متفرق مضامین

مومن اور کھجور کے درخت کی مثال

’’مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے، تم اس سے
جو بھی چیز لو گے اس سے فائدہ ہی حاصل کروگے‘‘(حدیث)

آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ انبیاء میں آخری اور کامل نبی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اُسوہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسوۂ حسنہ فرمایا۔ آپؐ کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، اوامر و نواہی سب ہی انسانوں کے لیے تاقیامت ایک مشعل راہ کے طور پر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا :’’یادرکھو کہ انبیاء کا ورثہ درہم ودینار نہیں ہوتا بلکہ علم دین ہوتا ہے جو جتنا زیادہ حاصل کرے گا اتنی ہی فضیلت حاصل کرسکے گا‘‘۔ (ابوداؤد کتاب العلم) پس انہی ارشادات میں سے ایک ارشاد صحیح بخاری میں درج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے کہ اس کے پتے نہیں گرتے۔ (یعنی پت جھڑ نہیں آتا) اور وہ مثال ہے مسلمان کی، مجھے بتلاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے ؟ اس پر لوگ بیابانوں کے درختوں کا نام لینے لگے۔ پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ہی ہمیں بتلائیں کہ وہ کونسا ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب العلم روایت نمبر ۶۱) پھر اسی طرح ایک اَور باب میں اس روایت میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں کہ ’’ وہ اپنا پھل ہر وقت دیتا ہے ‘‘(صحیح بخاری کتاب التفسیر روایت نمبر ۴۶۹۸) پھر ایک اَور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فر مایا:’’وہ کون سا ایسا درخت ہے جو مومن کی طرح ہے اس کی بنیاد مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان کو چھوتی ہیں ‘‘ (فتح الباری جلد ۱صفحہ ۱۴۶)اور ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے، تم اس سے جو بھی چیز لو گے اس سے فائدہ ہی حاصل کرو گے۔‘‘ (معجم الکبیر، باب العین، روایت نمبر ۱۳۵۱۴)

بزرگان دین میں سے امام احمد بن حنبل ؒ کے صاحبزادے امام عبد اللہ بن احمد اپنی کتاب السنة لعبدلله میں لکھتے ہیں کہ’’ایمان کی مثال درخت کی سی ہے اس کی جڑیں اور بنیاد شہادت ہے (یعنی توحید الٰہی اور نبی پاکﷺ کی رسالت کی گواہی ) اور اس کا پھل خوف الٰہی اور تقویٰ ہے۔ جیسے پھل کے بغیر کوئی درخت بےفائدہ ہے اسی طرح تقویٰ کے بغیر انسان بے فائدہ ہے۔‘‘ ( روایت نمبر ۶۳۵ جلد ۱ صفحہ ۳۱۶)

علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی جو ۴ ہجری کے محدث تھے اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ایمان کو درخت سے تمثیل دینے کی وجہ یہ ہے کہ درخت تین باتوں کی وجہ سے درخت کہلواتا ہے راسخ جڑ، مضبوط تنا اور اونچی شاخیں۔ پس ایمان بھی تین باتوں کی وجہ سے ہی کامل ہوتا ہے ۔دل سے تصدیق، زبان سے اس کا اقرار اور اعضا سے ان پر عمل۔(تفسیر بغوی جلد ۳ صفحہ ۳۳)

آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی ممکنہ صفات اس درخت میں ہیں جن کی طرف آپؐ نے اشارہ فرمایا۔

۱: مضبوط بنیاد: سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر کی تحقیق کے مطابق ایک کھجور کے درخت کی جڑیں گہرائی میں ۱۹؍فٹ تک اور چوڑائی میں ۸۲؍فٹ تک پھیل جاتی ہیں۔ نیز اس کی جڑیں دیگر بڑے پودوں کی طرح الگ الگ منفرد اور موٹی موٹی نہیں ہوتیں بلکہ باریک گچھے دار اور بکثرت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے۔

