کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے

وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اورکیفیت رکھتی ہے۔ وہ فناکرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔وہ رحمت کوکھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہرایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہےاور ہرایک زہر آخر اس سے تریاق ہوجاتاہے۔

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔

مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور ازخود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲۔۲۲۳)

فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرہ:۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں۔میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آسکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اُس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادرہونا بھی بپایۂ یقین پہنچتا ہے لیکن چاہیے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ مَیں اُن کی آواز سنوں۔اورنیزچاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جو اُن کو معرفتِ تامّہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اُسی کو عرفان دیا جاتا ہے۔

ایمان کی تعریف۔ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اُس حالت میں مان لینا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک وشبہات سے ہنوز لڑائی ہے۔پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی باوجود کمزوری اور نہ مہیّا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیّت میں صادق اور راستباز شمار کیا جا تا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طو رپر معرفتِ تامّہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے۔

(ایّام الصلح، روحانی خزئن جلد ۱۴ صفحہ ۲۶۱،۲۶۰)

مزید پڑھیں: جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button