دعا کے لئے صبر سے مانگتے چلے جانے کی شرط ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو اور پھر دعا کے لئے صبر سے مانگتے چلے جانے کی شرط ہے۔ جلدبازی کرتے ہوئے بیچ میں چھوڑ دینا دعا مانگنے کا طریق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ جب صبر سے دعا کرتے ہیں اور جب بھی دعا کرتے ہیں صبر سے کرتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے جب اس طرح کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے مقصود کو پا لیتے ہیں۔ اور ان کا مقصود کیا ہوتا ہے۔ کیا چیز انہوں نے حاصل کرنی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، جیسا کہ فرمایا وَالَّذِیْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ (الرعد:۲۳) اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے صبر کرتے ہیں، مستقل مزاجی سے اس سے دعائیں مانگتے ہیں اور پھر مانگتے چلے جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا پھر مَیں دعاؤں کو سنتا بھی ہوں بشرطیکہ اس کا حق ادا کیا جائے یعنی یہی کہ صبر کے ذریعہ سے مانگتے چلے جائیں اور مقصد بھی ان کا یہ ہو کہ میری رضا حاصل کرنی ہے تو باقی چیزیں تو ضمنی چیزیں ہیں، وہ تو مل ہی جائیں گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے گی۔
فرمایا کہسَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ (الرعد:۲۵) تمہارے اس صبر اور ثابت قدمی کی وجہ سے تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے اس طرح مانگنے کی وجہ سے تمہیں میری نعمتیں حاصل ہوں۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور اچھے انجام کی خبر مل رہی ہوتو پھر کسی اور طرف جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ ایک مومن کو صبر سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے اور جب ہم دعاؤں میں خداتعالیٰ سے اس کی رضا اور توجہ مانگیں گے تو غیر ضروری دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ دوسری سب دعائیں غیر ضروری بن جائیں گی۔ کبھی ہمارے منہ سے ایسی دعائیں نہیں نکلیں گی جو بعض دفعہ جلد بازی میں آ کر ایسی ہو جاتی ہیں جو خیر سے خالی ہوں۔ ایسی دعائیں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی جن میں صرف اور صرف اپنی ذات کا لالچ ہو، صرف اور صرف دنیاوی ضروریات ہی ان کا محور ہو، دنیاوی ضروریات کے گرد ہی گھوم رہی ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ کی مرضی مل جائے گی تو خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خود ہمارا کفیل ہو جائے گا۔ خود ہی ہماری ضروریات پوری کرنے والا ہو گا۔… اللہ تعالیٰ کی محبوب دعاؤں میں سے سب سے زیادہ محبوب دعا اس سے عافیت طلب کرناہے، اس کی رضا حاصل کرنا ہے، اس کی پناہ میں آنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر باقی چیزیں تو ایک مومن کو خود بخود مل جاتی ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الدعوات الفصل الثانی حدیث نمبر ۲۲۴۰) (خطبہ جمعہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر ۲۰۰۵ء)
مزید پڑھیں: ہر سچی بات (حکمت اور موقع محل کے بغیر)قولِ سدیدنہیں