اب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو وہاں بھی سورہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (ابراهيم:۲۵) (کىا تُو نے غور نہىں کىا کہ کس طرح اللہ نے مثال بىان کى ہے اىک کلمۂ طىّبہ کى اىک شجرۂ طىّبہ سے اس کى جڑ مضبوطى سے پىوستہ ہے اور اس کى چوٹى آسمان مىں ہے)۔ حضرت مصلح موعود ؓمضبوط جڑوں کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’[ درخت کی جڑھ کے مضبوط ہونے سے ایک تو یہ مراد ہوتی ہے کہ درخت زندہ ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۳) یعنی وہ اپنی جڑوں سے لگاتا ر غذا لے رہا ہے۔ سورۃ انعام میں بطور کلامِ الٰہی کی تمثیل کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ (الانعام:۱۰۰)یعنی الٰہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے۔ جس طرح پانی نازل ہونے سے سبزیاں اگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الٰہی کے نازل ہونے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں ابھار شروع ہوجاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں۔ پس سب سے پہلی بات ایک مومن کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے مسلسل فیض پاتا رہے۔ جب تک وہ اس پانی سے حصہ لیتا رہے گا وہ زندہ رہے گا اور فیض کا باعث بنتا رہے گا، اس کی بنیاد مضبوط رہے گی اور حوادث کی آندھیاں اس کی بنیاد نہیں اکھاڑ سکیں گی۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے جو اس مضمون کو مزید کھولتی ہے نبیﷺنے فرمایا:’’جو ہدایت اور علم دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال بہت مفیدبارش کی سی ہے جو زمین میں ہوئی تو اس زمین کا کچھ حصہ عمدہ تھا، جس نے پانی قبول کر لیا اور اس نے گھاس اور بہت سی بوٹیاں اُگا دیں اور اس زمین میں کچھ حصہ پتھریلا تھا جس نے پانی کو روک رکھا اور اللہ نے لوگوں کو اس زمین کے ذریعہ سے نفع پہنچایا انہوں نے پیا اور پلایا اور کھیتی باڑی کی۔ یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ کے دین کو خوب سیکھا، سمجھا اور جس کو اللہ نے نفع دیا اس علم سے جو اس نے مجھے دے کر بھیجا۔ اور زمین میں سے ایک اور حصہ پر بھی (بارش)پڑی جو بالکل چٹیل میدان تھا، اس نے نہ تو پانی کو روکا اور نہ گھاس اُگائی اور یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے اس تعلیم پر جس کا پیغام دینے کے لیے میں بھیجا گیا سر ہی نہیں اُٹھایااور نہ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کیا۔‘‘(صحیح بخاری کتاب العلم باب فضل من علم و تعلم روایت نمبر ۷۹)

پس جب تک الٰہی تعلیم سے فیض لیتا رہے گا سرسبز اور فیض رساں رہے گا۔ جب اس آسمانی پانی سے فیض لینا چھوڑے گا تو ہلاکت اس کا انجام ہو گی۔

جڑ کی مضبوطی کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ یعنی مومن کا ایمان پختہ ہوتا ہے۔ اس کے دلائل مضبوط ہوتے ہیں۔ ارکان ایمان پر وہ کاربند ہوتا ہے اور دل میں اس پر پختہ یقین رکھنے والا ہوتا ہے۔ معمولی اعتراض سن کر ڈگمگاتا نہیں اور خدا کی ہستی پر کامل ایمان رکھنے والا ہوتا ہے۔ پس جڑ کی مضبوطی دراصل ایمان کی مضبوطی ہے۔

۲: نرمی اور لچک : کھجور کے درخت کی ایک اور صفت یہ ہے کہ باوجود اونچا قد اور مضبوط تنے کے اس کے اندر لچک ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور حدیث نبوی ﷺ پیش خدمت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’مومن کی مثال نرم و نازک پودے کی طرح ہے کہ جسے ہوا کبھی ادھر جھکا تی ہے اور کبھی ادھر جھکاتی ہے پھر ویسے کا ویسا سیدھا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی وہ ابتلا میں جھک جاتا ہے اور فاجر کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو کبھی جھکتا نہیں یہاں تک کہ پھر ایک ہی دفعہ میں اکھڑ جاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری کتاب المرضی روایت ۵۶۴۳ اور ۵۶۴۴)یعنی جب مومن پر کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ خدا کے حضور جھک جاتا ہے اور جس طرح آندھیاں دراصل درختوں کی جڑوں کی مضبوطی کا باعث بنتی ہیں اسی طرح وہ بیماری اور تکلیف بھی مومن کے گناہوں کا کفارہ بن کر اس کے لیے رحمت کا موجب بن جاتی ہے۔ جبکہ غیر مومن صنوبر کے درخت کی طرح اکڑ کر رہتا ہے اور اس اکڑ اور تکبر کی وجہ سے تباہی کا منہ دیکھتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :’’ مومن کو اس دنیا میں جو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ درحقیقت اگلے جہان کی دوزخ کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں : الحُمی حَظُّ الْمُؤمِنِ مِنَ النَّارِ۔ بخار دوزخ میں سے مومن کا حصہ ہے۔یعنی مومن اگلے جہان کی دوزخ میں تو نہیں ڈالا جاتا لیکن جب یہاں اسے بخار چڑھ جاتا ہے یا اور بیماریاں آ جاتی ہیں تو اسے بھی اس آگ سے ایک حصہ مل جاتا ہے۔ گویا کافر اگلے جہاں میں مرنے کے بعد آگ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور مومن اسی دنیا میں مختلف تکالیف سے حصہ لے کر جو درحقیقت دوزخ کا ہی ایک حصہ ہیں اگلے جہاں میں جنت میں چلا جائے گا ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۵ صفحہ ۳۳۷)

