خلاصہ خطبہ جمعہ

سریہ بنو فزارہ اور سریہ عبد اللہ بن عتیک کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۰؍جنوری ۲۰۲۵ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭ …جب کبھی آنحضرتؐ کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تو منجملہ اور نصیحتوں کے صحابہ ؓسے ایک نصیحت یہ بھی فرماتے تھے کہ کسی عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا

٭…امّ قرفہ کے قتل کے واقعہ کا تنقیدی جائزہ

٭…ابو رافع کےقتل کا بیان

٭… اِن حالات میں صحابہ ؓنے جو کچھ کیا وہ بالکل درست اور بجا تھا اور حالتِ جنگ میں جب کہ ایک قوم موت وحیات کے ماحول سے گزر رَہی ہو، اِس قسم کی تدابیر بالکل جائز سمجھی جاتی ہیں اور ہر قوم اور ہر ملّت اِنہیں حسبِ ضرورت ہر زمانے میں اختیار کرتی رہی ہے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍جنوری۲۰۲۵ء بمطابق ۱۰؍ صلح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۰؍جنوری ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصوّر صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ گذشتہ خطبہ سے پہلے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ کے سرایا اور غزوات کا ذکر چل رہا تھا۔اُس میں

بنو فزارہ کے سریّہ کا ذکر ہوا تھا۔

تاریخ میں بنو فزارہ کے خلاف سریّہ میں ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے، جو امّ قرفہ کے قتل کا ہے، بعض تاریخ دانوں نے اِس کو جس طرح لکھا ہے، اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت کے خلاف واقعہ ہے۔

اِس واقعہ کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی الله عنہ نے بڑی دلیل کے ساتھ اور بڑے احسن رنگ میں کیا ہے۔ آپؓ نے لکھا کہ سریّہ حضرت ابوبکرؓ  کی جگہ ابن ِسعد نے ایک ایسے سریّہ کا ذکر کیا ہے ،جس میں زید بن حارثہؓ امیر تھے، یعنی ابنِ سعد اِس سر یّہ میں حضرت ابوبکرؓ کی بجائے زیدبن حارثہؓ  کو امیر بیان کرتا ہے اور تفاصیل میں بھی کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ مہم بنو فزارہ کی گوشمالی کے لیے تھی جو وادی القریٰ کے پاس آباد تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ پر چھا پہ مار کر اِس کا سارا مال و اسباب چھین لیا تھا۔ اِس مفسد گروہ کی رو ح ورواں ایک بوڑھی عورت تھی ، جس کا نام امّ قرفہ تھا ، جو اسلام کی سخت دشمن تھی ۔ جب یہ عورت اِس لڑائی میں پکڑی گئی تو زید کی پارٹی کے ایک شخص قیس نامی نے اِس عورت کو قتل کر دیا۔ اور ابنِ سعد اِس قتل کا قصّہ یوں بیان کرتا ہے کہ اِس کے دونوں پاؤں دو مختلف اونٹوں کے ساتھ باندھے گئے تھے اور پھر اُن اونٹوں کو مختلف جہات میں ہنکایا گیا ، جس کے نتیجے میں یہ عورت درمیان میں سے چر کر دو ٹکرے ہو گئی اور اُس کے بعد اِس عورت کی لڑکی سلمہ بن اکوع کے سپرد کر دی گئی ۔یہی قصّہ کسی قدر اختصار اور اجمال اور اختلاف کے ساتھ ابنِ اسحٰق نے بھی بیان کیا ہے۔

اِس روایت کی بنا پر مستشرق سر ولیم میور نے، جو دوسرے یورپین مؤرّخین کی نسبت زیادہ تفصیل دینے کا عادی ہے، اِس واقعہ کو مسلمانوں کی وحشیانہ روح کی مثال میں بڑے شوق سے اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے۔ بلکہ سرولیم نے اِسے اپنی کتاب میں درج کرنے کی وجہ ہی یہی لکھی ہے کہ اِس مہم میں مسلمان ایک ظالمانہ فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔ چنانچہ میور صاحب لکھتے ہیں کہ اِس سال مسلمانوں کو بہت سی مہموں میں مدینہ سے نکلنا پڑا، مگر یہ سب قابلِ ذکر نہیں ہیں، البتہ مَیں اِن میں سے ایک مہم کے ذکر سے رک نہیں سکتا کیونکہ اِس کا انجام مسلمانوں کی طرف سے ایک نہایت ظالمانہ فعل پر ہوا تھا ۔

حضورِ انور نے بیان فرمایا کہ یہ میور صاحب کا بیان ہے، اِس کے تجزیہ میں، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ جو مؤرّخ ایک واقعہ کو دوسرے واقعات پر محض اِس وجہ سے ترجیح دے کر اُسے اپنی کتاب کی زینت بناتا ہے کہ اِس میں کسی قوم کے ظلم وستم کا ثبوت ملتا ہے، وہ در حقیقت ایک غیر جانبدار محقق کہلانے کا حقدار نہیں ہے، کیونکہ اُس سے کبھی یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ اِس بات کی تحقیق کی طرف توجہ کرےگا کہ آیا یہ ظلم وستم کا واقعہ کوئی اصلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کے ہاتھ سے اُس کی ایک دلیل نکل جاتی ہے ۔ بہر حال میور صاحب نے اِس واقعہ کو خاص شوق کے ساتھ اپنی کتاب میں درج کیا ہے ، مگر جیساکہ ابھی ظاہر ہو جائے گا،

یہ واقعہ بالکل غلط اور قطعاً بے بنیاد ہے اور نقل و عقل ہر دو طرح سے اِس کا بناوٹی ہونا ثابت ہے۔

عقلی طریق پر تو یہ جاننا چاہیے کہ ایک عورت کو جس پر قتل کا الزام نہیں ہے ،قید کر کے ٹھنڈے لمحات میں قتل کرنا اور پھر قتل بھی اِس طریق پر کرنا جو اِس روایت میں بیان کیا گیا ہے ،یہ تو ایک بہت دُور کی بات ہے۔

اسلام تو عین جنگ کے میدان میں بھی عورت کے قتل کو سختی کے ساتھ روکتا ہے ، اِس بارہ میں آنحضرتؐ نے متعدد مرتبہ واضح فرمایا کہ عورتوں کوقتل نہیں کرنا۔

چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر میدانِ جنگ میں کسی دشمن قبیلہ کی ایک عورت مقتول پائی گئی تو باوجود اِس کے کہ یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت کن حالات میں اور کس کے ہاتھ سے قتل ہوئی ہے، آپؐ اُسے دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور صحابہ ؓسے یہ تاکیداً فرمایا کہ ایسا کام آئندہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اسی طرح

جب کبھی آنحضرتؐ کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تو منجملہ اور نصیحتوں کے صحابہ ؓسے ایک نصیحت یہ بھی فرماتے تھے کہ کسی عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا ۔

ان اصولی ہدایات کے ہوتے ہوئے صحابہ ؓکے متعلق اور صحابہؓ میں سے بھی زید بن حارثہؓ کے متعلق ،جو گویا آنحضرتؐ کے گھر کے آدمی تھے، یہ خیال کرنا کہ اُنہوں نے کسی عورت کو اِس طریق پر قتل کیا یا کروایا تھا جو ابن ِسعد نے بیان کیا ہے ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ بے شک روایت میں قتل کرنے کا فعل زید کی طرف منسوب نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسرے مسلمان کی طرف کیا گیا ہے۔ لیکن جب کہ یہ واقعہ زید کی کمان میں ہوا تو بہر حال اِس کی آخری ذمّہ داری بھی زید پر ہی سمجھی جائے گی اور زید کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اُنہوں نے آنحضرتؐ کی تعلیم کو جانتے ہوئے اِس قسم کے کام کی اجازت دی ہو گی ،ہرگز قابل ِقبول نہیں ہو سکتا ۔

اب رہا منقولی طریق! سواوّل تو ابن ِسعد یا ابن ِاسحٰق نے اِس روایت کی کوئی سند نہیں دی اور بغیر کسی معتبر سند کے اِس قسم کی روایت جو آنحضرتؐ کی صریح ہدایت اور صحابہ ؓکے عام اور معروف طریق کے خلاف ہو، ہر گز قبول نہیں کی جاسکتی ۔ دوسرے یہ کہ

یہی واقعہ حدیث کی نہایت معتبر کتب صحیح مسلم اور سنن ابو داؤد میں بیان ہوا ہے، مگر اِس میں امّ قرفہ کے قتل کیے جانے کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے اور بعض دوسری تفصیلات میں بھی اِس بیان کو ابنِ سعد وغیرہ کے بیان سے اختلاف ہے۔

اور چونکہ صحیح احادیث عام تاریخی روایات سے یقیناً اور مسلّمہ طور پر بہت زیادہ مضبوط اور قابل ترجیح ہوتی ہیں، اِس لیے صحیح مسلم اور سنن ابو داؤد کی روایت کے سامنے ابنِ سعد وغیرہ کی روایت کوئی وزن نہیں رکھتی ۔

