قبولیت دعا کے متفرق نہایت ایمان افروز واقعات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍جنوری۲۰۱۸ء)
اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بڑا فضل ہے کہ ہمارے اکثر چھوٹے بڑے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر بیتاب ہو کر، گڑ گڑا کر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے اور اس سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے۔ اور بعض دفعہ دعا کی قبولیت کے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو غیروں کو بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسی ناامیدی کی کیفیت ہو جاتی ہے اور کس طرح ہر طرف سے ناامید ہو جاتے ہیں اس وقت جب ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی کا باعث بنا۔ مَیں اس وقت بعض ایسے واقعات پیش کروں گا جو مختلف رپورٹس میں آتے ہیں۔
ناظر دعوت الی اللہ قادیان لکھتے ہیں کہ ضلع ہوشیار پور کے امیر نے بتایا کہ چند سال قبل ان کے گاؤں کھیڑا اچھروال میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں والے بہت پریشان تھے حتی کہ کنویں کا پانی بھی نچلی حد تک پہنچ گیا تھا۔ یہاں کی ہندو اکثریت نے وہاں کے معلم کو دعا کرنے کو کہا۔ مشرقی پنجاب میں معلم کو، مولوی کو ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ احمدی معلم کو دعا کے لئے کہیں گے تو ضرور بارش ہو گی۔ بہرحال ہمارے معلم نے پہلے تو ان کو اسلامی دعا کے آداب بتائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتائیں۔ پھر دعا کروائی۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے اس معلّم کی دعا کو قبول فرمایا اور اپنے فضل سے دو تین گھنٹے کے اندر موسلادھار بارش برسا دی اور اپنے سمیع الدعا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس واقعہ کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے گاؤں میں اچھا اثر ہوا اور گاؤں والوں نے برملا کہا کہ احمدیوں کی دعا کی وجہ سے بارش ہوئی۔
پھر اسی طرح جزائر فجی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ طوالو فجی کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کے دورے پر جانے سے قبل طوالو کے مبلغ نے بتایا کہ یہاں ایک عرصے سے بارش نہیں ہوئی اور پانی کا انحصار بارش پر ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ دورہ پر جانے سے پہلے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے خط لکھا کہ بارش کے لئے دعا کریں۔ کہتے ہیں جب ہم شام کو طوالو پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے بہت زیادہ پریشانی کا ذکر کیا کہ اب پانی بالکل خشک ہو رہا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اسی دن رات کو نماز عشاء پر اعلان کیا کہ ہم نماز کا جو آخری سجدہ پڑھیں گے اس میں بارش کے لئے بھی دعا کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہوئی اور اس کے بعد تین چار دفعہ بارش ہوئی جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق ایک لمبے عرصے کے لئے خشک موسم کی پیشگوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جہاں بھی گئے لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ آپ کے آنے پر یہاں بارش ہوئی ہے۔ چنانچہ کیتھولک چرچ کے بشپ اور فونا فوتی قبیلے کے ایک بڑے چیف نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور جماعت اور آپ کے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں جو اس طرح غیر معمولی طور پر یہاں بارش ہوئی اور یہ بارش نہ صرف احمدیوں کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث بنی بلکہ غیر ازجماعت کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان بنی۔
بعض جگہ بارش کا ہونا خدا تعالیٰ کی تائید اور قبولیت کا نشان بن جاتا ہے تو بعض جگہ بارش کا رکنا دعا کی قبولیت کا نشان بن جاتا ہے۔ اور غیر، چاہے اسلام کو قبول کریں یا نہ کریں لیکن اس بات کا ضرور اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کا خدا دعاؤں کو سننے والا خدا ہے۔
