مکرم و محترم عبدالباری طارق صاحب انچارج کمپیوٹر سیکشن دفتر وقف جدید، آڈیٹر مجلس انصار اللہ پاکستان اور سابق صدر محلہ دارالعلوم جنوبی بشیر وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون
احباب جماعت کو افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم، ماہر کمپیوٹر سافٹ ویئر اور واقف زندگی مکرم و محترم عبدالباری طارق صاحب انچارج کمپیوٹر سیکشن دفتر وقف جدید، آڈیٹر مجلس انصار اللہ پاکستان اور سابق صدر محلہ دارالعلوم جنوبی بشیر مورخہ ۹؍جنوری ۲۰۲۵ء بروز جمعرات شام تقریباً سوا سات بجے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بعمر ۵۷ سال وفات پا گئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون
آپ وفات والے دن صبح حسبِ معمول نماز فجر کی ادائیگی اور تلاوت قرآن مجید کے بعد ناشتے سے فارغ ہوکر تیار ہوئے اور دفتر وقف جدید کی طرف چل دیے۔ وہاں تمام دن بھرپور خدمت سرانجام دینے کے بعد کچھ گھر کے کام کیے اور واپس گھر روانہ ہوگئے۔ دوپہر اور شام میں بھی ہشاش بشاش سب کام کیے اور اہل خانہ سے باتیں کرتے رہے۔ نماز مغرب کے معاً بعد ان کو اپنی اقامت گاہ واقع دارالعلوم جنوبی بشیرمیں ہارٹ اٹیک ہوا، ان کے بیٹے نے جو ایم بی بی ایس فائنل ایئر کے طالبعلم ہیں، فوری فرسٹ ایڈ کے طور پر ان کا سانس بحال کرنے کی کوشش کی اور مزید چیک اپ کے لیے فضل عمر ہسپتال منتقل کردیا جہاں ماہر ڈاکٹرز نے مختلف طبی طریقوں سے جان بچانے کی پوری کوشش کی لیکن تقدیر کا بلاوا آ چکا تھا، تمام تر کوششوں کے باوجود جماعت کا یہ مخلص خادم شام سوا سات بجے راہی ملک عدم ہوگیا۔
آپ کی نماز جنازہ مورخہ ۱۲؍جنوری بروز اتوار صبح گیارہ بجے احاطہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے سبزہ زار میں ادا کی گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے، تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں عمل میں آئی، قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا کروائی گئی۔
مکرم عبدالباری طارق صاحب مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۶۷ء کو نبی سر روڈ، ضلع عمر کوٹ سندھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام مکرم چودھری لطیف احمد صاحب تھا۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا مکرم چودھری محمد یار صاحب آف گھٹیالیاں سیالکوٹ کے ذریعے سے ہوا۔ انہوں نے ۱۹۰۳ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ ان کے قادیان جانے کے متعلق معیّن علم نہیں ہے۔ مکرم چودھری محمد یار صاحب کے بیٹے(عبد الباری صاحب مرحوم کے دادا) مکرم غلام قادر صاحب جو کہ موصی تھے، کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی، وہ نیک اور دعا گو بزرگ تھے۔ اسی وجہ سے وہ مولوی صاحب معروف تھے۔
مکرم عبد الباری صاحب نے گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک اور ایف ایس سی گڈو بیراج ضلع کشمور سندھ سے پاس کرنے کے بعد ڈی جی سائنس کالج کراچی سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۹۸ء میں یونیورسٹی آف سندھ جامشورو سے ماسٹرز آف کمپیوٹر سائنسز کی ڈگری حاصل کی اور اپنے شعبہ میں ٹاپ کر کے گولڈ میڈل کے حقدار قرار پائے۔ آپ تعلیمی میدان میں بہت لائق تھے خاص طور پر کمپیوٹر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق شروع سے تھا۔ آپ کو کچھ ماہ کراچی پبلک سکول میں شعبہ کمپیوٹر سائنس میں تدریس کی خدمات انجام دینے کی بھی توفیق ملی۔
آپ کی شادی محترمہ امۃ القدوس صاحبہ بنت مکرم حفیظ احمد گھمن صاحب کے ساتھ ۱۹۹۸ء میں ہوئی۔ فروری ۲۰۰۰ء میں مکرم عبدالباری صاحب کو کینسر تشخیص ہوا۔ میر پور خاص کے ہسپتال میں کیمو تھراپی کی گئی اور آپریشن بھی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ صحت یاب ہوگئے۔ ایک سال کے بعد دوبارہ کینسر کی تکلیف شروع ہوگئی، ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ بیماری اب بہت خطرناک سٹیج پر ہے۔ آپ نے دعا کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھا، حضور نے ہدایت فرمائی کہ ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ آپ نے طاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ کے انچارج محترم ڈاکٹر وقار منظور بسراء صاحب سے دوائی کی درخواست کی جو انہوں نے فوری طور پر آپ تک پہنچا دی۔ اللہ تعالیٰ نےحضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے نتیجے میں ان کی دوا میں شفا رکھ دی اور آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل صحت یاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفا ملنے پر آپ نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری زندگی عطا فرمائی ہے تو یقیناً اسی لیے دی ہے کہ میں خدا کی راہ میں وقف کروں۔ اس شکرانے کے طور پر ۲۰۰۳ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کردی اور ربوہ منتقل ہوگئے۔ زندگی وقف کرنے کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے ہمہ وقت خدمت دین کرنے کا عہد کیاتھا اورآپ نے مرتے دم تک اس عہد کو ایسے نبھایا کہ جماعتی کاموں کی تکمیل میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
مورخہ ۲۳؍دسمبر ۲۰۰۳ء کو آپ کا بطور انچارج کمپیوٹر سیکشن وقف جدید ربوہ میں تقرر ہوا، آپ نے اسی دن چارج سنبھالا اور خدمات دینیہ کا آغاز کردیا اور اپنے آخری وقت تک اسی شعبہ میں خدمت کی توفیق پائی۔ کیونکہ آپ کمپیوٹر سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے ماہر تھے اس لیے آپ نے دفتر وقف جدید کے علاوہ بہت سے جماعتی دفاتر میں سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے ذریعے ان کے شعبہ جات کو کمپیوٹرائزڈ کیا جس کی وجہ سے وقت کی بچت اور کام میں بہت آسانی ہوگئی، گاہے بگاہے ربوہ کے شعبہ جات کے سافٹ ویئرز کے مسائل کو حل کرکے اپ ڈیٹ بھی کرتے رہتے تھے۔
وکالت مال ثانی تحریک جدید کے مختلف شعبہ جات کو سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام آپ نے ستمبر ۲۰۱۱ء میں شروع کیا اور دس سال کے طویل عرصے میں انتھک محنت کے بعد مکمل کیا۔ مکرم باری صاحب نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا۔ آمد اور روانگی ڈاک کا الیکٹرانک ریکارڈ کا سافٹ ویئربنایا، جس سے وقت اور کاغذ کی بچت ہوئی۔ یہ تفصیلی اور فائدہ مند سافٹ ویئربنانے اور اس پر عمل کروانے میں محترم باری صاحب کو دس سال کا عرصہ لگا۔
