محترم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب
محترم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب مرحوم کے دادا حضرت میاں فضل کریم صاحب رضی اللہ عنہ آف گوجرانوالہ اور ناناحضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ مربی سلسلہ جموں کشمیردونوں صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا کے ذریعہ آئی جنہوں نے بعمر ۲۰ سال، پہلے بذریعہ خط اور پھر ۱۹۰٥ء میں خود قادیان حاضر ہو کر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور؎
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)میں آپ کی حسبِ ذیل تین روایات درج ہیں:۱: ’’اس عاجز نے بیعت تو بذریعہ خط ۱۹۰٥ء سے پہلے ہی کی تھی مگر پھر جب میں ۱۹۰٥ء میں قادیان گیا اور جا کر دستی بیعت کی اور حضورؑ سے واپس آنے کی اجازت مانگی تو حضور نے فرمایا کہ ابھی چند روز اور ٹھہرو۔ اس کے بعد پھر میرے اجازت طلب کرنے پر حضور نے اجازت دے دی اور اس کے بعد میں نے حضور سے کوئی وظیفہ پڑھنے کا طلب کیا تو حضور نے فرمایا کہ درود شریف جو نماز میں پڑھا جاتا ہے وہی پڑھا کرو۔‘‘
۲: ’’پھر دوسری دفعہ ۱۹۰٦ء میں ہم پانچ چھ آدمی مل کر گئے تو اس وقت ہم کچھ چینی اور چند ایک روغنی ہانڈیاں بطور تحفہ لے گئے تھے۔ جب حضورؑ کو معلوم ہوا کہ ہم درزی ہیں تو حضور نے ہم کو کچھ کپڑے سینے کو دیئے اور باورچی کو کہا ان کو کچھ اچھا کھانا دو لیکن ہم نے عرض کیا کہ حضور! ہم کو کچھ پس خوردہ مرحمت فرما دیں۔چنانچہ وہ بھی اندر سے آتا رہا اور جب کام ختم ہوگیا تو ہم واپس آنے لگے تو ہم نے دعا کے لئے درخواست کی۔چنانچہ
میں وہ ہوں نورخدا جس سے ہوا دن آشکار
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام جن کو اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا تھا کہ آپ کے دلی محبوں کے گروہ کے نفوس و اموال میں برکت دی جائے گی۔
حضور نے ہم سب کو اندر بلا کر کھڑے ہو کر دعا کی اور وہ دعا ابھی تک ہم کو یاد آتی ہے۔ اس کے بعد ہم سے کپڑوں کی مزدوری دریافت کی۔ جو ہم لینا تو نہیں چاہتے تھے لیکن حضور کے اصرار سے ہم نے حضور کے کُرتے مانگے تو ہم کو اندر سے ایک ایک کرتہ مل گیا جو ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔‘‘
۳: ’’پھر ۱۹۰۸ء میں جب حضور لاہور تشریف لائے میں ایک مکان بنوارہا تھا۔ میں اپنی بیوی کو لے کر جو کہ ہجیروں سے بیمار تھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کے لئے درخواست کی۔ حضور نے فرمایا کہ بچے کا دودھ چھڑا دو اور ہم دعا کریں گے اور وہاں پر خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک خاص لیکچر کا انتظام کروایا ہوا تھا جس پر منشی محمد دین صاحب نے ایک رقعہ کے ذریعہ اندر جانے کی اجازت طلب کی اور لیکچر سنا اور ساڑھے بارہ بجے خواجہ صاحب نے عرض کی کہ اب لیکچر بند کردیں، لوگ کھانا کھانا چاہتے ہیں۔اس پر سامعین نے فوراً کہا کہ کھانا تو ہم ہر روز کھاتے رہتے ہیںیہ روحانی غذا کبھی کبھی ملتی ہے اس لئے لیکچر جاری رکھا جائے۔ اس پر حضورؑ نے ایک گھنٹہ مزید تقریر فرمائی اور ہم واپس گوجرانوالہ آگئے۔ دستخط فضل کریم درزی احمدی از گوجرانوالہ اندرون دروازہ ٹھاکر سنگھ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر۳ صفحہ ۳۶-۳۷)
(نوٹ از محمد اسماعیل منیر صاحب ابن حضرت میاں فضل کریم صاحبؓ) :اس روایت کے آخری حصہ کی تصدیق ہمارے ننھیالی بزرگ میاں میراں بخش ولد میاں شرف الدین آف خاص شہر گوجرانوالہ آبادی چاہ روڈہ محلہ احمد پورہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جنہوں نے ہمارے خاندان میں سے سب سے پہلے بیعت کی ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء میں اور زیارت ۱۹۰۱ء میں کی تھی۔ یہ روایت بھی اسی رجسٹر نمبر ۳ کے صفحہ نمبر ۱۲ تا ۱٦ پر درج ہے اس میں قادیان جانے والے پانچ درزی بھائیوں کے نام یوں درج ہیں۔ خاکسار (میاں میراں بخش صاحب، ناقل) اور فضل کریم (میرے والد۔ ناقل)اور فضل دین (میرے نانا۔ ناقل) اور غلام رسول اور اسماعیل۔ عاجز نے بابا میراں بخش صاحب کو دیکھا ہوا ہے۔ آپ آخری عمر میں آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے۔ عاجز۱۹٤٥ء میں قادیان سے موسمی تعطیلات میں گوجرانوالہ آیا تو ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد کی تحریک پر ان کے حالات ان سے سن کر لکھ کر لے گیا تھا۔ خاندان میں سے میرے پہلے واقف زندگی ہونے پر میرے ساتھ بہت پیار کرتے تھے اور خوب دعائیں دیتے تھے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے خدمت دین کی کچھ توفیق عطا فرمائی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔
نماز جمعہ کی اہمیت
اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ میرے والد محترم پیشہ کے لحاظ سے درزی تھے۔ آپ کے خاندان کے بعض دیگر افراد اور دوست بھی اسی پیشہ سے منسلک تھے۔ آپ نے اس پیشہ میں خاصی مہارت حاصل کرلی تھی۔ مگر نظر کمزور ہوجانے کے باعث حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے آپ کو تجارت کرنے کا مشورہ دیا۔ جس پر آپ نے اپنے ایک غیراحمدی دوست کی شراکت سے گوجرانوالہ کے مشہور بازار کھنڈ والا میں پنساری کی دکان کھول لی تھی۔
والدہ صاحبہ بیان فرمایا کرتی تھیں کہ جب یہ دکان کھولی اور پہلی مرتبہ جمعہ کا دن آیا تو آپ دکان بند کرکے مسجد کو چلے گئے کہ یہی حکم خدا قرآن مجید کی سورت جمعہ میں ہے کہ ’’اے مومنو ! جب تمہیںجمعہ کی نماز کے لیے پکارا جائے تو خدا تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے دوڑو ‘‘اور اپنے شراکت والے دوست کے نمائندہ کو بھی چھٹی دے دی۔ جس کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو آپ کے مسلمان دوست نے اسے پسند نہ کیااور فیصلہ دیا کہ جمعہ کے دن دکان بند نہ ہوگی۔ ایک جمعہ آپ پڑھنے کے لیے جایا کریں اور دوسرا جمعہ میرا نمائندہ جایا کرے گا لیکن والد صاحب محترم نے اس تجویز کو قبول نہ فرمایا اور دکان کی چابیاں اپنے دوست کو دے کر گھر آگئے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے دادا جان کے حالات بیان کرنے کے بعد آپ کےاباجان محترم محمداسحاق انور صاحب مرحوم کے بارے میں عرض ہے کہ موصوف واقفِ زندگی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے انہیں ابتداءً دفتر امانت میں اور پھر ۱۹٥٤ء سے مارچ ۱۹٦۳ء تک سندھ میں محمد آباد سٹیٹ میں بطور اکاؤنٹنٹ خدمت سونپی تھی۔انہیں خلفائے احمدیت سے والہانہ عشق ومحبت تھا جس کا اظہار ان کے عمل اور خطوط سےبھی نمایاں تھا۔آپ کی والدہ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بھی بہت دعا گو، صابر و قانع خاتون تھیں جنہوں نے پہلے اپنے خاوند کی بیماری کے قریباً دس سال نہایت ہمت سے خدمت کرتے گزارے اور پھر ۱۹۷۱ء سے ۲۰۲۲ء تک بیوگی کا عرصہ مجسّم دعا اور صبر بن کر گزارا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی آپ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر ایک مجلس سوال و جواب میں فرمایا تھا۔
محترم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب کی پیدائش مئی ۱۹٥۳ء میں ربوہ میں ہوئی۔آپ ابھی بہت چھوٹے تھے کہ آپ کے والد گھوڑے سے گرنے کے باعث لمبی تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ پھر آپ کی عمر اندازاً اٹھارہ برس ہوگی کہ آپ کے والد۱۹۷۱ء میں وفات پاگئے۔پانچ بھائیوں میں چونکہ آپ سب سے بڑے تھے چنانچہ گھریلو ضروریات کے پیش نظر صِغر سنی میں ہی آپ کو اپنی والدہ کا سہارا بننے کی توفیق ملی اور گزر بسر کے لیے مختلف کام کرنے کی ضرورت پیش آئی جن میں معمولی اُجرت پر پتھروں کی کُٹائی، چارپائیاں بُننا، کاغذ کے لفافے بنانا نیز بعض اوقات ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کا سامان اٹھانا بھی شامل ہے۔ انتہائی تنگدستی کے باوجود آپ نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور اکثر ریلوے اسٹیشن پر رات گئے بلب کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے۔نویں جماعت سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانےلگے تھے اور یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔
۱۹٦۹ء میں آپ نے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔تعلیم الاسلام کالج سےایف ایس سی کی تکمیل کے بعد نیشنل سروس پروگرام NCC کے تحت آپ سیالکوٹ چھاؤنی گئے جہاں قریباً چھ ماہ کا عرصہ فوجی تربیت میں گزارا۔ پنجاب یونیورسٹی سے آپ نے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی بنا پر آپ کو قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں سکالر شپ پر ایم ایس سی میں داخلہ ملا۔
ایم ایس سی میں بھی آپ یونیورسٹی میں پوزیشن ہولڈر رہےاور اسی وجہ سے حکومتی انتظام کے تحت پی ایچ ڈی کیے جانے کے حقدار تھے لیکن بوجوہ یہ انتظام نہ ہوسکا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی منظوری سے ۱۹۷۹ء میں مجلس نصرت جہاں کے تحت گھانا چلے گئے۔گھانا میں قیام کے دوران نیوزی لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں آپ کے داخلہ اور سکالر شپ کا انتظام ہوگیا۔
فروری ۱۹۸۲ء میں گھانا سے پاکستان واپس آئے اور ۱۹۸۲ء میں آپ کی شادی محترمہ تسنیم اختر ناصر صاحبہ بنت مکرم غلام محمد صاحب ثالث آف لاہور سے ہوئی جن کے والد حضرت بابو غلام محمدصاحب ثانیؓ (صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) تھے۔اس کے بعد آپ نیوزی لینڈ چلے گئے۔ وہاں بھی مالی تنگی کے باعث مختلف کام کرنے پڑے جن میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔ان ایام میں آپ کو کثرت سے دعائیں کرنے اورتین ماہ روزے رکھنے کی توفیق بھی ملی۔محض خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت سے آپ کو پی ایچ ڈی کی تکمیل کی توفیق ملی۔نیوزی لینڈ میں دوران تعلیم آپ نے دعوت الیٰ اللہ اور تبلیغی مساعی کو تعلیم کے ساتھ ساتھ جاری رکھا۔مرکز کی ہدایت پر آپ نے فجی اور آسٹریلیا کے مشنز سے رابطے کیے اور وہاں سے لٹریچر منگوا کر تقسیم کرتے تھے۔بذریعہ خطوط چرچوں اور مختلف تنظیموں کو تبلیغ کرتے اور مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز دینے کا موقع بھی ملتا رہا۔آپ کی اہلیہ کو بھی تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ لٹریچر تقسیم کر نے کی توفیق ملی۔نتیجۃً چرچ والوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔آپ عام مسلمانوں میں بھی احمدیت حقیقی اسلام کی تبلیغ کرتے اور آپ کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی جاتی تھی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغی مساعی میں برکت کے نتیجہ میں دو انڈونیشین طالب علموں کو قبول احمدیت کی سعادت بھی نصیب فرمائی۔
۱۹۸٥ء میں جب آپ Wellington میں تھے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو کچھ عرصہ امیر بھی مقرر فرمایا تھا۔ اسی سال آپ کینیا چلے گئےاور وہاں University of Nairobi اور Kenyatta University میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو بھرپور نافع الناس زندگی گزارنے کی توفیق دی۔چنانچہ پرتھ(Perth)،کراتھا مغربی آسٹریلیا، برسبن(کوئنز لینڈ)سڈنی(NSW)نیو کاسل(NSW) نیوجرسی، نیویارک امریکہ MUM تنزانیہ،ہیڈ لینڈ اوریونیورسٹی آف گنی پاپوا میں مثالی خدمات سرانجام دیں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے داماد مکرم عظمت اللہ باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ’’ڈاکٹر صاحب کی ذات کا ایک نمایاں پہلو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی قدرت نمائی پر یقین کامل تھا۔اکثر اپنی خوابوں کا ذکر تجدید ایمان کی خاطر اپنے بچوں سے کرتے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور توکل تھا۔