یہ امتیاز اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے جب ہم اس بات کو مد ّنظر رکھیں کہ جہاں ابنِ سعد اور ابن اسحٰق نے اپنی روایتوں کو یونہی بلا سند بیان کیا ہے ، وہاں امام مسلم اور ابو داؤد نے اپنی روایتوں کو پوری پوری سند دی ہے۔ اور ویسے بھی محدثین کی احتیاط کے مقابلہ میں ، جنہوں نے انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے، مؤرّخین کی عام روایت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔

اس لیےاِس بات میں ہرگز کوئی شبہ نہیں رہتا کہ امّ قرفہ کے ظالمانہ قتل کا واقعہ ایک بالکل جھوٹا اور بے بنیا د واقعہ ہے، جو کسی مخفی دشمنِ اسلام اور منافق کی مہربانی سے بعض تاریخی روایتوں میں راہ پا گیا ہے اور حقّ یہ ہے کہ اِس سریّہ کی حقیقت اِس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں جو مسلم اور ابوداؤد نے بیان کی ہے۔

ایک سریّہ عبدالله بن عتیک ہے ،

اِس کا تاریخ میں ذکر آتا ہے، جو ابو رافع کی طرف تھا۔ ابنِ سعد نے بیان کیا ہے کہ یہ سریّہ ۶؍ہجری میں ہوا۔

اِس کی تفصیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ  تحریر فرماتے ہیں کہ جن یہودی رؤساء کی مفسدانہ انگیخت اوراشتعال انگیزی سے ۵؍ہجری کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگِ احزاب کا خطرناک فتنہ برپا ہواتھا، اُن میں سے حییّ بن اَخْطَب تو بنو قُریظہ کے ساتھ اپنے کیفرکردار کو پہنچ چکا تھا ،لیکن سلام بن ابی الحقیق جس کی کنیت ابو رافع تھی، ابھی تک خیبر کے علاقے میں اُسی طرح آزاد اور اپنی فتنہ انگیزی میں مصروف تھا۔ بلکہ احزاب کی ذلّت بھری نا کامی اور پھر بنو قُریظہ کے ہولناک انجام نے اِس کی عداوت کو اور بھی زیادہ کر دیا تھا اور چونکہ قبائل غطفان کا مسکن خیبر کے قریب تھا اور خیبر کے یہودی اور نجد کے قبائل آپس میں گویا ہمسائے تھے، اِس لیے اب ابو رافع نے جو ایک بہت بڑا تاجر اور امیر کبیر انسان تھا، دستور بنا لیا تھا کہ نجد کے وحشی اور جنگجو قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتا رہتا تھا اور رسول اللہؐ کی عداوت میں وہ کعب بن اشرف کا پورا پورا مثیل تھا۔ چنانچہ اُس زمانے میں ، جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں، اُس نے غطفانیوں کو آنحضرتؐ کے خلاف حملہ آور ہونے کےلیے اموالِ کثیر سے امداد دی تھی اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ماہ ِشعبان میں بنو سعد کی طرف سے جو خطرہ مسلمانوں کو پیدا ہوا تھا اور اِس کے سدّ باب کے لیے حضرت علی ؓکی کمان میں ایک فوجی دستہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا، اُس کی تہ میں بھی خیبر کے یہودیوں کا ہاتھ تھا جو ابو رافع کی قیادت میں یہ سب شرارتیں کر رہے تھے۔

مگر ابو رافع نے اِسی پر بس نہیں کی۔اس کی عداوت کی آگ مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اور آنحضرتؐ کا وجود اُس کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا تھا۔ چنانچہ بالآخر اُس نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنگ ِاحزاب کی طرح نجد کے قبائل غطفان اور دوسرے قبیلوں کا پھر ایک دَورہ کرنا شروع کیا اور مسلمانوں کے تباہ کرنے کے لیے ایک لشکر عظیم کی صورت میں جمع کرنا شروع کر دیا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی احزاب والے منظر پھرنے لگ گئے تو آنحضرتؐ کی خدمت میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ

اب اِس فتنہ کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی طرح اِس فتنہ کے بانی مبانی ابورافع کا خاتمہ کر دیا جائے۔ آنحضرتؐ نے اِس بات کو سوچتے ہوئے کہ ملک میں وسیع کُشت و خون کی بجائے ایک مفسد اور فتنہ انگیز آدمی کا مارا جانا بہت بہتر ہے،

اِن صحابیوں کو اجازت مرحمت فرمائی اور عبداللہ بن عتیک انصاری کی سرداری میں چار خزرجی صحابیوں کو ابو رافع کی طرف روانہ فرمایا ،مگر چلتے ہوئے تاکید فرمائی کہ

دیکھنا کسی عورت یا بچے کو ہرگز قتل نہ کرنا ۔

چنانچہ چھ ہجری کے ماہ ِرمضان میں یہ پارٹی روانہ ہوئی اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کر کے واپس آگئی ۔ اور اِس طرح اِس مصیبت کے بادل مدینہ کی فضا سے ٹل گئے ۔

ابو رافع کے قتل کے بعد اُس کے قلعہ میں واقع مکان کی سیڑھیاں جلدی جلدی اُترتے ہوئےعبدالله بن عتیک کی پنڈلی ٹوٹ گئی (اور ایک روایت میں یوں ہے کہ پنڈلی کا جوڑ اُتر گیا)، اُن کا اپنا بیان ہے کہ مگر مَیں اُسے اپنی پگڑی سے باندھ کر گھسٹتا ہوا باہر نکل گیا ، لیکن مَیں نے اپنے جی میں کہا کہ جب تک ابو رافع کے مرنے کا اطمینان نہ ہو جائے، مَیں یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔چنانچہ مَیں قلعہ کے پاس ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا ۔ جب صبح ہوئی تو قلعہ کے اندرسے کسی کی آواز میرے کان میں آئی کہ ابو رافع تاجر حجاز وفات پا گیا ہے۔اِس کے بعدمَیں اُٹھا اور آہستہ آہستہ اپنے ساتھیوں میں آملا اور پھر ہم نے مدینہ میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو رافع کے قتل کی اطلاع دی۔ آپؐ نے سارا واقعہ سن کر مجھے ارشاد فرمایا کہ اپنا پاؤں آگے کرو! مَیں نے پاؤں آگے کیا تو آپؐ نے دعا مانگتے ہوئے اِس پر اپنا دستِ مبارک پھیرا ، جس کے بعد مَیں نے یوں محسوس کیا کہ گویا مجھے کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں تھی ۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ  تحریر فرماتے ہیں کہ ابو رافع کے قتل کے جواز کے متعلق ہمیں اِس جگہ کسی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ ابو رافع کی خون آشام کار روائیاں تاریخ کا ایک کھلا ہوا وَرق ہیں ۔

اِن حالات میں صحابہ ؓنے جو کچھ کیا وہ بالکل درست اور بجا تھا اور حالتِ جنگ میں جب کہ ایک قوم موت وحیات کے ماحول سے گزر رَہی ہو، اِس قسم کی تدابیر بالکل جائز سمجھی جاتی ہیں اور ہر قوم اور ہر ملّت اِنہیں حسبِ ضرورت ہر زمانے میں اختیار کرتی رہی ہے۔

مگر افسوس ہے کہ موجودہ اخلاقی پستی کے زمانے میں مجرم کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اِس نا جائز حدّ تک پہنچ گیا ہے کہ ایک ظالم بھی ہیرو بن جاتا ہے اور وہ سزا جو وہ اپنے جرموں کی وجہ سے پاتا ہے عوام کی ہمدردی کی جاذب ہونے لگتی ہے اور اِس کے جرم لوگوں کو بھول جاتے ہیں ۔مگر اسلام کے متعلق ہمیں اعتراف ہے کہ وہ اِن جھوٹے جذبات کا مذہب نہیں ہے وہ مجرم کو مجرم قرار دیتا ہے اور اُس کی سزا کو ملک اور اور سوسائٹی کے لیے رحمت سمجھتا ہے۔ وہ ایک سٹرے ہوئے عضو کو جسم سے کاٹ دینے کی تعلیم دیتا ہے اور اِس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ ایک متعفن عضو ا چھے اور تندرست اعضاء کو خراب کر دے۔ باقی رہا طریق ِسزا کا سوال! سو اِس کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ عرب کے اُس وقت کے حالات کے ماتحت اور اِس حالتِ جنگ کے پیش ِنظر، جو اُس وقت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان قائم تھی، جو طریق اختیار کیا گیا، امنِ عامہ کے لحاظ سے وہی بہتر اور مناسب تھا ۔

آخر پر حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ا ِس کے اور واقعات بھی ہیں، باقی ان شاء الله آئندہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button