آپ نے جن شعبہ جات کے لیے سافٹ ویئر ڈویلپ کیے ان میں درج ذیل شامل ہیں: شعبہ کمیٹی آبادی، دفتر جلسہ سالانہ، مجلس انصاراللہ پاکستان و مقامی ربوہ، مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان و مقامی ربوہ، لجنہ اماء اللہ مقامی کے مختلف شعبہ جات، لیبارٹری فضل عمر ہسپتال، دفتر لوکل انجمن احمدیہ ربوہ، نورالعین دائرۃ الخدمۃ الانسانیۃ، نورالعین کا آئی کلینک، المہدی ہسپتال مٹھی تھر پارکرسندھ، دفتر الفضل ربوہ، دفتر نظارت اصلاح و ارشاد مقامی، دفتر نظارت رشتہ ناطہ، نظارت وقفِ عارضی، وکالت تبشیر۔ دفتر وقفِ جدید کے جملہ شعبہ جات۔ مزید برآں اپنے محلہ دارالعلوم جنوبی بشیر کے شعبہ مال، تجنید، رپورٹس کا ریکارڈ وغیرہ کو کمپیوٹرائزڈ کیا۔
آپ نے مرکزی سطح پر بہت سے شعبہ جات میں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کو مجلس انصاراللہ پاکستان کی عاملہ میں بطور معاون صدر (۲۰۱۸ء۔ ۲۰۱۹ء) اور آڈیٹر (۲۰۲۰ءتا وفات) خدمات سرانجام دینے کی توفیق بھی ملی۔ آپ کو دفتر جلسہ سالانہ کی انتظامیہ میں بطور ناظم اعداد و شمار (۲۰۲۱ء تا وفات) خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نے بطور صدر محلہ دارالعلوم جنوبی بشیر نو سال سے زیادہ خدمات انجام دیں۔ آپ کو دفتر وقف جدید کی طرف سے جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۹ء میں بطور نمائندہ تشریف لے جانے کا شرف بھی حاصل ہوا جہاں آپ کو اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا اور آپ نے اپنی دید کی برسوں کی پیاس بجھائی۔
آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ سادہ طبیعت تھے، آپ کی زندگی میں تکلف اور تصنع نام کا نہ تھا،صاف سیدھی اور سچی بات کہنے کے عادی تھے لیکن اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ آپ سے کبھی کسی کو دکھ نہ پہنچے۔ آپ دوسروں کے لیے بے لوث قربانی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ خود نقصان اٹھا کر اور اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرکے بھی دوسروں کی تکلیف اور درد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے۔ آپ کی وفات کے بعد بہت سے ایسے لوگ افسوس اور دکھ کے اظہار کے لیے آ رہے ہیں جن کی آپ نے کسی وقت مدد کی تھی یا مسلسل کرتے رہتے تھے، یہ لوگ برملا اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ باری صاحب کے جانے کی وجہ سے ان پر سے سایہ شفقت ہٹ گیا ہے، انہوں نے ہم پر بہت احسان کیے ہیں۔ آپ بیرون ممالک مقیم بعض عزیزوں اور دوستوں کے اموال کے امین تھے جو ان کے ذریعے خدمت خلق کے جذبے کے تحت غریبوں اور ضرورت مندوں میں پارچہ جات و دیگر سامانِ زیست تقسیم کرواتے۔ اس کے علاوہ اسی تسلسل میں غریبوں کو ملازمت کے حصول اور کاروبار میں معاونت بھی کرتے تھے اور آسان اقساط پر قرضہ حسنہ مہیا کرتے۔ نیز رمضان المبارک اور عیدوں کے مواقع پر غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں میں راشن بھی تقسیم کرتے۔ اگر ضرورت پڑتی تو اپنے ذاتی کپڑے بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔
اپنے بہن بھائیوں میں آپ سب سے بڑے تو نہ تھے لیکن ان کے لیے بڑوں جیسے ہی کام سر انجام دیے۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ باری صاحب آپ سے بڑے ہیں؟ ان کا جواب ہوتا کہ عمر میں تو میں بڑا ہوں لیکن کاموں میں اور عہدے میں یہ بڑے ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں کو ربوہ منتقل کرنے میں باری صاحب مرحوم نے بہت مدد کی۔ ان کے لیے پلاٹ خریدے اور ان پر گھر تعمیر کروا کے دیے۔ یہی نہیں، آپ ہمیشہ اپنے خاندان والوں اور دوست احباب کو مفید مشورے دیا کرتے تھے، جو قابل عمل ہونے کے ساتھ ساتھ خوب فائدہ مند بھی ہوتے تھے۔ سب سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت میں یہ خوبی نمایاں تھی کہ ہمیشہ بچوں اور بڑوں میں گھل مل جاتے اور بچوں سے ایسا تعلق رکھتے کہ جیسا دوستوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ سب میں ہردلعزیز سمجھے جاتے تھے۔ جس محفل میں بیٹھتے اسے کشتِ زعفرانِ بنا دیتے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ آپ کی طبیعت میں بہت سادگی تھی۔ اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ کا ہومیو پیتھک کلینک گھر پر ہی ہے۔ اگر وہ مریضوں میں یا لجنہ کے کاموں میں مصروف ہوتیں تو خود ہی گھر کے کام کرلیتے۔ آپ نے کبھی اپنی اہلیہ کو خدمت دین سے نہیں روکا اور نہ ہی خود خدمت دین سے کبھی پیچھے رہے۔ اپنے آرام کو قربان کرکے دن رات جماعتی کاموں میں ہی مصروف رہتے۔ اہلیہ کو دفتر لے کر جاتے اور واپس لاتے۔ اگر لجنہ کے حوالے سے کوئی میٹنگ یا لجنہ کا کام ہوتا تو مصروف ہونے کے باوجود بھی اہلیہ کو لانے لےجانے کاکام خود ہی کرتے۔ پانچ وقت نماز کے عادی تھے۔خلافت سے بے پناہ پیار اور عقیدت کا تعلق تھا، رمضان المبارک کے روزے باقاعدگی سے رکھتے، جب کینسر کی تشخیص ہوئی تو روزہ رکھا ہوا تھا۔ سخت محنت کے عادی تھے، تھکاوٹ اپنے پاس نہ آنے دیتے۔ اپنی والدہ صاحبہ کی خوب خدمت کی، ان کا ہر کام کرکے دیتے۔ بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔ الغرض اپنوں اور غیروں کے لیے خدمت کرنے میں مستعد رہتے۔ نافع الناس وجود ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کی بہت غور سے بات سنتے اور مفید مشورہ دیتے۔ اپنی زندگی وقف کرنے پر بہت خوش ہوتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے کہ ہمارے خاندان میں اور افراد کو بھی اپنی زندگی وقف کرنی چاہیے۔
آپ کے قریبی دوست اور کولیگ مکرم ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب، کانو، نائیجیریا نے ایک پیغام میں بتایا کہ بہت ہی مخلص، بے لوث، محبت کرنے والے اور انتھک محنت کرنے والے انسان تھے۔ ۲۰۱۸ء میں نائیجیریا آئے تو ان کی بے شمار خوبیوں کا پتا چلا۔ اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ اس کے بعد بھی بےشمار مرتبہ انہیں کوئی مسئلہ بتایا اور انہوں نے اسی وقت وہاں سے کمپیوٹر جوڑ کر اسے ٹھیک کر دیا،آج تک وہ ہی ہمارے انجینئر تھے۔
پسماندگان میں آپ نےاپنی والدہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ آسٹریلیا، اہلیہ مکرمہ ہومیو ڈاکٹر امتہ القدوس صاحبہ، ایک بیٹا عبد المقیت باری ایم بی بی ایس فائنل ایئر، پانچ بھائی اور تین بہنیں چھوڑی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
مکرم محمود احمد صاحب۔ مکرم ناصر احمد ندیم صاحب۔ مکرم بشارت احمد صاحب، آسٹریلیا۔ مکرم عبدالقادرطاہر صاحب، آسٹریلیا۔ مکرمہ امۃ الرؤف صاحبہ، آسٹریلیا۔ مکرم ڈاکٹر عبد القدیر صاحب، آسٹریلیا اور مکرمہ نمود سحر کاشف صاحبہ، جرمنی۔
اللہ تعالیٰ اس مخلص خادم اور نافع الناس وجو د کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین