سالِ نَو کے آغاز پر دنیاوی آتش بازی کے مقابل اسلام آباد میں روحانی ’’آتش بازی‘‘
جہاں گزری رات کی بارہ منٹ کی مصنوعی روشنی کو لوگوں نے اپنی خوشی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
وہیں اسلام آباد میں ۱۸۰۰ لوگوں نے اپنے رب کے حقیقی نور اور دائمی روشنی سے اپنے اپنے وجودوں کو ہمیشہ کے لیے معطر کیا
کہتے ہیں کہ fireworks یعنی آتش بازی چین میں لگ بھگ ۲۰۲قبل مسیح میں Han Dynasty کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ آتش بازی کا تصور یورپ میں چودھویں صدی میں آیا اوراس وقت سے اب تک مختلف تہواروں پر آتش بازی کی جارہی ہے۔
لندن کا شہر ہے۔ سال کا آخری دن یعنی ۳۱؍دسمبر قریب آتا جا رہا ہے۔ ۳۱؍تاریخ کی رات کو ہونے والی آتش بازی کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی ہزاروں لوگ منتظر ہیں۔
’’کتنے لوگ آرہے ہیں؟‘‘ لندن شہر کی انتظامیہ کے تحت پلاننگ میٹنگ میں انچارج نے پوچھا۔ لگ بھگ ’’ایک لاکھ‘‘ جواب آیا۔ ’’کیا پولیس اور فائر برگیڈکی زائد نفری تیار ہے؟‘‘ پولیس اور فائر برگیڈ کے نمائندگان نے تیاری مکمل ہونے کی تسلی دی۔’’کیا فلمنگ اور ڈرون کمپنیز کی طرف سے بھی تیاری ہے؟ ‘‘فلمنگ اور ڈرون کمپنیز نے بھی بتایا کہ ان کی بھی تیاری مکمل ہے۔
لندن میں سالِ نَو کے استقبال پر آتش بازی کا سلسلہ سنہ ۲۰۰۰ء میں شروع کیا گیا تھا اور امسال آتش بازی کے ساتھ ساتھ ڈرونز کے ذریعے بھی آسمان پر روشنیوں کا ایک خاص شو ہونا تھا۔ اس دن ہزاروں لوگوں نے آکر لندن کی سڑکوں اور گلیوں میں ہنگامہ آرائی کرنی تھی اور ان میں سے بہت نے شراب کے نشہ میں دُھت اخلا قیات کی ہر حد سے گزر جانا تھا۔
تو یہ تھی ان کی تیاری…
عین اسی وقت،لندن سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر جنوبی انگلستان کے ایک قصبے میں بھی سالِ نَو کے استقبال کے لیے ایک میٹنگ جاری تھی۔ ’’کتنے لوگ متوقع ہیں؟‘‘سوال پوچھا گیا۔ ’’ہماری دو ہزار لوگوں کی تیاری ہوگی، ان شاءاللہ‘‘ جواب آیا۔ ’’مارکی کے لیے مصلّوں کا انتظام کردیا ہے؟‘‘ ’’جی، مارکی میں اگلے حصے میں نماز کا انتظام ہو گا اور پچھلی طرف ناشتے کا سیٹ اپ ہوگا۔‘‘ اس طرح خدام کی طرف سے پارکنگ، سیکیورٹی، روشنی، ناشتہ اور فرسٹ ایڈ وغیرہ کے انتظامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ اس میٹنگ کے اختتام پر اجتماعی دعا کی گئی کہ اے خدا! یہ پلاننگ تو تیرے کمزور عاجز بندوں کی ہے۔ اصل میں تو تُو ہی ہر چیز پر قادر ہے ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ سب کام تو بہتر کردے۔ آمین
آج ۳۱؍دسمبر کی رات ہے۔ لندن شہر میں خوب گہما گہمی ہے۔ فائر ورکس کی تیاری مکمل ہے۔ آج ایک لاکھ لوگوں نے فائر ورکس کے لیے ٹکٹس خریدے ہیں۔ جن کی قیمت بیس سے پچاس پاؤنڈز فی کس ہے۔
سیکیورٹی اور پولیس کے تین ہزار اہل کار فائر ورکس کی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔لندن فائر برگیڈ کے ۱۴ زائد فائر ٹرک کسی بھی ایمرجنسی کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اسی طرح دریائے ٹھیمز پر دو خصوصی کشتیاں ریسکیو کے لیے کھڑی کر دی گئی ہیں۔ ہجوم کو محفوظ رکھنے کے لیے چار سو سے زیادہ سرچ لائٹس بھی لگائی جا چکی ہیں۔
رات کے بارہ بجنے میں چند منٹ رہ گئے ہیں۔ شہر میں ہر شخص کا چہرہ لندن آئی (London Eye)کی طرف ہے۔ ان میں سے بہتوں نے شراب پی ہوئی ہے۔تقریباً سب ہی دنیا کی رنگ رلیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سردی کی رات میں گہرے بادلوں کی وجہ سے آسمان اَور بھی تاریک لگتا ہے۔ بارہ بجنے میں چند سیکنڈ رہ جاتے ہیں۔ سارا ہجوم یک زبان ہو کر آخری دس سیکنڈز کی الٹی گنتی گننے لگتا ہے۔ عین بارہ بجے لندن کا اندھیرے میں لپٹا ہوا آسمان مصنوعی روشنی سے دن کے اجالے میں بدل جاتا ہے۔ ہر طرف آتش بازی کی نمائش ہے۔ مختلف ڈیزائن اور مختلف رنگ کے گولوں سے ہر طرف چمک ہی چمک ہے۔ ہر طرف سے حیرت بھری دادِ تحسین کی آوزیں اٹھتی ہیں۔ آتش بازی کا ہر گولا زمین سے آسمان کی طرف پھینکا جاتا ہے اور ایک اونچائی پر پہنچ کر جب پھٹتا ہے تو اسے دیکھ کر ایک وقتی خوشی ملتی ہے۔ آج ڈرونز نے بھی اپنا ایک پروگرام پیش کیا ہے۔ چھ سو ڈرونز مختلف فارمیشنز (Formations) میں آسمان کو چھوتے ہوئے روشنیوں سے الفاظ لکھتے ہیں۔ آج کا فائر ورکس بارہ منٹ اور بارہ سو گولوں پر مشتمل تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے آتش بازی کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور پھر جیسے ہی بارہ منٹ ختم ہونے لگتے ہیں تو فائر ورکس کی شدّت اپنے عروج پر جا پہنچتی ہے اور آخری چند سیکنڈز میں ایسا لگتا ہے کہ ہر کونے سے تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں۔
اور پھر وقت ختم ہونے پر وہ رات کا آسمان جو چند لمحوں پہلے دن کی طرح روشن تھا، ایک دم پھر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ ہر طرف تالیاں بجتی ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی رنگ میں متاثر ہوتا ہے۔ واہ واہ آج کیا ہی Show تھا۔ مگر بارہ منٹ کے Show کے بعد آسمان پر پھر سے وہی اندھیرا چھا چکا ہے۔
فائر ورکس اور شو مکمل ہونے کے بعد کچھ لوگ آہستہ آہستہ وہاں سے نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس علاقہ کی تمام بسیں اور ٹرینیں بھر جاتی ہیں۔
وقت گزرتا جاتا ہے، رات کا ایک بج رہا ہے، بہت سا ہجوم گھروں کو جا چکا ہے۔پھر آہستہ آہستہ رات مزید اندھیری ہوتی جاتی ہے۔ دو بجے تک بہت تھوڑے لوگ رہ گئے ہیں۔ دو سے پھر تین بجتے ہیں اور علاقہ تقریباً خالی ہو چکا ہے اور چند ایک لوگ رہ گئے ہیں اور وہی جگہ جو چند گھنٹوں پہلے ایک لاکھ لوگوں کو سموئے بیٹھی تھی اب وہاں دیکھنے کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر ساڑھے تین بجتے ہیں اب تو کوئی رہا ہی نہیں۔ پھر آخر تین بج کر پینتالیس منٹ پر وہاں سے آخری بندہ اپنے گھر کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ وہ شخص شراب کے نشے میں دھت ہے اور اول فول باتیں کرتا وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔
عین اسی وقت اسلام آباد کے مین گیٹ پر ایک کار آتی ہے۔۳بجکر ۴۵ منٹ پر ۲۰۲۵ء کے پہلے دن کی تہجد اور نمازِ فجر کے لیے یہاں پہنچنے والا پہلا شخص بھی ایک نشے میں ہے۔مگریہ شخص کسی شراب کے نشے میں دھت نہیں بلکہ ذکر الٰہی اور درود شریف کے ورد میں ڈوبا ہوا ہے۔
صبح ساڑھے چار کے بعد آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اس سے پہلے خدام نے اپنی اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لی ہیں۔ پارکنگ، سیکیورٹی، فرسٹ ایڈ کی ڈیوٹی پر متعین خدام نہایت مستعدی سے خدمت بجالارہے ہیں۔ صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے مطابق آج یوکے کے مختلف ریجنز سے ۱۳۸؍خدام کو ڈیوٹی انجام دینے کی سعادت ملی۔
صبح ۵:۴۵ بجے مسجد مبارک میں باجماعت نمازِ تہجد شروع ہوتی ہے۔ آج مسجد مبارک میں تہجد پڑھانے کی سعادت جامعہ احمدیہ یوکے کے استاد مکرم حافظ طیب احمد طاہر صاحب کو ملتی ہے۔
تہجد کے دوران ہی مسجد اور مسرور ہال بھر جاتا ہے اور نئے آنے والے لوگوں کو اسلام آباد کے سامنے موجود میدان میں لگی بڑی مارکی میں بھیجا جاتا ہے۔
آہستہ آہستہ اسلام آباد میں تمام پارکنگ بھر جاتی ہے۔ اس کے بعد کاروں کو اسلام آباد کے ساتھ متصل سکول میں بھیج دیا جاتا ہے۔ خدام الاحمدیہ کے شمار کے مطابق آج ۶۶۳ کاریں پارک کی گئیں۔
آج فجر کی اذان کا وقت صبح ۶:۳۷ تھا۔ مقررہ وقت پر مکرم شیراز احمد صاحب نے اذان دی اور اس طرح انہیں مسجد مبارک میں سال ۲۰۲۵ء کی پہلی اذان دینے کی سعادت ملی۔ مسجد مبارک اسلام آباد میں فجر کی نماز کا وقت صبح ۷ بجے ہے اور ۷ بجے ہی حضور انور ایک لمبا براؤن کوٹ، سفید شلوار قمیص اور پگڑی زیب تن کیے مسجد میں رونق افروز ہوتے ہیں۔
مسجد میں داخل ہوتے ہی حضور انور نے سلام کیا۔ مسجد میں بیٹھے بہت سے لوگوں کی نظریں حضور انور کی طرف ہیں اور وہ اس طرح اپنی آنکھوں کی پیاس کو حضور انور کے بابرکت وجود کے دیدار سے بجھاتے ہیں۔مسجد میں داخل ہو کر حضور انور محراب میں تشریف لے جاتے ہیں اور نمازِ فجر شروع ہوتی ہے۔
آج پہلی رکعت میں حضور نے سورۃ الکہف کی آیات ۱۰۳ تا ۱۰۷ پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۃ الکہف کی آیات ۱۰۸ تا ۱۱۱ تلاوت کیں۔
سلام پھیرنے کے بعد حضور انور کچھ دیر محراب میں بیٹھے ذکرِ الٰہی کرتے رہے اور پھر واپسی کے لیے اٹھے۔ جیسے ہی حضور واپسی کے لیے مڑے، حضور نے بلند آواز میں سلام کیا اور پھر فرمایا’’سب کو نیا سال مبارک ہو‘‘اس کے بعد حضور انور مسجد کے باہر تشریف لے گئے۔یہ تھی سال نَو کی پہلی نماز فجر۔
نماز کے بعد مکرم عامر سعید بھٹی صاحب نے تفسیر القرآن کا درس پیش کیا۔مسجد کے باہر بہت سی خواتین حضور انور کے دیدار کے لیے کھڑی تھیں۔ خواتین کے نماز پڑھنے کے لیے درمیان میں پردہ کرکے آدھی مسجد اور آدھا ہال مختص کیا گیا تھا۔
آج اسلام آباد میں ۱۸۰۰ لوگوں کو سعادت نصیب ہوئی کہ انہوں نے سال ۲۰۲۵ء کی پہلی نماز یعنی فجر کی نماز حضور انور کی اقتدا میں پڑھی۔
کتنےہی خوش نصیب ہیں وہ ۱۸۰۰، جنہوں نے نئے سال کا آغاز حضرت اقدس حضرت مسیح موعودؑ کی قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں کیا۔ یقیناً ہر نماز ایک خوبصورت عمل ہے مگر پیارے آقا کے ساتھ سال کی پہلی نماز کا اپنا ہی مزہ ہے۔ حضور کی ان سجدوں میں کتنی ہی دعائیں ہوں گی جو جماعت، قوم اور ساری دنیا کی تقدیر کو بدلنے والی ہوں گی اور ان کے ساتھ شامل ہونے والی تمام آنکھیں بھی تر ہو گئی ہوں گی۔ یہ سب دعائیں اور گریہ و زاری ہر دنیاوی drone کی بلندیوں کو پار کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچتی ہوں گی۔
اور جہاں گزری رات کی بارہ منٹ کی مصنوعی روشنی کو لوگوں نے اپنی خوشی کا ذریعہ بنا لیا تھا وہیں اسلام آباد میں ۱۸۰۰ لوگوں نے اپنے رب کے حقیقی نور اور دائمی روشنی سے اپنے اپنے وجودوں کو ہمیشہ کے لیے معطر کیا۔
اور اس طرح ہم نے اسلام آباد میں فائر ورکس منایا… جماعت احمدیہ کی طرف سے نئے سال پر منائے جانے والے فائرورکس کی یہ صرف ایک مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں نئے سال کا آغاز اسی انداز سے کیا۔ الحمدللہ۔
(سید محمد احمد۔ اسلام آباد)
مزید پڑھیں: معدنی وسائل کی کثرت کے بارے میں قرآن مجید کی پیشگوئی