۳: بلند و بالا ہونا : کھجور کا درخت باوجود لچکدار ہونے کے ۷۰؍سے ۱۰۰؍فٹ تک اونچا ہوتا ہے۔اس کی شاخیں آسمان کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ یعنی ایک تو اس کے معنی ہیں کہ وہ مومن کھجور کے درخت کی طرح روشنی اور سورج کی طرف لگاتار ترقی کرتا ہے۔پس مومن بھی ہمیشہ نور الٰہی کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (النور:۳۶)یعنی آسمانوں اور زمین کا نور اللہ ہی ہے۔

۴: اقسا م: اقوام متحدہ کے ادارے کی تحقیق کے مطابق کھجور کے درخت کی ۶۰۰؍سے زائد اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ پس ایک مومن چاہے دنیا کے کسی بھی کونہ میں ہو اور خواہ کسی بھی قوم اور کسی بھی نسل سے ہو اس میں صفات ایک جیسی پائی جاتی ہیں۔ جہاں ایک طرف وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوشاں ہو گا وہاں حقو ق العباد میں بھی وہ اپنے معاشرے میں نمایاں ہو گا۔ پھر اس سے مراد مختلف طبقات کے مومن بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے: ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا ۚ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚوَمِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ۔(فاطر:۳۳)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’مومن کی جو تقسیم قرآن شریف میں کی گئی ہے اس کے تین ہی درجے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ظالم، مقتصد، سابق بالخیرات۔یہ ان کے مدارج ہیں ورنہ اسلام کے اندر یہ داخل ہیں۔ ظالم وہ ہوتا ہے کہ ابھی اس میں بہت غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور مقتصد وہ ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان سے اس کی جنگ ہوتی ہے مگر کبھی یہ غالب آ جاتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے۔ کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور صلاحیت بھی۔ اور سابق بالخیرات وہ ہوتا ہے جو ان دونوں درجوں سے نکل کر مستقل طور پر نیکیاں کرنے میں سبقت لے جاوے اور بالکل صلاحیت ہی ہو۔ نفس اور شیطان کو مغلوب کر چکا ہو۔ قرآن شریف ان سب کو مسلمان ہی کہتا ہے۔ ‘‘ (الحکم ۱۰؍ نومبر۱۹۰۲ء)

۵: پت جھڑ : رسول اللہ ﷺ نے ایک صفت کھجور کے درخت کی یہ بھی بتائی کہ اس پر پت جھڑ کا موسم نہیں آتا۔ یعنی دیگر درختوں کی طرح یہ درخت ہر سال اپنے پرانے پتے نہیں جھاڑتا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کھجور کے درخت کی شاخیں تین سے پانچ سال اور بعض مواقع پر سات سال عمر رکھتی ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ ’’آپؐ نے فرمایا کہ اس درخت کے پتے نہیں گرتے جیسے مومن کی دعا نہیں ردّ کی جاتی ‘‘۔ پس اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ دعا کو اپنے لوازمات کے ساتھ خدا کے حضور مانگنے سے کبھی پیچھے نہیں رہتا۔ اور ان دعاؤں کی قبولیت کے نظارے خود بھی دیکھتا ہے اور اس کے سایہ میں بیٹھنے والے مسافر بھی اور ساتھی بھی دیکھتے ہیں۔ علامہ ابن قیم اس کی تفسیر میں ایک اور نکتہ بھی بیان کرتے ہیں کہ پتوں سے مراد لباس اور زینت ہے۔ یعنی مومن کی زینت جو تقویٰ سے قائم ہے وہ نہ گرمیوں میں اس سے دور ہوتی ہے اور نہ سردیوں میں۔