۲۰۰٥ء میں جب میں پاکستان سے آسٹریلیا آیا تو میں نے ڈاکٹر صاحب کے گھر کچھ عرصہ سکونت اختیار کی۔ شاید ہی کوئی رات ایسی گزری ہو جس میں تہجد کے وقت میری آنکھ ڈاکٹر صاحب کی گریہ و زاری سے نہ کھلی ہو۔آپ کی شخصیت میں سادگی اور نفاست نمایاں تھی۔ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے ہمدرد انسان تھے۔اپنے اور پرائے ہم مذہب یا غیر مذہب سب کے ساتھ آپ کا معاملہ نہایت پیار والا تھا۔‘‘
قرآن کریم سے عشق تھا۔ہمیشہ اس کی تلاوت کرتے اور تفسیر کا مستقل مطالعہ کرتے اور عزیز واقارب میں ان نکات کا تذکرہ کرتے۔آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عاشق اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء سے محبت میں سرشاررہتے۔
جب آپ پَرتھ(Perth) میں تھے تو سڈنی (Sydney) میں آپ کو ایک ملازمت آفر ہوئی۔آپ جانے کے لیے اپنی تیاری مکمل کر چکے تھے کہ خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’اسلم !کہاں ہوتے ہو ملنے نہیں آتے‘‘اگلی صبح اپنی اہلیہ اور بچوں سے خواب کا ذکر کرکے کہا کہ میں حضور سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں۔ چنانچہ فوراً روانہ ہوگئے جب ملاقات کے لیے حضور کے کمرہ میں داخل ہوئے تو حضور نے دیکھتے ہی فرمایا کہ ’’اسلم !کہاں ہوتے ہو ملنے نہیں آتے۔‘‘یہ ارشاد سن کر آپ زارو قطار رونے لگے اور پھر حضور کے ارشاد پر اپنی والدہ سے ملنے امریکہ روانہ ہو گئے۔ اور اپنے بیوی بچوں کو کہا کہ سامان بیچ کر امریکہ آجائیں۔
آپ خلافت احمدیہ کے سچے عاشق اور اس راہ میں اپنی جان،مال اور وقت قربان کرنے کی اعلیٰ مثال تھے۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ملاقات کے دوران مرحوم سے پوچھا کہ اسلم کتنا کماتےہو؟ توآپ نے عرض کیا’’حضور!اللہ کا فضل ہے۔‘‘پھر حضور نے فرمایا:’’اپنی فیملی کے لیے بھی کچھ رکھتےہو کہ سب چندے میں جماعت کو دے دیتے ہو؟‘‘یہ آپ کے چندے کا معیار تھا۔ وفات سے چند دن قبل رمضان میں بے انتہا خیرات کرتے رہے۔ اللہ قبول فرمائے آمین۔ کتب حدیث اور خلفائے کرام کے خطبات اور کتب مستقل مطالعہ میں رہتی تھیں۔
آپ نے نہایت تنگی و ترشی سے بہت معمولی تنخواہ میں بھی گزارا کیا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔اپنے بچوں کو امام وقت کی محبت، نظام جماعت کی اطاعت، عہدیداروں کا ادب اور احترام اور جماعتی کاموں میں حتی الوسع حصہ لینے کی تلقین کرتے۔چندہ جات کی ادائیگی میں بہت مستقل تھے۔امانت،دیانت،قناعت و خود داری ان کے اوصاف نمایاں ہیں۔آپ کی زندگی سادگی،درویشی اور توکل علی اللہ کا اعلیٰ نمونہ تھی۔آپ بہت دعا گو اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔
جماعتی کاموں کے لیے ہر وقت مستعد رہتے اورہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کرتے۔مستحقین،غربا اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مالی امداد کرتے۔سادہ زندگی کے پیکر لیکن دوسروں کے لیے دل کے سخی تھے۔خوش اخلاق زندہ دل اور ہر معاملہ میں خدا کی طرف امید کرنے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔
لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی ڈاکٹر بشریٰ فرح ناصر اہلیہ مکر م عظمت اللہ باجوہ صاحب اور دو بیٹے خاکسار مبشراحمد ناصر اور محموداحمد ناصر نیز متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے یادگارچھوڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو اپنے والد کی نیکیوں کو زندہ رکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(مبشر احمد ناصر۔کینیڈا)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ذکر ملک نور الٰہی صاحب کا اور دارالحمد کی کچھ یادیں