حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حقیقی احمدی بننے کی شرائط

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍ اکتوبر۲۰۱۸ء)

اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہمارے مہدی‘کے الفاظ سے خطاب فرمایا، یا یاد فرمایا۔(سنن الدار قطنی جلد اوّل صفحہ ٥۱ حدیث ۱۷۷۷ کتاب العیدین مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۳ء) یہ پیار اور قرب کے اظہار کا اعلیٰ مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہمارا‘ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مہدی معہود علیہ السلام کو عطا فرمایا۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے لٹریچر میں اسلام کے اعلیٰ ترین مذہب ہونے کے بارے میں بیان فرمایا ہے اور اعتراض کرنے والوں کے اعتراض انہی پر الٹا کر یہ ثابت فرمایا کہ آج حقیقی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا اور گناہوں سے نجات دلانے والا اگر کوئی مذہب ہے، اور مذہب ہے یقیناً، تو وہ صرف اسلام ہے، وہاں اپنوں کی تربیت کے لئے بھی بے شمار تقاریر، تحریروں اور مجالس میں بے شمار ارشادات فرمائے جو ہمارے لئے قدم قدم پر رہنما ہیں اور ہدایت کے سامان ہیں ۔

آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو بڑے درد کے ساتھ بیعت کا حق ادا کرنے اور حقیقی مومن بننے کی طرف رہنمائی فرمائی۔یہ وہ ارشادات ہیں جنہیں ہمیں باقاعدہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور یہی ہماری روحانی تربیت کا ذریعہ ہے۔ یہی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم دین کا ادراک بھی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم خدا تعالیٰ کے قرب پانے کے راستے بھی تلاش کر سکتے ہیں ۔ یہی ذریعہ ہے جس سے ہم قرآن کریم کے اسرار و معارف تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پہچان سکتے ہیں ۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی اعتقادی حالتوں کو درست کر سکتے ہیں ۔ اور یہی ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی عملی حالتوں میں بہتری لا سکتے ہیں ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اگر ہم اس خزانے کے ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہ اٹھائیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں جو طاقت اور قوتِ قدسی ہے اس کا اثر کسی اَور کے الفاظ میں نہیں ہو سکتا۔اور کیوں نہ ہو! یہی تو وہ امام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ پس یہ ہمارا، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، یہ فرض ہے کہ آپ ؑکے الفاظ کو پڑھیں ، سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنی حالتوں کو اس معیار پر لے کر آئیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔

اس وقت میں آپؑ کے چند ارشادات پیش کروں گا جو ہماری زندگیوں کا لائحہ عمل ہیں ۔ ایک مقصد ہے جو آپ نے ہمیں ہمارے سامنے رکھا اور بیان فرمایا کہ ایک احمدی کا کیا معیار ہونا چاہئے، اسے کیسا ہونا چاہئے۔ آجکل کی مادی دنیا میں ان باتوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ ہم میں سے بعض کی ترجیحات بھی دنیا کی طرف زیادہ ہو گئی ہیں اور دین کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اعتقادی لحاظ سے ہم اپنے آپ کو احمدی مسلمان کہتے ہیں ، لیکن عملی کمزوریاں ہم میں بہت زیادہ پیدا ہو رہی ہیں ۔ ان ارشادات کی روشنی میں ہر کوئی اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کہاں ہونا چاہئے۔

تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ نیکی کیا ہے؟ نیکی کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ سچا تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو اس کے حاصل کرنے کے لئے بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْ اللّٰہَ۔ کہ اے ایمان لانے والو اللہ کاتقویٰ اختیار کرو اور پھر یہ بھی کہا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:۱۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں ۔

فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو اور مُحْسِنُوَن وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا۔ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی(یونس:۲۷) یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں ۔ ‘‘

فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یہ وحی بار بار ہوئی۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:۱۲۹) اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔‘‘آپ فرماتے ہیں ’’…خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو‘‘۔

فرمایا ’’یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہو جاوےکہ( مثلاً )وہ زنا نہیں کرتا یا اس نے خون نہیں کیا (کسی کو قتل نہیں کیا) چوری نہیں کی۔‘‘فرماتے ہیں ’’ یہ کوئی فضیلت ہے کہ برے کاموں سے بچنے کا فخر حاصل کرتا ہے؟‘‘یہ کوئی بات نہیں ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہم برے کاموں سے بچے ہوئے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل وہ جانتا ہے‘‘کرنے والا اگر یہ کام نہیں کرتا ’’…وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو… قانون کی رُو سے زندان میں جاوے گا‘‘۔ یعنی قید ہو گا، پکڑا جائے گا، سزا ملے گی۔ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں ہے کہ برے کام سے ہی پرہیز کرے۔( اتنا ہی اسلام نہیں ) بلکہ جب تک بدیوں کو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ نیکیاں بطور غذا کے ہیں ۔ جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جب تک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں ۔‘‘بدیاں چھوڑو اور نیکیاں کرو تو تب روحانی زندگی ملتی ہے۔

بعض برائیاں کس طرح انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں جو انسان محسوس بھی نہیں کر رہا ہوتا لیکن ایک وقت میں وہ انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ بعض گناہ موٹے موٹے ہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا، خیانت کرنا، جھوٹی گواہی دینا اور اتلاف حقوق( لوگوں کے حق مارنا)، شرک کرنا وغیرہ۔ لیکن بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں ۔ جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔ عمر گزر جاتی ہے گناہ کرتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے گناہ سمجھتا ہے۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا ہوتا۔ مثلاً آپؑ نے مثال دی کہ گِلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ شکوہ کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنج کا اظہار کرنا ۔ اِدھر اُدھر باتیں کرنا اس نے یہ کہہ دیا اس نے وہ کہہ دیا۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے‘‘۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ، جو شکایتیں ہیں گلہ کرنا، شکوہ کرنا آخر میں چغلی بن جاتا ہے۔ اس لئے قرآن شریف نے اس کو بہت بڑا قرار دیا ہے۔’’چنانچہ فرمایا ہے اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا(الحجرات:۱۳) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو’’ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ‘‘اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے، یعنی صرف باتیں ہی نہیں ہوں کیونکہ باتیں پھر دوسرے کو نقصان پہنچانے والی بھی ہوتی ہیں ، شکوے اور گلے شروع ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کی بدظنیاں شروع ہوتی ہیں ، چغلیاں کرنی شروع ہوتی ہیں اور پھر انسان ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کو نقصان بھی پہنچائے۔

مزید پڑھیں: قبولیت دعا کے متفرق نہایت ایمان افروز واقعات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button