احمدیت کا پیغام (حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ )(قسط ۶۲)
تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرامؓ میں سے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے متنوع سیاسی، ملی، دینی، قومی اور عالمی خدمات سرانجام دینے کی سعادت پائی۔مؤقر دنیاوی حیثیتوں کے حامل ہونےاوران بلند پایہ سرکاری عہدوں سے منسلک اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ جماعت احمدیہ کے پروگراموں میں شرکت اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ مثلاً اپریل ۱۹۷۹ء میں انگلستان میں جماعت نے اجتماع کا پروگرام بریڈ فورڈ میں منعقد کرنے کا انتظام کیا تو اس میں شرکت کے لیے حضرت چودھری صاحب ؓکو بھی دعوت دی گئی۔ماہ اپریل میں ہر سال کی طرح ایسٹر کی تقریبات کی مناسبت سے ملکہ برطانیہ ارکان پارلیمنٹ اور ملک کے معززین کو خاص ڈنر پر بلاتی ہیں، اور تب تک چودھری صاحب کو بھی اس خاص شاہی دعوت میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول ہوچکا تھا، لیکن جماعت کی طرف سے اجتماع کا دعوت نامہ ملنے پر آپ نے متعلقہ انتظامیہ کو فرمایاکہ اگلے روز فون پر اطلاع دوں گا۔ اور ۱۲؍اپریل کو فون پر اطلاع دی کہ چونکہ تمہارا دینی پروگرام ہے اس لیے میں ملکہ معظمہ کی دعوت کو چھوڑتا ہوں اور اجتماع میں شریک ہوں گا۔
دین کو دنیا پر مقدم کرنا حضرت چودھری صاحبؓ کی اوائل عمر سے ہی پختہ عادت تھی۔مثلاً ۱۹۳۵ء میں احمدیہ انٹرکالجئیٹ ایسوسی ایشن نے بھی آپ کو اپنے ایک پروگرام میں مدعو کیا، جبکہ آپ نہایت وسیع رقبہ پر پھیلے برصغیر(موجودہ پاکستان،ہندوستان،بنگلہ دیش) کا انتظام و انصرام چلانے والی انگریزی حکومت کے متفرق محکموں اور وزارتوں کے وزیراور مہتمم تھے۔
اس دور میں چونکہ احمدی طلبہ کی یہ تنظیم وقتاً فوقتاً ایسے پروگراموں کا انتظام کرتی رہتی تھی کہ اکابر اہل علم سے اہم مضامین پر خطابات سے نوجوان طلبہ مستفیض ہوں، مثلاً ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ء کو حضرت مصلح موعودؓنے عہدیداران احمدیہ انٹرکا لجئیٹ ایسوسی ایشن کی درخواست پر ان کے ایک اجلاس میں ’’روح کی نشأۃ ثانیہ‘‘کے موضوع پرایک پُراز معلومات تقریر فرمائی جس سے حاضرین کی مذہبی معلومات میں بہت اضافہ ہوا تھا۔(لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۴۶۰)
آنریبل سر محمد ظفراللہ خان نے احمدیہ انٹر کالجئیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری جناب عبدالوہاب عمر صاحب ابن حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی درخواست پر ۲؍مارچ ۱۹۳۵ء کو وائی ایم سی اے ہال لاہور میں اس اہم موضوع پر لیکچردیاتھا جس سے حاضرین مستفیض ہوئے۔ شہر کے اہل علم کے ایک بھاری مجمعے کے روبرو ہونے والے اس خطاب کے جلسے کی صدارت جناب سید عبدالقادر صاحب
ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج تھے۔
حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کافاضلانہ خطاب انگریزی زبان میں تھا، جس کا سلیس اردو ترجمہ عوام کے فائدہ کے لیے حکیم محمد عبداللطیف گجراتی پروپرائیٹر ایشیائی کتب خانہ قادیان نے کتاب کا ٹائیٹل پیج ’’رپن پرنٹنگ پریس لاہور‘‘ سے اور باقی مسودہ کتاب’’ مسلم پرنٹنگ پریس لاہور‘‘ سے چھپوا کر شائع کیاتھا۔
قریباً پچیس صفحات کی اس کتاب کا اولین حصہ کاتب کی خوبصورت لکھائی میں ہے۔ جبکہ آخر پر کچھ حصہ غالباً ٹائپ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے محرک بننے والے چودھری صاحبؓ کے علمی لیکچر سے قبل پروفیسر سید عبدالقادر صاحب صدر جلسہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا:’’فاضل مقرر کسی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ قانون و سیاست کے دائرے میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں مجھے یقین ہے کہ جب آپؓ رکن حکومت ہند کی حیثیت سے دہلی تشریف لے جائیں گے تو وہاں بھی اپنی متانت و معقولیت، اصابت رائے اور کمال فہم و نظر کی بدولت ممتاز درجہ حاصل کرلیں گے…‘‘(صفحہ ۲اور۳)