۶: کانٹ چھانٹ : یہ مثال چونکہ آپؐ نے اپنے صحابہ ؓکو دی تھی اور وہ لوگ کھجوروں سے خوب واقف تھے اس لیے وہ جانتے تھے کہ ایک پودے سے اچھا پھل لینے کے لیے اس کی کانٹ چھانٹ بھی ضروری ہے۔ پس مومن کے لیے بھی اپنے نفس کی اصلاح کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔(العنكبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہمارے بارےمىں کوشش کرتے ہىں ہم ضرور انہىں اپنى راہوں کى طرف ہداىت دىں گے۔ پس پہلے اللہ کی راہ اور اس کی رضا کے لیے کوشش کرنا ہوگی تب ہی اللہ اس محنت کو پھل لگائے گا۔

۷: ہر وقت پھل لانا : ابن جریر طبری اپنی تصنیف تفسیر جامع البيان میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی کہے کہ کونسا کھجور کا درخت ہے جو ہر وقت اور ہر آن پھل دیتا ہے تو سردیوں میں کھجور کا گابھا کھایا جاتا ہے اور گرمیوں میں کچی کھجور اور تازہ کھجور اور پھر خشک کھجور کھائی جاتی ہے ‘‘ ( تفسیر جامع البیان جلد ۸ صفحہ ۲۱۰) اس کو اگر دوسری طرح بھی دیکھیں تو کھجور ایسا پھل ہے جسے پورا سال کھایا جاتا ہے اور اس کی غذائیت میں کسی طرح بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اور پھل بھی اس قدر معیاری کہ امریکہ کے سرکاری ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق رچرڈ مارشل(بین الاقوامی رسالہ برائے خوراک اور نیوٹریشن میں )لکھتے ہیں کہ اس میں پندرہ قسم کے نمکیات، چھ وٹامن اور شوگر ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہؓ جب سفر پر جاتے تو ساتھ صرف کھجوریں لے جاتے تھے۔ جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں ایک سریہ کا ذکر ہے کہ صحابہؓ ایک دن میں ایک کھجور پر گزارا کیا کرتے تھے (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب معیشة اصحاب النبیﷺ روایت نمبر ۴۱۵۹)

۸: سراپا طیب : جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور آئندہ سطورمیںبھی ذکر ہو گا کہ یہ وہ واحد درخت ہے جو ہر طرح سے طیب ہے۔ اس کا پھل، اس کا پھول، اس کا اندرونہ، اس کی لکڑی۔ پس مومن بھی اپنی ذات میں سراپا طیب ہونا چاہیے جو اپنے وجود سے اپنے معاشرہ اور اردگرد رہنے والوں کے لیے فیض کا باعث ہو۔ پس یہ طیب اقوال و افعال ہی ہیں جو ایک مومن کو جنت کی راہ پر لے جا تے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ہمارابھی تو یہی مذہب ہے کہ مقدس لوگوں کو موت کے بعد ایک نورانی جسم ملتا ہے اوروہی نورجو وہ ساتھ رکھتے ہیں جسم کی طرح اُن کے لئے ہو جاتا ہے سو وہ اس کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتاہے إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ یعنی پاک روحیں جو نورانی الوجودہیں خدائے تعالیٰ کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح اُن کارفع کرتا ہے یعنی جس قدرعمل صالح ہو اُسی قدرروح کا رفع ہوتاہے۔ ‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۳۹) پھر فرمایا:’’میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی۔ خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ۔‘‘(الحکم ۱۳؍جولائی ۱۹۰۱ء)

۹: لمبی عمر : کھجور کا درخت ایک لمبی عمر پانے والے درختوں میں سے ہے۔ اس کی عمر ۱۵۰؍سال تک بھی ہو جاتی ہے۔(انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا )اس پر چار سے پانچ سال کی عمر میں پھل آنا شروع ہو جاتا ہے اور اچھی نگہداشت کے ساتھ یہ ہر سال اپنے پھل میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ایک درخت ستّر کلو سے ۱۴۰؍کلو تک پھل دیتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کی مثال ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن قیسؓ نے بیان کیاکہ ایک بدوی نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل اچھا ہو۔‘‘(سنن ترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی طول العمر المومن)ایک مومن بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کرتا جاتا ہے اور اعمال میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔

۱۰: ہر چیز نفع بخش : جیسا کہ آغاز میں ذکر ہو چکا ہے کہ معجم الکبیر میں امام طبرانی لکھتے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے، تم اس سے جو بھی چیز لو گے اس سے فائدہ ہی حاصل کرو گے‘‘۔ پھر امام ترمذی نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ چند بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس کھڑے ہو ئے اور فرمایا:کیا میں تمہیں تمہارے شریروں اور تمہارے نیکوں کا نہ بتاؤں ؟ اس پر ایک شخص نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہؐ! آپؐ ہی ہمیں ہمارے شریروں اور ہمارے نیکوں کا بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں بہتر وہ ہے جس سے بھلائی کی امید رکھی جائے اور اس کے شر سے امن میں رہا جائے اور تمہارا برا وہ ہے جس سے بھلائی کی امید نہ رکھی جائے اور نہ ہی اس کے شر سے(کوئی) امن میں رہے۔(جامع ترمذی کتاب الفتن روایت نمبر ۲۲۶۳)

کھجور ا یک فیض رساں درخت ہے۔ پس اس کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جو انسانوں کے لیے نفع اور فائدہ بخش نہ ہو۔ اس کی لکڑی انتہائی مضبوط ہوتی ہے جو گھروں کے شہتیر کے طور پر ایک لمبا عرصہ تک استعمال ہوتی رہی ہے۔ چونکہ اس کی لکڑی ریشہ دار ہوتی ہے اس لیے اس کے شہتیر کبھی بھی اچانک نہیں ٹوٹتے۔ اس کا اگر ایک ریشہ ٹوٹ بھی جائے تو دوسرا اس کو مضبوطی سے اپنی جگہ پر تھامے رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھجور کا درخت کاٹنا بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس کے تنے کو کھوکھلا کرکے مشروب کو محفوظ کرنے کے برتن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پھر اس کی شاخوں کو دیکھیں تو وہ آگ جلانے کے کام آتی ہیں اور کُوٹ کر رسے بنانے اور بوریاں بنانے کے کام آتی ہیں۔ اس کے تنے میں سے ایک گوند نکلتی ہے جسے گوند چھوہارا کہتے ہیں۔ یہ نہ صرف زخموں کو مندمل کرتا ہے بلکہ دیگر کئی پیٹ کی بیماریوں میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کھجور کا گابھا بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ کھجور کے تنے کا اندرونی نرم حصہ ہے،عربی میں اس کو قلب النخل کہا جاتا ہے۔یہ کھانے میں بہت لذیذہے۔ جمار میں پوٹاشیم کی کافی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جو بلڈ پریشر کے مریضوں کے علاوہ بدن کے ٹشوز کی مرمت میں کام آتا ہے جبکہ اس میں وٹامن سی کی خاصی مقدار ہے۔عربوں کے علاوہ بھی دیگر ممالک میں جمار کو تجارتی پیمانے پر فروخت کیا جاتا اور نباتات سے علاج کرنے والوں میں یہ معروف ہوچکا ہے۔عربوں کے دسترخوان پر اس کو سلاد کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔

۱۱: کانٹے : کوئی بھی شخص جو کھجور کے درخت سے واقف ہے وہ ضرور سوال اٹھائے گا کہ صفات تو سب بیان کر دیں مگر کانٹوں کا ذکر کیوں نہ کیا۔ آخر وہ بھی تو درخت کا حصہ ہیں۔ تو اس کے جواب میں علامہ ابن قیم کا قول بیان کیے دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں :’’اس سے مراد مسلمانوں کا اللہ کے دشمنوں اور فجار سے سختی کا سلوک ہے جو بمقام کانٹے کے ہی ہے۔ جبکہ یہی مومن دیگر مسلمان بھائیوں کے لیے نرمی اور مٹھاس کی علامت ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:۳۰) یعنی یہ لوگ کفار کے مقابل پر بہت سخت ہىں (اور) آپس مىں بے انتہا رحم کرنے والے ہیں۔ (المجموع القیم من کلام ابن قیم صفحہ ۷۴۲)

پس اس زمانے میں جو مسیح محمدی کا زمانہ ہے کسی بھی مومن کے لیے تازہ بہ تازہ پانی کی فراوانی خلافت سے ہی میسر ہے۔ اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اس نعمت سے آگاہ کریں۔ تا سب مسلمان اس مفید درخت جیسا وجود بن جائیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت سے فرمایا:’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے۔ اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مُضْمَر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمحِ نظر ہو جائے۔‘‘(ماہنامہ خالد ربوہ سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل ۲۰۰۴ء)

اللہ ہمیں خلافت کی کامل اطاعت اور اس سے ملنے والے ہر ارشاد پر کامل عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس روحانیت کے سرچشمہ سے فیض پا کر عوام الناس کے لیے راحت اور سکون کا باعث بننے والے ہوں۔ آمین

(’م۔ف۔مجوکہ‘)

مزید پڑھیں: معدنی وسائل کی کثرت کے بارے میں قرآن مجید کی پیشگوئی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button