گنی بساؤ افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے معلّم عبداللہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ہم ایک گاؤں سین چانگ کَامْسَا (Sinchang Kamsa) میں تبلیغ کے لئے گئے اور لوگوں کو جمع کر کے انہیں جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ جب انہیں تبلیغ کی جا رہی تھی تو اسی دوران سخت بارش شروع ہو گئی اور بارش کے شور کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ میری آواز حاضرین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ ابھی لوگ اٹھ کے چلے جائیں گے۔ لوگ پریشان ہو رہے تھے اور جانے والے تھے۔ تو کہتے ہیں اس وقت مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! بارش بھی تیری ہے اور جو پیغام میں لے کر آیا ہوں وہ بھی تیرا ہے لیکن بارش کی وجہ سے یہ لوگ تیرا یہ پیغام سن نہیں رہے۔ اور اٹھنے والے ہیں۔ کہتے ہیں ابھی دعا کرنے کی دیر ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بارش کو تھما دیا اور پھر وہاں موجود تقریباً ایک سو پچاس لوگوں کو تبلیغ کی گئی اور کہتے ہیں الحمد للہ تبلیغ کے بعد تمام افرادنے بیعت کرنے کی توفیق حاصل کی۔
دعا کے بعد بارش کے رکنے نے جہاں ہمارے معلّم کے ایمان کو مضبوط کیا وہاں ان لوگوں کو بھی دعاؤں کے سننے والے خدا کو دکھایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کس طرح نظر آتا ہے؟ خدا اسی طرح اپنی قدرتوں کو دکھا کر نظر آتا ہے۔ وہی لوگ جو بارش کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر جانے والے تھے اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کیا۔
اسی طرح باندوندو کے مبلغ حافظ مزمّل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں لوکل معلّم اور دو خدّام کے ساتھ ایک گاؤں کے دورے پر روانہ ہوا۔ راستے میں شدید بارش شروع ہو گئی۔ آگے جانا ناممکن دکھائی دیتا تھا کیونکہ راستہ کچا اور شدید پھسلن تھی۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں ہم لوگ ایک جگہ پر رک گئے اور وہاں دعا کی کہ یا اللہ تیرے مسیح کا پیغام پہنچانے جا رہے ہیں۔ وہاں پہلے اطلاع کی ہوئی تھی۔ لوگ وہاں جمع تھے۔ تُو فضل فرما تا راستے کی ہر روک دُور ہو جائے۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فوراً ہماری دعا سن لی اور بارش اچانک رک گئی۔ کیونکہ بظاہر لگتا تھا کہ بارش شام تک چلے گی اس لئے ہم بڑے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پروگرام کے مطابق صحیح وقت پر گاؤں پہنچے اور تبلیغی اور تربیتی پروگراموں کو انعقاد کیا۔
پھر بارش کے دعا کے ذریعہ رُکنے کے ضمن میں وہاب طیب صاحب سوئٹزرلینڈ کے مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جماعت نے زخوِل (Zuchwil) کے علاقے میں مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ خریدی۔ وہاں امن کی علامت کے لئے ایک پودا لگانے کے حوالے سے پروگرام رکھا گیا جس میں دوسرے مہمانوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ جس دن پودا لگانے کا پروگرام تھا اس دن پیشگوئی کے مطابق شدید بارش ہونی تھی۔ چونکہ پروگرام کی ساری کارروائی آؤٹ ڈور (out door) تھی اس لئے ان کو بڑی پریشانی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے مجھے بھی لکھا اور ان کے کافی خط آتے رہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ پروگرام والے دن جب وہاں گئے تو پہلے سخت بارش شروع ہو گئی اور بظاہر بارش کے رکنے کے کوئی آثار بھی نہیں تھے۔ مگر پھر دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ابھی پروگرام شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ بارش بالکل رک گئی اور سورج نکل آیا۔ کہتے ہیں کہ پروگرام کے وقت مقامی کونسل کے صدر بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بڑی حیرانی کے ساتھ یہی کہا کہ کیا آپ لوگوں نے اپنے پروگرام کے لئے موسم بھی آرڈر کروایا ہوا ہے؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ ہم دعا بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے خلیفہ کو بھی دعا کے لئے لکھا اور ہمیں پوری امید تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور اس طرح یہ پروگرام کامیاب رہا جس کی خبر وہاں کے لوکل اخباروں نے بھی دی اور اس کے ذریعہ سے کافی لوگوں کو جماعت کا تعارف پہنچا۔ بیشک ہم موسم کو آرڈر تو نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں لیکن اس خدا کے حضور ضرور جھکتے ہیں جس کے حکم کے تابع موسم ہے اور پھر وہی اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے۔
پس ایمان کو جہاں اعتقادی لحاظ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے وہاں عملی حالت کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ویسے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق پانچ وقت نمازوں پہ توجہ نہ دیں۔ لوگوں کے بنیادی حق ادا نہ کریں اور جب مشکل میں گرفتار ہوں تو اس وقت پھر ہمیں اللہ بھی یاد آ جائے۔ لوگوں کے حق ادا کرنے بھی یاد آ جائیں۔ پہلے اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہو گا۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں