسی طرح یوکے سے واقعات ہیں رشیا کے ہیں۔
بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینی ہوتی ہے تو
قیافہ شناسی
بھی دیتا ہے۔
گنی بساؤ
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ سینچنگ نامی ایک علاقے میں تبلیغ کے لیے گئے تو جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے انہوںنے موبائل کی مدد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تصاویر دکھانی شروع کیں تو اس گاؤں کے ایک شخص الحسن جالو صاحب نے تصویریں دیکھ کر تمام لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ یہ جو ساری تصویریں ہیں یہ جھوٹوں کی تصویریں نہیں ہو سکتیں۔ یقیناً یہ خدا تعالیٰ کے نمائندے ہیں اور میں ابھی سے اپنی فیملی کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ پھرنشان دیکھ کر ان کے ذریعےبہت ساری بیعتیں ہوئی ہیں۔
مخالفین کے پروپیگنڈے کے نتیجےمیں اللہ تعالیٰ بیعتیں عطا فرماتا ہے۔ احمدیوں کا نمونہ دیکھ کر بیعتیں ہوتی ہیں۔
اس لیے اس بارے میں میں بار بار تلقین کرتا رہتا ہوں کہ لوگوں کو اپنے نمونے دکھائیں۔
میکسیکو
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع نے بیعت کرنے کے بعد بتایا کہ میرے بھتیجے کے ایک عمل نے مجھے اسلام احمدیت کی طرف مائل کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم دونوں سڑک پر چل کر کہیں جا رہے تھے کہ زمین پر ان کو کسی کا بٹوہ نظر آیا۔ ان کے بھتیجے جس نے کچھ سال پہلے بیعت کی تھی اس بٹوے کو اٹھایا اور اس میں سے شناختی کارڈ نکال کر مالک کا پتہ لگانے لگا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ لوگوں کو تو جب بٹوہ ملتا ہے تو پہلے اس میں سے پیسے نکالتے ہیں اور تم نے ایسا نہیں کیا تو اس نے کہا کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور ہم ایسے نہیں کرتے۔ اس بات نے ان کے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ ان کا خدا پر ایمان تھا لیکن کسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جماعت سے رابطہ کیا اور تحقیق کے بعد بیعت کر لی۔ تو نمونوں کا بھی اثر ہوتا ہے۔ مخالفین جماعت سے بدظن کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام ہی ہوتے ہیں اس کے بھی بہت سارے واقعات ہیں جو بیان کرنا مشکل ہے۔
انڈیا
کا ایک واقعہ ہے۔ ایک گاؤں ہے راما منڈی وہاں سے تیس افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ آس پاس کے مولویوں کو اس بات کا علم ہوا انہوں نے ایک اثر و رسوخ والے آدمی کو ان نومبائعین کے پاس بھیجا کہ ان کو احمدیت سے توبہ کروائے۔ چنانچہ وہ شخص نومبائعین کو جماعت کے بارے میں غلط باتیں بتانے لگا تو وہاں کی مستورات نے، عورتوں نے جواب دیا کہ جب ہم لوگوں کو اسلام کے بارے میں بالکل جان کاری نہیں تھی تب آپ ہمیں اچھے مسلمان سمجھتے تھے۔ اب جب ہمیں کوئی دین اسلام کی تعلیم دینے لگا ہے تو ہم مسلمان نہیں رہے۔ لہٰذا جو ہیں وہی ہیں۔ اب ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ رہیں گے اور وہ آدمی شرمندہ ہوکے واپس چلا گیا۔
اسی طرح بہت سارے اور جگہوں کے بھی ہیں۔
مالی
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ عبداللہ صاحب کو بیعت کی توفیق ملی۔ بیعت کے بعد ان کے خاندان اور دوستوں نے انہیں احمدیت کے متعلق بدظن کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس پر انہوں نے بہت دعا کی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک روزخواب میں دیکھا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بہت بڑے دودھ کے دریا کے کنارے موجود ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ سے خواب میں کہتے ہیں کہ یہ سب احمدیت کی برکت سے انہیں ملا ہے۔ اس خواب کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا دل پوری طرح مطمئن ہو گیا کہ ان کا بیعت کا فیصلہ درست تھا۔
ارجنٹائن
میں بھی اسی طرح بیعت کا ایک واقعہ ہے۔ نومبائعین کو احمدیت چھوڑنے کی دھمکیاں، شدیدمخالفت ہوئی لیکن احمدیوں کی ثابت قدمی کا مظاہرہ ہوا بعض غیر معمولی تبدیلیاں بھی پیدا ہوئیں۔ اس نے بھی لوگوں کو متاثر کیا۔
برکینا فاسو میں جو ہمارے شہید ہوئے تھے ان کی فیملیوں میں چند ایک کے تاثرات
