دعا کی اہمیت (حصہ دوم۔آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ)ویسے تو ہر دور اور ہر وقت کے لیے یہ دعا ہے لیکن آج کل خاص طور پر دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد کا دور دورہ ہے یہ دعا خاص طور پر ہمیں پڑھنی چاہیے۔ حسنہ کا مطلب ہے کہ نیکی اور اچھائی، فائدہ جس میں کوئی برائی اور نقصان نہ ہو، ایسا کام ہو جس کا ہر پہلو سے اچھا نتیجہ نکلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ احمدیوں کے لیے تو بعض مسلمان ملکوں میں بحیثیت احمدی بھی ایسے حالات ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے کی خاص طور پر ضرورت ہے۔ مخالفینِ احمدیت چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت سے احمدی کو محروم کر دیا جائے۔ حتیٰ کے اسے اس کے جینے کے حق سے بھی محروم کردیا جائے۔ ایسے میں یہ دعا کہ اے اللہ! ہمیں دنیا داروں کے سارے منصوبوں کے مقابلے میں اس طرح سنبھال لے کہ یہ جو تیری ہر قسم کی حسنہ سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں ہم ان کو تیرے فضلوں کی وجہ سے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ہمارے دنیا کے اعمال بھی تیری رضا کے حصول کی وجہ سے ہمیں آخرت کی حسنہ سے بھی نوازنے والے ہوں اور ہر عمل جو ہم یہاں دنیا میں کرتے ہیں وہ تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو۔ دشمن ہمارے کاروباروں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق پر حسنہ سے نواز کہ دشمن کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں۔ وہ ہمیں ایمان سے پھیرنے کے لیے ہمارے رزق میں نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق سے حسنہ سے نواز کہ پہلے سے بڑھ کر طیب اور حلال رزق ہمیں حاصل ہو۔ ہمارے ہمسائے ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں ہمارے شہروں کو ہمارے لیے حسنہ بنا دے۔ ہمارے ملک کو ہمارے لیے حسنہ بنا دے ہمارے خلاف جو کارروائیاں کرنے والے ہیں ان کے شرور ان کی طرف پلٹ جائیں ہمارے حاکموں کو ایسا بنادے جو رحم دل ہوں تقویٰ سے کام لینے والے ہوں، انصاف کرنے والے ہوں۔ پس حسنہ کو جتنی وسعت دیتے جائیں اتنا ہی یہ کھلتا جاتا ہے۔ الله تعالیٰ سے اس دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کے لیے اس کے جتنے فضل اور بہتر انجام والی چیزیں مانگتے جائیں یہ سب حسنہ آتے چلے جاتے ہیں۔ ذاتی زندگی میں اچھی بیوی ہے، اچھا خاوند ہے نیک بچے ہیں بیماریوں سے محفوظ زندگی ہے۔ غرض کہ ہر چیز جس میں الله تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لیے بہتری اور فائدہ ہے وہی دنیا کے حسنہ ہیں اور یہی ایک مومن کا منشاء اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وہ چیز دے جو اس کی ضرورت ہے ہر لحاظ سے اچھی ہو ظاہری بھی اور باطنی لحاظ سے بھی۔ کیونکہ غیب اور حاضر کا تمام علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اس لیے وہی بہتر فیصلہ کر سکتا ہے کہ ہمارے لیے ظاہری اور باطنی لحاظ سے کیا چیز بہتر ہے۔ ہم تو کسی چیز میں غلطی کھا سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ تو کسی قسم کی غلطی نہیں کھا سکتا۔
پھر فرمایا کہ وَفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃًکہ آخرت میں بھی ہمیں ہر وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہاں بھی ظاہر وباطنی کی اچھی چیز دے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی وضاحت ایک جگہ اس طرح فرمائی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں تو حسنہ ہی ہے۔ جب انسان اجرت کی دعا مانگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اگر قبول کر لی ہے تو حسنہ ہے۔ تو وہاں کی ظاہر و باطن کی اچھائی سے کیا مراد ہے۔ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ آخرت میں تو سب چیزیں گو اچھی ہیں لیکن آخرت میں بعض چیزیں ایسی ہیں جو باطن میں اچھی ہیں مگر ظاہر میں بری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بری چیز بھی ہے۔ پس جب آخرت کے لیے بھی خدا تعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا ہے تو اس لیے کہ تم یہ دعا کرو کہ الٰہی! ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دے جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھی ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے مگر ظاہر میں برا ہے کیونکہ وہ عذاب ہے۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے۔ ( ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 446)
پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ یہ دعا کرو کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا اس میں صرف آخرت کے عذاب نار کی طرف ہی توجہ نہیں دلائی گئی بلکہ اس سے بچنے کی دعا کرو جو اس دنیا کی بھی آگ ہے اس دنیا میں بھی آگ کا عذاب ہوتا ہے پس اس دعا میں دنیا اور آخرت دونوں کے عذاب نار سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ دنیا کے عذاب نار جو ہیں وہ بھی قسمہا قسم کے ہیں، مصیبتیں ہیں اور دکھ ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو عذاب کی بجائے حسنہ بن جاتے ہیں اس دنیا کے عذاب نار کی ایک مثال آج کل بعض ملکوں کے جو حالات ہیں وہ بھی ہیں کوئی پتہ نہیں کہ گھر بیٹھے یا بازار میں پھرتے ہوئے کہاں سے بندوق کی گولی آئے اور کوئی گولہ پھٹے اور انسان کو لہولہان کر دے یا اس کی زندگی لے لے۔ کئی جانیں اسی طرح ضائع ہورہی ہیں۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں، عمل ہو رہے ہوں، اس طرح کی زندگی ہو تو وہاں جب کوئی عذاب نار سے بچاؤ کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے ان چیزوں سے بچا لیتا ہے۔ آج کل کے شرور جو دہشت گردوں نے پیدا کیے ہوئے ہیں ان سے بچنے کے لیے بھی یہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا ہے۔ آج کل تو جگہ جگہ آگ کے پھندے ان دہشت گردوں نے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس وقت کیا ہونا ہے۔ اس لیے انسان اس سے مانگے کہ میرا گھر میں رہنا اور میرا باہر نکلنا تیرے فضل سے میرے لیے حسنہ کا باعث بن جائے اور ان عذابوں سے مجھے بچا لے اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی مجھے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائےاس کے در کے نہ ہو اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے غرض رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا ۔ ایسی دعا کرنا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جو خدا کو اپنا رب جان چکے ہیں۔ اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ ہیچ ہیں۔ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہے تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، خون، فقروفاقے امراض، ناکامیاں، ذلت وادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لیے بمنزلہ آگ ہیں، بچائے رکھ۔ ‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 145)
ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے خاص اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم اپنی نمازوں میں دعاؤں کو خاص جگہ دیں تاکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر وہ روح پیدا کرے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دعا کو کمال تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(ماخوذ از خطبہ جمعہ ۸؍ مارچ ۲۰۱۳ء)
(فوزیہ شکور۔ جرمنی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: مومن اور کھجور کے درخت کی مثال