کتاب میں حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کا خطبہ ’’احمدیت کا پیغام ‘‘ درج ہے۔ اس میں سے بعض اقتباسات پیش ہیں، فرمایا:’’ میں نے آج ایک گراں بہا فرض اپنے ذمہ لیا ہے اور مذہبی عالم کا جامہ اگرچہ میرے لئے بالکل نیا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے کلیتًا نیا نہیں۔
میں عموما ًخوشی کے ساتھ لیکچر دینے پر آمادہ نہیں ہوتالیکن اس موقع پر احمدیہ انٹرکالجئیٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری صاحب احمدیت پر لیکچر کی استدعا لےکر میرے پاس آئے تو میں نے اس استدعا کو قبول کرنے میں نسبتاً بہت کم نارضامندی ظاہر کی۔ آپ کو یہ امر شائد تعجب انگیز معلوم ہو کہ میں نے ایک نئے موضوع کو لیکچر کے لئے منتخب کیا، یا کم از کم اہل لاہور کے نزدیک سیاسی مباحث کے ساتھ مجھے جتنی مناسبت ہے اتنی مناسبت اس موضوع کے ساتھ قطعاًنہیں۔ یہ امر بھی کم تعجب خیز نہ ہوگا کہ میں نے اس موضوع پر بولنا اس وقت پسند کیا جبکہ اردو جرائد کے ایک خاص طبقہ میں احمدیہ جماعت اور اس کے مقدس بانی کے خلاف غلط بیانیوں اور مذمتوں کا ایک طوفان برپا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ہی وجوہ جو بادی النظر میں اس موضوع سے دور بھاگنے کی دلیل تھے میرے لئے اُسے اختیار کرنے کی دلیل بن گئے۔ مجھے یہ موضوع منتخب کرتے وقت اس بات کا یقین تھا کہ اگر میں ان اصول و مقاصد کو واضح کرسکا جو احمدیت کا نصب العین ہیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ فائدہ ہی پہنچے گا۔‘‘
اختصار کے ساتھ اسلامی تعلیم بتانے کے بعد آخری صفحہ پر سلسلہ کی موجودہ مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ ’’آخر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نکتہ چینیاں جو خلاف بیانیوں پر مبنی ہوں خواہ وہ خلاف بیانیاں ارادی ہیں یا غیر ارادی، کبھی صداقت کی ترقی میں حائل نہیں ہوئیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذمت یا سختی کرنے والے انجام کار خود اسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جس حالت میں مظلوم اور سختی سہنے والے لو گ تھے۔ غلط بیانیاں اور ایذائیں کسی قوم کو اور خصوصا ًکسی مذہبی جماعت کو تباہ کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔
یاد رکھو کہ زندگی میں جو حالات ہمیں پیش آتے ہیں وہ ہماری ہی تربیت و تیاری کے لئے ہوتے ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اِس وقت ہماری جماعت بھی جن مشکلات سے گذر رہی ہے وہ ہماری ہی پختگی اور بہتری کے لئے ہیں۔ تاکہ ہم اُ ن ذمہ داریوں کو جو کہ مختلف اوقات میں ہم پر ضرور عائد ہونگی اچھی طرح ادا کرسکیں اور ان فرائض کو سر انجام دے سکیں جو صداقت کے پیغامبر اور نوع انسانی کے روحانی راہنما ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔
اس پیغام کو دنیا کے دُور ترین کناروں تک پہنچانے کے لئے امتحانوں، سختیوں، الزاموں اور تمام مختلف النوع تکلیفوں اور دکھوں سے گزرنا ناگزیر ہے۔
اور اگر ہم ان سب مشکلات کو تحمل سے برداشت کرنے کے قابل ہوئے تو ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکیں گے۔ جب تک ہم اس آگ سے نہ گزر لیں ہم اپنے آپ کو اس عظیم الشان کام کے اہل نہیں بناسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی خدمات سے اپنے آپ کو اس کا مستحق بنائیں۔ یہ سختیاں ہمیں پاک تر بنائیں گی اور نیک اعمال ہمیں بنی نوع انسان کی بہترین خدمت سرانجام دینے میں مدد دیں گے۔ ہم ہی نسل انسانی کی بہتری اور ہدایت کے مشعل بردار ہیں۔ ‘‘
٭…٭…٭