بھی بیان کر دیتا ہوں۔ موسیٰ آگ علی صاحب شہید برکینا فاسو کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مہدی آباد کا سانحہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ میں اپنے خاوند کی شہادت کی عینی شاہد تھی اور اس واقعہ کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ موجود تھیں۔ ان کی موجودگی میں ان ظالموں نے خاوند کو مارا۔ کہتی ہیں ہم بے یارومددگار اپنے گاؤں سے نکل پڑے تھے۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے لیکن جماعت نے ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ ہمارے زخم بہت جلد مندمل ہو گئے۔ ہم مہدی آباد سے نکلے تو ہمیں بچوں کی تعلیم کی فکر تھی لیکن خلیفہ وقت کی ہدایات کی روشنی میں جماعت نے بہت خیال رکھا ہمارے بچوں کی تعلیم کے لیے انتظامات کیے۔ انہیں معاشرے کا مفید وجود بنانے کے لیے جماعتی کوششیں قابل قدر ہیں۔ شاید وہاں رہتے ہوئے اپنے بچوں کا اتنا خیال نہ رکھ سکتے جتنا جماعت رکھ رہی ہے۔
پھر ابراہیم بیدگا صاحب کی اہلیہ ہیں۔ کہتی ہیں گیارہ جنوری کے سانحہ اور خاوند کی شہادت کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ اب میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکوں گی۔ سانحہ مہدی آباد کا بہت گہرا اثر ہم پر تھا لیکن خدائے قادرِ مطلق نے خود ہمارے زخموں پر مرہم رکھی، ہمارے دلوں کو سہارا دیا اور مضبوط کیا۔ میرے دل کو تسلی عطا ہوئی کہ یہ واقعہ تو خدا کی تقدیر کے تحت ہی ہوا ہے اور ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمارے خلیفہ نے اور ساری جماعت نے ہمارا بہت خیال رکھا ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیا ہماری ہمت بڑھائی اور یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
فاطمہ صاحبہ ہیں جو موسیٰ آگ علی صاحب شہید کی دوسری بیوی ہیں۔ کہتی ہیں اپنے خاوند کے راستے پر چلنے کے لیے اپنے خداسے وعدہ کر چکی ہوں۔ میں شہادت کے لیے تیار ہوں۔ خاوند کی شہادت کے بعد مجھے خیال آیا کہ اب میں چھوٹے بچوں کی ضروریات کا کیسے خیال رکھوں گی۔ میں اپنے مولیٰ کی شکر گزار ہوں کہ اس نے اس قدر عمدہ انتظام کر دیا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ میرے بچے یہاں ڈوری محمد آباد آکر نمازوں میں باقاعدہ ہوگئے ہیں۔ قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں، دعائیں یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قدر احسانات کیے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ اسی طرح اور بہت سارے لوگوں کے ہیں۔ پھر ایک خاتون موسیٰ آگ صاحبہ کی والدہ کہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر اپنے ہواس کھو بیٹھی۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ غم کی شدت سے میں پاگل ہو جاؤں گی۔ پھر جب خلیفہ وقت نے ہمارے پاس تعزیت کے لیے وفد بھیجا اور امیر صاحب برکینا فاسو اور امیر صاحب گھانا نے رقت کے ساتھ ہمیں خلیفہ وقت کا سلام اور پیغام پہنچایا تو مجھے لگا جیسے میرے اوسان بحال ہوناشروع ہو گئے ہیں۔ بعد ازاں ہم خلیفہ وقت کے ارشاد کے مطابق محمد آباد ڈوری میں آ کر بس گئے تو میں بالکل ٹھیک ہو گئی۔ بہرحال یہ بہت سارے ان کے واقعات ہیں ان شاء اللہ آئندہ کسی وقت بیان ہو جائیں گے۔
خدمت دین میں مشکلات اور نصرت الٰہی کے واقعات بھی ہیں۔ مخالفین کے بد انجام کے واقعات بھی ہیں۔ قبولیتِ دعا کے واقعات بھی ہیں۔ بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کو اس محدودوقت میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اب میں یہیں پہ ختم کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ جو جماعت احمدیہ پر فضلوں کی بارش برسا رہا ہے، اسے ہمیشہ جاری رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ کبھی ایسا عمل ہمارے سے نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی قسم کی ناراضگی کا موجب ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مخالفین کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:’’باز آ جاؤ اور اس کے قہر سے ڈرو اور یقیناً سمجھو کہ تم اپنی مفسدانہ حرکات پر مہر لگا چکے۔ اگر خدا تمہارے ساتھ ہوتا تو اس قدر فریبوں کی تمہیں کچھ بھی حاجت نہ ہوتی۔ تم میں سے صرف ایک شخص کی دعا ہی مجھے نابود کر دیتی۔ مگر تم میں سے کسی کی دعا بھی آسمان پر نہ چڑھ سکی بلکہ دعاؤں کا اثر یہ ہؤا کہ دن بہ دن تمہارا ہی خاتمہ ہوتا جاتا ہے …
کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم گھٹتے جاتے اور ہم بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر تمہارا قدم کسی سچائی پر ہوتا+ تو کیا اس مقابلہ میں تمہارا انجام ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 409)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا یہ واضح اور کھلاچیلنج ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور ان شاء اللہ تعالیٰ یہ جماعت بڑھتی رہے گی۔ اللہ کرے ہم بھی ہمیشہ اس جماعت کا حصہ بنیں اور اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر ہے اس غلبےمیں ہمارا بھی حصہ ہو۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ ۲۰۲۴ء