دلوں کی سختی سے کیا مراد ہے
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (الحشر: ۲۲)اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اگرہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا توتو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکر کریں۔ بعض لوگوں کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ کلام الٰہی کا ان پر اثرہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا کہ اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ بھی خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔
پس اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے دل پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ اپنے مقصد پیدائش کو بھول جاتے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی عاقبت کو بھول جاتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)
مزید پڑھیں: حصولِ ہدایت کے لیے جامع دعا